تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت188
فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس :
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿ وَلاَ تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ ]البقرة: [188
” اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق طریقوں سےنہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئی حصہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔”
(البقرۃ:188)
اس آیت کوگزشتہ روزے والی آیات پر عطف کیاگیا ہے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ روزے کی آیات کا موضوع عبادات ہے، جبکہ اس آیت کا موضوع عبادات نہیں بلکہ معاملات ہے، گو یہ دونوں الگ الگ موضوع ہیں، مگر یہ عطف دو اہم امور بیان کرنے کے لیے ہے:
- اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور احکامات کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، چنانچہ ایک حکم اور دوسرے حکم میں ، یا ایک واجب اور دوسرے واجب میں کو ئی فرق نہیں۔ جس ذات اقدس نے عبادات کو بیان کیا ہے، اسی ذات نے معاملات ، عقوبات(سزاؤں)، سیاست و جہاد کے احکامات بتائے ہیں اور اُسی ذات نےاخلاق ، مطعومات ا ور لباس وغیرہ کو بیان کیا، اوریہ تمام احکامات تنفیذ و التزام(پابندی) کے اعتبار سے اتنی ہی قوت رکھتے ہیں جتنی کہ عبادات ہیں، چنانچہ عبادات میں سے فرض اعمال، معاملات اور عقوبات میں سے فرض اعمال کی مانند ہیں،مثلاً خلیفہ کی فرض بیعت فرض عبادات ہی کی طرح ہے، اسی طرح جہاد اور باقی فرض احکامات ہیں، اور ان میں فرق کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایسا کُل ہے جس کے اجزا نہیں کیے جاسکتےاور اسلام کی طرف دعوت ایک ہی ہے کہ ریاست ، زندگی اور معاشرے میں اسے نافذ کرنے کیا جائے۔
- روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کھانے پینے کے معاملات کی صفائی میں تمام لوگوں سے زیادہ محتاط ہو، چنانچہ عمدہ اور حلال مال رکھے، اور ملکیت کے تمام غیر شرعی اسباب سے کُلی طور پر اجتناب کرے،جیسے رشوت ، دھوکہ ، نفاق، حکمرانوں کی ایسی اطاعت کرنا جو خالق کی نافرمانی پر مبنی ہو اور اللہ کی طرف سے حلال قرار دیے گئے طریقوں کے علاوہ حکمرانوں سے کچھ حاصل کرنے کے لیے ان کے سامنے بُرائی کو خوشنما بنا نا اور یوں لوگوں کے حقوق غصب کرنا۔
یہ سب اس لیے ہے تاکہ روزہ دار تقویٰ حاصل کرپائے جسے اللہ سبحانہ نے روزے کی حکمت بتایا ہے ، اس لیے روزے سے متعلقہ آیات کے آخر میں ہی اللہ تعالیٰ کا یہ قول مبارک آیا ہے : كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ "اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں”۔ شروع میں مذکورہ آیت کو اسی آیت پر عطف کرتے ہوئے باطل طریقے سے اموال نہ کھانے کا کہا گیا ، جو تقویٰ کا نتیجہ ہے ،کیونکہ صاحب تقویٰ بننے کے لیے ہر قسم کے حرام مال اور مال اکٹھا کرنے کے تمام غیر مشروع اسباب سے کلی طور پر اجتناب واجب ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ حرام سے اجتناب فقط روزہ دار کی ذمہ داری ہے، بلکہ سارے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، البتہ روزہ داروں کے لیے اس حکم(تقویٰ) میں مزیدشدت اور اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے،اس سے روزے دار کے اخلاص اور تقویٰ میں اس کے صدق پر بھی دلالت ہوتی ہے ۔
وَلاَ تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ "آپس میں اپنے مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ” یعنی ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔جیسا کہ سورۃ الحجرات میں آیا ہے: وَلاَ تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ” اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ”(الحجرات:11)۔ مراد اس سے یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دیا کرو۔ یہ الجمع علی الجمع کی تقسیم کے موضوع میں سے نہیں، جیسے عرب کہتے ہیں "رکبوا دوابھم ” وہ اپنی سواریوں پر سوار ہوئے”یہ اس جملے کا لغوی معنی ہےجبکہ محاوراتی زبان میں معنی یہ لیتے ہیں کہ ہر ایک اپنی سواری پر سوار ہوا۔ مذکورہ آیت اس باب سے نہیں ورنہ معنی یہ بنیں گے:” تم میں سے ہر ایک اپنے مال کو نہ کھائے "، ظاہر ہے کہ یہ معنی مقصود نہیں، اس پر ] بَيْنَكُمْ [ دلالت کرتا ہے۔ ] بَيْنَكُمْ [کے معنی ہیں آپس میں۔جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ” ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔”
وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ (تُدلُوا) اِدلَاء سے ہے،ادلاء اصل لغت میں کنوئیں میں ڈول پھینکنے کے معنی میں آتاہے، یہاں یہ مجازاًکسی چیز تک رسائی کے لیے مطلقا کوئی چیز پھینکنے کے معنی میں ہے۔
اب یہاں اس کے معنی ہیں : کچھ مال برے حکمرانوں کو بطور رشوت نہ دو۔
لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ تاکہ دوسروں کے مالوں پر بغیر کسی حقیقی وجہ کے قبضہ کر سکو، اور رشوت دے کر تمہارے حق میں فیصلہ دیا جائے، حالانکہ تمہیں پتہ بھی ہو کہ تم حق پر نہیں۔
کوئی بھی شخص جسے یہ معلوم ہو کہ اس کا حق نہیں تھا مگر فیصلہ اس کے حق میں کردیا گیا ہے، ایسی صورت میں اس کے لیے وہ مال لینا جائز نہیں، بلکہ ایسا مال آگ کا ایک ٹکڑاہے ، جیسا کہ حدیث میں ہے:(( إنما أنا بشر وأنكم تختصمون إليّ ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه، فمن قضيت له بشيء من حق أخيه فلا يأخذنه فإنما أقطع له قطعة من نار))” میں ایک انسان ہوں ، تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو،ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی دلیل کو دوسرے سے زیادہ عمدہ طریقے سے بیان کرنے والا ہو اور میں اُس کے حق میں فیصلہ کردوں اس بات کے مطابق جو میں نے اُ س سے سنی۔ پھر میں جسے اُس کے بھائی سے کچھ دلادوں تو اسے نہ لے کیونکہ میں اُس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔” ( بخاری و مسلم)
اس آیت اور حدیث سے ہی استدلال کیا گیا ہے کہ قاضی کا فیصلہ باطناً( مخفی حقیقت پر) نافذ نہیں ہوتا، اس وجہ سے اگر لینے والا یہ جانتا ہو کہ اس کا حق نہیں،تو اس کے لیے قاضی کے فیصلے پر عمل کرنا جائز نہیں۔
ختم شد