سوال و جواب: وحدت المطلع اور رمضان کے ہلال کو دیکھنا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
"فلسطین اور کیلیفورنیا میں دس گھنٹوں کا فر ق ہے۔ جس و قت کیلی فورنیا میں ہلال دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اس و قت ہمارے علا قے فلسطین میں فجر کو گزرے بھی تین گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا تعین ہوئے بغیر پوری رات گزر گئی کہ آیا ہلال نظر آیا ہے کہ نہیں ، لہٰذا اس دن یعنی بدھ کے دن ہمارا (یکم رمضان کا)روزہ نہ رکھنا درست تھا۔ ہمارے علا قے اور کیلی فورنیا کے درمیان رات کا کوئی حصہ مشترک نہیں ہے، اور یہ بات ہلال کے دیکھنے کے حوالے سے اہم بات ہے، اور یہ کہ پوری رات گزر گئی لیکن ہلال نظر نہیں آیا ہے جبکہ اس کی پیدائش ہوچکی تھی، لہٰذااس اصول کا ہم پر اطلا ق ہوتا ہے "کہ وہ ہمارے نظر سے اوجھل ہوگیا”۔ اس طرح ہمارا روزہ نہ رکھنا درست ہے اور شرعی اصول کے مطابق ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوال کے دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ بدھ کا جو روزہ چھوٹ گیا تھا وہ پورا ہوجائے تو اس دن روزہ رکھنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔
اہم بات: وہ علا قے جو بین الا قوامی تاریخ کی لائن کے دونوں جانب وا قع ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہیں تو چاند کے حوالے سے ان کاا یک ہی مطلع ہے ، تو ان کا قمری مہینہ ایک ہی ہوگا اگرچہ ان کے درمیان چوبیس گھنٹوں کا فر ق ہے، لہٰذا قمری مہینے کی ابتدا عالمی کیلنڈر کے دن کی نسبت سے نہیں بلکہ ہلال کے دیکھے جانے سے ہوگی۔
با قی اللہ سبحانہ و تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ
جواب:
و علیکم اسلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں نے آپ کا خط دیکھا ، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ رمضان کے ہلال کودیکھنے کے معاملے میں الجھن کا شکار ہیں۔۔۔
میرے بھائی اس معاملے کو سمجھنے کے لیے کچھ باتوں کا پہلے اچھی طرح سے جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ " روزہ رکھو چاند کے دِکھ جانے پر اور روزے ختم کرو چاند کے دِکھ جانے " ۔ یہ تمام مسلمانوں سے عمومی خطاب ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر دنیا کے کسی بھی حصے میں ہلال نظر آجاتا ہے تو دنیا کے تمام مسلمانوں کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔۔۔یہ بات اہم ہے تا کہ اس معاملے کو سمجھا جاسکے۔۔۔ میں پھر دہراتا ہو کہ یہ بات اہم ہے تا کہ اس معاملے کو سمجھا جاسکے۔۔۔
اس بات کی بنیاد پر کوئی بھی ایسی تشریح ناقابل فہم ہو گی جس کے مطابق مسلمانوں کو ایک ساتھ روزہ رکھنے اور ختم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تبنی کی گئی رائے کے خلاف بات ہو گی۔ لہٰذا آپ نے اپنے خط میں جو یہ بات کہی کہ اس دن کیلی فورنیا کے لوگوں پر روزہ رکھنا فرض تھا لیکن فلسطین کے لوگوں پر فرض نہیں تھا، اس حدیث کے فہم سے متصادم ہے جس کے مطابق مسلمان ایک ہی دن روزہ رکھنا شروع کریں اور ایک ہی دن اسے ختم کریں۔
2۔ آپ نے اپنے خط میں کیلی فورنیا اور فلسطین کے درمیان وقت کے فرق کا جو حساب بتایا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔آپ نے کہا : فلسطین اور کیلیفورنیا میں دس گھنٹوں کا فر ق ہے۔ جس و قت کیلی فورنیا میں ہلال دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اس و قت ہمارے علا قے فلسطین میں فجر کو گزرے بھی تین گھنٹے ہو چکے ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا تعین ہوئے بغیر پوری رات گزر گئی کہ آیا ہلال نظر آیا ہے کہ نہیں ، لہٰذا اس دن یعنی بدھ کے دن ہمارا(یکم رمضان کا) روزہ نہ رکھنا درست تھا۔ ہمارے علا قے اور کیلی فورنیا کے درمیان رات کا کوئی حصہ مشترک نہیں ہے، اور یہ بات ہلال کے دیکھنے کے حوالے سے اہم بات ہے، اور یہ کہ پوری رات گزر گئی لیکن ہلال نظر نہیں آیا ہے جبکہ اس کی پیدائش ہوچکی تھی، لہٰذا اس اصول کا ہم پر اطلا ق ہوتا ہے "کہ وہ ہمارے نظر سے اوجھل ہوگیا”۔ اس طرح ہمارا روزہ نہ رکھنادرست ہے اور شرعی اصول کے مطابق ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوال کے دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ بدھ کا جو روزہ چھوٹ گیا تھا وہ پورا ہوجائے تو اس دن روزہ رکھنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔(ختم شد)
و قت کے فر ق کا حساب کتاب ایسے نہیں ہے:
ا- جی ہاں فلسطین اور کیلی فورنیا کے درمیان دس گھنٹوں کا فر ق ہے۔ فلسطین کا طول 35 درجے مشر ق ہے جبکہ کیلی فورنیا کا طول 120 درجے مغرب ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے درمیان فر ق 35+120= 155 ہے۔ ہر ایک طول کے درمیان و قت کا فر ق تقریباً 4 منٹ ہوتا ہے تو اس طرح ان کے درمیان تقریباً دس گھنٹوں کا فر ق ہے، لیکن یہ فر ق آگے کی جانب ہے نہ کہ پیچھے کی جانب۔ لہٰذا ہم فلسطین میں رہنے والے کیلی فورنیا سے دس گھنٹے آگے ہیں نہ کے پیچھے ہیں۔ جب کیلی فورنیا میں سورج غروب ہوتا ہے یعنی جب ان کی جمعرات کی رات شروع ہوتی ہے،مثال کے طور پر 6 بجے شام(18:00) ، تو اس و قت ہماری جمعرات کی رات ختم ہونے والی ہوتی ہے یعنی ہمارا و قت 18+10=28 ہوتا ہےجو کہ جمعہ کی صبح کے 4 بجے ہوتے ہیں یعنی کہ فجر کی اذان سے پہلے کا و قت۔۔۔۔ آپ نے دس گھنٹے پیچھے کا حساب لگایا۔آپ نے کہا ہمارا و قت 18-8=10بجے صبح کاہوگا۔ کیونکہ فلسطین میں جب کسی بھی دن صبح کے آٹھ بجے ہوں گے تو اس و قت کیلی فورنیا میں رات کے دس بجے ہوں گے اور وہ رات پچھلے گزرے دن کی ہوگی۔ ۔۔لہٰذا فسلطین میں کسی بھی دن کا طلوع آفتاب کیلی فورنیا کے طلوع آفتاب کے دن سے پہلے کا ہوگا۔ اور اسی طرح فلسطین میں غروب آفتاب کیلی فورنیا سے پہلے ہوتا ہے۔ جب کیلی فورنیا میں سورج غروب ہوتا ہے مثال کے طور پرمنگل کو 6 بجے (18:00)شام کو یعنی بدھ کی رات تو اس و قت فلسطین میں بدھ کی صبح کے چار بج رہے ہوں گے۔ لہٰذا ان دونوں علا قوں کے درمیان رات کا کچھ حصہ مشترک ہوگا چاہے وہ کتنا ہی مختصر ہی کیوں نہ ہو۔
ب ـ لیکن پھر بھی ہم یہ تصور کرلیتے ہیں کہ ان دونوں علا قوں کی رات کا کوئی حصہ مشترک نہیں ہے، تب بھی ان کا روزہ ایک ہی دن شروع اور ایک ہی دن ختم ہو گا، اور اس بات کی وضاحت یہ ہے:
۔ فرض کرلیتے ہیں کہ تین مختلف علا قےب، ت اور ج ہیں۔”ب” کا رات کا کچھ حصہ "ت” کے ساتھ مشترک ہے،لہٰذا یہ دونوں علا قے ایک ساتھ روزہ شروع کرتے اور ایک ساتھ ختم کرتے ہیں۔۔۔ اسی طرح”ت” کی رات کا کچھ حصہ”ج” کے ساتھ مشترک ہے تو اس طرح”ج” کے لوگ”ت” کے لوگوں کے ساتھ روزہ رکھتے اور ختم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ "ب” پر لازم ہے کہ وہ”ج” کے ساتھ روزوں کی شروعات کرے اور اس کے ساتھ ختم کرے چاہے ان کی رات کا کچھ حصہ مشترک ہے یا نہیں۔ کیونکہ "ب” کی رات کا کچھ حصہ "ت” کی رات کے ساتھ مشترک ہے اور وہ دونوں ایک ساتھ روزوں کی ابتدا کرتے ہیں اور ایک ساتھ ہی ختم کرتے ہیں، اور”ت” کی رات کا کچھ حصہ "ج” کی رات کے ساتھ مشترک ہے اور وہ دونوں ایک ساتھ روزوں کی ابتدا کرتے ہیں اور ایک ساتھ ہی ختم بھی کرتے ہیں۔ اور چونکہ اس حقیقت کا اطلاق دنیا کےہر علا قے پر ہوتا ہے، اس لیے اس حدیث ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ” روزہ رکھو چاند کے دِکھ جانے پر اور افطار کرو چاند کے دِکھ جانے پر "، کا اطلا ق بھی دنیا کے تمام علا قوں پر ہوتا ہے۔
3۔ لہٰذا اگر فلسطین اور کیلی فورنیا کے درمیان رات کاکچھ حصہ مشترک نہ بھی ہو ،جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں لکھا ہے، لیکن ان کے درمیان کوئی علا قہ جیسا کہ افریقہ ہے جس کی رات کا ایک حصہ فلسطین کے ساتھ مشترک ہے اور ایک حصہ کیلی فورنیا کے ساتھ مشترک ہے، لہٰذا وہ اسی وقت روزے کی ابتدا کرتے ہیں جب کیلی فورنیا اور فلسطین میں روزے شروع ہوتے ہیں اور روزے ختم کرتے ہیں جب فلسطین اور کیلی فورنیا میں روزے ختم ہوتے ہیں۔ ۔۔۔اور اس طرح کیلی فورنیا اور فسلطین ایک ساتھ روزے شروع کرتے ہیں اور ایک ساتھ ختم کرتے ہیں، اور اسی طرح دنیا کے تمام علا قے ایک ساتھ روزے شروع کرتے اور ختم کرتے ہیں، اور اس طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا اطلا ق ہوتا ہے اور مسلمان ایک ساتھ روزے شروع اور ختم کرتے ہیں۔
4۔ لیکن اگر ہم وہ بات لیں جو آپ نے سوچی یعنی کہ رات کا کچھ حصہ کیلی فورنیا اور فلسطین کے درمیان مشترک ہونا چاہیے تا کہ وہ ایک ساتھ روزے شروع اور ختم کرسکیں ، اور اگر ان کی رات کا کچھ حصہ مشترک نہیں جیسا کہ آپ کے خط میں بتایا گیا ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا مطلب تبدیل ہوجاتا ہے جس کے مطابق تمام مسلمانوں کو ایک ساتھ روزے شروع اور ختم کرنے چاہیے۔ اور یقیناً یہ بات اس کے متضاد ہے جس کی ہم نے تبنی کی ہے اور جس کی ہم دعوت دیتے ہیں کہ مسلمانوں کے روزوں کی ابتدا اور اس کا اختتام ایک ساتھ ہونا چاہیے۔ ہم نے اس حوالے سے لیفلٹ 25 شعبان 1415 ہجری بمطابق 14 دسمبر 1998 کو جاری کیا تھا۔
5۔ جہاں تک آپ کا یہ کہنا ہے کہ جب فلسطین میں رات شروع ہوتی ہے اس و قت کیلی فورنیا میں سورج نکلا ہوتا ہے تو روزہ کس طرح ہوسکتا ہے، تو اس بات کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر ہم بدھ کے دن بعد مغرب کا ہلال دیکھ لیتے ہیں تو جب کیلی فورنیا میں بدھ کا سورج غروب ہوگا،تو ہمارا ہلال کو دیکھ لینا ان پر جمعرات کے دن روزہ رکھنا فرض کردے گا چاہے انہیں ہلال نظر آئے یا نہ نظر آئے۔۔۔ لیکن اگر ہمیں فلسطین میں ہلال بدھ کے دن بعد مغرب نظر نہیں آتا اور اگر وہ بدھ کے دن بعد مغرب اپنے علا قے میں ہلال دیکھ لیتے ہیں اور ہمیں اس کی اطلاع جمعرات کو ظہر کے و قت ملتی ہے تو ہمیں یہ ایک روزہ بعد میں پورا کرنا ہوگا۔ اس بات کا اطلا ق مہینے کی شروعات اور اختتام یعنی عید کی رات پر ہوتا ہے۔۔۔ ایسا ایک وا قع رسول اللہ ﷺ کے و قت میں پیش آیا تھا ۔ احمد نے اپنی مسند میں عمیر بن انس سے روایت کیا کہ ان کے چچا نے رسول اللہ ﷺ ﷺ کے انصاری صحابہؓ سے سنا کہ رسول اللہ نے فرمایا: غُمَّ عَلَيْنَا هِلَالُ شَوَّالٍ فَأَصْبَحْنَا صِيَاماً فَجَاءَ رَكْبٌ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ فَشَهِدُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم (أَنْ يُفْطِرُوا مِنْ يَوْمِهِمْ وَأَنْ يَخْرُجُوا لِعِيدِهِمْ مِنْ الْغَدِ) "ا یک بار (ابر کی وجہ سے) ہمیں شوال کا چاند دیکھائی نہ دیا تو صبح ہم نے روزہ رکھا پھر اخیر دن میں چند سوار آئے اور نبی ﷺ کے سامنے یہ شہادت دی کہ کل انہوں نے چاند دیکھ لیا تھا تو نبی ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر ڈالیں اور کل صبح عید کے لئے نکلیں "۔
تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس دن روزہ توڑنے کا حکم دیا جسے وہ رمضان کا حصہ سمجھ رہے تھے جبکہ کچھ لوگوں نے مدینہ المنورہ سے باہر شوال کا ہلال دیکھ لیا تھا۔ ان سواروں نے مدینہ پہنچنے سے قبل ہلال دیکھ لیا تھا لیکن مدینہ کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ ان سواروں نے ہلال دیکھ لیا ہے، لہٰذا انہوں نے روزہ رکھا لیکن جیسے ہی انہیں اس حقیقت کا علم ہوا کہ کچھ مسلمانوں نے ہلال دیکھ لیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس دن روزہ توڑنے کا حکم دیا ۔ آج میڈیا کی سہولت میسر ہے اور ریاستیں ہلال کے نظر آنے کی خبر چند لمحوں میں پوری دنیا تک پہنچا سکتی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ روزے کی شروعات کریں اور روزوں کا اختتام کردیں جیسے ہی انہیں دنیا کے کسی بھی خطے سے ہلال نظر آنے کی اطلاع ملے۔
لہٰذا یہ کوئی مشکل معاملہ نہیں ہے بلکہ اللہ جن کے لیے آسان کردے ان کے لیے یہ معاملہ آسان ہےخصوصاً جب مواصلات آج کے دور میں اس قدر تیز ہو گئی ہےکہ پلک جھپکتے خبر دنیا کی کسی بھی کونے میں پہنچ جاتی ہے۔
6۔ جہاں تک اس دن کا تعلق ہے جس میں شبہ ہو، جس کا آپ نے ذکر نہیں کیا ہے، لیکن یہ شعبان کا تیسواں دن ہے، جس میں آپ تک زمین کے کسی بھی حصے سے مسلمانوں کی جانب سے ہلال دیکھنے کی شہادت نہیں پہنچی، اور اس دن روزہ رکھنے کی اجازت نہیں، لہٰذا اگر آپ تک یہ خبر پہنچے کہ کسی نے ہلال دیکھ لیا ہے اور آپ نے روزہ نہیں رکھا ہواتھا کیونکہ آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس دن شبہ ہے، اور اگر آپ تک خبر پہنچتی ہے کہ کسی نے چاند دیکھ لیا ہے تو اب یہ شبہ کا دن نہیں ہے(بلکہ پہلی رمضان ہے) لیکن آپ پر لازم ہے کہ آپ بعد میں قضا کے طور پر ایک روزہ رکھیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ کی حدیث: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ” روزہ رکھو چاندکے دِکھ جانے پر ” پوری دنیا پر لاگو ہوتی ہے اور اس کے برخلاف کوئی بھی بیان غلط اورمحال ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتے ہیں اور اللہ ہی سب سے بڑھ کر دانشمند ہیں۔
آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ کیا آپ کے لیے یہ بہتر نہیں ہوتا کہ آپ یہ سوال ایک دریافت کرنے والے کے طور پرکرتے نہ کہ رپورٹر کے طور پر پوچھتے؟
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرَشتہ
22شعبان 1440 ہجری
28 اپریل 2019 ء
ختم شد