پیٹرول کی قیمت 100 روپے فی لیٹر سے زیادہ کر کے ”تبدیلی سرکار“ نے رمضان کے بابرکت مہینے میں لوگوں کی مشکلات اور مصائب میں مزید اضافہ کردیا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پریس نوٹ
رمضان میں قیمتوں کے بڑھنے جانے کے خدشے کی وجہ سے ایک طرف لوگ کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کررہے ہیں تو دوسری جانب ظالم ”تبدیلی سرکار“نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اس اضافے سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا کیونکہ ان اشیاء کو کھیتوں اور فیکٹریوں سے بازاروں تک لانے کی لاگت بڑھ جائے گی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی ، جس کی سربراہی ”Economic Hit man“ کا کردار ادا کرنے والے آئی ایم ایف کے پسندیدہ آدمی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کررہے ہیں، نے پیٹرول کی قیمت میں 9.54روپے فی لیٹر اضافے کی منظوری دی جسے وفاقی توثیق کے بعد 5 مئی کو نافذ کر دیا گیا اور یوں پٹرول نے 100 روپے فی لیٹر کے نشان کوپار کرلیا ہے۔ حکومت پرلازم تھا کہ وہ تیل کی قیمتوں میں کمی کرتی اور اشیائے خوردونوش کی پیداوار میں اضافہ کرتی تاکہ رمضان کے مہینے میں ان اشیاء کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے قیمتوں میں ہونے والے اضافے کوروکا جاتا۔ لیکن حکومت نے اس کے برعکس عمل کیا اور روزہ دار مسلمانوں پر مزید مالیاتی بوجھ ڈال کر ان کی مشکلات و مصائب میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
جب تک ہم پرایسے حکمران مسلط ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کرتے ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا ۔ پیٹرول کے حوالے سے اسلام کے حکم پر عمل کرنے کے بجائے “تبدیلی سرکار” آئی ایم ایف کی ہدایات کو نافذ کررہی ہے جو کہ عوامی اثاثوں کے حوالے سے اسلام کے حکم کی سخت خلاف ورزی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
”مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراہگاہیں اور آگ (توانائی)“(احمد)۔
ہمارے عظیم دین میں توانائی ایک عوامی اثاثہ ہے ،چاہے وہ پیٹرول کی شکل میں ہو یاگیس یا بجلی کی شکل میں ، جس کے معاملات ریاست اپنی نگرانی میں چلاتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان سے حاصل ہونے والے فوائد تمام لوگوں تک پہنچیں، خواہ یہ فوائد توانائی کے براہِ راست استعمال کی صورت میں ہو ں یا ان کی فروخت سے حاصل ہونے والے محاصل ہوں ۔ لیکن پچھلے تیس سال کے دوران ، آئی ایم ایف کی اندھی تقلید میں، ہر حکومت نے توانائی کے شعبے کو نجی شعبے کے حوالے کیا۔ توانائی کے شعبے کی نجکاری کے ذریعے آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس شعبے سے جو محاصل آسکتے ہیں ریاست کو ان سے محروم کردیا جائے تا کہ قرضوں اور ٹیکس پر اس کا انحصار مزید بڑھ جائے اور معیشت مفلوج ہوجائے۔ علاوہ ازیں نجکاری کے ذریعے توانائی کا شعبہ غیر ملکی اور مقامی کمپنیوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جو توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی رہتی ہیں اور ہماری ضروریات اور سہولت کو قربان کرتے ہوئے اپنے منافع میں زبردست اضافہ کرتی ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا تعلق ہے تو اس تباہ کن استعماری پالیسی کو نافذ کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے ،جو اس سے قبل انہوں نے مشرف –عزیز حکومت میں وفاقی وزیر برائے نجکاری کے طور پر ادا کیا، پھر کیانی-زرداری حکومت میں پاکستان کے وزیر خزانہ بن کر اور اب وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ بن کر ادا کررہے ہیں۔ کیا یہ بات اب بھی واضح اور ثابت نہیں ہوئی کہ موجودہ نظام میں چاہے چہرے تبدیل کیے جائیں یا نہ کیے جائیں، استعماری پالیسیوں کی چھری ہی ہماری گردنوں پر چلائی جاتی ہے؟ تو پھر جب نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے علمبردار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے قیام کی صورت میں ہی آئے گی تو کیا وہ سچ نہیں کہتے؟
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
ختم شد