ایک دیکھ بھال کرنے والی ذمہ دار ریاست کی نگرانی میں چلنے والی معیشت
بسم الله الرحمن الرحيم
سرمایہ دارانہ نظام میں غربت کے خاتمے اور تر قی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیےبڑے پیمانے پرنجکاری کا نسخہ تجویز کیا جاتا ہے۔ یہی وہ موقف ہے جو 10 جون 2019 کو وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیات، محاصل اور معاشی امور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اختیار کیا جب انہوں نے کہاکہ حکومت کی ترجیح "اداروں کو ٹھیک کرنا ہے” اور مزید کہا کہ ہمارے ادارے جیسا کہ توانائی، گیس، اسٹیل، پی آئی اے، ریلویز اور انشورنس وغیرہ کو کئی سال سے کھوکھلا کر دیا گیا ہے”۔انہوں نے ان اداروں کو "سفید ہاتھی” قرار دیا جبکہ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے "مواقع کے متلاشی بیرونی سرمایہ کاروں ” کی طرف اشارہ کیا ۔
واشنگٹن اتفاق رائے (Washington Consensus) کے اس دور میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف "ترقی پزیرممالک” پر نجی شعبہ کے ذریعے پیداوار بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ اس نقطہ نظر یا بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ حکومتی ادارے ریاست کے خزانے کو جونکوں کی طرح چوس رہے ہیں لہٰذا انہیں لازمی طور پرنجی شعبے کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ وسیع پیمانے پرکرپشن اور ریاست کی نااہلی ان اد اروں کو موثر طور پر چلانے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ عالمی بینک کا پکا آدمی ہونے کے ناطے یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نجکاری پر بہت زور دے رہے ہیں۔ لیکن نجکاری کے دیگر پہلو بھی ہیں۔ کئی معاشی تحقیقات میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ نجکاری کے ساتھ کچھ نقصانات اور فوائد دونوں ہی منسلک ہوتےہیں۔ مشرف کے دور میں انہی ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے نجکاری کی مہم چلائی تھی۔ جن اداروں کی اُس وقت نجکاری کی گئی وہ نجکاری سے قبل منافع کمارہے تھے یا یہ کہ نجکاری کے بعد ان اداروں نے زبردست منافع کمانا شروع کردیا۔ نجکاری کے بعد جو منافع آتا ہے وہ ریاست کے خالی خزانے کو بھرنےکی بجائے نئے مالکان کی جیبوں میں جاتا ہے ۔ حقیقت میں کامیاب اداروں کا منافع بالآخر نجی ہاتھو ں میں چلا جاتا ہے جن میں سے اکثر ہاتھ غیر ملکی ہوتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان اداروں سے جو منافع آتا وہ عام آدمی کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے لیے ریاست کے خزانے میں آتا۔ لیکن اب ریاست وہ پورا منافع تو حاصل نہیں کرسکتی البتہ اسے صرف اس منافع پرلگنے والے ٹیکس پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن معاملہ یہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ریاست کو لازماً آئی ایم ایف کی ہدایت پر بڑے کاروباروں کو ٹیکس مراعات دینی پڑتی ہیں تا کہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI) کے لیے حوصلہ افزا ماحول تیار ہوسکے۔ اس تمام صورتحال میں اصل کامیابی چندنجی سرمایہ کاروں کو حاصل ہوتی ہے جبکہ ناکامی بہت سارے لوگ کا مقدر بنتی ہے، جن میں اکثریت عوام کی ہوتی ہے۔
سرمایہ داریت اور سوشل ازم کے برخلاف اسلام منفرد طریقے سے نجی ملکیت کو محدود کرتا ہے یعنی افراد کو کچھ اشیاء کامالک بننے سے روک دیتاہے جبکہ دیگر اشیاکو نہ صرف نجی شعبے میں جانے سے نہیں روکتا بلکہ ان کی مقدار و تعدادپر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اگر کسی چیز کے نجی ہاتھوں میں جانے سے عوام لازمی طور پراس چیز سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجاتے ہوں تو یہ درست و مناسب ہے کہ ایک فرد کو اس چیز کا مالکِ مطلق بننے سے روک دیا جائےجیسا کہ توانائی، معدنی ذخائر، عوامی سڑکیں، چوراہے، دریا، سمندر اور ان جیسی دیگراشیا۔ اس پابندی کافیصلہ چیز کی نوعیت کو دیکھ کرکیا جاتا ہے۔
اسلام منفرد طریقے سے توانائی اور معدنیات کو نجکاری سے باہر کردیتا ہے۔ اسلام انہیں عوامی ملکیت قرار دیتا ہے اور اس طرح پورا معاشرہ ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام میں کمپنی کے ڈھانچے سے متعلق احکامات خودبخود ایسے شعبوں میں نجی سیکٹر کےکردار کو محدود کردیتے ہیں جو بہت بڑے اور وسیع ہوتے ہیں اور جن میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے ، اس طرح بھاری صنعتوں، ٹیلی کمیونی کیشن، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بنیادی کردار عوامی شعبے ( پبلک سیکٹر)کو حاصل ہوجاتا ہے۔آج کے دور کے برخلاف ریاست خلافت کے سرکاری خزانے کو بھرنے کے لیے سودی قرضوں اور غریب و ضرورت مند افراد پر ظالمانہ ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی کیونکہ ایک تو اسلام نے انہیں حرام قرار دیا ہے اور دوسرا یہ کہ ریاست خلافت کے پاس وہ ذرائع میسر ہوں گے جن کے ذریعے سے بھاری محصول حاصل ہوں گے۔ معاشی صورتحال سے گھبرا کر نجکاری کرنے کے بجائے خلیفہ اس بات پر مجبور ہو گا کہ وہ حکومتی اداروں سے کرپشن اور نااہلی کو ختم کرے ،اس طرح یہ ادارے ریاستی خزانے کو چوسیں گے نہیں بلکہ مال و دولت سے بھردیں گے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
ختم شد