سوال و جواب: بحرین کانفرنس اور اس صدی کا سودا (ترجمہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
کُشنر(امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد) کے زیر انتظام آج بحرین اقتصادی کانفرنس کا اختتام ہوا۔ اس نے بحرین کے دارالحکومت مناما میں اپنے ابتدائی خطاب میں کہا: "یہ بحرین ورکشاپ اس صدی کا سودا نہیں بلکہ اس صدی کا موقع ہے۔۔۔ ” (Sputnik Arabic site, 26/6/2019)۔ کیا یہ کانفرنس اس صدی کے سودے کا حصہ ہے؟ یا یہ ایک الگ منصوبہ ہے، جیسا کہ کُشنر نے کہا؟ اور اس نے اس سودے کی تفصیلات کیوں نہیں بتائیں؟ کیا اس معاملے کے متعلق خبریں لِیک ہوئی ہیں؟ اس کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں؟ جزاک اللہ خیراً
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جواب کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل معاملات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
بحرین کی کانفرنس اول:
1۔ وائٹ ہاؤس نے کل اعلان کیا کہ وہ مناما میں، جو بحرین کا دارالحکومت ہے، اگلے ماہ ایک اقتصادی ورکشاپ منعقد کرے گا، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے معاشی پہلو کا اعلان ہے۔ (Middle East website 20/5/2019)
2۔ بحرین ورکشاپ سے پہلے22جون 2019 کو کشنر نے امن منصوبے کے اقتصادی پہلو کا انکشاف کیا۔ اس منصوبے میں فلسطینی معیشت اور ہمسایہ عرب ممالک کی معیشتوں کو ترقی دینےکے لیے 50 ارب ڈالر کی عالمی سرمایہ کاری فنڈ کا قیام ہے، اس کے علاوہ غزہ کی پٹی کو مغربی کنارے سے جوڑنے کے لیے 5 ارب ڈالر مالیت کی نقل و حمل کی راہداری بنانا بھی شامل ہے۔ (France 24, 24/6/2019)
3۔25 جون 2019 کو ماناما اور واشنگٹن کی جانب سے بلائی گئی بحرین کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اسے فلسطینی علاقے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے "امن سے خوشحالی تک ورکشاپ” کے طور پر جانا جاتا ہے۔ (BBC Arabic Website 25/6/2019)
4۔ جیرڈ کشنر نے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشیر اور داماد ہے، مناما میں بحرین ورکشاپ منعقد کی جو فلسطین کے لیے ایک ترقیاتی اقتصادی فورم ہے۔ کشنر نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں 50 ارب ڈالر کے امریکی ترقیاتی منصوبے کی کچھ تفصیلات بتائیں، یہ اشارہ دیتے ہوئے کہ یہ ممکن ہے کہ فلسطینی GDP کو دوگنا کیا جائے اور نوکریاں مہیا کی جائیں۔ (RT agencies 25/6/2019)
5۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر جیرڈ کشنر نے کہا: "واشنگٹن ایک سیاسی حل کے منصوبے کا اعلان کرے گا جب وہ تیار ہو گا”۔
کشنر نے بدھ کو ایک بیان میں کہا: "بحرین کانفرنس یہ ظاہر کرتی ہےکہ مشرق وسطیٰ کے مسئلے کو معاشی طور پر حل کیا جا سکتا ہے،” ،جیسے کہ اس کا دعویٰ ہے۔۔۔ اس نے یہ بیانات بحرین اقتصادی ورکشاپ کی تکمیل پر دیے، جو بحرین کے دارالحکومت مناما میں منگل کو شروع ہوئی اور آج بھی جاری رہی۔۔۔ (Al-Alam TV website 26/6/2019)
6۔ آخری بیانیہ میں درج تھا: "امن سے خوشحالی تک ورکشاپ” کے شرکاء نے بدھ کی شام معاشی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے فلسطینی لوگوں کے فائدے کی خاطر ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی بات کی۔۔۔۔ بیانیے میں کہا گیا کہ ورکشاپ "فلسطینی لوگوں کے فائدے کے لیے معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے انتہائی اچھی امید” پر ختم ہوئی۔ آخری دن کی بحث کا مرکز خواتین کی بااختیاری کے ذریعے مزدور طبقے کی ترقی اور بڑھی ہوئی بیروزگاری کا سامنا کرنے والے نوجوانوں سے مؤثررابطے کی اہمیت پر تھا۔ وہ معاشی منصوبہ جو کشنر نے منگل کو سامنے رکھا، اس کا ہدف فلسطینی علاقوں میں 28 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا اور اردن، مصر اور لبنان میں، جن میں فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں،(امداد اور باسہولت قرضے کی شکل میں) 22 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرنا ہے۔ (Anadolu Agency 27/6/2019)
لہٰذا کانفرنس، اس صدی کے سودے کو منظور کروانے کے ماحول کو تیار کرنے کی شروعات ہے، جب اس کا اعلان کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ، ٹرمپ کے طریقے کے مطابق، علاقے کے عرب اور غیر عرب غداروں کے لیے پیسوں کی رشوت ہے تاکہ وہ ٹرمپ کی مہلک ڈیل (سودا) اپنے ممالک لے جائیں۔۔۔ کیا وہ نہیں سمجھتے؟ !
دوم: اس صدی کا سودا اور اس سے متعلق پھیلائی گئی خبریں:
1۔ امریکہ نے 1959 سے دو ریاستی حل کو اختیار کیا ہوا ہے، جب آئزن ہاورامریکی صدر تھا جس نے یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ اور اس نے عبدالناصر کو اس کے نفاذ کے لیے متحرک کیا۔ امریکہ نے اس کے ذریعے احمد الشکیری کی قیادت میں 1964 میں PLO کا قیام کیا۔ 1967 کی شکست کے بعد جب شکیری تنظیم چھوڑ گیا، توبرطانیہ اپنے ایجنٹ شاہ حسین اور خلیجی ریاستوں کی مدد سے 1968 میں یاسر عرفات کو PLO کا سربراہ بنانے میں کامیاب ہو گیا، جس نے برطانوی حل کی وکالت کی، یعنی ایک سیکولر فلسطینی ریاست کا منصوبہ جب یاسرعرفات نے 1965 میں ان ایجنٹوں کی مدد سے الفتح بنائی۔ لیکن اس نے امریکی ایجنٹوں، مصر میں انور سادات اور شام میں حافظ اسد، کے دباؤ میں آ کر برطانوی حل چھوڑ دیا اور امریکی حل اپنا لیا اور 1974 میں عرب لیگ نے تنظیم کو فلسطینی لوگوں کا واحد اور قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا اور اسے اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا اور ایک مبصر کے طور پر شامل کر لیا۔ 1988 میں عرفات نے سرکاری طور پر یہودی وجود کی موجودگی کو اور اس کے80 فیصد فلسطین پر قبضے کو تسلیم کر لیا، جب اس نے فلسطین کی ریاست کے قیام کا اعلان کیا اور رسمی طور پر امریکی منصوبے کو یہ کہہ کر تسلیم کیا، "دو طرح کے لوگوں کے لیے فلسطین میں دو ریاستیں”۔
اوسلو معاہدےپر 1993 میں دستخط کیے گئے اورPLO کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی جس کا مقصد 1999 تک ایک فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ اس کے باوجود کلنٹن کے پورے دور تک امریکہ اسے نافذ نہ کر سکا۔ جب جارج بش جونئیر آیا، تو عرب لیگ نے 2002 میں "سعودی اقدام” اپنایا، جسے عرب اقدام Arab Initiative کہا گیا۔ اس میں کہا گیا کہ عرب ریاستیں یہودی وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اگر وہ اپنے پہلو میں ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے۔ اس کے بعد 2003 میں امریکہ نے ایک مستقبل کا منصوبہ جاری کیا، جس میں 2005 تک ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا پلان تھا ،چنانچہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایک چار رکنی گروہ بنایا مگر پھر بھی امریکہ ریاست قائم نہ کر سکا۔ جب 2009 میں اور 2013 میں دو مرتبہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے گئے توصدر اوباما نے دو ریاستی حل نافذ کرنے کے لیے اپنا سارا وزن ڈالا مگر ناکامی ہوئی، یہاں تک کہ ٹرمپ آ گیا۔ امریکہ نے اپنا دو ریاستی حل نافذ کرنے کی نااہلیت دیکھ لی اور اسے تبدیل یا ٹھیک کرنا چاہا۔ 1995 میں امریکی کانگرس نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں یروشلم کو یہودی وجود کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، لیکن یہ فیصلہ صدر پر لازمی نہیں قرار دیا تھا، تاکہ مستقبل میں آنے والا کوئی صدر اپنے اختیار سے اسے جب چاہے نافذ العمل کرے۔
2۔ ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد اس راستے پر چل پڑا۔ اس نے ایک تقریر میں کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیلی فلسطینی تنازعے کو ختم کرنے کا واحد راستہ نہیں، اورکہا کہ وہ متبادل آپشنز کے لیے تیار ہے اگر وہ امن کی راہ پر ہیں۔ ٹرمپ نے کہا: "میں دو ریاستوں اور ایک ریاست کو دیکھ رہا ہوں، اور مجھے وہ پسند ہے جو دونوں فریقین کو پسند ہے،”۔۔۔ "اگر اسرائیلی اور فلسطینی ایک ریاست چاہتے ہیں، تو مجھے یہ منظور ہے،” اس نے کہا۔ "اگر وہ دو ریاستیں چاہتے ہیں تومجھے یہ منظور ہے، اگر وہ خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں”۔ (Al-Jazeera 16/2/2017)۔ پھر ٹرمپ کی ڈگر کے اشارے آنے لگے۔ ستمبر 2017 میں اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا، جس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ نے اپنی حمایت کا اعلان کر دیا کہ ٹرمپ منصوبے میں یروشلم یہودی وجود کا حصہ ہو گا۔ پھر ٹرمپ نے آخری سودے یا اس صدی کے سودے کے ذریعے فلسطین اور یہودی وجود کے درمیان تنازعے پر پیش قدمی کی بات کی۔۔۔ پھر جیرِڈ کُشنر Jared Kushnerجو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد اور مشیر اعلیٰ ہے، اور جیسن گرین بلاٹ جو مشرق وسطیٰ کے لیے صدر کا خاص ایلچی ہے، دونوں نے اس صدی کے سودے کی تشہیر شروع کی۔۔۔ کشنر نے فروری 2019 میں منصوبے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کئی ملکوں کا دورہ کیا، سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان سے ملا،27 اپریل2019 میں انقرہ میں اردوان سے بھی ملا، پھر متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان کے لیڈروں سے ملاقات کی۔
ان دوروں کا مقصد علاقے کے حکمرانوں کے حمایت حاصل کرنا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پھر یہ وعدہ کیا کہ یہ منصوبہ ستمبر 2018 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حوالے کیا جائے گا لیکن مئی 2019 تک یہودی وجود کے انتخابات میں تاخیر کی وجہ سے اسے 2019 کے اوائل تک مؤخر کیا گیا۔۔۔ پھر رمضان کے مہینے میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اس کا اعلان رمضان کے مہینے کے بعد جون 2019 میں کیا جائے گا۔۔۔ اب اسے یہودی انتخابات کے بعد نومبر 2019 تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ نیتن یاہو کے پہلی بار سے ہی انتخابات نہ جیت سکنے پر ٹرمپ کو صدمہ پہنچا اور اسے یہ اعلان دوسری بار دہرانا پڑا اور اس نے اپنے سودے کے اعلان کو مؤخر کر دیا۔۔۔ برطانیہ جانے سے پہلے وائٹ ہاؤس کےسامنے ایک پریس بیانیے میں ٹرمپ نے یہودی وجود کی سیاسی صورتحال کو "گنجلک ” کہا ، جو آنے والے ستمبر میں نئے انتخابات کے لیے جا رہا ہے ، کیونکہ نیتن یاہو بدھ کی مقرر کردہ حد کے گزر جانے کے بعد حکومت بنانے میں ناکام رہا ہے ۔۔۔ ٹرمپ نے کہا "بی بی منتخب ہوئی اور اب یک دم وہ تمام انتخابات ستمبر میں دہرائیں گے۔۔۔ یہ مضحکہ خیز ہے اور ہم اس سے خوش نہیں” (Russia Today 3/6/2019)
لہٰذا ٹرمپ نے اپنا منصوبہ تیار کیا، جس پر اس نے خوشیاں منائیں، اس کی تشہیر کے لیے گھومتا پھرتا رہا، یہ سوچتے ہوئے کہ جہاں اس سے پہلے کے صدور ناکام ہوگئے،یعنی کہ دو ریاستی منصوبہ کے حل کو نافذ کروانے میں، اب اس صدی کے سودے کے ذریعے وہ اس میں کامیاب ہو جائے گا۔۔۔ اوران شاء اللہ وہ ناکام ہو گا جیسے دو ریاستی منصوبہ ناکام ہوا تھا۔
سوئم: سودے اور خبروں کی پردہ داری
1۔ ٹرمپ یا تو بھول گیا ہے یا بھولنے کا ڈرامہ رچا رہا ہے کہ فلسطین مسلمانوں کے دل و دماغ میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور وہ یہ سودا قبول نہیں کریں گے بلکہ جواب میں اسے مسترد کر کے زمین پر دے ماریں گے۔ مگر ٹرمپ نے سوچا کہ اس کے اقتصادی منصوبے میں اربوں ڈالرکا ذکر فلسطین کے لوگوں کو بہکا لے گا اور وہ مان جائیں گے۔ اس لیے اس نے اس کی تفصیلات عام نہیں کی اور صدی کے سودے کی قبولیت کا ماحول بنانے کے لیے اس سے پہلےبحرین کانفرنس کر دی!
2۔ جہاں تک صدی کے سودے کی خبروں کا تعلق ہے، توکچھ خبریں موجودہیں اور لگتا ہے کہ جان بوجھ کر ان کوپھیلایا گیا ہے اور وہ اس کے قریب ہیں جو صدی کے سودے میں تیاری کی جا رہی ہے۔ زیادہ تر خبریں یہودی اخبار، Israel Hayom نے7 مئی 2019 کو نقل کیں۔ اخبار کا مالک شیلڈن ایڈیلسن ہے جو ٹرمپ کی انتخابی مہم کا اہم مالی تعاون اور نیتن یاہو کے قریب ہے۔۔۔ لِیک کی گئی خبریں یہ ہیں۔
] -معاہدہ: "اسرائیل”، PLO اور حماس کے درمیان ایک سہ رکنی معاہدہ ہو اور نئے فلسطین کے نام سے ایک فلسطینی ریاست قائم ہو جو یہودی آبادکاریاں نکال کر مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے علاقے پر مشتمل ہو۔
زمین سے انخلاء: آبادکاریاں ایسے ہی رہیں گی اور الگ الگ موجود آبادکاریاں ان سے آ ملیں گی اور وہ مل کر رہیں گی اور یہودی وجود کے ہاتھ میں ہی ہوں گی۔
یروشلم: تقسیم نہیں ہو گا اور "اسرائیل” اور فلسطین کے درمیان مشترک ہو گا اور عرب آبادی کو نئے فلسطین کے مقیم بننے کے لیے منتقل کیا جائے گا لیکن "اسرائیلیوں” کو نہیں۔ یروشلم انتظامیہ ہمہ گیر ہو گی اور تعلیم کے علاوہ یروشلم کی تمام زمین کی ذمہ دار ہو گی۔ نیا فلسطین یہودی یروشلم انتظامیہ کو UNRWA ٹیکس ادا کرے گا (عمارتوں، زمین اور پانی کے استعمال کرنے والوں پر ٹیکس لگایا جائے گا)۔
غزہ: مصر فلسطینیوں کو فضائی اڈہ اور فیکٹریاں لگانے اور کاروباری اور زرعی تجارت کے لیے نئی زمین دے گا لیکن فلسطینیوں کو وہاں رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔
فوج: نئے فلسطین کو فوج رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی اور ان کے پاس ہتھیار کے طور پر صرف پولیس فورس ہو گی۔۔۔ حماس اپنے تمام ہتھیار اور لڑائی کا سازوسامان ختم کردے گی، جس میں انفرادی افراد بھی شامل ہیں اور وہ یہ سامان مصر کو دے دے گی۔ اس کے بدلے حماس کے لوگ عرب ممالک سے ماہانہ تنخواہ لیں گے۔۔۔ معاہدے کے ایک سال بعد فلسطینی حکومت کے انتخابات ہوں گے۔ انتخابات کے ایک سال بعد تدریجاً، تین سال کے عرصے میں، تمام قیدی رہا کیے جائیں گے۔
پانچ سال کے عرصے میں ایک فلسطینی بندرگاہ اور ایک فلسطینی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جائے گا اور اس وقت تک فلسطینی "اسرائیل” کا ہوائی اڈہ اور بندرگاہ استعمال کریں گے۔۔۔ فلسطین اور "اسرائیل” کے درمیان سرحد دوستانہ ممالک کی طرح کھلی رہے گی۔۔۔ زمین سے 30 میٹر کی بلندی پر ایک معلق پل تعمیر کیا جائے گا جو غزہ اور مغربی کنارے کو جوڑے گا۔ یہ کام ایک چینی کمپنی کو دیا جائے گا جس میں چین50 فیصد، جاپان 10 فیصد، جنوبی کوریا10 فیصد، آسٹریلیا 10 فیصد، کینیڈا10 فیصد اور امریکہ اور یورپی یونین مل کر10 فیصد شامل ہوں گے۔
وادی اردن "اسرائیل” کے ہاتھ میں رہے گی جیسے آج ہے، اور روٹ 90 چار رَو کی سڑک بنے گی اور "اسرائیل” اس کی تقسیم کی نگرانی کرے گا اور دو سڑکیں فلسطینیوں کے لیے ہوں گی جو اس کی دیکھ بھال کریں گے، وہ فلسطین کو اردن سے جوڑیں گی۔۔۔ وغیرہ[
البتہ یہ خبریں غیر رسمی ہیں، لیکن ان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ خبریں یہودی اخبار کی ہیں جس کا مالک شیلڈن ایڈیلسن ہے جو ٹرمپ کی انتخابی مہم کا اہم مالی معاون اور نیتن یاہو کے قریب ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ یہ خبریں ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کا زاویہ دکھاتی ہیں۔۔۔ یہ واضح ہے کہ یہ اس بابرکت زمین سے عظیم درجے کی غداری ہے کہ عرب و عجم کے غدار بھی اسے نہ برداشت کر سکیں اور اسے قبول کرنے کو مشکل جانیں گے۔ وہ دو ریاستی حل کو تسلیم کرتے ہیں جو کہ ایک غداری ہے کیونکہ فلسطین، تمام کا تمام فلسطین ایک اسلامی سرزمین ہے جسے ایک بالشت برابر یا کوئی بھی ٹکڑاقربان کیے بغیر اس کے لوگوں کولوٹانا لازمی ہے، ورنہ یہ ایک غداری ہو گی۔ تو پھر دو ریاستی حل کیسے قابلِ قبول ہو سکتا ہے جو فلسطین کے زیادہ ترحصے کو قربان کرتا ہے؟! لیکن عرب و عجم کے غداروں نے اس حل کو قبول کیا اور اس کا جوازیہ کہہ کر پیش کیا یہ حل انہیں ریاست کی طرح کی ایک چیز اوروہ جھنڈا دے رہا ہے کہ جس پر انہیں فخر ہے! ٹرمپ کا سودا انہیں کچھ خاص نہیں دے رہا۔ ٹرمپ کے مشیر کُشنر نے کہا: "اس صدی کا سودا شاید دو ریاستی حل سے خالی ہو اور یروشلم "اسرائیل” کا دائمی دارالحکومت ہو گا۔” (BBC 2/5/2019) ۔حتیٰ کہ مغربی کنارے میں موجود آبادکاریاں بھی بچے کچے مغربی کنارے کو تباہ کر رہی ہیں جو 12 فیصد سے زیادہ نہیں رہ گیااور یہ حصہ یہودی ریاست کی فوجی طاقت کے تحت ہے!۔۔۔
چہارم: جہاں تک ٹرمپ کے سودے کی کامیابی کے امکانات کی بات ہے، وہ کامیاب نہیں ہو گا۔۔۔ حتیٰ کہ اس کی تشہیر کرنے والا شور کرنے کے باوجود اس کی ناکامی کا ڈر رکھتا ہے: "ٹرمپ نے کہا کے اس کے وزیر خارجہ، مائیک پومپیو شاید اپنے اندازے میں ٹھیک ہوسکتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ کا مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے متوقع منصوبہ ناکام ہو سکتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے نیویارک میں پومپیو کی یہودی لیڈروں کے گروہ سے بات کو نقل کیا کہ وہ منصوبہ جو بہت دفعہ مؤخر ہو چکا ہے، شاید آگے نہ بڑھ سکے۔ (Times of Israel, 3/6/2019)”
ٹرمپ کی بے وقوفی نے اسے یہ سمجھنے نہیں دیا کہ فلسطین خریدا یا بیچا نہیں جا سکتا، یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اس کی مسجد مسلمانوں کی تیسری عظیم مسجد ہے جس کی طرف زیارت کی نیت سےسفر کیا جا سکتا ہے اور یہ نبی ﷺ کے اسراء کی زمین ہے جسے مسلمانوں کی افواج آزاد کروائیں گی، باذن اللہ، ان کے ساتھ مجاہدین کی تکبیرات ہوں گی اور العقاب کے جھنڈے ہوں گے۔ اگر ٹرمپ کو آج کے گمراہ حکمران اور ان کے چیلے مل گئے ہیں جو غلیظ مال و دولت کے پیچھے ہوں، تو کل اسے صرف خلیفہ کی تلوار ملے گی جو باذنِ اللہ یہودیوں، اُن کے حمایتیوں اور استعماری کفار سے لڑنے کے لیے تیار ہوگی۔ وہ یہودیوں اور ان کے حمایتیوں سے فلسطین کو آزاد کروائیں گے جیسے صلیبیوں سے کروایا تھا اور وہ صبح انتظار کرنے والوں کے لیے قریب ہے۔۔۔ یہ ہو کر رہے گا ان شاء اللہ۔ مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہؓ سے نقل کیا کہ انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلهُمْ الْمُسْلِمُونَ…» "قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے نہ لڑیں اور مسلمان انہیں قتل کریں گے۔۔۔”
﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾ "اور تم کچھ مدت کے بعد اس کا حال ضرور جان لو گے” (ص: 88)
24 شوال 1440 ہجری،
27جون 2019
ختم شد