سوال و جواب: کسی ضرورت کے لئے مال جمع کرنے کی اجازت زکوٰۃ کے فرض کو ساقط کرنے کی دلیل نہیں ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اگر جمع کئے ہوئےسونے پر سالوں سے زکوٰة ادا نہ کی ہو، تو کیا وہ زکوٰۃ ہر سال کے لئے الگ ادا کی جائے گی یا ایک ہی بار؟ اور کیا رقم کی جگہ اتنی مالیت کی چیز دے کر زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے؟ شکریہ
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
1۔ اس سے پہلے کہ میں سوال کے جواب کی طرف آؤں، یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ بغیر کسی خاص ضرورت کے سونا، چاندی یا پیسے کو جمع کرنا اسے ذخیرہ کرکے خزانہ بنانا(hoarding) کہلاتا ہے چاہے اس پر زکوٰۃ ہی کیوں نہ دی گئی ہو۔ اور دولت کو خزانہ بنا کر رکھناحرام ہے، جس کے دلائل کچھ یوں ہیں:
«وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ۔ یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ»
"اور جو لوگ سونے چاندی کو خزانہ بناکر رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، انھیں ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔ جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹیں اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور کہا جائے گا کہ) یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، اب چکھو اس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے۔” (سورة التوبہ 34-35)
احمد نے صحیح سند کے ساتھ ابو امامہ سے یہ حدیث روایت کی ہے: {{تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ، فَوُجِدَ فِي مِئْزَرِهِ دِينَارٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم «كَيَّةٌ»، قَالَ: ثُمَّ تُوُفِّيَ آخَرُ فَوُجِدَ فِي مِئْزَرِهِ دِينَارَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «كَيَّتَانِ»}} "اہل صفاء کے ایک شخص کا انتقال ہوا جس کے کپڑوں سے ایک دینار نکلا۔ جس پر رسول الله ﷺ نے فرمایا، "وہ شخص (آگ میں) جلے گا۔” پھر ایک اور شخص کا انتقال ہوا جس کے پاس سے دو دینار نکلے تو فرمایا، "وہ شخص (آگ میں) دو بار جلے گا۔”
طبری نے بھی ابو امامہ الباهلي کی اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سونا اور چاندی کو ذخیرہ کرنا حرام ہے اگرچہ ایک دینار ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا مطلب بلا ضرورت پیسہ جمع کرنا ممنوع ہے۔ اور رسول الله ﷺ نے ان دو اشخاص کے بارے میں اس لئے فرمایا کیونکہ وہ صدقات کے مال پر گزارہ کررہے تھے لیکن پھر بھی ان کے پاس سونے کے ٹکڑے موجود تھے۔ آپ ﷺ نے «كَيَّةٌ » اور « كَيَّتَانِ » کہا اوراس آیت کی طرف اشارہ کیا، { یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ } "جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹیں اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی۔” (سورة التوبۃ: 35) جو کہ ذخیرہ کرنے کے متعلق اس آیت کا ایک حصہ ہے۔ لہٰذا یہ ذخیرہ کرنے کی مکمل ممانعت کی دلیل ہے، چاہے اس مال پر نصاب کے مطابق زکوٰۃ واجب ہو یا نہ ہو، یا چاہے اس پر زکوٰۃ ادا کردی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو، ہر طرح کا ذخیرہ کرنا حرام ہے۔
جہاں تک ضروریات کے لئے جمع کرنے کا تعلق ہے، تو اس کی اجازت ہے کیونکہ ذخیرہ کرنے کی ممانعت کی دلیل کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ ذخیرہ کرنا اور ضروریات کے لئے پیسہ جمع کرنے میں یہ فرق ہے کہ ذخیرہ بلا مقصد پیسہ جمع کرنے کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے پیسہ مارکیٹ (یعنی خرید وفروخت کے معاملات) سے دور رہتا ہے جبکہ گھر خریدنے، نکاح، کاروبار یا صنعت وغیرہ کی تعمیر کے لئے پیسہ اکٹھا کرنا، ضروریات کے لئے جمع کرنا کہلاتا ہے۔
2۔ اگر ایک شخص بلا ضرورت سونا جمع کرتا ہے تو یہ گناہ ہے، کیونکہ سونا وغیرہ ذخیرہ کرنا حرام ہے۔ چنانچہ جو سونا اس نے بلا ضرورت جمع کیا اس پر زکوٰۃ ضرور عائد ہوگی کیونکہ ذخیرہ کرنا، اگرچہ حرام ہے لیکن یہ عمل زکوٰۃ کے فرض کو نہیں ٹالتا۔ یہی معاملہ ضروریات کے لئے جمع کرنے پر بھی ہے کہ یہ اگرچہ حرام نہیں، لیکن اس کے مالک پر زکوٰۃ کا حکم ضرور لگے گا، اگر جمع کیا ہوا مال نصاب سے زیادہ ہو اور اسے ایک سال گزر چکا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ضروریات کے لئے مال جمع کرنے کی اجازت زکوٰۃ کے حکم کو ساقط نہیں کرتی۔
3۔ زکوٰۃ کا فرض ہجری سال کے مطابق سالانہ عائد ہوتا ہے۔ اگر مال مثلاً سونا نصاب سے زیادہ ہو اور اس کو ایک سال گزر گیا ہو تو دسویں حصے کا ایک چوتھائی حصہ یعنی 2.5 فیصد زکوٰۃ کی صورت میں دینا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک شخص سال گزرنے پر اتنا ادا کردیتا ہے تو فرض پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کی ادائیگی میں دیر کرتا ہے تو اگلے سال اس پر سے یہ فرض نہیں ٹلتا بلکہ اگر نصاب کی شرائط موجود ہوں، تو ہر گزرتے سال اس پر زکوٰۃ کا فرض عائد ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص جس نے پانچ ہجری سال تک سونا جمع کیا اور اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی اور سونا پہلے سال کے شروع سے ہی نصاب سے زیادہ تھا تو اس کو پانچ سال کی اکٹھی زکوٰۃ پانچویں سال کے اختتام پر دینی ہوگی اگر اس نے پہلے زکوٰۃ نہ دی ہو، کیونکہ ہر سال کی زکوٰۃ کا فرض اس کی گردن پر موجود رہے گا جس کو ادا کرنا لازم ہے۔ لہٰذا اس شخص کو جمع کئے گئے سونے پر پانچ سال کی زکوٰۃ 2.5 فیصد کے حساب سے ادا کرنی ہوگی۔ البتہ اس پر لازم نہیں کہ وہ دوسرے سال کی زکوٰۃسونے کی اس مالیت پر دے جس پر اس نے پہلے سال زکوٰۃ ادا کی تھی بلکہ اس پر اب 97.5 فیصد بقیہ جمع سونے پر 2.5 فیصد زکوٰۃ دینی ہوگی، اور اسی طرح اگلے سالوں کے لئے بھی کہ وہ زکوٰۃ کے بعد بقیہ حصے پر زکوٰۃ ادا کرے گا۔ اسی طرح یہ معلوم ہوگا کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے اس کی دولت میں پچھلے سالوں میں ہر سال کمی آئی ہے۔
4۔ جہاں تک پیسے کی جگہ اتنی مالیت کی چیز کو زکوٰۃ کے طور پر دینے کا تعلق ہے تو اس کی اجازت ہے۔ لہٰذا ایک شخص سونے کے بجائے چاندی، پیسہ یا کسی اور ایسی چیز کو زکوٰۃ کے طور پر دے سکتا ہے۔ کتاب "ریاست خلافت کے اموال” کے صفحہ 132 (اردو) پر صدقات کے اموال کے موضوع کے ضمن میں درج ہے: [رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی سنت میں بھی یہ ملتاہے کہ مال میں جو حق واجب ہو جائے اس کو تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کا ادا کرنا زکوٰۃ دینے والے کے لیے اصل مال کی ادائیگی سے زیادہ آسان ہو۔اس کی دلیل یمن میں جزیہ کے بارے میں معاذ ؓکو لکھی گئی تحریر ہے کہ: «أن على كل حَالِمٍ ديناراً أو عِدْلَه من المعافر» "ہر بالغ آدمی پر ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر المعافر(ایک قسم کا کپڑا)ہے۔” اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے ۔ نبی ﷺنے اصل کی جگہ سامان لے لیا ،یعنی سونے کی جگہ کپڑا لے لیا۔ اسی طرح اہلِ نجران کو لکھا کہ:«أنّ عليهم ألفي حلة في كل عام، أو عدلها من الأواقي» "ان پر ہر سال دو ہزار جوڑے(کپڑوں کے) یا ان کے برابر سونا چاندی ہے۔” اس کو ابو عبیدؒ نے روایت کیا ہے ،جبکہ ابن قدامہ نے المغنی میں ذکر کیا ہے کہ عمر ؓجزیہ میں سونا چاندی کے بدلے اونٹ لیا کرتے تھے،علیؓ سونے چاندی کے بدلے چھوٹی سوئیاں،رسّی اور عمارتی ستونلیا کرتے تھے”۔]
اور ‘ریاستِ خلافت کے اموال ‘ کے صفحہ 139 پر درج ہے: [سونے کی زکوٰۃ میں چاندی دی جاسکتی ہے،قائم مقام کرنسی یااعتمادی کرنسی بھی دی جاسکتی ہے،اسی طرح چاندی کی زکوٰۃ میں چاندی،قائم مقام کاغذی کرنسی یا اعتمادی کاغذی کرنسی دی جاسکتی ہے ،اسی طرح سونے کی زکوٰۃ میں چاندی یا لازمی کاغذی کرنسی یا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا یا لازمی کاغذی کرنسی دی جاسکتی ہے،کیونکہ یہ سب نقدی اور قیمتیں ہیں اس لیے ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں اور ان کو مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی جگہ ادا کرنا جائز ہے۔ فصلوں اور پھلوں کی زکوٰۃ کے باب میں اس مال کی جنس کے بدلے ،جس میں زکوٰۃ واجب ہو چکی ہو،اس کی قیمت لینے کے دلائل گزر چکے ہیں۔]
اوپر دی گئی معلومات سے واضح ہے کہ سونا اور چاندی پر زکوٰۃ ،مارکیٹ میں سونا وچاندی کی قیمت کا حساب لگا کر،رقم کی صورت میں بھی دی جاسکتی ہے۔
امید ہے کہ یہ جواب کافی ہوگا۔
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرَشتہ
یکم رمضان المبارک 1440ھ
بمطابق 06/05/2019ء
ختم شد