سفید فام نسل پرستی کی تاریخ اور ٹرمپ کا "سب سے پہلے امریکہ” کا نعرہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر:عثمان عادل
3جولائی کو امریکہ میں ایک اور سفید فام نسلپرستانہ حملہ attack white supremacist ہواجس میں 22 لوگ مارے گئے اور دو درجن سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے ایک سپر سٹورمیں پیش آیا جہاں ہسپانوی نسل کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ اس سے ایک ہفتہ قبل امریکہ میں ہی ایک اور ایسا واقعہ رونما ہوا تھا جس میں تین لوگ مارے گئے تھے۔ جبکہ مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ میں ایک مسجد پر ہونے والے حملے کے اندوہ ناک واقعے میں 51 افراد سفید فام نسل پرستی کا نشانہ بنے تھے ۔ یہ واقعات مغربی ممالک میں سفید فام نسل پرستانہ جذبات میں شدت اور اضافے کی عکاسی کرتے ہیں ۔
سفید فام نسل پرستی کے تصور کے مطابق سفید نسل محض رنگ کی وجہ سے باقی تمام نسلوں سے اعلیٰ و برتر ہے اور اسے باقی تمام انسانی نسلوں پر غلبے کا حق حاصل ہے۔ یہ تصور نیا نہیں ہے بلکہ پچھلی تین صدیوں سے یورپی اقوام میں یہ تصور وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ مغرب نے اس تصور کو سائنسی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ جب ڈاروِن نے انسانی ارتقا کے متعلق یہ سوچ پیش کی کہ انسان جانوروں کی ہی ارتقائی شکل ہے تو اس کے نتیجے میں کالی نسل کے لوگوں کے متعلق یہ کہا گیا کہ کالے لوگ گوروں کی بنسبت جانوروں سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ارتقا evolutionکی سیڑھی میں سفید فام لوگوں سے نیچے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیگرو نسل کے لوگوں کے دماغ چھوٹے ہوتے ہیں اور خون کی نالیاں تنگ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان میں فطری طور پر سستی اور بربریت کا رجحان ہوتا ہے، یوں انہیں غیر مہذب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔ سفید فام نسل کے اعلیٰ و برترہونے کے تصور کو استعماری طاقتوں کی طرف سے غلاموں کی تجارت کے لیے توجیح کے طور پر استعمال کیا گیا، یہ غلام افریقہ کے علاقوں سے پکڑ پکڑ کر امریکہ اور یورپ کے ممالک میں فروخت کیے جاتے تھے جہاں ان سے سخت مشقت والے کام کروائے جاتے تھے ، تاکہ یہ اقوام کم قیمت پر مال تیار کر کے زیادہ سے زیادہ مالی نفع حاصل کر سکیں۔ اورجب یہ کالے افریقی اس اندھے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھاگنے کی کوشش کرتے تو اسے ظلم کا ردِ عمل سمجھنے کی بجائے دماغی بیماری قرار دیا گیا۔ 1851 میں امریکی ڈاکٹر Samuel A. Cartwrightنے Medical Association of Louisiana کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس
نے بیان کیا کہ وہ کالے غلام جو بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں دراصل وہ یہ اقدام ایک دماغی بیماری کے تحت کرتے ہیں جس کا نام اس نے Dreptomaniaتجویز کیا۔ 1937 میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے فلسطین کے رائل کمیشن کے سامنے کہا: "مثال کے طور پر میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ امریکہ کے ریڈ انڈین لوگوں یا آسٹریلیاکے کالے لوگوں کے ساتھ کچھ بہت برا کیا گیا۔ میں اس حقیقت کی بنا پر یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ان لوگوں کے ساتھ کچھ برا کیا گیا کہ ایک زیادہ مضبوط نسل، ایک زیادہ اعلیٰ نسل یا یوں کہا جائے کہ ایک دنیا کے لحاظ سے زیادہ عقلمند نسل آئی اور اس نے ان کی جگہ لے لی”۔
بے شک ایک مسلمان جو کہ اسلام کے اعلیٰ تصورات پر ایمان رکھتا ہے ، کے لیے یہ باتیں انتہائی عجیب اورکراہت آمیز ہیں ۔ کیونکہ مسلمانوں کا دین رنگ و نسل کے بتوں کو مکمل طور پر مسمار کر دیتا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے حبشی نسل کے کالے غلام حضرت بلال ؓکو یہ شرف بخشا کہ وہ دنیا کے سب سے حرمت والے گھر بیت اللہ شریف کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے پیروکاروں کے سب سے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نبی آخر الزماںﷺ نے ارشاد فرمایا: ((يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد وإن أباكم واحد ألا لا فضل لعربي على أعجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأحمر على أسود ولا أسود على أحمر إلا بالتقوى))"اے لوگو! جان لو کہ تم سب کا رب ایک ہے اور تم سب کا باپ (حضرت آدم علیہ سلام ) بھی ایک ہی ہے، جان لو کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر ، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کئی فوقیت نہیں ، ماسوائے کہ جو زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے "(مسند احمد)۔
اسلام نے رنگ و نسل کی تفریق کو آج سے 14 صدیاں قبل ختم کر ڈالا ،جبکہ یورپ نے اس پر باقاعدہ پابندی انیسویں صدی میں عائد کی۔ 1833 میں برطانیہ میں جبکہ 1865میں امریکہ میں غلامی پر قانونی پابندی کے ذریعے کالے لوگوں کو ریلیف فراہم کیا گیا مگر رنگ و نسل کی تفریق آج بھی مغرب کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی ہے، یہ موجود ہے ، یہ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ مغرب میں رہنے والا کوئی بھی شخص اس تفریق کو واضح طور پرمحسوس کر سکتا ہے۔
ماضی میں مغرب نے جس سفید فام نسل پرستی کو استعماری تسلط کے جواز کے طور پر استعمال کیا آج ٹرمپ اسے "سب سے پہلے امریکہ "کی پالیسی کو تقویت دینے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ٹرمپ اور اس کے حامیوں کے مطابق چین اور روس جیسی قوتیں لبرل ورلڈ آرڈر خاص طور پر آزاد تجارت کی پالیسی اور گلوبلائزیشن کو استعمال کر کے امریکہ کے سٹریٹیجک مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں، خاص طور پر چین جو کہ معیشت کے میدان میں امریکہ کا نمایاں ترین حریف ہے۔ چنانچہ امریکہ کے بطور سپر پاور برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ان پالیسیوں کو تبدیل کیا جائے۔
حالانکہ ماضی میں یہ امریکہ ہی تھا کہ جس نے آزاد تجارتی پالیسی کو فروغ دیا تھااور اس کے ذریعے ابھرتی ہوئی معیشتوں پر دباؤ ڈالاتاکہ ان معیشتوں پر ریاستی کنٹرول کو کمزور کیا جا سکے تاکہ امریکہ ان ممالک کی معیشتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔ امریکہ نے آزاد تجارت کی پالیسی کو چین کی معیشت کو رفتہ رفتہ سوشلسٹ ماڈل سے سرمایہ دارانہ ماڈل میں بدلنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ تاہم آج جب چین معاشی لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں بہت مضبوط ہو چکا ہے اس حد تک کہ اس کا جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ چکا ہے توچین کے ساتھ آزاد تجارت امریکہ کے مفاد میں نہیں، جس کا توازن برے طریقےسے چین کے حق میں ہے ۔ 2018 میں چین نے امریکہ کو 557 بلین ڈالر کی اشیا برآمد کیں جبکہ امریکہ کی چین کو برآمدات صرف 179 بلین ڈالر تھیں۔ چین کے علاقائی اثرو رسوخ کو محدودکرنے کی امریکی پالیسی کوبھی ناکامی کا سامنا ہے۔ دوسری طرف عراق اور افغانستان کی مہنگی جنگیں لڑ کر امریکہ کا بجٹ خسارہ بہت بڑھ چکا ہے ۔ فروری 2018 میں پینٹا گان نے نئی قومی دفاعی سٹریٹیجی شائع کی جس نے واضح کیا کہ اب دہشت گردی کی بجائے بڑی طاقتوں کے درمیان مسابقت امریکی کی قومی سلامتی کا محور ہے ۔ رپورٹ کا اہم خلاصہ یہ تھا: "امریکہ کی خوشحالی اور سیکیورٹی کے لیے مرکزی چیلنج اس طویل مدتی سٹریٹیجک مسابقت کا دوبارا نمودار ہونا ہے جسے نیشنل سیکیورٹی سٹریٹیجی دوبارا اٹھنے والی طاقتیں revisionist powers کے طورپر گروپ کرتی ہے۔ یہ واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ چین اور روس دنیا کو اس انداز سے تشکیل دینا چاہتے ہیں جو ان کے آمرانہ ماڈل سے مطابقت رکھتی ہو – وہ دوسری اقوام کے معاشی، سفارتی اور سلامتی فیصلوں پرویٹو کا اختیار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ چین اور روس کے ساتھ سٹریٹیجک مسابقتیں اس ڈیپارٹمنٹ کی بنیادی ترجیحات ہیں اور اس میں زیادہ اور مسلسل قوتیں خرچ کرنے کی ضرورت ہے ، اس کی وجہ ان خطرات کا حجم ہے جو آج امریکہ کی سلامتی اور خوشحالی کو درپیش ہیں اور یہ خطرات مستقبل میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں”۔ پینٹاگان کی یہ دفاعی سٹریٹیجی رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دنیا اب طاقتوں کے الآئنس کے ماڈل کی بجائے بڑی طاقتوں کی باہمی کشمکش اور مسابقت کے ماڈل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یعنی دوسری جنگِ عظیم سے قبل کی صورتِ حال کہ جس میں دنیا میں مختلف طاقتیں آزادانہ طور پر ایک دوسرے سے مسابقت کرتی تھیں۔ پس آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ "سب سے پہلے امریکہ "کا نعرہ لگا کر ٹرمپ چین کے علاوہ جنوبی امریکہ اور یورپ کے ساتھ معاہدات کو بھی اپنے مفادات کے مطابق دوبارا طے کر رہا ہے ، شمالی امریکہ آزاد تجارتی معاہدہNAFTA اب ‘United States-Mexico-Canada Agreement.’ بن چکا ہے ، امریکہ چین سے ہونے والی درآمدات پر مسلسل پابندیاں بڑھا رہا ہے ،اور یورپ کے ساتھ نیٹو الآئنس اب امریکہ کو معاشی لحاظ سے بوجھ محسوس ہوتا ہے ۔ یہ سب آزاد تجارت، کثیر جہتی اور گلوبلائزیشن کی پالیسی کے خلاف ہے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق آج امریکہ کے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں ۔1980کی دہائی میں گلوبلائزیشن اور آزاد تجارت کی پالیسی کے تحت امریکہ نے اشیاء کی تیاری کے کارخانوں کو بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقل کر دیا تھا ۔ امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ایسا کرنا امریکی معیشت کے لیے بہتر تھا کیونکہ مہنگے ڈالر کی وجہ سے امریکی اشیا کی لاگت زیادہ تھی جس کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں امریکی اشیاء less competitiveتھیں چنانچہ امریکی کمپنیوں کے منیوفیکچرنگ پراجیکٹس کو امریکہ سے باہر منتقل کر کے کیا گیا، تاکہ سستی لیبر کے ذریعے کم قیمت پر اشیا ء تیا رکی جا سکیں ۔ گویا جو کام اٹھارویں اور انیسویں صدی میں افریقہ کے کالے غلاموں سے کروایا گیا ، یعنی سستی لیبر سے خام مال سے اشیاء کی تیاری،بیسویں صدیNeo-colonialism کے دور میں یہ کا م گلوبلائزیشن کی پالیسی کے ذریعے کیا گیا ۔ البتہ اس کے نتیجے میں بہت سی (غیر کلیدی )نوکریاں امریکی عوام کی بجائے تیسری دنیا کے ہاتھ میں چلی گئیں ۔جبکہ دوسری طرف آزاد تجارت اور نرم ویزا پالیسی کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ غیر امریکی اقوام کے افراد نے امریکہ کے اندر سہولیات (services) کی بہت سے نوکریاں حاصل کرلیں ، یوں امریکہ میں غیر ملکی تارکین وطن immigrants کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گیا۔ سفید فام نسل پرست اس مسئلے کو نمایاں کرتے ہیں ، ان کے مطابق یہ غیر سفید اقوام امریکہ کی سفید فام نسل کی حق تلفی کر رہی ہیں ، جس کا ازالہ ضروری ہے۔ حتیٰ کہ انتہائی دائیں بازو کے نسل پرست یہ تصور کرتے ہیں کہ غیر سفید فام تارکین وطن اور پناہ گزین invaders(حملہ آورلوگ ) ہیں اور وہ سفید نسل کی بقا کے لیے خطرہ ہیں۔ اس بنا پرامریکہ کے سفید فام نسل پرست گلوبلائزیشن کی پالیسی کے خلاف ہیں اور امریکہ کی موجودہ پالیسی بھی گلوبلائزیشن کے مخالف سمت میں چل رہی ہے، یوں سفید نسل پرستی اور ٹرمپ کے "سب سے پہلے امریکہ "کے دھارے آپس میں مل جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔ یاد دہانی کے طور پر اس بات کا ذکر ہو جائے کہ 8نومبر 2016 کو امریکی الیکشن کے اگلے دن جب امریکی صدر ٹرمپ کی اکثریت واضح ہو گئی توگارڈین اخبار کے opinionصفحے کی ایک سرخی کچھ یوں تھی: گلوبلائزیشن کی موت واقع ہوگئی ہے اور سفید فام نسل پرستی جیت گئی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے کچھ ناقدین کے مطابق صدر ٹرمپ کے تجارتی اقدامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی ناکام ہو رہی ہے تاہم چونکہ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی میں مفاد ات کا حصول ہی بنیادی پیمانہ ہے اور اس بنا پر(مفادات کے حصول کے لیے ) سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی میں اپنے تصورات پر کسی قدر سمجھوتہ کرنے کی گنجائش موجود ہے لہٰذا ان سمجھوتوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی اپنی زندگی کو طویل کر لیتی ہے اور اس کی ناکامی پوری طرح واضح نہیں ہو پاتی ۔ یہ آئیڈیالوجی اس وقت ہی مکمل طور پر ناکام ہو کر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالی جائے گی جب ایک عادلانہ آئیڈیالوجی پر مبنی مضبوط ریاست اس آئیڈیالوجی کو بھرپور انداز میں چیلنج کرے گی ۔ چین وہ ریاست نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ بھی اب اسی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا محافظ بن چکا ہے خاص طور پر اس کے معاشی تصورات کا۔ یہ آئیڈیالوجی صرف اور صرف اسلام ہے جو پوری دنیا کو ایک یکسر مختلف انداز میں ترتیب دنیا چاہتا ہے اور اس کے پاس بین الاقوامی سیاست اور قوانین کے متعلق متبادل اور جامع تصورات موجود ہیں۔
ختم شد