اسلامی ریاست کے انہدام سے ہی اصحابِ اقتدار (وُلاة الأمر) کی اطاعت کا مسئلہ شدید تنازعہ کا باعث رہا ہے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر ابو نزار الشامی
اسلامی ریاست کے انہدام سے ہی اصحابِ اقتدار (وُلاة الأمر) کی اطاعت کا مسئلہ شدید تنازعہ کا باعث رہا ہے۔ مغرب مسلم ممالک پر حکومت کرنے آیا اور ان پر جابر حکمران مسلط کیے جنھوں نے زمین کو ظلم اور ناانصافی سے بھر دیا۔ انھوں نے اس امت پر ظالمانہ حکومت کی بنیاد رکھی جس نے ہماری امت کو جاہلیت کے پچھلے دور میں دھکیل دیا۔
اس پسماندہ حالت میں سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں امت اور اس کے حاملینِ دعوت کا سامنا مسلمانوں کے ایسے گروہ سے ہوا جو علماء کے لباس اور ناموں میں موجود ہو کر اس مار کھاتی امت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، نہ کہ اسے مارنے والوں کو۔ وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ امت صبراور اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظلم، کفر کی حکمرانی اور اپنی پیٹھ پر کوڑوں کو قبول کر لے، جب تک کہ اس کی پیٹھ پر کوڑے مارنے والے صاحبِ اختیار حکمران ہیں!!! یعنی جیسے ان حکومتوں کا ظلم و جبر کافی نہ تھا کہ یہ گروہ ان حکومتوں کے بازو اور جڑیں مضبوط کرنے آ گیا۔
یہاں توجہ طلب اہم معاملہ یہ ہے کہ ہم نصوص اور روایات والی امت ہیں۔ لہٰذا یہ درست نہیں کہ اس سوچ کا اولین جواب یہ ہو کہ اس کے حمایتیوں کو، ان کی قانونی طور پر مبہم آرا کو مکمل اور جامع طور پررد کرنے سے پہلے، حکمرانوں سے مشکوک تعلقات کی بنیاد پر ان لوگوں کو غلط کہہ دیا جائے۔ اس سوچ کی پیروی کرنے والے بہت سے لوگ نصوص سے عقیدت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، اگرچہ یہ ان کی خواہشات اور ذات کے خلاف ہے۔ لہٰذا نصوص اور ان کے تشریح کو سمجھے بغیر ان کو جواب دینا درست نہیں۔ ورنہ یہ تنقید شبہہ کے حق میں ہو گی کیونکہ اس سے تائثر جنم لے گا کہ وہ ہماری نسبت وحی کے زیادہ قریب ہیں۔اور یہ گمان پیدا ہو گا کہ ہم وہ لوگ ہیں جو دلیل کے مقابلے میں انسانی عقل پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پچھلے مضمون میں ہم نے ان لوگوں کے پیش کردہ کچھ دلائل سامنے رکھے۔ نتیجتاً ہم نے ان کی ان دلائل سے متعلق حقیقت کی سمجھ (تحقيقِ مناط) میں موجود نقائص کی مکمل وضاحت کی۔ اس مضمون میں ہم ان دلائل کو موضوع سے جوڑنے کی ان کی کوشش میں موجود نقائص کا جائزہ لیں گے۔
حکومتی علماء اور جاہل شیوخ، لیڈروں یعنی امیر یا حکمران سے متعلق احکامِ شریعہ کے بارے میں مسلم عوام میں ایک بڑی الجھن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ انھوں نے لوگوں میں یہ سوچ ڈال دی کہ کافر حکمران یا اللہ کی وحی کے علاوہ سے حکومت کرنے والے حکمران کی اطاعت واجب ہے۔ ان میں سے کچھ نے تو یہ بھی سوچ لیا کہ ایسی مجرمانہ اطاعت اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے!!! لہٰذا معاملہ صاحبِ اختیار حکمران (ولاة الأمر) کی اطاعت کا ہے۔
اولاً، اطاعت سے متعلق شریعت کی سمجھ اس مضبوط فکر پر مبنی ہے کہ واجب الاطاعت اللہ سبحانہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے اطاعت کی بنیاد اللہ کی اطاعت ہے۔ اللہ کی اطاعت سے مراد اس کے اوامر کی اطاعت ہے یا جن اوامر کی اطاعت کی اجازت اللہ نے دی ہے، لیکن ایسی تمام اطاعت جو اس کی نافرمانی پر مبنی ہو، منع کیے گئے گناہ ہیں۔ لہٰذا انسان کی اطاعت کرنے، اس کے اوامر پر چلنے اور نواہی سے رکنے کی کوئی پابندی نہیں، سوائے جب اس کیلئے وحی کی دلیل موجود ہو۔ مثلاً بیوی کیلئے اپنے شوہر کی اطاعت واجب ہے، اس کی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ شادی کے وصف کی وجہ سے ۔ بیوی کیلئے اس کی اطاعت واجب نہیں جب یہ وصف خُلع یا طلاق کے ذریعے ختم ہو جائے۔ تب وہ شخص ایک عام شخص بن جاتا ہے جس کی کوئی اطاعت نہیں۔
امت کے لیڈر اور ریاست کے حکمرانوں کی اطاعت اس کی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی حقیقت اور شرط کی وجہ سے واجب ہے۔ جب وہ شرط یا حقیقت ختم ہو جائے تو اس کی اطاعت بھی واجب نہیں۔ جب وہ حقیقت اور شرط موجود ہو تو اطاعت واجب ہے، اور جب موجود نہ ہو تو اطاعت ممنوع ہے۔ لہٰذا اطاعت دراصل ایک اوراطاعت کی وجہ سے ہے یعنی ان حکمرانوں کیلئے ہماری اطاعت دراصل اللہ اور رسول اللہ ﷺ کیلئے ان کی اطاعت کی وجہ سے ہے، ورنہ ان کی کوئی اطاعت نہیں۔ اس حوالے سے ہمیں اطاعت کے دلائل سمجھنے چاہیئے جو کہ اس مضبوط فکر کی روشنی میں ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک فوج بھیجی اور انصار سے ایک شخص (عبداللہ بن حذیفہ بن قیس بن عدی) کو ان کا کمانڈر بنایا۔ جب وہ چلے تو انہیں اس لشکر کے لوگوں کے بارے میں کچھ ناگوار گزرا تو عبد اللہ بن خذیفہ نے ان لوگوں سے کہا، "کیا ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمھیں میری اطاعت کا حکم دیا ہے؟” انھوں نے کہا، "ہاں”۔ اس نے کہا، "لکڑیاں اکٹھی کرو” اور پھر ان میں آگ لگانے کا کہا۔ پھر کہا، "میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ اس میں داخل ہو جاؤ”۔ لوگ اس میں داخل ہونے سے ہچکچائے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے لوگوں سے کہا، "اس آگ سے بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور ان تک پہنچنے سے پہلے نہ رکنا اور اگر وہ تمھیں اس میں داخل ہونے کا حکم دیں تو داخل ہو جاؤ”۔ لہٰذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لوٹے اور انہیں ماجرا بتایا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا،لَوْ دَخَلْتُمُوهَا مَا خَرَجْتُمْ مِنْهَا أَبَدًا إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ "اگر وہ اس (آگ) میں داخل ہو جاتے تو اس سے کبھی باہر نہ آتے، کیونکہ اطاعت صرف خیر و بھلائی میں ہی ہے” (احمد)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے مزید کہا، لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق "اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں” (مسلم) یہی ابنِ ماجہ اور احمد میں حسن روایت کے ساتھ ایسے آیا ہے، مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ فَلَا تُطِيعُوهُ "تم میں سے جو کوئی تمھیں اللہ کی نافرمانی کا حکم دے، اس کی اطاعت نہ کرو”۔ ابنِ کثیر اور قرطبی سمیت ایک سے زیادہ مفسرین نے یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں بیان کی ہے، وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡ "(اطاعت کرو) اپنے میں سے بااختیار حکمرانوں کی” (النساء 59) اور انھوں نے اطاعت کو خیر تک ہی محدود کرنے کیلئے اس حدیث کو دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا، السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ حَقٌّ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِالْمَعْصِيَةِ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَةَ "(حکمران کو) سنو اور اطاعت کرو جب تک وہ (اللہ کی) نافرمانی کا حکم نہ دے، لیکن اگر وہ (اللہ کی) نافرمانی کا حکم دے تو نہ سنو اور نہ اطاعت کرو”۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ "ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ (حکمران کو) سنے اور اطاعت کرے، چاہے اسے پسند ہو یا ناپسند ہو، سوائے جب وہ اسے (اللہ کی) نافرمانی کا حکم دے۔ اگر وہ نافرمانی کا حکم دے تو نہ سنو نہ اطاعت کرو”۔ اس اصول کی روشنی میں ہم اطاعت سے متعلق شرعی دلائل کو سمجھتے ہیں اور ثابت شدہ محکم حکم کے مقابلے میں متشابہات کو رد کرتے ہیں۔
اب کتابُ اللہ میں اس موضوع سے متعلق بنیادی دلیل کو دیکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرٞ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلًا "اے ایمان والو !الله کی فرمانبرداری کرو اور رسولﷺ کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دواگر تم الله پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے”۔ (النساء 59) اس آیت میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ آیت بغیر کسی معیار اور قید کے اللہ کی اطاعت کا حکم دیتی ہے، کیونکہ اللہ واحد ہی وہ ذات ہے جو الحاکم ہے۔ یہ آیت بغیر کسی معیار اور قید کے رسول اللہ ﷺ کی بھی اطاعت کا حکم دیتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے پیغام پہنچاتے ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کے بغیر کوئی حکم دیں۔ جہاں تک حکمران کا تعلق ہے، تو آیت کے اس حصے کامتن الگ مفرد جملے کے طور پر نہیں بلکہ واؤ (و) عطف کے ساتھ ہے۔ حکمران کا بیان، اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کے بیان کے برخلاف، اطاعت کے حکم کے لحاظ سے الگ مفرد نہیں آیا۔ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ حکمران جس کی اطاعت واجب ہے، وہ صرف وہی ہے جو اتھارٹی واختیار کے معاملات میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے، خصوصاً دنیا کے معاملات کو اسلام کے مطابق چلانے کیلئے، یعنی لوگوں کے معاملات میں شریعت سے حکمرانی کے ذریعے۔ ورنہ ان کے اطاعت جائز نہیں اور ان کے لیے حکمرانی بھی جائز نہیں ۔ آلوسی نے اپنی تفسیر”روح المعانی” میں کہا، "یہ فعل (اطاعت کرو) اس طرح دہرایا گیا ہے کہ رسولﷺکی اطاعت اللہ کی اطاعت سے جُڑی ہوئی ہے۔ یہ ناممکن بات ہے کہ آپ ﷺاس سب پر نہ چلیں جو قرآن کریم میں آیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بغیر کسی قید کے ہے جو آپ ﷺ کے علاوہ کسی اور کیلئے نہیں۔ اور پھر اطاعت کا لفظ اللہ کے اس قول میں دوبارہ نہیں آیا (وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ) "جو تم میں سے حاکم ہوں” (النساء 59) جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی اطاعت اس طرح بغیر پابندی کے نہیں جیسے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہے۔ لہٰذا حکمران کی اطاعت اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے تابع ہے اور اس سے آزاد نہیں۔ جہاں تک گناہ میں اطاعت کی بات ہے، اہلِ علم اس پر متفق ہیں کہ گناہ میں اطاعت جائز نہیں، جیسا کہ نووی نے شرح صحیح مسلم میں بیان کیا ہے۔”
اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ جیسے کوئی حاکمِ بالا کہے، "حاکمِ زیریں کی اطاعت کرو جب تک وہ تمھیں میری نافرمانی کا حکم نہ دے”،تویہ حکمران کی حقیقت ہے۔ لیکن اگر کوئی کہے، ” میری اطاعت کرو تاکہ تم میری نافرمانی کرو”، ایک ہی معاملے میں ایک ہی وقت ایک ہی ذات سے ، تو یہ ناممکن ہے۔ جب بااختیار ذات بھی سب سے زیادہ اختیار والی ہو یعنی اللہ سبحانہ تعالیٰ، تو عدم امکان اس سے بھی زیادہ اور شدید ہے۔ پھر آیت کسی تنازعے کی صورت میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے قول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہے، یہ کسی بھی معاملے میں حکمران کے قول کی طرف رجوع کا حکم نہیں دیتی۔ یہ حکمران کے اقتدار کی اطاعت کو قرآن و سنت تک محدود کرنے کیلئے کافی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ آیتِ کریمہ کسی بھی طریقے سے خواہشات کی پیروی کرنے والوں اور حکومتی علماء کیلئے کسی ایسی تاویل کا راستہ نہیں چھوڑتی جس سے وہ حکمران کو اتنا مکرم بنائیں کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں امت کو اطاعت کا حکم دیں۔ اس آیت کے آگے آنے والی آیت جوطاغوتوں کی بات کرتی ہے، ان کی اطاعت اور ان کے نظاموں کی طرف رجوع کرنے سے منع کرتی ہے۔ معاملہ پوری طرح اللہ اور رسول اللہ ﷺ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے کہ عزت اور عقیدت صرف اللہ کیلئے ہے۔ اللہ نے اس بعد والی آیت میں فرمایا، أَلَمۡ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزۡعُمُونَ أَنَّهُمۡ ءَامَنُواْ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبۡلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓاْ إِلَى ٱلطَّٰغُوتِ وَقَدۡ أُمِرُوٓاْ أَن يَكۡفُرُواْ بِهِۦۖ وَيُرِيدُ ٱلشَّيۡطَٰنُ أَن يُضِلَّهُمۡ ضَلَٰلَۢا بَعِيدٗا ٦٠ وَإِذَا قِيلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡاْ إِلَىٰ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ رَأَيۡتَ ٱلۡمُنَٰفِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودٗا ٦١ فَكَيۡفَ إِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةُۢ بِمَا قَدَّمَتۡ أَيۡدِيهِمۡ ثُمَّ جَآءُوكَ يَحۡلِفُونَ بِٱللَّهِ إِنۡ أَرَدۡنَآ إِلَّآ إِحۡسَٰنٗا وَتَوۡفِيقًا ٦٢ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ يَعۡلَمُ ٱللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمۡ فَأَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ وَعِظۡهُمۡ وَقُل لَّهُمۡ فِيٓ أَنفُسِهِمۡ قَوۡلَۢا بَلِيغٗا ٦٣ وَمَآ أَرۡسَلۡنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۚ وَلَوۡ أَنَّهُمۡ إِذ ظَّلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمۡ جَآءُوكَ فَٱسۡتَغۡفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسۡتَغۡفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّابٗا رَّحِيمٗا ٦٤ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُواْ فِيٓ أَنفُسِهِمۡ حَرَجٗا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسۡلِيمٗا ٦٥ ” کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جو آ پ ﷺپر نازل کی گئی ہے اور جو چیزآپ سےپہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ غیر ُاللہ سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دورجا ڈالے (60) اور جب انہیں کہا جاتا ہے جو چیز الله نے نازل کی ہے اس کی طرف آؤ اور رسول ﷺکی طرف آؤ توآپ منافقوں کو دیکھیں گےکہ آپ سے پہلو تہی کرتے ہیں (61) پھر کیاہوتا ہے جب ان کے اپنے ہاتھوں سے لائی ہوئی مصیبت اُن پر آتی ہے پھر آپ کے پاس آ کر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمیں تو سوائے بھلائی ا ور باہمی موافقت کے اور کوئی غرض نہ تھی (62) یہ وہ لوگ ہیں کہ الله جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے تو ان سے منہ پھیر لیجیے اور انہیں نصیحت کریں اوران سے ایسی بات کہیں جو ان کے دلوں میں اتر جائے (63) اورہم نے کبھی کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ الله کے حکم سے اس کی تابعداری کی جائے اور جب انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے پھر الله سے معافی مانگتے اور رسول ﷺبھی اُن کی معافی کی درخواست کرتے تو یقیناًیہ الله کو بخشنے والا رحم کرنے والا پاتے (64) سو آپ کے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں آپ کو منصف نہ مان لیں پھر آپ کے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں (65)” (النساء – 65-60)
اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب اس وجودentity کی طرف رجوع کرنا ہے جو ان دونوں کی بنیاد پر قانون جاری کرتا ہے۔ آیت کے مطابق صرف یہی رجوع تنازعات کو ختم کر سکتا ہے ، اس وجود کا موجود نہ ہونا امت اور حکمران کے درمیان تنازعہ کو برقرار رکھے گا۔ ہر کوئی اپنے نقطہ نظر کو مضبوط بنانےکیلئے شرعی دلائل ہی کا سہارا لے گا ،اس سے تنازعات کے خاتمے کیلئے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کا حکم کرنے والی آیت کی نفی ہو جائے گی۔ لہٰذا ایسے وجود کی موجودگی واجب ہے، تاکہ دونوں فریقین اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حکم پر چلیں۔ یہ معلوم ہے کہ اسلامی ریاست میں اس طرح کے تنازعہ پر قانون جاری کرنے والا ادارہ ولایۃ المظالم یا قضاء المظالم ہوتا ہے۔ یہ تب ہے جب اسلامی ریاست موجود ہو۔ جب اسلامی ریاست موجود نہ ہو، تو پھر یہ معاملہ امت کے مخلص علماء اور عقلمند فقہاء کی طرف موڑا جاتا ہے ۔
صحیح اور واضح سنت ” اللہ کی نافرمانی کے کام میں مخلوق کی اطاعت کی ممانعت "کے اصول کی تصدیق کرتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، سَيَلِي أُمُورَكُمْ بَعْدِي رِجَالٌ يُطْفِئُونَ السُّنَّةَ وَيَعْمَلُونَ بِالْبِدْعَةِ وَيُؤَخِّرُونَ الصَّلاَةَ عَنْ مَوَاقِيتِهَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُهُمْ كَيْفَ أَفْعَلُ قَالَ تَسْأَلُنِي يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ كَيْفَ تَفْعَلُ لاَ طَاعَةَ لِمَنْ عَصَى اللَّهَ "میرے بعد تمھارے معاملات پر ایسے ذمہ دار لوگ آئیں گے جو سنت کو بجھا دیں گے اور بدعت پر عمل کریں گے اور نماز کو مقررہ وقت سے مؤخر کریں گے”۔ میں نے کہا، "یا رسول اللہ ﷺ، اگر میں انہیں پاؤں تو کیا کروں؟” انھوں نے کہا، "تم مجھ سے پوچھتے ہو اے ابنِ امِ عبد کہ تم کیا کرو؟ اس کی اطاعت نہیں جو اللہ کی نافرمانی کرے”۔ اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ حسن سند کے ساتھ ہیں۔ سنت صرف گناہ میں اطاعت سے ہی منع نہیں کرتی بلکہ وہ حکمران جو اللہ کی شریعت کے علاوہ پر عمل کرتے ہیں، ان کے جواز کو بھی ختم کرتی ہے، جیسا کہ یہ حدیث اس طرح کے حکمرانوں سے جائز سلوک کے بارے میں، کسی بھی رائے قائم کرنے کے امکان کو ختم کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ستكونَ عليكمْ أمُرَاءُ منْ بعدِي، يأمرونَكمْ بما لا تَعرِفُونْ، ويعمَلُون بما تُنْكرُونَ، فليسَ أولئكِ عليكمْ بأئمةٍ "میرے بعد تمھارے اوپر امراء ہوں گے۔ وہ اس کا حکم دیں گے جو تمھیں قبول نہیں اور وہ عمل کریں گے جس سے تم منع کرتے ہو۔ پس وہ تمھارے لیڈر نہیں”۔ (یعنی وہ ناجائز ہیں یعنی وہ ظالم ہیں اور ان کی اطاعت نہیں، بلکہ ان کا تعلق اس حدیث سے ہے جو ظالموں سے سلوک کے بارے میں ہے)۔ (عبادہ بن صامتؓ نے روایت کیا، سیوطی نے حدیث کی خبر دی، الجامع الصغیر سے ماخوذ اور حدیث کا درجہ حسن ہے)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، سيلي أموركم من بعدي رجال يعرفونكم ما تنكرون، وينكرون عليكم ما تعرفون، فمن أدرك ذلك منكم فلا طاعة لمن عصى الله عز وجل "میرے بعد تمھارے معاملات پر ایسے ذمہ دار مردآئیں گے جو اس کو اچھا کہیں گے جو تمھارے نزدیک برا ہے اور اس کو برا کہیں گے جو تمھارے نزدیک اچھا ہے۔ پس تم میں سے جو انھیں پائےتو (جان لے کہ )اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں”۔ (عبادہ بن صامتؓ نے روایت کیا، سیوطی نے حدیث کی خبر دی، الجامع الصغیر سے ماخوذ اور حدیث کا درجہ صحیح ہے)۔ جابر بن عبداللہ ؓنے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرہؓ سے کہا، "اللہ تمھیں جاہلوں کی قیادت سے بچائے”۔ انھوں نے پوچھا، "جاہل حکمران کون ہیں؟” آپ ﷺ نے فرمایا، أَعَاذَكَ اللَّهُ مِنْ إِمَارَةِ السُّفَهَاءِ قَالَ وَمَا إِمَارَةُ السُّفَهَاءِ قَالَ أُمَرَاءُ يَكُونُونَ بَعْدِي لَا يَقْتَدُونَ بِهَدْيِي وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَأُولَئِكَ لَيْسُوا مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُمْ وَلَا يَرِدُوا عَلَيَّ حَوْضِي وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَأُولَئِكَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ وَسَيَرِدُوا عَلَيَّ حَوْضِي "وہ قائدین جو میرے بعد آئیں گے، میری ہدایت سے رہنمائی نہیں کریں گے اور میری سنت پر عمل نہیں کریں گے۔ جس کسی نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کی، پس وہ مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں اور وہ حوض (کوثر) پر میرے ساتھ نہیں ہوں گے۔ جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی اور ان کے ظلم میں مدد نہیں کی، وہ مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں اور وہ حوض (کوثر) پر مجھ سے ملاقات کریں گے”۔ ان الفاظ کے ساتھ اسے احمد نے روایت کیا ،اس کے علاوہ دارمی اور ابنِ حبان سے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ ابن ِحجر، البانی اور دیگر نے اسے صحیح گرداناہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر مسلمان معصیت کی بنیاد پر حکومت کرنے والے ہر لیڈر اور حکمران کے سامنے جھکنے لگیں، تو پھر مصطفیٰ ﷺ کی سیرت کا کیا ہو گا، جو ہر بااثر اور جابر گنہگار کے سامنے کھڑے ہوئے؟ ہم کس طرح ان کی شفاعت کے حقدار ہو سکتے ہیں اگر ہم ان کی صراطِ مستقیم کے خلاف چلتے ہیں؟ کیا زمین میں اس وجہ سے گمراہی اور فتنہ نہیں پھیل گیا کہ کمزور لوگ بااثر اور سرداروں کی اتباع کرتے ہیں؟ قیامت کے دن یہ اتباع کرنے والے اندھی تقلید کے فتنے کو یاد کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بھٹک کر مجرم ہو چکے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کی آخری بات کا ذکر کیا ہے، …وَلَوۡ تَرَىٰٓ إِذِٱلظَّٰلِمُونَ مَوۡقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمۡ يَرۡجِعُ بَعۡضُهُمۡ إِلَىٰ بَعۡضٍ ٱلۡقَوۡلَ يَقُولُ ٱلَّذِينَ ٱسۡتُضۡعِفُواْ لِلَّذِينَ ٱسۡتَكۡبَرُواْ لَوۡلَآ أَنتُمۡ لَكُنَّا مُؤۡمِنِينَ ٣١ قَالَ ٱلَّذِينَ ٱسۡتَكۡبَرُواْ لِلَّذِينَ ٱسۡتُضۡعِفُوٓاْ أَنَحۡنُ صَدَدۡنَٰكُمۡ عَنِ ٱلۡهُدَىٰ بَعۡدَ إِذۡ جَآءَكُمۖ بَلۡ كُنتُم مُّجۡرِمِينَ ٣٢ وَقَالَ ٱلَّذِينَ ٱسۡتُضۡعِفُواْ لِلَّذِينَ ٱسۡتَكۡبَرُواْ بَلۡ مَكۡرُ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ إِذۡ تَأۡمُرُونَنَآ أَن نَّكۡفُرَ بِٱللَّهِ وَنَجۡعَلَ لَهُۥٓ أَندَادٗاۚ وَأَسَرُّواْ ٱلنَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُاْ ٱلۡعَذَابَۚ وَجَعَلۡنَا ٱلۡأَغۡلَٰلَ فِيٓ أَعۡنَاقِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْۖ هَلۡ يُجۡزَوۡنَ إِلَّا مَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ ٣٣. "اورکاش آپ دیکھتے جب کہ ظالم اپنے رب کے حضور میں کھڑے کیے جائیں گے ایک ان میں سے دوسرے کی بات کو رد کر رہا ہوگا جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے بنتے تھے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان دار ہوتے (۳۱) جو لوگ بڑے بنتے تھے ان سے کہیں گے جو کمزور سمجھے جاتے تھے کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا بعد اس کے کہ وہ تمہارے پاس آ چکی تھی بلکہ تم خود ہی مجرم تھے (۳۲) اورجو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو متکبر تھے بلکہ (تمہارے) رات اور دن کے فریب نے جب تم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم الله کا انکار کر دیں اوراس کے لیے شریک ٹھہرائیں ،اور دل میں بڑے پشیمان ہوں گے جب عذاب کو سامنے دیکھیں گے اورکافروں کی گردنوں میں ہم طوق ڈالیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے اسی کا تو بدلہ پا رہے ہیں (۳۳)” (السباء 33-31)۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے بعد انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، يَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمۡ فِي ٱلنَّارِ يَقُولُونَ يَٰلَيۡتَنَآ أَطَعۡنَا ٱللَّهَ َأَطَعۡنَا ٱلرَّسُولَا۠ ٦٦ وَقَالُواْ رَبَّنَآ إِنَّآ أَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا فَأَضَلُّونَا ٱلسَّبِيلَا۠ رَبَّنَآ ءَاتِهِمۡ ضِعۡفَيۡنِ مِنَ ٱلۡعَذَابِ وَٱلۡعَنۡهُمۡ لَعۡنٗا كَبِيرٗا٦٨ "جس دن ان کے منہ آگ میں الٹ دیے جائیں گے کہیں گے اے کاش ہم نے الله اور رسول کا کہا مانا ہوتا (۶۶) اور کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اوربڑوں کا کہا مانا سو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا (۶۷)” (احزاب 67-66)۔
ان واضح دلائل کی روشنی میں ہم اللہ کے نافرمان حکمران کی اطاعت سے متعلق احادیث کے خلاف موجود شبھۃ کو رد کر سکتے ہیں۔ ہم احادیث کے رد اور تضاد سے متعلق شبھۃ کو بھی دورکر سکتے ہیں، جہاں ہمیں اس اصولی قاعدے پر چلنا ہو گا، إعمال الدليلين خير من إعمال أحدهما وإهمال الآخر "دو نوں دلیلوں کی بنیاد پر عمل اس سے بہتر ہے کہ ایک دلیل پر عمل کیا جائے اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے”۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بظاہر تضاد سے متعلق تمام دلائل کو اس طرح جمع کرنا چاہیے کہ یہ تضاد ختم ہو جائے، اور حقیقت ومناط پر عمل تمام دلائل کی بنیاد پر ہو۔
حکمران کی سمع و اطاعت سے متعلق احادیث سے متعلق شبھۃ: شرعی دلائل میں سب سے واضح وہ مشہور حدیث ہے جو صحیح مسلم نے روایت کی کہ معاویہ الیاس ابن سلم نے روایت کیا زید بن سلم سے، جنھوں نے روایت کیا ابوسلام (ممطور الحبشی) سے، جنہوں نے کہا کہ حذیفہ بن یمانؓ نے کہا، "میں نے کہا یا رسول اللہ! کوئی شک نہیں کہ ہم نے برا وقت گزارا (یعنی جاہلیت کے دنوں میں) اور اللہ نے ہمیں اچھا وقت دکھایا (یعنی اسلام کا دور) جس میں ہم آج زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا اس اچھے دور کے بعد پھر بُرا دور آئے گا؟ آپ ﷺ نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا اس برے دور کے بعد اچھا دور آئے گا؟ آپ ﷺ نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: کیسے؟ اس پر آپ ﷺ نے کہا: يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لاَ يَهْتَدُونَ بِهُدَاىَ وَلاَ يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ "ایسے لیڈر ہوں گے جو میری ہدایت کی پیروی نہیں کریں گے اور میری سنت پر نہیں چلیں گے۔ ان میں ایسے لوگ ہوں گے جو انسانی جسم میں شیطانی دل رکھتے ہوں گے”۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ اگر میں وہ دَور پاؤں تو کیا کروں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا، تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلأَمِيرِ وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ "اپنے امیر کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا، حتیٰ کہ اگر تمھاری کمر پر کوڑے مارے جائیں اور تمھارا مال چھین لیا جائے، تم سننا اور اطاعت کرنا”۔ الحاکم نے ایسی ہی حدیث ابو سلام سے روایت کی ہے۔
درباری علماء اور چاپلوس فقہاء، اللہ انھیں رسوا کرے، خوشی منائیں گے اگر یہ حدیث صحیح ہو۔ اگر یہ حدیث صحیح نہ ہو تو زبردستی اس کی تصدیق کر دی جائے گی، چاہے سراب کے ذریعے، دھوکے کے ذریعے یا پھرجوازبنا کر! یہ وہ حدیث ہے جس کے وہ، اٹھتے بیٹھتے گن گاتے ہیں۔ وہ اس حدیث کو راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں۔ جب بھی وہ مباحثے میں پڑتے ہیں ، تو اس حدیث کو تلوار کی طرح استعمال کرتے ہوئے بحث کو کاٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اکثر وہ اس حدیث کو اپنے آپ کو چھپانے کیلئے پردے کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے بھیانک اعمال جیسے آمرانہ بادشاہوں کی چوکھٹوں سے محبت، ظالم حکمرانوں کے دستر خوانوں پر بیٹھنا اور باشندوں کے خلاف حکمرانوں کے ظلم پر مہر لگانا، ظاہر نہ ہو جائے۔ اگر پورا نہیں کو کم از کم وہ اس حدیث کو آدھا اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں، تاکہ اکثر ان کی تقریر سے لوگ یہ سمجھیں کہ وحی کا مقصد اور ہدف حکمران کی اطاعت ہے اور اللہ کی اطاعت ظالم حکمران کی مرضی کے بعد ہی ہوتی ہے۔ پھر کیا یہ ممکن ہے کہ یہ حدیث ہمارے نبی ﷺ ہی کی طرف سے ہو جن کے ذریعے اللہ نے ظلم کے جھنڈے کو تباہ کر دیا؟ کیا انھوں نے واقعی ایسا کہا؟ کیا یہ تاویل سوچی جا سکتی ہے کہ اسلام ظالم کی اس کے ظلم میں حمایت کرتا ہے؟ اور اس سے بھی پہلے، کیا واقعی یہ روایت بنیاد سے درست ہے؟ یہ بھی واضح ہے کہ اس حدیث کے الفاظ دیگر شرعی دلائل کی قطعیت سے واضح طور پر متضاد ہیں، جیسے کعب بن عجرہ کی حدیث اور عبادہ بن صامت کی حدیث جسے ابنِ حبان نے صحیح گردانا۔
عبادہ بن صامتؓ نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "اے عبادہ”، میں نے جواب دیا، "حاضر ہوں (یا رسول اللہ)”، آپ ﷺ نے کہا، اسمع وأطع في عسرك ويسرك، ومكرهك وأثرة عليك، وإن أكلوا مالك، وضربوا ظهرك، إلا أن تكون معصية لله بواحًا ” (اپنے حکمران کو) سنو اور اطاعت کرو، آسانی میں اور مشکل میں، نا چاہتے ہوئے اور جب کوئی تمھارے اوپر ترجیح دے اور جب کوئی تمھارا مال کھائے اور جب کوئی تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے، سوائے اس کے کہ جب وہ تمھیں کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کا حکم دے”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نافرمانی میں اطاعت نہیں۔ پیشتر اس کے کہ ہم ان الفاظ کو سمجھیں، تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلأَمِيرِ وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ "اپنے امیر کو سنو اور اطاعت کرو، حتی کہ اگر تمھاری کمر پر کوڑے مارے جائیں اور تمھارا مال لوٹا جائے”، اس سند کی صحت کو دیکھتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلتاہے کہ تمام راوی اور فقہاء نے اِس حدیث میں ان الفاظ کے اضافےکو ضعیف گردانا ہے۔ ان میں سب سے مشہور دارالقطنی اور دیگر ہیں۔ الحافظ ابو الحسن دارالقطنی نے اس حدیث کو یہ کہہ کر رد کیا، "میرے حساب سے یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ ابوسلام نے نہ تو حذیفہؓ سے نہ ہی عراق میں موجود ان کے ساتھیوں سے کچھ سنا، کیونکہ حذیفہ بن یمان ؓحضرت عثمان کے قتل کے ایک دن بعد ہی فوت ہو گئے تھے۔ اور حدیث میں درج ہے کہ قال: قال حذيفة جس کا مطلب ہے، "ابو سلام نے کہاکہ حذیفہ نے بیان کیا”، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے”۔
تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابوسلام کا نام ممطور الحبشی ہے اور ان کا تعلق دمشق سے تھا جبکہ حذیفہ بن یمانؓ مدینہ میں تھے، پھر کوفہ اور عراق میں۔ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ابوسلام نے حذیفہ بن یمانؓ سے کچھ نہیں سنا۔ یہ لگتا ہے کہ ابوسلام نے یہ حدیث حذیفہ سے شامی الضعیف کے واسطے سے سُنی۔ اور یہ الفاظ "اپنے امیر کو سنو اور اطاعت کرو، حتی کہ اگر تمھاری کمر پر کوڑے مارے جائیں” جو انھوں نے بیان کیے، حدیث میں مدرج (اضافہ کیے گئے) ہیں۔
جہاں تک البانی کی "السلسلۃ الصحیحۃ” میں اس حدیث کے تذکرے کا معاملہ ہے جو طبرانی کی "الاوسط” سے لیا گیا، جو کہ عمربن راشد الیمامی نے یحیٰ بن ابنِ کثیر سے، انھوں نے زید بن سلام سے، انھوں نے اپنے والد ابو سلام ممطور سے، انھوں نے اپنے دادا سے روایت کیا اور ایسا ہی سیوطی نے ابن عساکر کی روایت سے زیادہ تکمیل کے ساتھ بیان کیا، یہ فائدہ مند نہیں ہیں کیونکہ ممطور کے والد سلام کے دادا ہیں جن کا نام اور حیثیت معلوم نہیں۔ لہٰذا سند میں ان کی موجودگی ان کی عدم موجودگی جیسی ہی ہے! شیخ مقبل الوادی، جو کتاب " الإلزامات والتتبع " کے محقق ہیں، کہتے ہیں، "حذیفہ کی حدیث میں یہ الفاظ اضافی ہیں اور وہ حذیفہ کی حدیث میں متفقہ علیہ نہیں ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِذَ مَالُكَ "اگر تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمھارا مال چھین لیا جائے”، یہ ضعیف اضافہ ہے کیونکہ یہ اپنی سند میں منقطع ہے، واللہ اعلم "۔ (الحاشیہ 258)۔
بخاری نے روایت کیا کہ حذیفہ بن یمانؓ نے کہا، "لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق دریافت کرتے تھے، لیکن میں ان سے شر کے متعلق دریافت کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں یہ شرمجھ پر حاوی نہ ہو جائے۔ ایک مرتبہ میں نے کہا، "یا رسول اللہ! ہم جہالت اور شر میں تھے اور اللہ نے ہم پر یہ خیر نازل کی؛ کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟” انھوں نے کہا، نعم "ہاں”۔ میں نے پوچھا، "کیا اس شر کے بعد خیر ہو گی؟” آپ ﷺ نے فرمایا، نعم، وفيه دخن! "ہاں اور اس پر دخن (کچھ شر) ہو گا”۔ میں نے پوچھا، "اس کا دخن کیا ہو گا؟” اپ ﷺ نے کہا، قوم يهدون بغير هديي، تعرف منهم وتنكر! "کچھ لوگ ہوں گے جو میری ہدایت کے علاوہ (لوگوں کی) رہنمائی کریں گے۔ تم ان کے اعمال دیکھو گے اور ان کا انکار کرو گے۔” میں نے کہا، "کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟” اپ ﷺ نے فرمایا، نعم، دعاة على أبواب جهنم، من أجابهم إليها قذفوه فيها "ہاں، کچھ لوگ ہوں گے جو دوسروں کو جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دیں گے اور جو کوئی ان کی دعوت قبول کرے گا وہ (ان کی بدولت) اس میں پھینک دیا جائے گا”۔ میں نے کہا، "یا رسول اللہ! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بتائیے”۔ آپ ﷺ نے کہا، هم من جلدتنا، ويتكلمون بألسنتنا "وہ ہمارے جیسے ہوں گے اور ہماری زبان بولیں گے”۔ میں نے پوچھا، "اگر ایسا میری زندگی میں ہو تو میرے لیے کیا حکم ہے؟” آپ ﷺ نے کہا، تلزم جماعة المسلمين، وإمامهم "مسلمانوں کی جماعت اور امام کے ساتھ رہنا”۔ میں نے پوچھا، "اگر (مسلمانوں کا) کوئی گروہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی امام (تو کیا کروں)؟” آپ ﷺ نے کہا، فاعتزل تلك الفرق كلها! ولو أن تعض بأصل شجرة حتى يدركك الموت وأنت على ذلك "ان تمام فرقوں سے الگ رہنا، حتیٰ کہ اگر تمھیں درخت کی جڑیں (کھانے کیلئے) چبانی پڑیں یہاں تک کہ موت تمھیں آ لے اور تم اسی حالت میں ہو”۔” یہ ایک مستند حدیث ہے جس کے راوی ثقہ، قابلِ اعتماد اور حدیث کی روایت میں مستند ہیں۔ اس معاملے میں سند اور خالص الفاظ کے اعتبار سے یہ مضبوط ترین حدیث ہے۔ مسلم نے بھی اسے اسی متن اور سند سے اسے روایت کیا ہے۔ دیگر لوگوں میں طبرانی نے بھی اسے "مسند الشامیین” میں روایت کیا ہے۔
ملاحظہ ہو کہ یہ الفاظ، يكون بعدي أئمة، لا يهتدون بهداي، ولا يستنون بسنتي "میرے بعد ایسے لیڈر ہوں گے جو میری ہدایت کی پیروی نہیں کریں گے اور میری سنت پر نہیں چلیں گے” جو امام مسلم کی حدیث میں آئے ہیں ، ان میں یہ نوٹ کرنے کی بات ہے کہ یہ اسی حدیث کی سواکسی اور روایت میں نہیں آئے جو اس کی تصدیق کرے۔ بلکہ تمام روایات کہتی ہیں، تلزم جماعة المسلمين وإمامهم "مسلمانوں کی جماعت اور امام کے ساتھ رہنا”۔ کسی میں ایک حرف بھی ایسا نہیں جو رسول اللہ ﷺ کی ہدایت سے رہنمائی کرنے کی نفی یا ان کی سنت کی پیروی نہ کرنے کو بیان کرے یا کچھ اور جیسے ظلم اور ملامت کے اوصاف ۔ جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ممطور کی ضعیف روایت اور حذیفہ کی حدیث ،کعب بن عجرہ اور دیگر کی ان احادیث سے مل گئی ہے جو اسی الفاظ کے ساتھ مستند روایات میں آئیں ہیں۔ کعب بن عجرہ کی حدیث میں صحابہ کے بارے میں سبق ہے، جسے احمد نے اپنی مسند میں، بزاز، ابن حبان نے اپنی صحیح میں، الحاکم نے اپنی مستدرک میں بیان کیا۔ کہ جابر بن عبداللہؓ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرہ سے کہا، أعاذك الله يا كعب بن عجرة من إمارة السفهاء "اے کعب، اللہ تمھیں جاہل حکمرانوں سے محفوظ رکھے”۔ انھوں نے پوچھا، "جاہل حکمران کون ہیں؟” آپ ﷺ نے کہا، أمراء يكونون بعدي لا يهدون بهديي، ولا يستنون بسنتي، فمن صدقهم بكذبهم، أو أعانهم على ظلمهم، فأولئك ليسوا مني ولست منهم، ولا يردون عليَّ حوضي، ومن لم يصدقهم على كذبهم، ولم يعنهم على ظلمهم، فأولئك مني وأنا منهم، وسيردون عليَّ حوضي. يا كعب بن عجرة، الصوم جنة، والصدقة تطفئ الخطيئة، والصلاة قربان- أو قال: برهان- يا كعب بن عجرة إنه لا يدخل الجنة لحم نبت من سحت أبدًا، النار أولى به، يا كعب بن عجرة الناس غاديان، فمبتاع نفسه فمعتقها، أو بائعها فموبقها "وہ قائدین جو میرے بعد آئیں گے، میری ہدایت سے رہنمائی نہیں کریں گے اور میری سنت پر عمل نہیں کریں گے۔ جس کسی نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کی، پس وہ مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں اور وہ حوض (کوثر) پر میرے ساتھ نہیں ہوں گے۔ جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی اور ان کے ظلم میں مدد نہیں کی، وہ مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں اور وہ حوض (کوثر) پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اے کعب بن عجرہ! روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہ ختم کرتاہے، نماز قربان (قربانی یا واضح دلیل) ہے۔ اے کعب بن عجرہ! حرام پرپلنے والا گوشت کبھی جنت میں نہیں جائے گا اور جہنم اس کیلئے زیادہ موزوں ہے۔ اے کعب بن عجرہ! لوگ صبح شروع ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو (جہنم سے) حفاظت میں خرید لیتے ہیں یا (جہنم کے)خطرے میں بک جاتے ہیں”۔ اس کی سند حسن ہے، حاکم نے اسے صحیح بتایا ہے اور ذھبی نے متفقہ علیہ کہا ہے۔ الارنوؤط نے صحیح ابن حبان کی تعلیق میں کہا ہے، "یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے”۔
لہٰذا مندرجہ بالا اضافی الفاظ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور متن کے اعتبار سے منکر ہیں۔ اس اضافے کی سند منقطع اور ضعیف ہے اور اس کے الفاظ مستند دلائل سے متضاد ہیں اور اس سے جو مسلم نے اس اضافے کے بغیر روایت کیا۔ یہی اضافہ ان احادیث میں بھی ہے جو کہتی ہیں، يستنون بغير سنتي… "جو میری سنت پر نہیں چلیں گے”۔ لیکن یہ احادیث حکمران کی اطاعت کا حکم نہیں دیتی بلکہ ان کی نافرمانی کا حکم دیتی ہیں جیسے کعب بن عجرہ کی حدیث میں جو کہتی ہے، فمن صدقهم بكذبهم، أو أعانهم على ظلمهم، فأولئك ليسوا مني ولست منهم، ولا يردون عليّ حوضي ” جس کسی نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کی، پس وہ مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں اور وہ حوض (کوثر) پر میرے ساتھ نہیں ہوں گے”۔
اگر ایسا ہی ہے توپھر ہم اس اضافے کے لحاظ سے وہ سب جو صحیح مسلم میں آیا ہے، اسے کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ روایت کی یہ سند امام مسلم لائے ہیں جو اس کے مطابق ہے جو امام نووی نے کہا۔ لیکن وہ اسسند کو اس کی خامی بیان کرنے کیلئے لائے ہیں ۔ یہ بعید ہے کہ امام مسلم سے یہ چیز مخفی رہی کہ ابوسلام نے حذیفہ سے نہیں سنا۔ امام مسلم نے اپنی (کتاب)صحیح (مسلم)کے تعارف میں اپنا طریقہ بیان کیا ہے: "جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے، ہم نے کوشش کی کہ وہ سند پیش کریں جو باقیوں کے مقابلے میں محفوظ تر ہے۔۔۔ لہٰذا ہم نے اسناد کو لوگوں کی تعریف کے حساب سے پرکھا، ہمیں ایسی احادیث بھی ملیں جن کی اسناد میں ایسے لوگ تھے کہ یاداشت اور درستی جن کا خاصا نہیں تھا، جیسے ان سے پہلے کچھ لوگ تھے۔۔۔” قاضی عیاض اور امام نووی نے کہا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں اس شرط کا لحاظ رکھا۔ یہ وجہ کی تشریح اور وضاحت کے حوالے سے ہے نہ کہ اس کے برعکس کہ یہ تو بس کتاب مکمل کرنے سے پہلے ان کی نیت تھی کہ جو وہ کرناچاہتے تھے۔ امام نووی نے صحیح مسلم کی تشریح میں باب "حج کا دورانیہ” میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مُعلمینے الانوار الکاشفۃ میں صفحہ 230 میں کہا، "اپنی صحیح میں مسلم کا طرز یہ تھا کہ جب وہ متفقہ روایات لکھتےتو سب سے مستند روایات لکھتے۔ کبھی کبھار بعد والی روایات میں کچھ غلطی ہوتی جو پہلی روایات کے ذریعے واضح ہو جاتی”۔ لہٰذا امام مسلم نے یہ اضافے والی حدیث بیان کی، اس کا فرق اور رد واضح کرنے کیلئے نہ کہ اسے صحیح گرداننے کیلئے، خصوصاً جبکہ اس حدیث کی سند مرسل اور منقطع ہے۔ سنن اور مسانید کے دیگر لوگوں نے بھی اس حدیث کی دیگر روایات بیان کی ہیں، جس میں ان تمام روایات کو ضعیف گردانا گیا ہے۔ یہ روایات ایک دوسرے کو تقویت نہیں دیتیں۔
ڈاکٹر خالد الحايك نے اس کے نقائص ایک ویب سائٹ پر موجود اپنی ریسرچ میں واضح کیے ہیں، جس کا عنوان” ‘اگر تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمھارا مال چھینا جائے’ کے اضافے کا مکمل رد (القطع بنكارة زيادة وَإِنْ ضرِبَ ظَهْركَ َأخذَ مَالكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ)"ہے ۔ یہ اضافہ قابلِ رد ہے کیونکہ یہ شر کو رد کرنے کے اصول کے خلاف ہے۔ یہ اصول اس امت کو بہترین امت بناتا ہے جو انسانیت کیلئے لائی گئی ہے۔ یہ اضافہ لوگوں پر سے ظلم کو ختم کرنے سے بھی ٹکراتا ہے۔ یہ شریعت ہی ہے جو قوموں کے فساد کو ظلم کی موجودگی سے جوڑتی ہے۔ یہ شریعت ہی ہے جو مظلوم مگرظلم کے حامی کو اسی درجے پر رکھتی ہے جوظلم کرنے والے کا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا، وَإِذۡ يَتَحَآجُّونَ فِي ٱلنَّارِ فَيَقُولُ ٱلضُّعَفَٰٓؤُاْ لِلَّذِينَ ٱسۡتَكۡبَرُوٓاْ إِنَّا كُنَّا لَكُمۡ تَبَعٗا فَهَلۡ أَنتُم مُّغۡنُونَ عَنَّا نَصِيبٗا مِّنَ ٱلنَّارِ ٤٧ قَالَ ٱلَّذِينَ ٱسۡتَكۡبَرُوٓاْ إِنَّا كُلّٞ فِيهَآ إِنَّ ٱللَّهَ قَدۡ حَكَمَ بَيۡنَ ٱلۡعِبَادِ ” اور جب دوزخی آپس میں جھگڑیں گےپھر کمزور سرکشوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے پیرو تھے پھر کیا تم ہم سے کچھ بھی آگ دور کر سکتے ہو (۴۷) سرکش کہیں گے ہم تم سبھی اس میں پڑے ہوئے ہیں بے شک الله اپنے بندوں میں فیصلہ کر چکا ہے (۴۸)” (الغافر 48-47)
کیا یہ کہنا عقلی ہے کہ شریعت نے اس کی اجازت دی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے کہا، إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ "جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اسے ہاتھ سے نہ روکیں تو عنقریب اللہ انھیں ایک عذاب میں مبتلا کرے گا” (ترمذی)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کو صدیوں سے ذلیل کیا جاتا رہا ہے۔ اورپھر اس کو کیسے سمجھیں کہ بہترین صحابہ اور رسول اللہ ﷺ کا خالص ترین خاندان جنھوں نے غاصب کے حکم کو نہ توسنا اور نہ ہی اطاعت کی، جیسا کہ عبداللہ بن زبیرؓ اور نبی ﷺ کے نواسے حسین ؓنے کیا؟ بلکہ انھوں نے بغاوت کی اور ان کے خلاف لڑے، ایسا عمل جسے انھوں نے اللہ کے وحی اور شریعت کے دفاع کیلئے بہترین سمجھا۔ ابوبکرؓ کی بات کے بارے میں کیا کہیں، أطيعوني ما أطعت الله فيكم، فإن عصيته فلا طاعة لي عليك "میری اطاعت کرو جب تک میں تم پر اللہ کی اطاعت کروں، اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو میری اطاعت نہ کرنا”، اور عمرؓ کا لوگوں سے یہ کہنا کہ وہ انھیں سیدھا کر دیں اگر وہ ان میں ٹیرھا پن دیکھیں، جب وہ لوگوں کو خلافت کی بیعت دے رہے تھے۔ ایسا اس لیے تھا کہ اسلام کی پہلی نسل دین کو اس کی خالص حالت میں جانتی تھی۔ سلمان الفارسیؓ عمر بن الخطابؓ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ان کے کپڑوں کے بارے میں پوچھا، "آپ نے یہ کہاں سے لیے؟ وگرنہ ہم نہ آپ کو سنیں گے نہ اطاعت کریں گے”۔ ابوذرؓ عثمانؓ کے سامنے کئی مرتبہ کھڑے ہوئے ۔ صحیح مسلم کے مطابق عبداللہ بن عمرؓو نے اپنے بندے اکٹھے کیے، اسلحہ وغیرہ تاکہ طائف میں معاویہ کے والی (ان کے بھائی،عنبسۃ بن ابوسفیان) سے مقابلہ کر سکیں، جب انھیں معلوم ہوا کہ معاویہ ان کے ملکیتی علاقے کو پامال کرناچاہتا ہے۔ خالد بن العاص کو معاملے کا علم ہوا تو مکہ سے طائف سفر کیا۔ پھر وہ عبداللہ بن عمر وبن العاصؓ کے پاس گئے اور انھیں پرامن رہنے اور عنبسۃکے آگے ہتھیار ڈالنے کا کہا، کیونکہ وہ حکمران تھا اور اس کا بھائی سلطان تھا یعنی بااختیار حکمران۔ عبداللہ بن عمرؓو نے جواب دیا، "کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا: مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ "وہ جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے”۔
اس سب کے بعد میں کہتا ہوں کہ اس متنازعہ اضافے کی مضبوطی کو تھوپتے ہوئے وہ بنیاد بھول جاتے ہیں جو کہ عادل مسلم حکمران کی اطاعت کرنا اور اس پر صبر کرنا ہے۔ اگر ہم اس اصولی قاعدے کی عمل کریں، الجمع أولى من الترجيح ” نصوص کو ملاناترجیح سے بہتر ہے” اور إعمال الدليلين أولى من إهمال أحدهما " دو دلائل کی بنیاد پر عمل اس سے بہتر ہے کہ ایک دلیل پر عمل کیا جائے اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے”، تو اس کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے، کسی کی دولت چھیننا ناجائز نہیں اگر قانون کے مطابق ہے، اور پیٹھ پر کوڑے مارنا بھی، اگر یہ ایک سزا ہے، جیسا کہ ابن حزم نے اپنی " الفصل في الملل والأهواء والنحل ” میں کہا۔
جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے حکم کا تعلق ہے کہ مال کے چھینے جانے اور پیٹھ پر کوڑے مارنے پر صبر کرو، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صرف تب ہے جب امام اسے لینے میں حق بجانب ہو اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس پر صبر کرنا چاہیے۔ اگر وہ اسے باطل بنیاد پر لیتا ہے، اللہ نہ کرے کہ ہم یہ سوچیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر صبر کا حکم دیا ہے۔ یہ اللہ کے اس فرمان میں واضح ہے، وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ "اور اچھائی اور نیکی میں تعاون کرو اور گناہ اور برائی میں تعاون مت کرو” (المائدہ 2) یہی معنی ابنِ حبان کی حدیث سے واضح ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے پیٹھ پر کوڑے مارنے پر خاموشی کے حکم کو قانونی تک محدود کر دیا، اگر ایسا معصیت کے حکم کی وجہ سے ہو تو خاموشی نہیں۔ ابنِ حبان سے روایت ہے، عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "اے عبادہ”، میں نے جواب دیا، "حاضر ہوں (یا رسول اللہ)”، آپ ﷺ نے کہا، اسمع وأطع في عسرك ويسرك، ومكرهك وأثرة عليك، وإن أكلوا مالك، وضربوا ظهرك، إلا أن تكون معصية لله بواحًا ” (اپنے حکمران کو) سنو اور اطاعت کرو، آسانی میں اور مشکل میں، نہ چاہتے ہوئے اور جب وہ تمھارے اوپر ترجیح دیں اور جب وہ تمھارا مال کھائیں اور جب تمھاری پیٹھ پر کوڑے ماریں، سوائے اس کے کہ جب وہ تمھیں کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں”۔ اس کا مطلب ہے کہ گناہ میں کوئی اطاعت نہیں۔
یہ الفاظ لا يستنون بسنتي"وہ میری سنت پر نہیں چلیں گے” یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فسق صرف حکمران تک محدود ہے اور نظام تک نہیں جس کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے۔ یہ الفاظ تسمع وتطيع للأمير، وإن ضرب ظهرك، وأخذ مالك "تم اپنے امیر کو سنو اور اطاعت کرو حتی کہ وہ تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمھارا مال چھین لے” اس سوچ سے واضح طور پر ٹکراتے ہیں "اگر وہ تم پر کفر سے حکومت کرے”۔ ایک شخص کو صبر کرنا چاہیے جب حکمران اس کے کچھ حقوق ساقط کر دے اور معاف کرنا چاہیے جب کچھ معاملہ اس کے حق میں نہ آئے جیسے اگر حکمران نے فیصلہ کرنے میں جلدی کی اور اس شخص کو اپنے دلائل سامنے رکھنے اور اچھی طرح دفاع کا موقع نہ دیا۔ اس معاملے میں ہم اسے صبر کرنے اور اطاعت کرنے کا کہیں گے۔ لیکن ہمیں یہ قابلِ قبول نہیں کہ ہم چپ رہیں جب ہم حکمران کو اللہ کی شریعت کو معطل کرتا دیکھیں، اللہ کے دشمنوں سے حلیف بنتا اور کفر کے نظام سے حکومت کرتا دیکھیں۔ حدیث کے الفاظ میں یہ شامل نہیں اور اس کا یہ مطلب بالکل نہیں۔
دیگر نے اس کی تشریح ایک فرد کے صبر کے معنی میں کی ہے، نہ کہ امت کے صبر کے معنی میں ۔
خلاصہ یہ کہ حدیث، وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك "اگر وہ تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمھارا مال چھین لے” دونوں متن اور سند کے اعتبار سے رد ہے۔ اسے سرکاری علماء نے حکمران کی اطاعت، اس کے اقتدار کی مضبوطی اور طوالت، شہریوں کو امت کے احیاء سے روکنے اور حالات کو تبدیل کرنے کی سوچ سے دور رکھنے کیلئے استعمال کیا۔ انھوں نے اس حدیث کی غلط سمجھ سے شریعت کے قوانین بنائے، حکمرانوں پر فیصلہ سنانے کی بجائے امت پر فیصلہ سنا دیا۔ جبکہ اللہ کی شریعت امت اور حکمران دونوں پر فیصلہ سنانے کیلئے ہے۔ یہ سب خواہشات پر چلنے والے لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ دیگر واضح اور صریح شرعی دلائل میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔ شروع اور آخر کے تمام معاملات اللہ ہی کے ہیں۔
ختم شد
اگرپاکستان کی 50 فیصد برآمدات ترقی یافتہ ممالک پر منحصر ہیں، جن کے متعلق یہ توقع ہے کہ وہ کساد بازاری کا شکار ہونے جا رہے ہیں اور ان کی معیشت سکڑنے کا امکان ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات کی کاروباری لاگت بھی بڑھ گئی ہے تو ہم کس طرح ڈالرز کما سکیں گے جبکہ ہمارے تعلیم یافتہ وزراء، رضا باقر اور حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کو تین سال میں قرضے کی ادائیگی کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے؟ یا پھر کھیل مزید گھناؤنا ہے کہ جان بوجھ کر ملک کی صنعتی بنیادیں کو قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاکہ مہنگی صنعتی اشیا درآمد کی جاتی رہیں اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکے یوں ہم ہمیشہ آئی ایم ایف پر انحصار کرتے رہیں؟ یا تو ہمارے دونوں تعلیم یافتہ معیشت دان بیوقوف ہیں یا یہ پاکستان کی بجائے آئی ایم ایف کے "اکنامک ہِٹ مین” ہیں۔
ختم شد