اسلامی سرزمین پر موجود یہودی وجود )اسرائیل( ایک غا صبانہ وجودہےایسےغاصبانہ ڈھانچوں کو تسلیم کرنا ، ان سےتعلقات کو نارمل بنانا یا ان سے معاہدے کرنا حرام ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: بلال المہاجر، پاکستان
شریعت کی رُو سے یہودی ریاست بین الاقوامی تعلقات کا ایک منفرد معاملہ ہے۔ گو کہ یہ سچ ہے کہ یہودی ریاست بھی دوسرے کافر استعماری ممالک جیسے امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین اور ہندوستان کی طرح ہے کہ یہ سب کافر ہیں جو اسلامی سرزمین پر قابض ہیں، وہ مسلمانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے اور ان کی حرمتوں کو پامال کرنے سے نہیں چُوکتے، اور اپنی تمام ترگستاخیوں اور تکبر کے ساتھ اسلام کے مخالف ہیں۔ تاہم یہودی ریاست کی ایک اضافی خصوصیت ہے جس نے اسے دوسری اقوام کے مقابلے میں غیرمعمولی یا منفرد بنا دیا ہے، اور اسے کے لیے اضافی ممانعت قائم کردی ہے۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ ریاست مکمل طور پر اسلامی سرزمین پر واقع ہےاور یہ اس اسلامی سرزمین کے بغیر یا اس پر قبضے کے بغیر اپنا وجودقائم نہیں رکھ سکتی۔ اس کے نتیجے میں اس طرح کی کسی بھی ریاست کےساتھ کسی قسم کے بین الاقوامی تعلقات رکھنا یا لین دین کرنا انہیں وہ قانونی حیثیت دے دے گا جسے شریعت میں مردود اور حرام قرار دیا گیا ہے۔
جہاں تک یہودی ریاست ‘اسرائیل’ کی اضافی خصوصیت کا تعلق ہے، جس نے فلسطین کی بابرکت سرزمین پر قبضہ کیا ہے، اس کا وجود فلسطین کی سرزمین پر قبضے کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ بھارت جیسی خودمختار ریاست کی طرح نہیں جو کشمیر پر قبضے یا اس کے بغیر بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ نہ ہی یہ چین کی طرح ایک ریاست کے طور پر موجود ہے چاہے وہ مشرقی ترکستان پر قابض رہے یا نہیں۔ نہ ہی یہ روس کی طرح ہے جو ایک ریاست کی حیثیت سے موجود ہے چاہے اس نے چیچنیا ، قفقاز اور کریمیا پر قبضہ کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ اس کے برعکس ، فلسطین کے بغیر کسی یہودی ریاست کا وجود نہیں ہے۔ لہٰذا، اس کے ساتھ کوئی رابطہ یا رشتہ رکھنا اس کے وجود یا اس کے جواز کو تسلیم کرنا شریعت کے مطابق حرام ہے۔جہاں تک یہودی وجود کی بات ہے تو دوسری حربی فعلی کفار ریاستیں ، جیسے امریکہ، ہندوستان، چین، برطانیہ، فرانس اور روس ہیں، تو ان کے بارے میں یہ واضح ہے کہ اصل میں لڑنے والے کفار کے ساتھ تعلق جنگ کا ہی ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑی اور اسلامی سرزمین پر قبضہ کیا، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ، وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً "اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں” (سورۃ التوبہ 9:36)، اور اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً "اے اہلِ ایمان! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) دیکھیں”(سورۃ التوبہ 9:123)۔ اسلامی سرزمین پر قبضہ کرنے والی طاقت کا مقابلہ ہونا چاہیے اور انہیں ان علاقوں سے بےدخل کرنا ہوگا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ "اور قتل کرو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا” (سورہ البقرۃ 191: 2)، اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مزید فرمایا، وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلا عُدْوَانَ إِلا عَلَى الظَّالِمِينَ ” اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا جب تک کہ فساد نابود ہوجائے اور دین اللہ ہی کا رائج ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے)” (سورۃ البقرۃ 2:193)۔ کسی بھی فعال جنگی ریاست کے ساتھ عارضی جنگ بندی سے پہلے کوئی معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے کسی بھی شہری کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا جب تک وہ اللہ کے کلام کو سننے کے لیے نہ آئے یا مسلم سرزمین میں رہنے کے لیے ذمی بن کر نہ آئے۔ یہ اس جارح ریاست کے برعکس ہے جو کسی ایسی ریاست کی طرح سرگرم عمل نہ ہوجو عملاً مسلمانوں سے لڑ رہی ہو۔ اس صورت میں ان کے ساتھ تجارتی معاہدے، اچھے ہمسایہ اور دوسرے تعلقات رکھنے کی اجازت ہے۔ ایسی صورتحال میں ان کےشہریوں کو تجارت، سیروسیاحت اور دیگر امور کے لیے اسلامی ریاست میں داخل ہونے کے لیے تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔
جنگ کی پالیسیوں اور طاقت کے توازن سے متعلق وجوہات کی بنا پرکسی ایسی ریاست، جو مسلمانوں کے ساتھ عملی طور پرجنگ کی حالت میں ہے، کے ساتھ عارضی طور پر صلح یا جنگ بندی کی اجازت ہے، جب ایسا کرنا مسلمانوں کے مفاد کے لیے ضروری ہو ۔ تاہم ، یہودی ریاست کے ساتھ اس اجازت نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین پر اس کے قبضے کے جواز کو تسلیم کیا جائے ، جو حرام ہے۔
لہٰذا، مغرب نے کئی دہائیوں سے اپنے منصوبوں اور اپنے ایجنٹ حکمرانوں، مفکرین اور سیاستدانوں جیسے آلہ کاروں کے ذریعے، عالم اسلام کو اس کے پہلو میں موجود غیر ملکی وجود اور مہلک کینسر کو قبول کرنے کے لئے ، مختلف بہانوں اور جواز کے تحت مسلسل کوششیں کیں جس میں سب سے تازہ ایران جیسے فرضی دشمن کو چیلنج کرنا شامل ہے۔ حکمران اور مغربی پیروکار فلسطین کی بابرکت سرزمین کو غصب کرنے والی ریاست سے تعلق کو معمول پر لانے اور قبول کرنے کی طرف مسلمانوں، اداروں اور تحریکوں کو آگے بڑھانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ وہ فلسطین کی بابرکت سرزمین پر قبضہ کے مکمل خاتمے کے تمام ذکر کو سیاسی منظر نامے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی جگہ انہوں نے ‘بقائے باہمی’peaceful co-existance اور ‘موجودہ صورتحال اور اسٹیٹس کوstatus quoکو قبول کرنے’کی اصطلاح روشناس کرائی گویا کہ فلسطین کی سرزمین پرقبضہ ہونا اللہ کا حکم ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ اگر یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور انہیں نارمل بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ انتہائی مجرمانہ عمل ہوگا کیونکہ یہ فلسطین کے معاملے میں حرام بھی ہے اور خطرناک بھی ہے۔ فلسطین پر قبضہ کو نارمل بنا کے قبول کروانا قابض یہودیوں کی سب سے بڑی خواہش ہے ، کیونکہ فلسطین میں یہودی ریاست کا وجود پیدا کرنے کا مقصد امت مسلمہ کے پہلو میں ایک زہرآلود خنجر اور مہلک کینسرکو وجود میں لانا تھا جو امت مسلمہ کو دوبارہ یکجا ہونے سے روکے، اس کی حمایت کو توڑے اور استعمار سے آزادی کو مشکل بنائے۔ مغرب چاہتا ہے کہ یہودی ریاست اسلامی دنیا کے وسط میں اس کے لئے پیشگی اڈہ بنے رہے، تاکہ یہ ریاست اس وقت مغرب کے لیے لانچنگ پیڈlaunching padکا کام کرے جب امت استعمار سے اصلی آزادی حاصل کی طرف آگے بڑھنے لگے۔
فلسطین سے متعلق استعمار کے منصوبے یہودی ریاست کو مستحکم کرنے اور فلسطین پر اس کے تسلط کوقائم کرنے کے لئے تھے۔ اور یہ راستہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی تشکیل، اور پھر اس میں سے نکلنےوالی فلسطینی اتھارٹی، کے ذریعے ہموار کیا گیا ، اس تنظیم اور فلسطینی اتھارٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ایسا کر کے مسلمانوں کو بائی پاس کر دیا جائے اور اس تنظیم اور اتھارٹی کے لوگ فلسطین کے مسئلے میں واحد نمائندہ بن جائیں ، اور یہ امر یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو ، اور امن اور غداری پر مبنی غیر شرعی معاہدوں کے ذریعے یہودی ریاست کی موجودگی کو استحکام بخشا جا سکے ۔لیکن استعماری طاقتوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہ معاملہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا ، جب تک عرب اور مسلم ممالک کی حکومتیں اور تنظیمیں اس میں حصہ نہیں لیں گی۔ اس لیے استعمار نے یہودی ریاست کو قانونی حیثیت دینے، اس کے ساتھ غداری پر مبنی معاہدے کرنے کے لیے ان حکومتوں اور تنظیموں کو بھی اس میں شریک کیاا ور فلسطین اوررسولﷺ کے مقام اسراء سے محبت کرنے والے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، اور فلسطین اتھارٹی، نے امن اور اسرائیل کے ساتھ بقائےباہمی کو قبول کر لیا ہے اور اب یہ باقی مسلمانوں پر ہے کہ وہ بھی اس چیز کو قبول کر لیں جسے ان لوگوں نے قبول کیا ہے۔ اور اس طرح عالمِ اسلام یہودیوں کےڈراموں، چالوں، سازشوں اور شر انگیزی کی جگہ بن گیا ، استعمارنے اپنے تسلط کوجاری رکھنے اور کفر کو مستحکم کرنے کے لئے یہودی وجود کے ذریعےمسلمانوں میں فساد پھیلایا اور ان پراپنے حکمران مقرر کیے۔
مزید یہ کہ دونوں ممالک، مصر اور اردن، یہودیوں کے لیے ایک پل بن گئے جس کو یہودی باقی اسلامی سرزمینوں کی نگرانی کے لیے جب چاہے عبور کرلیتا ہے۔ جہاں تک مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی معاشی حالت کا تعلق ہے ، توجب سے اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں ، اس وقت سے لے کر اب تک بے روزگاری کی شرح 50فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ زندگی گزارنے کی قیمت بھی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ یہ خطہ دنیا کا چوتھا مہنگا ترین رہائشی خطہ بن گیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ نقصان پہچانےوالے حکمران ہیں جو لوگوں کو کچھ دینے سے اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں، جس کی گواہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فرمان میں دی ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا (51) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (52) أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا (53)، ” بھلا تم نے ان لوگوں (یہود)کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے رستے پر ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے تو تم اس کا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے ۔ کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے تو لوگوں کو کھجور کی گٹھلی کے برابر بھی نہ دیں گے ” ( سورۃالنساء 53-51 )۔ استعمار کے منصوبوں میں تعلقات کو نارمل بنانے کی اتنی اہمیت اس لیے ہے کہ اس طرح استعمار عالمِ اسلام میں فساد اور شر انگیزی کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ یہ فلسطین کی بابرکت سرزمین پر قبضہ مستحکم کرنے کے منصوبے کا ایک ستون ہے۔ تعلقات کو نارمل بنانے کو مسئلہ فلسطین کے تابوت میں کیل ٹھوکنے کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ اور اسی لیے شریعت کی رُو سے ان تعلقات کو معمول کے مطابق بنانا حرام ہے کیونکہ اس کا مطلب اس غیر قانونی قبضے کے جواز کو تسلیم کرنا ہے۔یہودی ریاست کے ساتھ تعلق کو معمول بنانے کا جواز پیش کرنے کے لیے عرب اور مسلمان حکمران اپنے لوگوں میں جھوٹ اور غلط فہمی پھیلاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خطے میں معاشی مفادات اور سیاسی استحکام تعلقات کو معمول بنا کر ہی حاصل ہو گا۔ یہ دعویٰ جھوٹ اور گمراہ کن ہے۔ کسی بھی قابض ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول بنانے کی اجازت نہیں ہے اور یہودی ریاست کے معاملے میں تو اور بھی زیادہ سختی سے ممنوع ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ حرام میں مسلمانوں کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے ، خواہ کوئی بھی یہ سوچے یا سمجھے کہ اس میں کچھ فائدہ ہے۔مزید یہ کہ حقیقت اس دعوے سے متصادم ہے۔ کہاں ہے وہ معاشی خوشحالی جس کا کوئی فائدہ مصر کو ہوا ہو جب 1978 میں اس نے کیمپ ڈیوڈ میں یہودی ریاست کے ساتھ تعلق کو معمول بنانے کے معاہدے کیےتھے؟ کہاں ہے وہ معاشی خوشحالی جس کا کوئی فائدہ اردن کو ہوا ہو جب 1994 میں اس نے وادی العربہ معاہدہ پر دستخط کیے تھے؟ 1993 میں جب سے پی ایل او نے، سب سے بڑے غدار یاسر عرفات کی سربراہی میں، اوسلو معاہدوں پر دستخط کیے تب سے لے کر اب تک فلسطین کے عوام کو معاشی خوشحالی کا جو فائدہ ہوا وہ کہاں ہے؟ تعلقات کو معمول بنانے کے ان معاہدوں پر دستخط کے بعد سے مصر اور اردن کی حیثیت اب صرف یہودی ریاست کی حفاظت کرنے والے محافظوں اور ان کے لیے سیاحتی اور بدکاری کے مواقع دینے والے مقامات میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اورانہیں کوئی معاشی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے بجائے، مصر اور اردن نے یہودیوں کی سلامتی کو برقرار رکھنے اور یہودی سیاحوں کی حفاظت کے لئے اپنی ہی معیشت سے خرچ کرنا شروع کیا، جو ان کی ہی سرزمین پر ہر طرح کے گناہوں کا ارتکاب کرنے کےلیے آتے ہیں۔
جہاں تک اس دعوی کا تعلق ہے کہ یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے خطہ سیاسی استحکام حاصل کرے گا، یہ بھی ایک گمراہی ہے کیونکہ یہودی ریاست بالکل ہندوستان کی طرح ہے جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی دشمنی ہے۔ اس کی شہادت بھی رب العالمین نے اپنے ارشاد میں دی ہے، لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا” تم پاؤ گے سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن ،یہودیوں کو اور مشرکوں کو” (سورۃ المائدہ5:82)۔ جو بھی اس معاملے پر پورا اترتا ہے وہ صرف زمین پر فساد پھیلا سکتا ہے اور اہل ایمان کے خلاف سازش کرسکتا ہے۔ یہی کام ہندو ریاست کشمیر میں مستقل طور پر فساد پھیلا کر اور افغانستان اور پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے ذریعے کرتی ہے۔ یہودی ریاست بھی اسی طرح ہی ہے، جو ان عرب حکمرانوں کے ساتھ اپنے معاہدے کا احترام نہیں کرتی جو اس سے اپنے تعلق کو معمول کے مطابق بنانا چاہتے ہیں اور عراق ، تیونس ، خلیج اور دیگر خطوں میں بہت سارے مخلص لوگوں، علمائے کرام اور ماہرین کو قتل کروا دیتی ہے۔ اس نے یہ ساری مجرمانہ حرکتیں کیں، جبکہ یہ خطے میں ابھی زیادہ قابل بھی نہیں تھی۔ تو یہ یہودی ریاست پاکستان کے فوجی سائنسدانوں اور ماہرین اور جوہری طاقت کے ساتھ کیا کرے گی اگر اس کو تعلقات کو معمول بنانے کے نام پر مزید دخل اندازبنا دیا گیا؟
شریعت کے مطابق مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہ ہے کہ کسی سودے بازی، مذاکرات یا امن عمل کے بغیر فلسطین کو مکمل طور پر قبضے سے آزاد کروایا جائے۔ غاصبوں کے ساتھ صلح کے معاہدے کرنا یا ان کے اور مسلمانوں کے مابین علاقوں کو تقسیم کرنا حرام ہے۔ ہر انچ زمین کو اسلام اور مسلمانوں کی تحویل میں واپس لانا ہوگا۔ فلسطین اسلام کی خراجی سرزمین ہے، جسے امت کے فاروق حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کھولا تھا۔ پھر اسے بہادر کمانڈر صلاح الدین ایوبیؒ نے آزاد کرایا تھا۔ اس کے بعد اسے اسلامی خلافت نے بہت سے ادوار میں محفوظ رکھا۔ فلسطین ہزاروں شہداء اور ہیروز کے خون سے سیراب ہوا جنھوں نے اس کو فتح کرنے، آزاد کرانے اور اسے محفوظ رکھنے میں حصہ لیا۔ یہ قیامت تک امت اسلامیہ کی گردن پرایک امانت ہے اور امت نے اسے لازمی طور یہودی قبضے کی غلاظت سے آزاد کرا نے کا اعزاز حاصل کرنا ہے۔
لہٰذا یہ عالم اسلام کے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ قابض یہودیوں سےتعلقات معمول پر لانے کی تمام کوششوں کے خلاف جدوجہد کریں اور یہودی ریاست کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات استوار کرنے کی تمام کوششوں کو چیلنج کریں ۔ مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی افواج کو پکاریں اوران کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کی نجاست سے آزاد اور عالم اسلام کو ان کےشر سے نجات دلوائیں۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ عرب اور مسلم حکمرانوں کی قیادت میں یہ کامیابی حاصل ہو جو یہودیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دوڑے جاتےہیں۔ یہ کامیابی صرف نبوت کے طریقہ کار پر دوبارہ قائم ہونے والی دوسری خلافتِ راشدہ کی قیادت میں ہی حاصل ہوگی۔ حزب التحریر بھی اسی کے قیام کے لیے کام کررہی ہے جس کی پیشنگوئی رسول اللہﷺ نے اپنی بشارت میں کی تھی۔ مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیےتمام اسلامی افواج کے مخلص افسران کو نصرت (عسکری مدد) کے لئے پکاریں، جس کے بعد خلافت فلسطین، کشمیر اور بقیہ مقبوضہ اسلامی سرزمینوں کو رسول اللہﷺ کی حدیث میں پیشنگوئی کے مطابق آزاد کرانے کے لئے مسلم فوجوں کو متحرک کرے گی۔ لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ . إِلاَّ الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ” تم (یعنی مسلمان) یہودیوں سے لڑو گے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے۔ تو وہ پتھریا درخت کہیں گے کہ اے عبد اللہ (یعنی اللہ کے غلام)! میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے۔ تم اسے مار ڈالو ”(مسلم)
ختم شد