اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی سے محبت اور کفرکی حکمرانی سے نفرت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مصعب عمیر، پاکستان
عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، «خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ» "تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعائیں کرو اور وہ تمہارے لیے دعائیں کریں اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں” (مسلم)۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نیک بندوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے نفاذ کی چاہت رکھیں اور کفر کی حکمرانی سے نفرت کریں۔ جو شخص اس نعمت کو پا لے، تو وہ خلوص کے ساتھ مسلم امت کی نگہبانی کرتا ہے اور اس امت کے دین کے ساتھ تعلق کی حفاظت کرتا ہے۔ وہی سیاستدان امت کی نگہبانی کرے گا جو لوگوں کے ساتھ مخلص ہو اور عالم اسلام کی اندھیروں سے روشنی کی طرف رہنمائی کرے ایک ایسی حالت میں کہ وہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے نفاذ سے محروم ہو۔
مخلص سیاستدان حکمران کے سطحی بیانات اور کھوکھلے اسلامی نعروں سے دھوکہ نہیں کھاتے ۔ منافق حکمران سطحی بیانات اور کھوکھلے اسلامی نعروں کو اس لیے استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنی کفر کی بنیاد پر ہونے والی حکمرانی پر پردہ ڈال سکیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کےذریعے چلتی ہے۔ مخلص سیاست دان حکمرانوں کو فائدہ-نقصان یا خواہشات کی بنیاد پرنہیں بلکہ اسلام کے احکامات کے پیمانے سے پرکھتے ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ حکمرانوں کا احتساب صرف ان کے قرآن وسنت کے نفاذ کی پابندی پر کریں گے۔ وہ محض یہ کہہ کر مطمئن نہیں ہوجائیں گے کہ اردوان محمد بن سلمان سے بہتر ہے، یا عمران خان نواز شریف سے بہتر ہے۔ نہیں، بلکہ وہ اسلام کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کریں گے اور اس سے کم کسی بھی چیز کو حکمرانی میں خیانت سمجھیں گے۔ مخلص سیاست دان وہ ہے کہ جسے حکمرانوں کا اسلام کے کسی ایک پہلو کے نفاذ کو معطل رکھنا ایسا ہی معلوم ہو جیسا کہ امام مغرب کی نماز میں ایک ہی رکعت ادا کرے اور اسی کو کافی سمجھے۔ کسی ایک حکم کو بھی معطل رکھنا الله سبحانہ وتعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی ہے جس میں اللہ کے نازل کردہ تمام احکامات کے نفاذ کو فرض قرار دیا گیا ۔ ابنِ عباس ؓ نے اللہ کے خطاب،﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَـفِرُونَ﴾ "جو اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں”(سورة المائدة: 44) کی تفسیر میں بیان کیا کہ ، "جو اللہ کے نازل کردہ حکم کو رد کرے اس نے کفر کیا، اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کو قبول کرے لیکن اس کے مطابق حکمرانی نہ کرے وہ فاسق، ظالم اور گنہگار ہے۔” اور اللہ کے حکم، ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَـسِقُونَ﴾"جو اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں” (سورة المائدة: 47) کا مفہوم ہے کہ جو شخص گمراہی کو ترجیح دےاور حق کو چھوڑ دے وہ فاسق یعنی اللہ کا باغی ہے۔
لہٰذا امت کے امور کی دیکھ بھال کرنے والے سیاستدان یہ جانتے ہیں کہ حکمرانی کے معاملات میں اللہ کی نافرمانی کرنا حکمران کا ظلم ہے۔ امت کے سیاستدان حکمران کے اسلام کے بجائے سرمایہ دارانہ معیشت کے نفاذ پرغضب ناک ہوتے ہیں۔ ان کو حکمران کا سود اور غیر شرعی ٹیکسز (انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس وغیرہ ) کا نفاذ غصہ دلاتا ہے۔ اسی طرح وہ حکمران کی جانب سے عوامی ملکیت کی اشیاء کی نجکاری کرنے، جو برخلاف سنت ہے، پر غضب ناک ہوتے ہیں۔ جب حکمران کفار کے ساتھ اتحاد کرے، مظلوم مسلمانوں سے پیٹھ پھیرے اور مسلم سرزمینوں پر قبضے کو قبول کرے، تو مخلص سیاستدان مشتعل اور بے چین ہو جاتے ہیں۔ وہ ان حالات کو بدلنے کی کوشش میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حالات الله سبحانہ وتعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔
مخلص لوگ کفر کی حکمرانی پر بے چین رہیں گے اگرچہ وہ خود مالی لحاظ سے تنگ نہ بھی ہوں۔ وہ کبھی کفر کی حکمرانی کو پسند نہیں کریں گے، چاہے حکمران انہیں ہر سہولت پیش کرے۔ وہ کبھی اس چیز کوپسند نہیں کریں گے جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺ نے منع فرمایا۔ وہ کیوں کر اس ظالم حکمران کو پسند کرسکتے ہیں جو کائنات کے خالق کی نافرمانی کرے، اور جس شخص کو الله پسند نہ کرے؟ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ((أَرْبَعَةٌ يَبْغُضُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْبَيَّاعُ الْحَلَّافُ وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ وَالشَّيْخُ الزَّانِي وَالْإِمَامُ الْجَائِرُ)) "چار طرح کے لوگ ہیں جن سے اللہ بغض رکھتا ہے: قسمیں کھانے والا تاجر، گھمنڈی فقیر، بوڑھا زانی، ظالم حکمران” (النسائی) ۔ سلمان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ((ثَلاثَةٌ لا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ الشَّيْخُ الزَّانِي وَالإِمَامُ الْكَذَّابُ وَالْعَائِلُ الْمَزْهُوُّ)) "تین طرح کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے: بوڑھا زنا کار، جھوٹا حکمران اور گھمنڈی فقیر“ (مسند البزار)۔ لہٰذا وہ سیاستدان اسلام کے مکمل نفاذ سے کم ہر چیز کو اتنا ہی برا جانیں گے جتنا کہ جھوٹے وعدے، گھمنڈ اور زنا کو برا جانتے ہیں۔
مخلص سیاستدان سمجھتے ہیں کہ حکمران کی طرف بغیر کسی جھکاؤ کے اس کی جانب سے ہونے والےظلم کو واضح الفاظ میں مسترد کرنا چاہیئے ۔ وہ نہ حیلے بناتے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کے بہکاوے میں آتے ہیں۔ وہ ظلم کو دو ٹوک مسترد کرتے ہیں اور دوسروں کو اس گناہ سے خبردار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ گناہ ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے۔ کعب بن عجرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ((إِنَّهُ سَتَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ مَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ وَلَيْسَ بِوَارِدٍ عَلَىَّ الْحَوْضَ وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَارِدٌ عَلَىَّ الْحَوْضَ)) ”میرے بعد کچھ ایسے حکمران ہوں گے، جو ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ ہی وہ (قیامت کے دن) میرے پاس حوض پر آ سکے گا۔ اور جس نے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہیں کی اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے پاس حوض پر آئے گا“ (نسائی)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی مبارک قربت اور حوض کوثر کی نعمت کی دوری سے محفوظ فرمائے۔
مخلص سیاستدان نہ ہی حکمران کی چاپلوسی کریں گے، نہ تعریف اور نہ ہی اس کو رعایت دیں گے اگر وہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق حکمرانی نہ کرے۔ وہ ایسے حکمرانوں کو مسلم امت کے موجودہ حالات میں «رويبضة» ہی گردانیں گے جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ہمیں خبردار کیا۔ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،((سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ الرَّجُلُ التَّافِهُ يتكلم فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ)) "مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانے میں «رويبضة» بات کرے گا، آپ ﷺ سے سوال کیا گیا: «رويبضة» کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا” (ابن ماجہ)۔ لہٰذا «رويبضة» کی خوشامد اور ان کی تعریف کرنا الله کے نیک بندوں کا کام نہیں۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کی نافرمانی پر کی جانے والی حکمرانی سے نہ تو کسی بھلائی کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے لیے کوئی فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے دل «رويبضة» کو برطرف کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
بے شک لوگوں پر حکمرانی کرنا ایک عبادت ہے اور ہمارا میلان اس طرف ہونا چاہیے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ حکمرانی مکمل اور احسن انداز میں ہو ،جس طرح ہم نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی پابندی کرتے ہیں۔ ہم اس دور میں کفریہ نظام کے اندھیرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ الله کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکمرانی کی محبت ہی ہے جو ہمیں کفر کی حکمرانی سے نجات حاصل کرنے کی راہ پر گامزن کرے گی۔ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے جس پر چلنے کی چاہت ہی ہمیں طعنے، الزامات اور مشکلات کے باوجود اسلامی زندگی کے احیاء کی راہ پر گامزن رکھے گی۔ یہ چاہت ہے اللہ کے زمین پر سایہ رحمت کی، ایک صالح امام کی، جو ہمیں نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی راہ پر گامزن رکھے۔
داعیان خلافت اپنی کوششوں میں ثابت قدم ہیں ۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالی نے عادل حکمران پر اپنی رحمت اور انعام کا وعدہ فرمایا ہے۔ ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ((سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ إِمَامٌ عَادِلٌ)) "سات طرح کے لوگ ہوں گے، جن کو اللہ اس دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں سے ایک) انصاف کرنے والا حکمران ہے” (بخاری)۔ تو اگرچہ عالم اسلام مفاد پرست حکمرانوں سے جکڑا ہوا ہے جو کفریہ قوانین سے حکمرانی کرتے ہیں، لیکن داعیان خلافت رکیں گے نہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ دنیا کس پر چل رہی ہے، بلکہ وہ یہ دیکھیں گے کہ اللہ نے کیا حکم دیا ہے۔ حتیٰ کہ اس تاریکی میں جب کفر کی حکمرانی ہو، داعیان خلافت کی آنکھیں اس روشنی (احکامات) کو ڈھونڈیں گے جن کو خلیفہ راشد نافذ کرے گا اور جس کا ہر عمل قرآن وسنت کے مطابق حکمرانی کا نمونہ ہو۔
مخلص سیاستدان ایسے حکمرانوں کے خواہشمند ہوتے ہیں جو الله کے سچے اولیاء ہوں اور چاہیں گے کہ ان کی حکومت الله سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی فرمانبرداری میں ہو۔ ایسے حکمرانوں کے لئے ہی امید رکھنی چاہئے اور انہیں ہی اقتدار میں لانے کی چاہت اور کوشش ہونی چاہئے۔ بے شک اللہ کے بندوں سے محبت، ان کے اللہ پر ایمان اور اس کی فرمانبرداری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ الله سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، ((أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ)) "بے شک، اللہ کے دوستوں کیلئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے” (يونس: 62)۔ مخلص سیاستدان ان حکمرانوں سے محبت کرتے ہیں جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے ڈرتے ہیں، اور ہر قسم کی برائی اور گناہ سے دور رہتے ہیں، جن کا لوگوں پر حکمرانی کے دوران پیش آنے کا امکان ہو۔ ہمیں ان حکمرانوں کی خواہش رکھنی چاہئے جو اللہ سے محبت کریں اور اس کے بتائے ہوئے صالح اعمال کریں، جیسا کہ مظلوموں کی پکار کا جواب دینا، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروانا، اسلام کے پھیلاؤ کے لئے نئے علاقوں کو مسخر کرنا یہاں تک کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا دین پوری دنیا پر غالب آجائے۔
تو کفر کی حکمرانی میں گزرنے والا ہر ایک دن داعیان خلافت اور اہل قوت میں ایک جذبہ بیدار کرے۔ انہیں کفر کی حکمرانی سے تکلیف محسوس ہو اور وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکمرانی کی چاہت رکھیں۔ وہ کوشش کرتے رہیں یہاں تک کہ انہیں خلیفہ راشد کی بیعت کا شرف حاصل ہو، وہ خلیفہ جو اللہ کے احکامات کے مطابق ایک ڈھال کی مانند مسلم امت کی حفاظت کرے۔ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا، ((إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَلَ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرٌ وَإِنْ يَأْمُرْ بِغَيْرِهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ)) "بےشک، امام (خلیفہ) ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور جس سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرے اور انصاف کرے، تو جزا پائے گا۔ اور اگر وہ کسی (برائی) کا حکم دے، تو اس کا وبال اسی پر ہوگا” (مسلم)۔
ختم شد