بھارت کی خلائی تحقیق کے ادارے (آئی-ایس-آر-او) نے 17 ستمبر 2019 کو ملکی اور بیرونی بھارتیوں کو…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: عثمان عادل، پاکستان
بھارت کی خلائی تحقیق کے ادارے (آئی-ایس-آر-او) نے 17 ستمبر 2019 کو ملکی اور بیرونی بھارتیوں کو ان کی حمایت پر شکریہ ادا کیا ،جب چاند پر جانے والے دوسرے مشن میں بھارت کےخلائی جہاز (چاندریاں-دو نامی لینڈر) کا چاند پر اترنے سے چند منٹ پہلے خلائی ایجنسی سے رابطہ منقطع ہوگیا ۔ اس واقعہ پر پاکستان میں بھارت کے خلائی مشن کی ناکامی کے متعلق بڑے پیمانے پر گفتگو شروع ہو گئی۔ بھارتی مشن کے متعلق یہ بحث اس وقت چھڑی کہ جب کشمیر کے معاملے پر پاکستان-بھارت کشیدگی عروج پر تھی ۔
چاند پر اترنے والی سب سے پہلی غیر انسانی (unmanned) کاوش امریکہ نے ستمبر 1959 میں کی جس کو دیکھتے ہوئے سوویت روس نے بھی اگلے مہینے یہ ہدف پورا کرلیا۔ چنانچہ اُس وقت کے ان دو سپر پاورز کے درمیان شروع ہونے والی یہ خلائی دوڑ اگلی کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ درحقیقت واشنگٹن نے ہی سوویت روس کو خلائی برتری کے حصول کی اس دوڑ میں گھسیٹا تاکہ روس کی معیشت کو ناقابلِ برداشت دباؤ میں ڈال کرکے کمزورکیا جائے۔ اشتراکیت کے زوال سے کچھ سالوں پہلے واشنگٹن کا ستاروں کی جنگ (اسٹار وارز) پروگرام میڈیا کی توجہ کا مرکز تھا۔ خلائی ٹیکنالوجی پر امریکہ کی برتری کے خطرے کو بھانپتے ہوئے کہ کہیں امریکہ دفاع کے لئے خلاء میں لیزر یا پارٹیکل بیم (شعاعوں) کے استعمال سے نیوکلیئر میزائل کو ختم کرنے والی ٹیکنالوجی قائم نہ کرلے، روس نے اس خلائی دوڑ میں امریکہ کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ روس کی معیشت کمزور ہوگئی اور پھر افغانستان کے ساتھ طویل جنگ کی وجہ سے مزید برباد ہوگئی۔ جبکہ یہ اسٹار وارز پروگرام حقیقت سے زیادہ ایک میڈیا پروپیگنڈا تھا ، اس پروگرام میں کئی تکنیکی مشکلات تھیں اور اس کی لاگت بہت زیادہ تھی۔
چاند پر اترنے کی کوشش دونوں سپر پاورز کے درمیان ٹیکنالوجی کی دوڑ میں برتری کی علامت تھی۔ آج بھارت بھی چاند پر پہنچنے کی کاوشوں کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنے ملک کی ترقی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ چاند پر اترنے کی کوششوں سے بھارت دنیا کے سامنے اپنے آپ کو چین کے ہم پلّہ ثابت کرنا چاہتا ہے، جس نے 2007 میں چاند پر قدم رکھا۔ ساتھ ہی بھارت اس مشن سے پاکستان کو پیچھے چھوڑنے کا تاثر دنیا چاہتا ہے۔ اس طرح یہ اقدامات امریکی منصوبے کے مطابق ہیں جن کے تحت بھارت کو چین کے سامنے علاقائی طاقت کے طور پر کھڑا کیا جارہا ہے۔ حالانکہ بھارت کا چاند پر قدم رکھنے کا مشن ایک اصل اسٹریٹیجک ہدف کے حصول کے بجائے رسمی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر چہ چائنا چاند پر قدم رکھ چکا ہے اور اس کی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) امریکہ سے بڑھ چکی ہے، لیکن ٹیکناولوجی کے میدان میں وہ امریکہ سے کافی پیچھے ہے۔ چین اپنے جنگی جہازوں کے انجن تک خود بنانے سے قاصر ہے، لہٰذا وہ اس سلسلے میں روس پر انحصار کررہا ہے جبکہ بھارت چین سے بھی پیچھے ہے۔
جو لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو عسکری ترقی کی بجائے صرف سائنس اور جدید علوم پر توجہ دینی چاہیئے، ان کو سمجھنا چاہئیے کہ جنگ عظیم دوئم کے قریب وہ عسکری ترقی ہی تھی جس نے چاند پر قدم رکھنے کی خواہش کو حقیقت میں تبدیل کیا۔ جرمنی کے سائنسدانوں اور انجینئروں نے اس ترقی کی وجہ سے ہی وی-ٹو جیسے لانگ رینج یعنی طویل فاصلے کو پار کرکے ہدف تک پہنچنے والے راکٹ بنائے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ نے اپنے راکٹ پروگرام کے لئے جرمنی کے سائنسدانوں کو حاصل کیا۔ امریکہ نے جرمنی کے راکٹ پروگرام کے خاص معمار (آرکیٹیکٹ) ورنر وان بران Wernher Von Braun کو راضی کرلیا، جس نے سیٹرن فائیو (Saturn V) بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے انسان چاند پر پہنچا۔
خلائی ٹیکنالوجی عسکری اور غیر عسکری سیٹلائٹ اور رابطوں کے ذرائع کے لئے اہم ہے۔ پاکستان کو ٹیکنالوجی، بھاری صنعت اور ان سے منسلک سائنس کے شعبے میں ترقی کی ضرورت ہے تاکہ وہ ٹیکنالوجی، عسکری مشنری اور صنعت کے لئے مغرب پر انحصار سے نکل سکے۔ خود انحصاری کے راستے پر چلنے کے لئے بھاری صنعت کا قیام ناگزیر ہے۔ پاکستان کے پاس طیاروں، بھاری اسلحہ، تیل کے کنوؤیں کھودنے اور کان کنی کے جدید آلات ، ایویانکس، کمپیوٹراور ٹیلی کمیونیکیشن اور جدید طبی مشنری کی تیاری کے لیے Industrial complexموجود ہونا چاہیئے۔ خلائی ٹیکنالوجی فطری انداز میں اس تمام کے ساتھ ہی پروان حاصل کرے گی۔ پاکستان کے پاس پہلے ہی اچھی میزائل ٹیکنالوجی اور قابل لوگ موجود ہیں ۔
اگر پاکستان کے پاس ایک ویژن رکھنے والی قیادت ہو جو اسلام کا مکمل نفاذ کرے، تو پاکستان ٹیکنالوجی اور تحقیق میں بھرپور ترقی کرسکتا ہے۔ ماضی میں خلافت کی شکل میں اسلام مسلمانوں کے عروج کا بنیادی محرک تھا۔ اسلام نے ہی مسلمانوں کو وہ بصیرت دی کہ انہوں نےدعوت اور منظم جہاد کے ذریعے اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلایا۔ ریاست خلافت کا پھیلاؤ ہوا حتیٰ کہ وہ ایک ہزار سال تک عالمی طاقت رہی۔ انشاء الله، وہ ریاست خلافت ہی ہوگی جو اسلام اور مسلمانوں کو دوبارہ اپنے عروج پر لے کر جائے گی۔ الله سبحانه وتعالى نے قرآن کریم میں فرمایا،
((وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ))
"اور ان کیلئے جس حد تک کرسکو فوج اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو، جس سے اللہ کے اور تمہارے ان دشمنوں پر تمہاری ہیبت رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنہیں تم نہیں جانتے ہو ، اللہ انہیں جانتا ہے۔” (سورة الانفال 60)
اور الله سبحانه وتعالى نے فرمایا،
((هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ))
"وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری ادیان پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔”
(سورة التوبة 33)
ختم شد