کسی بھی ملک کا معاشی نظام اس ملک کے بقیہ نظاموں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: محمد ساجد، پاکستان
تعارف
کسی بھی ملک کا معاشی نظام اس ملک کے بقیہ نظاموں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اورایک نظریاتی ریاست کے لیے دنیا پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اقتصادی نظام کو مضبوط رکھنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔اس وقت اگر پوری دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو ایک دو ریاستوں کے علاوہ اس وقت پوری دنیا پر صرف سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے۔لیکن سرمایہ دارانہ نظام آغازسے لے کر اب تک کئی دفعہ اتار چڑھاؤ کا شکا ر رہا ہے۔اس میں کئی ایک مالی بحران آ چکے ہیں جس کے نتیجے میں ان ممالک کی حالت ابتری کا شکار ہوتی رہی ہے کہ جن میں یہ نظام نافذ تھا۔
اقتصادی بحران کا سامنا کرنے والے ملک کی معیشتی پیداوار گر جاتی ہے ،ملازمت کے مواقع کم ہو جاتے ہیں، سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔مالی بحران کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے نمایاںجھٹکا فنانشئل مارکیٹ یعنی اسٹاک ایکسچینج اور بینکوں کو لگتا ہے،اسٹاک مارکیٹ میں کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتیں گر جاتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ گھرمیں بیٹھے بیٹھے غریب ہو جاتے ہیں اوربینکوں کے ڈیفالٹ کرنے کی وجہ سے جن لوگوں نے بینکوں میں پیسہ جمع کروایا ہوتا ہے ان کے پیسے ڈوبنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔جب سے اس دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے تب سے لے کر آج تک سرمایہ دار ممالک کی معیشت "بوم اینڈ بسٹ سائیکل”Boom and bust cycle سے گزرتی رہتی ہے اور ایک خاص وقت کے بعد یہ مالی بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا "بوم اینڈ بسٹ سائیکل” کا شکار ہونے کی وجوہات:
سرمایہ دارانہ نظام کے "بوم اینڈ بسٹ ” کا شکارہونےکو مختصراً چار بنیادی وجوہات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
۱- دوسری جنگ ِعظیم ختم ہونے کے بعد”بریٹن ووڈزسسٹم "(System Woods Bretton) کے ذریعے سونے کو بطورکرنسی ختم کرنے کا آغاز کر دیا گیا اور سونے کے ساتھ ساتھ ڈالر کو بھی ریزرو (Reserve)کرنسی کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور بعد ازاں ستر کی دہائی کے اوائل میں سونے کی جگہ ڈالر کو کرنسی کے نظام کےطور پرمکمل نافذ کر دیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ میں پیدا ہونے والا کوئی بھی بحران عالمی بحران یعنی” گلوبل اکنامک کرائسسں” کی صورت اختیار کرنا شروع ہو گیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ستر کی دہائی تک مکمل طور پر نہ سہی بحر حال جزوی طور پر تمام ممالک کی کرنسی ڈالر سے منسلک ہو چکی تھی اور حقیقت میں ڈالر کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
۲- فنانشئل مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں کسی کمپنی کے” شئیرز "اور ” فنانشئل انسٹرومنٹ "کی خریدوفروخت کے لیے قبضہ منتقل ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ ایک سے دوسرے آدمی حتٰی کہ کئی بار خرید و فروخت ہو چکی ہوتی ہیں جب کہ اشیاء کا قبضہ پہلے مالک کے پاس ہی ہوتا ہے ۔اس طرح کےلین دین کے معاملات کی وجہ سے مارکیٹ غیریقینی صورت حال کا سامنا کرتی ہے اورنتیجتاً لوگو ں کو بہت نقصان ہوتا ہے اور ایسی صورتحال حتمی طور پر ایک مالی بحران کا با عث بنتی ہیں۔
۳-سود کی بنیاد پر جاری کیے جانے والے قرضے بہت زیادہ مالی مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ا کثر اوقات افراد اور ریاستیں قرضہ واپس لوٹانے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سےقرضوں کا ایک بحران جنم لیتا ہے،مالی سرگرمی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس طرح اس کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں کی پروڈکشن میں بھی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
۴- سرمایا دار نہ نظام میں مالی بحران کی ایک اور اہم وجہ ملکیت کے اصول ہیں، جس طرح کمیونزم میں ساری ملکیت ریاستی کنٹرول میں تھی اور یہ ان کے شہریوں کے لئے مسائل کی جڑ بنا ،اسی طرح سرمایا دارانہ نظام میں ساری ملکیت انفرادی لوگوں کے پاس ہے جسکی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام میں "بوم اور بسٹ سائیکل ” چلتا رہتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں فنانشئل سیکٹر (Financial Sector) :
سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت بنیادی طور پر دو” سیکٹرز” پر مشتمل ہوتی ہے ایک”رئیل سیکٹر” جس کو ہم سب محسوس کر سکتے ہیں یعنی کہ فیکٹریوں کالگنا، لوگوں کا ملازمت کرنا،عوام کام مارکیٹ میں جا کر خریدوفروخت کرنا وغیرہ ۔ بنیادی طور پر یہ سیکٹر "رئیل پروڈکشن”کے ساتھ منسلک ہےجبکہ دوسرا سیکٹر”فنانشئل سیکٹر” کہلاتا ہے جس میں "فنانشئل گڈز "کی خریددوفروخت ہوتی ہے اور یہ سیکٹر "رئیل سیکٹر” میں رسک کو کم کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے ہم فنانشئل سیکٹر کو سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں۔اس کے بعد ہم اس چیز کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح اس سیکٹر کی موجودگی” رئیل سیکٹر” کے پیٹھ میں ایک خنجر گھونپنے کے برابر ہے اور اس کے بعد ہم اس چیز کا مطالعہ کریں گے کہ یہ سیکٹر کس طرح پچھلی ایک صدی میں آنے والے بحرانوں کی وجہ بنا۔
فنانشئل سیکٹربنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے:
۱-کمرشل بینک
۲- فنانشئل مارکیٹ
فنانشئل مارکیٹ بنیادی طور پر تین قسم کی ہوتی ہیں :
۱-منی مارکیٹ (Money market) :
یہ وہ مارکیٹ ہے جس میں حکومت اور بڑی کمپنیاں کم عرصے میں یعنی تین ماہ سے ایک سال تک قرضہ لیتی ہیں یہ قرضہ کمرشل ٹی بلز اور سرٹیفیکیٹ آف ڈپازٹ کے ذریعے لیا جاتا ہے۔
۲-کیپٹل مارکیٹ (Capital market) :
یہ وہ مارکیٹ ہے جس میں کمپنیوں کے شیئرز کی خریددوفروخت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے بانڈز کی بھی خریددوفروخت ہوتی ہے ،اس کی مثال پاکستان اسٹاک ایکسچینج یا پھر لاہور اور کراچی اسٹاک ایکسچینج ہے۔
۳- کموڈِٹی مارکیٹ (Commodity market) :
یہ وہ مارکیٹ ہے جس میں چیزوں کا قبضہ منتقل کیے بغیر ان کی خریدوفروخت ہوتی ہے ، اس میں مختلف قسم کی اشیاء کی خریدوفروخت کی جا سکتی ہے ۔ اس کی مثال مستقبل کے معاہدے (Futures contracts) ہیں،جن کے ذریعے مستقبل میں ایک متعین وقت اور خاص قیمت پرلین دین ہوسکتا ہے۔
"فنانشئل سیکٹر "کے "رئیل سیکٹر” پر اثرات :
"فنانشئل مارکیٹ” کی وجہ سے "رئیل مارکیٹ” ذیل میں بیان کیے گئے مختلف طریقوں سے متاثر ہوتی ہے۔
۱-گروتھ میں کمی :
فنانشئل مارکیٹ کی وجہ سے سے کسی بھی ملک کی رئیل مارکیٹ کس طرح متاثر ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ٹوٹل فنانشئل ایسٹس۹۰۰ ٹریلین ڈالر کے ہیں جو کہ دنیا کے "جی ڈی پی” سے دس گناہ زیادہ ہیں یہ۹۰۰ ٹریلین ڈالر صرف فنانشئل انسٹرومنٹ یعنی کاغذی ٹکروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقی ترقی نہیں ہوتی اور دولت صرف چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جاتی ہے۔
۲- رسک :
ایسٹ مارکیٹ (asset market) سٹہ بازی کا ایک گڑھ ہےجس میں لوگ سٹہ بازی کے ذریعے اپنے منافع کوکئی گنابڑھاتے ہیں- جیسا کہ "لے مین برادرز ” جس کا فنانشئل مارکیٹ میں ایک نام تھا ، ۲۰۰۸ ء کے مالی بحران میں اسی مارکیٹ کی وجہ سے اس نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا اور یہ چین ریکشن دوسرے اداروں کے دیوالیہ ہونے کا ذریعہ بنا۔جس کے ذریعے رئیل سیکٹر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جیسا کہ گھروں کی قیمتیں گر جانا اور پینشن فنڈز کا ختم ہو جانا وغیرہ۔
۳- سوشل برڈن :
فنانشئل مارکیٹ کو بنیادی طور پر "رئیل سیکٹر” کو محفوظ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جب کہ اب اس کا کردار اس سے الٹ ہو چکا ہے کیونکہ جس طرح پیسوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اس سیکٹر میں ہےجو کہ "رئیل سیکٹر”کے لیے ایک خنجر سے کم نہیں ہے جیسا کہ ۲۰۰۸ ء کےمالی بحران میں اربوں ڈالران اداروں کو بچانے کے لیے استعمال کیے گئے جس کی قیمت ٹیکسں دہندگان کو چکانی پڑی جبکہ مفاد چند لوگوں کا محفوظ ہوا۔
۴- قیمتوں میں غیر یقینی :
مارکیٹ میں سٹہ بازی کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں ہمیشہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتی ہیں۔ چیزوں کی قیمت میں یہ تبدیلی ڈیمانڈ اور سپلائی کی وجہ سے وقوع پذیر نہیں ہوتی بلکہ چند ذخیرہ اندوزوں کے منافع کمانے کے حرص کی وجہ سے ہوتی ہے۔
۵- اعتمادکا فقدان :
فنانشئل مارکیٹ کی وجہ سے رئیل سیکٹرہمیشہ غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتا ہے اور لوگوں کا رئیل سیکٹرسے اعتماد اٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے رئیل سیکٹرمیں سرمایہ کاری رک جاتی ہے جو کہ معیشت میں سست روی کا سبب بنتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے آنے والے عالمی بحران
فنانشئل مارکیٹ کس طرح انیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر آنے والے معاشی بحرانوں کی وجہ بنی ،اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم انیسویں صدی میں آنے والے عالمی بحرانوں کا مطالعہ کرتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد میں خرابی کی وجہ سے یہ عالمی بحران وقوع پذیر ہوئے اور انہوں نے کس طرح عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل کر دیا۔ انیسویں صدی میں مندرجہ ذیل نمایاں عالمی بحران نے جنم لیا:
۱- "1928” کا گریٹ ڈیپریشن (The Great Depression) :
1920-27 کا عرصہ امریکی تاریخ میں ایک سنہرے دور کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں پہلی جنگ عظیم میں امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو کافی فائدہ ہوا۔امریکہ نے ان ممالک کو اسلحہ بیچنا شروع کر دیا جو پہلے یورپ سے خریدتے تھے۔ امریکہ میں کاروبار پر بہت زیادہ اعتماد کی وجہ سے لوگوں نے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ۔اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی کی وجہ سے ۱۹۲۹ میں”وال سٹریٹ اسٹاک مارکیٹ "کریش کر گئی اور شیئرز کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے ایک ہی دن میں۱۰ سے ۱۵ ارب ڈالرمارکیٹ سے نکل گئے اور شیئرز کی قیمتیں تقریباً ۹۰ فیصد تک گر گئیں۔اس کے نتیجے میں وہ بینک جنہوں نے لوگوں کی سیونگز سے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی ہوئی تھی دیوالیہ ہونا شروع ہو گئے اور تقریباً ۳۰۰۰ بنکوں نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ دو سال کے اندر اندر تقریباً بیس ہزار کمپنیاں دیوالیہ ہو کر بند ہو گئیں ۔بینک اور کمپنیوں کے بند ہونے کی وجہ سے ایک کروڑ پچاس لاکھ لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔
اس معاشی بحران کی وجہ سے لوگوں میں قوتِ خرید (purchasing power) کم ہو گئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں چیزوں کی خریدوفروخت کم ہونا شروع ہو گئی اور فیکٹریاں "اوور پروڈکشن ” کا شکار ہونے لگیں اور اس طرح انہوں نے اپنی "پروڈکشن کپیسٹی” کو کم کرنے کے لیے لوگوں کو ملازمت سے نکالنا شروع کر دیا۔ نتیجتاً ملک میں بے روزگاری مزید بڑھنا شروع ہو گئی۔ یہ صورت حال تقریباً دس سال تک رہی یہاں تک کہ ۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گیا اور امریکہ میں اسلحے کی فیکٹریوں کے کاروبار پھر سے شروع ہو گئے اور لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوا۔اس طرح امریکہ نے دس سال بعد اس معاشی بحران سے نجات پائی۔
۲- (1985) US Savings & Loan :Scandal
امریکہ میں کچھ ادارےایسے بھی تھے جو فنانشل مارکیٹ میں بینک کا درجہ تو نہیں رکھتے تھے لیکن ان کا کام کرنے کا طریقہ بینکوں کی طرح تھا۔ایسے لوگ جن کو ان کی قرضے واپس نہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے بینک قرضہ نہیں دیتے تھے وہ ان کی طرف رجوع کرتے تھے اس طرح ان اداروں کی ڈیمانڈ بڑھتی گئ۔ جب ان اداروں کی تعداد ۴۰۰۰تک پہنچ گئی اور ان کے کل اثاثہ جات تقریباً ۶۰۰ارب ڈالرز تک پہنچ گئے تو ان بینکوں نے ایسی پیچیدہ سودے بازیاں کرنی شروع کر دیں جس کی وجہ سے ایک بحران پیدا ہو گیا اور یہ ادارے دیوالیہ ہونا شروع ہوگئے اور اس معاشی بحران سے نکلنے کے لئے ۱۵۰ بلین ڈالرز کا بیل آوٹ پیکج دیا گیا۔
۳- :The Dot. Come Crash 2000
یہ مالی بحران اس وقت آیا جب ای کامرس کمپنیوں نے سٹاک ایکسچینج پر لسٹ ہونا شروع کر دیا اور لوگوں نے ان کمپنیوں کو ایک نئی ایجاد کے طور پر لیا اور ان کے شیئرز خریدنے شروع کر دیے جبکہ حقیقتاً ان کی وقعت کچھ بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے”نسداک” (NASDAK) اسٹاک ایکسچینج تقریباً ۵۰ فیصد گر گئی اور ۲۰۰۰ءمیں آنے والے اس اسٹاک مارکیٹ کریش میں تقریباً ۸۱ بلین ڈالرز کا نقصان ہوا-
۴- :Subprime Mortgage Crisis 2008
۲۰۰۸ء میں گھروں کی ملکیت حاصل کرنے کے حوالے سے ایک مالی بحران نے جنم لیا جس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ ماضی کے مالی بحرانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسے قوانین تشکیل دیے گئے جس کی وجہ سے ایسے لوگ جن کی "کریڈٹ ریٹنگ” اچھی نہیں تھی ان کو بینکوں نے گھر بنانے اور خریدنے کے لیے قرضے دینے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ایک "سب پرائم مورگیج مارکیٹ "منظر عام پر آئی جو ایسے لوگوں کو زیادہ شرح سود پر قرضے دینے لگی لیکن ایک وقت کے بعد لوگوں کے لیے سودی قرضے کی قسط دینا مشکل ہو گیا جس کی وجہ سے گھروں کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئیں اس طرح وہ لوگ جو قرضے کی قسطیں دے رہے تھے جب ان کو احساس ہوا کہ مارکیٹ میں اس گھر کی کل مالیت بینک کو دی جانےوالی سود ی رقم اور قرض کی ٹوٹل قسطوں سے کم رہ گئی ہے تو انہوں نے وہی گھر بینکوں کو واپس بیچنا شروع کر دیے جس کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہوا۔جس کے نتیجے میں یہ مارکیٹ مکمل طور پر کریش کر گئی۔
اسلام کا حل :
اب ہم بات کرتے ہیں کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں معاشی استحکام کس بنا پر حاصل ہوتا ہے اور کیوں اسلامی نظام سرمایہ دارانہ نظام کے (بوم اینڈ بسٹ سائیکل) سے دوچار نہیں ہوتی،اور آنے والی اسلامی ریاست کس طرح معاشی بحرانوں سے محفوظ رہے گی۔
۱- سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی :
اسلام کرنسی کے لیے سونے اور چاندی کو پیمانہ قرار دیتا ہے ،اسلامی ریاست میں کاغذ کے نوٹ ہو سکتے ہیں مگر وہ سونے اور چاندی کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے معیشت میں استحکام پیدا ہوتا ہے ۔ اسلام ریاست کی کرنسی کو کسی دوسرے ملک کے ساتھ منسلک کرنے سے منع فرماتا ہے۔”بریٹن ووڈز” معاہدے کے نتیجے میں سونے کو کرنسی کی بنیاد سے ہٹا کر جس طرح ڈالر کو پوری دنیا پر مسلط کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر امریکی بحران ایک عالمی بحران کی شکل اختیار کرگیا۔کیونکہ سب ممالک کی کرنسی تقریباً ڈالر کے ساتھ منسلک ہے اور ہر ملک ڈالر کو اپنے خزانے میں ذخیرہ کر کے رکھتا ہے۔ کرنسی کا سونے اور چاندی سے منسلک ہونا فنانشٔل مارکیٹ کے غبارے کو بھی پھولنے نہیں دیتا ۔
۲- سودی بینکوں کی ممانعت :
اللہ رب العزت کی ذات قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ – فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ﴾
"اے ایمان والو !گر تم اللہ سے ڈرتے ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم حقیقت میں مومن ہو۔اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔”(البقرہ: ۲۷۸-۲۷۹)
سودی معیشت سرمایہ دارانہ نظام میں مالی بحران کی اہم وجہ ہے ۔جب اسلامی ریاست اس سودی لین دین کا خاتمہ کرے گی تو اس سے بینکوں میں پڑا ہوا پیسہ "رئیل سیکٹر”کا حصہ بنے گا کاروباری سرگرمی میں اضافہ ہو گا اور روزگار کے مواقع بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک خاص طبقے کے معیشت پر اثرورسوخ میں کمی شروع ہو جا ئے گی۔سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی کی وجہ سے لوگوں کو افراط ِزر کا بھی خطرہ نہیں ہو گا جس کے نتیجہ میں ان کو اپنی”بچتوں”کی قوتِ خرید کم ہونے کا اندیشہ نہیں ہو گا۔اس طرح از خود بینکوں کی ضرورت کم ہو جائے گی۔ البتہ اسلامی ریاست میں ایک علیحدہ محکمہ ہو گا جو غریب ہنر مند افراد کو کاروبار، سروسز اور زراعت کے لیے بلا سودقرضہ دے گا تاکہ ریاستِ خلافت کی معاشی پالیسی کے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔
۳- اسٹاک ایکسچینج اور اسلامی نقطہ نظر :
سرمایہ دارانہ نظام میں اسٹاک ایکسچینج بھی سودی نظام کی طرح کا کردار ادا کرتی ہیں جس میں سٹہ بازی کے ذریعے پیسہ چند ہاتھوں میں گھومتا رہتا ہے۔اسلامی ریاست میں خرید و فروخت کو مندرجہ ذیل پالیسیوں کے تحت ریگولیٹ کیا جائے گا۔
الف- "اسٹاک ایکسچینج” میں ایک چیز ایک ہی جگہ پر موجود ہونے کے باوجود کئی دفعہ بک چکی ہوتی ہے جبکہ اس کا قبضہ نہ تو خریدار کے پاس ہوتا ہے اور نہ ہی بیچنے والے کے پاس۔لیکن اسلامی ریاست میں جب تک کسی کے پاس اشیا کا قبضہ نہیں ہو گا تب تک وہ اس کو بیچ نہیں سکے گا۔کیونکہ ایسی اشیاء جو خریدی تو جا چکی ہیں لیکن ابھی تک ان کا قبضہ منتقل نہیں ہوا،اسلام اس کو بیچنے سے منع فرماتا ہے۔
ب- جس طرح اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازی ہوتی ہے اس طرح کی سٹہ بازی کو مارکیٹ سے روکا جائے گا تا کہ چیزوں کی قیمتوں میں میں مصنوعی اضافے سے روکا جا سکے۔کیونکہ ۲۰۰۸ ءمیں آنے والا”کروڈ آئل” کا بحران اسی وجہ سے تھا۔
ت- چھے اجناس کا آپس میں ایکسچینج دو شرائط کی بنیاد پر ہو گا۔
اول۔ ایک دوسرے کے ساتھ ایکسچینج کی جانے والی اجناس کی مقدار اآپس میں برابر ہو گی ۔
دوم۔ اس کا قبضہ فوری طور پر منتقل کیا جا ئے گا۔
ان چھے اجناس میں سونا،چاندی،گندم،جو،کھجور اور نمک شامل ہیں۔
ث- اسلامی ریاست میں پبلک لیمیٹڈ کمپنی بنانا حرام ہےلہذا ان کے شیئرز کی خریدو فروخت ختم کی جائے گی اور ان کمپنیوں کو اسلام کے احکامات کے مطابق ڈھالا جائے گا۔
۴- اسلام میں ملکیت کے اصول :
اسلام میں ملکیت کے اصول کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام سے بالکل مختلف ہیں۔اسلام ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
۱-ذاتی ملکیت
۲-عوامی ملکیت
۳-ریاستی ملکیت
سرمایہ دارانہ نظام میں غریب اور امیر میں انتہا درجے کے فرق کی اہم وجہ عوامی ملکیت کے بے پناہ ذخائر کا نجی ہاتھوں میں مرکوز ہونا ہے ۔ صحیح حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں:
الناس شرکاء فی ثلاث الماء و الکلاء والنار”مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شراکت دار ہیں آگ،پانی اور چراگاہیں”(ابوداؤد)
لہذا آجکل چند سرمایہ دار کمپنیاں پٹرول،گیس اور بجلی کے ذخائر سے جوبے پناہ فائدہ اٹھا رہی ہیں اسلامی ریاست میں یہ فائدہ عوام کو منتقل ہو جائے گا۔
اختتامیہ :
میرے بھائیو جس طرح آج ہم نے ہم اسلام کے معاشی نظام اور اس کی معاشی پالیسی کی بات کی ہے یہ کوئی خواب نہیں ہے ۔اسلامی ریاست پہلے اس معاشی نظام کو نافذ کر چکی ہے اور اسی کے ذریعےاس کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط معیشت تھی۔اپنی معاشی ترقی کی بنیاد پر برصغیر جو پوری دنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا دنیا کی زراعت کی ۲۵ فیصد ضروریات کو پورا کرتا تھا لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہے۔ عنقریب ایسا پھر ہوکر رہے گا بلکہ اس سے بھی بہتر ہوگا انشاء اللہ !صبح کا انتظار کرنے والا جلد ہی صبح کو طلوع ہوتا دیکھ لے گا ۔
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ َكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
"اور اللہ کو اپنے کام پر پورا اختیار حاصل ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے” (یوسف:۲۱)
ختم شد