سیاسی آگاہی کامطلب سیاسی حالات، عالمی صورتحال سے آگاہی،سیاسی واقعات یاعالمی سیاست یاسیاسی…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیاسی آگاہی کامطلب سیاسی حالات، عالمی صورتحال سے آگاہی،سیاسی واقعات یاعالمی سیاست یاسیاسی کاروائیوں پرنظر رکھنانہیں،اگرچہ یہ اموراس میں کمال حاصل کرنے کیلئے لازم ہیں۔ سیاسی آگاہی دنیاکوایک خاص زاویے سے دیکھنے کوکہتے ہیں، جو ہماری نسبت سے اسلامی عقیدے کازاویہ ہے اوروہ زاویہ یہ ہے: لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ
اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
>> أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا: لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ، فاذا قالو ھا عصموامنی دمائھم وأموالھم الابحقِّھا<<
” مجھے حکم دیاگیاہے کہ میں لوگوں کے ساتھ لڑتارہوں، جب تک کہ وہ یہ کہہ نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، جب وہ یہ کلمہ پڑھ لیں گےتو ان کے جان ومال محفوظ ہوجائیں گے، ماسوائے کہ جو حق ان پر ادا کرنا لازم ہے”
یہی سیاسی شعورہے۔ توکسی خاص زاویے کے بغیر دنیاکودیکھنا سطحی چیز ہے، یہ سیاسی شعور نہیں ہوگا۔ اورعلاقائی یاخطے کی سوچ رکھنا ایک معمولی شے ہے،اس کو سیاسی شعورنہیں کہتے۔ سیاسی شعوراس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ دوعنصراس کے اندرموجود نہ ہوں: ایک، پوری دنیاکونگاہ میں رکھنا اور دوسرا یہ کہ اس نگاہ کاسرچشمہ ایک خاص اورمتعین زاویہ ہو۔ یہ زاویہ کوئی بھی ہوسکتا، چاہے یہ ایک معین آئیڈیالوجی ہویامعین فکر ہویامعین مفاد وغیرہ ہو۔ یہ سیاسی شعور کی حقیقت کے حوالے سے تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ایک مسلمان کی نسبت سے معین زاویہ اسلامی عقیدہ ہی ہے۔ یہ سیاسی شعور ہے۔ چونکہ یہی اس کی حقیقت ہے توایک سیاسی شخص پرقدرتی طورپریہ لازم ہے کہ وہ انسانوں کے ہاں بحیثیت انسان، زندگی کے بارے میں ایک معین تصورایجاد کرنے کیلئے کوشش کرے، خواہ جہاں بھی ہو۔ اس تصورکی ایجاد ہی وہ پہلی ذمہ داری ہے جوسیاسی شعور رکھنے والے کے کاندھوں پرڈالی گئی ہے کہ جسےاس ذمہ داری کوقبول کرکے اداکئے بغیر چین ہی نہ آئے۔
سیاسی شعورکے حامل شخص پرلازم ہے کہ جس وقت وہ اپنے تصورات کوراسخ کرنے اوراپنی رجحانات کوپختہ کرنے کیلئے تگ ودوکررہاہو،تو وہ ان تمام رجحانات کے خلاف اعلانِ جنگ کرے، جواس کے رجحان کے مخالف ہوں اوران تمام تصورات کے خلاف میدان جنگ میں کود جائے جواس کے تصورات سے متصادم ہوں۔ تووہ بیک وقت دو محاذوں پر لڑتا ہے۔ یہ دونوں سمتیں اس جنگ میں ایک دوسرے سے بال برابرجدا نہیں ہوتیں، کیونکہ یہ دونوں ایک ہی شے ہیں۔ وہ توڑتابھی ہے اوردرست بھی کرتاہے، تخریب بھی کرتاہے اور تعمیر بھی، وہ روشنی کے دیے جلاکر اندھیروں کومنتشرکرتا ہے، ایسے شخص کی مثال یوں ہے:”وہ آگ بھی ہے جوبگاڑ کوجلاتی ہے اورروشنی بھی ہے جوسیدھاراستہ دکھاتی ہے”۔ اورجیساکہ تصورات کوراسخ کرنے اوراپنے رجحانات کو مضبوطی سے پیوست کرنے میں حقیقت(صورتِ حال) پرافکارکے اطلاق کے دوران منطقی یا آزاد نقطہ نظر سے دوری رکھی جائے، اسی طرح ان الزامات کے خلاف اعلان جنگ بھی رجحانات کے خلاف جدوجہد کا حصہ ہے جوزندگی کے بارے میں اس کے تصورات پر لگائے جائیں۔ اسی کے تحت ان راسخ شدہ تصورات کے خلاف جنگ بھی آتی ہے، جوانحطاط کے دورسے چلے آئے ہیں۔ دشمنوں کے افکاراوراشیاء کی بابت گمراہ کن پروپیگنڈاکے اثرات کے خلاف جنگ کرنا، یا بلند مقاصد اور دوررس اہداف پرجزوی مقاصد اوروقتی اہداف کوفوقیت دینے کے خلاف جنگ بھی اس کا حصہ ہے۔ یعنی سیاسی شعور کا حامل شخص دومحاذوں پہ جنگ لڑتاہے: داخلی اوربیرونی، دوسمتوں میں بڑھتاہے:تعمیراورتخریب، دومیدانوں میں کام کرتاہے:سیاست کامیدان اورفکری میدان۔ خلاصہ یہ کہ وہ کارزارِحیات کے اعلیٰ ترین میدانوں میں جا گھستاہے، اس لئے سیاسی شعور کے حاملین کاجب حقیقت اورانسانوں اورزندگی کے مسائل کے ساتھ واسطہ پڑتاہے تو ان کا معاملات کے ساتھ تصادم ایک لازمی امرہے،اس میں داخلی علاقائی اورعالمی سطح کاکوئی فرق نہیں۔ اس تصادم کے دوران اس پیغام کو پہنچانے میں کہ جس کا وہ علمبردارہے اور اپنے اختیارکردہ مفہوم کے مطابق دنیا کو دیکھنے میں اس کی قابلیت نکھر کر سامنے آتی ہے اور وہ ان دونوں کے لیےمخصوص زاویے کوبنیاد اورفیصلہ کن بناتا ہے،اس مقصد کیلئے وہ کوشش کرتاہے اور اس ہدف کو وہ حاصل کرناچاہتاہے۔ ہاں اگراسے اپنے نفس کی چالوں کی خبر نہیں تو اس مخصوص زاویے کودیکھتے ہوئے، جس کااس نے اپنے آپ کوپابند کیا ہوا ہے اوراپنے خاص ذوق اورمتعین میلانات کی وجہ سے، چاہے وہ فطری ہوں یا فکری،یہ اندیشہ ہے کہ وہ حقائق کواپنا من پسند رنگ دے دے،یاافکارکی اپنی خواہش کے مطابق تاویل کرے،وہ خبروں کواُس نتیجے کےمطابق سمجھے، جس تک وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ آراء اورخبروں پر اپنے میلانات کومسلط کرنے سے پرہیز کرے۔ بسا اوقات نفس کا کسی ذاتی، جماعتی یا فکری امر کے ساتھ لگاؤ، اسے اس طرف لے جا سکتا ہے کہ وہ ایک رائے کی تفسیر کرے کہ یہ سچی ہے جبکہ وہ جھوٹی ہویااس کے خیال میں وہ چیز جھوٹی ہو جبکہ وہ سچی ہو۔ اس لئے سیاسی شعور کے حامل شخص کیلئے اشد ضروری ہے کہ جوبات کہی جارہی ہے یاجوکام کیاجارہاہے، اس کااچھی طرح جائزہ لےلے۔ حقائق خواہ اشیاء ہوں یاواقعات، کے لیےحسی ادراک اورمنطقی احساس کاہونالازم ہے،لیکن یہ ادراک ا س کی چاہت اوررغبت کی بجائے صرف انہی حقائق کاہوناچاہئے۔ اورجہاں تک افکار کی بات ہے، توان کی حقیقت کے مطابق ان کوسمجھنالازم ہے۔ پھراپنے ذہن کو وہ باہر کی طرف منتقل کرے، یعنی اپنی اِس بصیرت کے ساتھ وہ اُس حقیقت کودیکھے جواس فکرکی نمائندگی کرتی ہے۔ پھراس فکرکو اسی حقیقت کے مطابق سمجھے، جو اس فکرکی طرف اشارہ کرتی ہے، نہ کہ اپنی چاہت کے مطابق۔ یہ صحیح ہے کہ حقیقت کی یہ تعبیرکبھی مجازی ہوتی ہے، کبھی استعارہ ہوتاہے اورکبھی کنایہ (اشارہ)،یہ ایک جملہ بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ترکیبِ کلام سے متعین ہوتے ہوں، نہ کہ محض ان الفاظ سے کہ جن سے یہ جملہ بناہے، لیکن یہ امراس کواپنے ذہن کوباہر کی طرف منتقل کرنے اور اس حقیقت کودیکھنے سے بازنہیں رکھتاجس پرجملہ لغةً دلالت کرے،وہ معنی کہ جو اہل لغت نے اس جملے کا بیان کیاہو۔ لہٰذا سیاسی شعورکے حامل شخص کیلئے حق کاساتھ دیناضروری ہے، مگراس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ اس نقطہ نگاہ کے مطابق ہو،جس کواس نے پختہ یقین کے ساتھ قبول کیاہے اوروہ حقائق کوحقائق ہی کی نظر سے دیکھے، لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ نظر حقیقت کے احساس یا فکرپر مبنی ہو۔ ایساکرنےسے اس کاشعورکامل ہوجاتاہے، کیونکہ اسے غوروفکرکے وسائل حاصل ہوچکے ہیں۔ اوریہ ضروری ہے کہ اس کے ہاں دنیا کو دیکھنے کامخصوص زاویہ اس کےویژن، احساس اورفہم وادراک کی بنیاد بن جائے۔
اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھایاجاتاہے کہ حق کی پابندی کرنے والے اورحقائق کو جوں کے توں دیکھنے والے سیاسی شعور کے حامل شخص کی غیرجانبداری اوردنیاکوایک خاص زاویے سے دیکھنے کو کس طرح یکجاکیاجاسکتاہے؟ اس قسم کے سوالات امورپرسطحی نگاہ رکھنے سے پیداہوتے ہیں،جب انسان بحث کو گہرائی کے ساتھ سمجھ لیتاہے، تووہ اس قسم کے سوال نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشیاء کی حقیقت اوران پرحکم لگانے کے درمیان فرق ہے۔ اشیاء کی حقیقت میں لوگ اختلاف نہیں کرتے۔ اگریہ حقیقت آنکھوں سے دِکھتی ہے، تو ہرصاحب بصارت اس کوجوں کا توں دیکھے گا، الاّیہ کہ اسےدھوکہ دیاجائے یاگمراہ کیاجائے، اورجب حقیقت کاتعلق احساس کے ساتھ ہوتو ہروہ شخص جواحساس رکھتاہو،شے کو محسوس کرسکے گا،خواہ چکھ کر ہو جیسے کڑواہٹ یامٹھاس، خواہ چھوکر جیسے ملائم ہونا اورکھردراپن،خواہ اس کاتعلق سننے سے ہوجیسے آوازیں،خواہ سونگھنے سے ہوجیسے بو۔ پس تھوڑے بہت فرق سے قطع نظر لوگ اشیاء کوجوں کا توں محسوس کرتے ہیں، البتہ اشیاء پرحکم لگانے میں لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا جہاں بینی کے مخصوص زاویے کاتعلق، اشیاء اورافعال پر حکم لگانے کے ساتھ ہے،اورحقائق کوجوں کے توں دیکھنے کاتعلق احساسات وادراکات (اَفہام) کے ساتھ ہے۔ اس لئے حقائق کوجوں کے توں دیکھنااورحق کاساتھ دیناضروری ہے، نیز دنیا،واقعات اوراشیاء کو مخصوص زاویے سے دیکھنابھی ضروری ہے۔
جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ عالمی سیاست پریہ کس طرح لاگو ہوتا ہے،توہم اس کیلئے کچھ مثالوں کوسامنے رکھیں گے جس سے معلوم ہوگاکہ سیاسی واقعات کومخصوص زاویے سے کس طرح دیکھاجاسکتاہے۔ ہم رسول اللہ ﷺ کی سیاست میں سے چند مثالیں لائیں گے، کچھ مثالیں قرونِ وُسطیٰ کی سیاست کی اورکچھ عصرِحاضرکی سیاست سے پیش کریں گے۔ وہ مخصوص زاویہ نگاہ جس سے آپﷺ دنیا کو دیکھتے تھے وہ دعوت کوپھیلاناتھا۔ قریش جواس وقت جزیرہ نماعرب میں بڑی ریاست تھی اورکفراسی کی قیادت میں دعوت کامقابلہ کر رہا تھا، آپﷺنے سیاسی اورجنگی کاروائیوں کوقریش تک محدود کرنے کو اپناہدف بنایا۔ چنانچہ آپ ان پرنظر رکھنے کیلئے جاسوسوں کوبھیجاکرتے تھے،قریش کے تاجروں کاپیچھاکرتے تھے اور جنگی معرکوں میں ان کے ساتھ جھڑپیں ہوجاتی تھیں۔ اورآپ ﷺ نےباقی ریاستوں،یعنی قبائل کے بارے میں اتناہی کافی سمجھاکہ وہ تماشائی بنے نظارہ کرتے رہیں، یاجسے لوگ غیر جانبدار کہتے ہیں۔ تو آپﷺ کی تمام سیاسی وعسکری کاروائیاں دنیا کو دیکھنے کے مخصوص زاویے سے پھوٹتی تھیں۔ رسولﷺ کو جب خیبر کے بارے میں پتہ چلاکہ وہ قریش کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے مدینہ پر یلغار کرنے والے ہیں، جس کامقصد (نعوذ بااللہ)محمدﷺ کوختم کرنا اوراسلام کاصفایاکرناہے،تو آپﷺ نے عمل کا زاویہ اس طرح متعین کیا کہ قریش کے ساتھ جنگ بندی یاصلح کی جائے،تاکہ اس کے بعد وہ یکسوئی کے ساتھ خیبر کاصفایا کردیں۔ آپﷺ نے اس مخصوص زا ویے سے اپنی مستقبل کی کاروائیوں کیلئے امن کی پالیسی کواساس کے طورپراپنالیا جب تک کہ اس سے آپﷺ کے اہداف حاصل ہوتے رہیں۔ پس اس مرحلے میں آپﷺ کاعمرہ کے لیے جانا اورقریش کی طرف سے ضد کے باوجود آپﷺ کی رضامندی، قریش کی اکھڑپن کے مقابلے میں آپﷺ کی نرمی، اوراپنے اصحاب کی مخالفت وغیرہ جیسی تمام کاروائیاں اسی امن پالیسی کی کڑیاں تھیں۔ تو جس دشمن پرآپﷺ نے توجہ مرکوز کرکے اس کے ساتھ سیاسی کاروائیاں شروع کی تھیں، یہ سب کی سب ایک مخصوص زاویے سے نکلتی تھیں اور اس مخصوص زاویہ کے تقاضوں کے مطابق ہواکرتی تھیں۔
تویہ دومثالیں رسولﷺ کی کاروائیوں کی ہیں: ایک عام کاروائی، جوایک بڑی ریاست پرجوکہ دشمنوں کاسرغنہ تھی،مخصوص زاویہ سے توجہ مرکوزکرنے کی تھی۔ دوسری خاص کاروائی،جو ایک متعین ہدف پرتوجہ مرکوز کرنے کی تھی۔ لہٰذاآپﷺ نے ایک خاص زاویہ اپنایا اوراسی خاص زاویے سے سیاسی وعسکری تدابیراورکاروائیوں کودیکھا۔ اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سیاسی واقعات کے متعلق مخصوص زاویہِ نگاہ کاروائیوں اورتدابیرپرکس طرح لاگوکیاجاتاہے اوریہ کہ اگریہ مخصوص زاویہِ نگاہ موجود نہ ہوتوکاروائیوں کاکوئی معنی نہیں۔
بڑی ریاستوں نے برلن کانفرنس کے بعد اسلامی ریاست یعنی ریاستِ عثمانیہ کے املاک کی لوٹ مارکوزاویہ مخصوصہ بنالیا۔ صرف یہ نہیں تھاکہ ریاستِ عثمانیہ کاخاتمہ کیا جائے اوراس کے باوجود کہ ان ریاستوں نے دونوں امورپربحث کی اوردوسرے امرپراتفاق بھی ہوا تھا، مگراس کوزاویہ مخصوصہ نہیں بنایا۔ اس لئے ان ریاستوں کی تمام کی تمام کاروائیاں اسی زاویہ مخصوصہ کے مطابق ڈھلتی گئیں اوران میں باہمی سیاسی کشمکش شروع ہو گئی جوایک صدی سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ یہ کشمکش اگرچہ اسلامی ریاست کے انہدام کے ساتھ ختم ہوگئی، مگریہ وہ زاویہ مخصوصہ نہیں تھا جس سے یہ ریاستیں سیاسی کاروائیوں اورسیاسی واقعات اور کاروائیوں کودیکھ رہی تھیں۔ وہ مخصوص زاویہ جس سے یہ ریاستیں اس معاملےکو دیکھتی تھیں، وہ تھا جو ان کی پالیسیوں اورسیاسی کاروائیوں کے متعلق نقطۂ نظر کوکنٹرول کرتاتھا۔
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کہا کہ دنیاایک کمپنی ہے، اورامریکہ اس کمپنی میں سب سے زیادہ شئیرز کامالک ہے،لہٰذااس کمپنی کاانتظام بھی اس کے ہاتھ میں ہوناچاہئے۔ امریکہ نے اپنی اس بات کوزاویہ مخصوصہ بنالیا جس سے وہ دنیاکودیکھتاہے۔ پس اس کی تمام کاروائیاں اسی زاویہ کے مطابق ڈھلنے لگیں اوردنیامیں رونماہونے والی سیاسی کاروائیوں کو اسی زاویہ سے دیکھنے لگا۔ اس زاویہ سے دیکھنے نے اس کوسوویت یونین کے ساتھ اتفاق بلکہ معاہدہ کروایا اوربرطانیہ وفرانس اس کے نزدیک اجنبی بن گئے۔ پھرسوویت یونین کے سقوط کے بعد اس کے نقطۂ نظرمیں تبدیلی آئی۔ اب نہ صر ف فرانس اوربرطانیہ، بلکہ دنیاکی ہرریاست اس کیلئے اجنبی بن گئی۔ امریکہ اس میں آخری حد تک گیا، وہ تمام معاہدات بھی اس کے لیےاجنبی بن گئے جن پردنیاوالوں نے اتفاق کیاتھا۔ پس وہ کیوٹوKyoto معاہدے سے نکل گیا اوراس نےبارودی سرنگیں نکالنے کے معاہدات میں شمولیت اورجرائم کی عالمی عدالت کے قیام کوبھی مسترد کردیا وغیرہ۔ اس کازاویہ مخصوصہ جس سے وہ دنیا کو دیکھتا تھا،اس کی بنیاددیگر مقابل ریاستوں کی عدم موجودگی تھی، جن کے ساتھ وہ برابری کی سطح پر معاہدات کرے۔ اس لئے اس کارجحان انفرادیت کی طرف ہونے لگا اوروہ دوسری بڑی ریاستوں کے ساتھ تسلط اوربالادستی کامعاملہ کرنے لگا۔
یہ ہےدنیامیں جاری سیاسی واقعات کومخصوص زاویے سے دیکھنے کی کیفیت۔ خواہ یہ زاویہ عام ہو، جیساکہ دعوت کے پھیلاؤ کو خارجہ پالیسی کیلئے بنیاد بنایاجائے، یعنی ایک مخصوص نقطۂ نظر سے دنیاکودیکھاجائے، یا یہ زاویہ مخصوص زاویہ ہو، جیسے کہ ایک مخصوص ریاست تک دشمنی کومحدود کرنا،جس پرکنٹرول کے ذریعے باقی دنیاکی طرف بڑھا جا ئے، یایہ زاویہ خاص الخاص ہو،مثلاً کسی خاص سیاسی معرکہ میں شمولیت تاکہ دیگرریاستیں اس ریاست کےسیاسی معرکوں کانمونہ دیکھ لیں۔ توزاویہ مخصوصہ سے سیاسی کاروائیوں اورواقعات پرنقطہ نظر کا اطلاق آسان امرہے، اس کے لیےعملی سیاست میں کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ اس کے فہم کیلئے گہرائی سے سیاسی واقعات کومدنظررکھناہی کافی ہوتاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ سیاست پرنظر رکھنے اورسیاسی تصورات کی سمجھ کے نتیجے میں سیاسی سمجھ کاحاصل ہوجاناایک لازمی امر ہے اوریہ کہ سیاسی کام کیلئے سیاسی سمجھ ایک ناگزیر امرہے، اوریہ سیاسی واقعات پراثرانداز ہونے کیلئے بھی ناگزیر ہے۔
اورجبکہ بڑی ریاستوں کے ہاں سیاسی آگاہی ایک بنیادی چیز بن چکی ہے اورعالمی سیاست کی معرفت سیاستدانوں کا روزکامعمول بن چکاہے، توسیاسی تصورات میں سے سیاسی آگاہی کے زیورسے آراستہ ہونا امت مسلمہ کے بیٹوں کا جوکہ اسلامی ریاست کے بیٹے ہیں، پہلافرض بنتا ہے، اوریہ کہ سیاسی آگاہی ان کی سیاسی کاروائیوں کی بنیاد ہو۔ نیز یہ کہ یہ سیاسی آگاہی لوگوں میں عام ہوجائے، معاشرے میں یہ ایک بنیادی چیز بن جائے اور سیاستدانوں کا روزکامعمول بن جائے، کیونکہ ان کی اصل ذمہ داری پوری دنیاتک اسلام کی دعوت لے کرجانااورلوگوں میں ہدایت پھیلاناہے۔ یہ کام اس وقت ہی ہوسکتاہے جب وہ سیاستدان ہوں، دنیاکومخصوص زاویے سے دیکھنے والےہوں، نیز ان کومکمل سیاسی آگاہی حاصل ہو۔
یہ سیاسی آگاہی کوئی بڑامشکل امرنہیں، اسے ایک بھاری چیز تصور نہیں کرناچاہئےکہ جس سے صرف ذہین اورتعلیم یافتہ لوگ ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔ اس خیال سے بچنے کیلئے اس بات کوسمجھنا ضروری ہے کہ سیاسی آگاہی انتہائی سادہ چیز ہے اوریہ ہرکسی کی دسترس میں ہے، حتی کہ اَن پڑھ اورعوام کی پہنچ میں بھی ہے۔ کیونکہ سیاسی آگاہی کامطلب یہ نہیں کہ تمام اسلامی علوم کا احاطہ کیاجائے یادنیا کو دیکھنے کے لئے جس مخصوص زاویہ کے طور پراختیارکیاجاتاہے، اس پرمکمل عبور حاصل ہو۔ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ پوری دنیاکودیکھاجائے، نظرپوری دنیاپرہو، خواہ اس کے بارے معلومات کم ہوں یا زیادہ، اوریہ کہ دنیاکو دیکھنے کیلئے ایک مخصوص زاویہ موجود ہو۔ تواس میں اہمیت عالمی سطح کی نگاہ کوحاصل ہے، اگرچہ یہ ایک سیاسی عمل کے متعلق ہی ہو، نیز یہ کہ یہ نگاہ ایک مخصوص زاویے سے ہو۔ پس صرف عالمی نگاہ اوراس کامخصوص زاویے سے ہونا سیاسی آگاہی کے حصول کیلئے کافی ہے۔
یہ درست ہے کہ یہ سیاسی آگاہی دنیااوردنیاکے سیاسی واقعات کے بارے میں معلومات کے فرق کے اعتبارسے قوت اورضعف میں مختلف ہوسکتی ہے۔ اسی طرح مخصوص زاویہ کے بارے میں معلومات کے فرق کی وجہ سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے، مگراس سب کوسیاسی آگاہی کہاجائے گا اوراختلاف کے باوجود اس کا نتیجہ کم ازکم ایک ہوتاہے، یعنی سیاست میں سطحی، گھٹیا اورمعمولی قسم کے امورکودیکھنے سے گریز۔ اس بناپرسیاسی آگاہی سیاستدانوں اورمفکرین کے ساتھ مخصوص نہیں اوراسےان کے ساتھ خاص کرنادرست بھی نہیں۔ یہ ایک عام چیز ہے اوراس کا عموم برقرار رکھنا ضروری ہے اور جیساکہ علمااورطالبعلموں کے اندراس کوپیداکیاجاسکتاہے، ان پڑھ اورعوام میں بھی اس کوپیداکیا جاسکتا ہے بلکہ پوری امت کے اندرسیاسی آگاہی پیداکرناضروری ہے اگرچہ یہ اجمالی طورپرکیوں نہ ہو، کیونکہ امت ہی وہ زمین ہے جس میں سپوت جنم لیتے ہیں، لہٰذایہ مٹی سیاسی آگاہی کی مٹی ہونی چاہئے تاکہ سپوتوں کو پیداکرسکے، تاکہ امت حکمرانوں کامحاسبہ کرسکے،لوگوں کا اندازہ کرےاورصحیح آگاہی کے ساتھ بیرونی خطروں کا سامناکرسکے۔
جہاں تک افراد اورامت کے اندرسیاسی آگاہی پیداکرنے کاتعلق ہے، تویہ سیاسی معنوں میں سیاسی تربیت (تثقیف) سے پیدا ہوتی ہے، خواہ یہ تربیت اسلامی افکارواحکام کے ذریعے ہویاسیاسی واقعات پرمسلسل نگاہ رکھنے کے ذریعے۔ پس ایک مسلمان سیاستدان کی تربیت اسلامی افکار و احکام کے ذریعے کی جانی چاہئے، ایک خالی خولی فلسفہ کے طور پر نہیں، بلکہ ان کوواقعات وحوادث کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ اسی طرح جب وہ سیاسی واقعات پرنظر رکھتاہےتو صرف ایک صحافی کی طرح نہیں رکھتا جومحض خبروں کی جستجومیں لگارہتاہے، نہ ہی ایک استاد کی طرح معلومات یکجا کرنا اس کامقصد ہوتا ہے، بلکہ وہ ان کومخصوص زاویہ سے دیکھتاہے تاکہ ان پراپنافیصلہ صادرکرے، یاان کودوسرے واقعات اورافکارکے ساتھ جوڑے یاان کو سیاسی کاروائیوں کی حقیقت کے ساتھ جوڑ ے۔ آئیڈیالوجی اورسیاست کے ذریعے یہ سیاسی تربیت (تثقیف) ہی امت اورافرادکے اندرسیاسی آگاہی پیداکرنے کاطریقہ ہے، یہی امرامت کواپنی سیاسی ذمہ داری ادا کرنےاوراپنی اصل ذمہ داری کواٹھانے کاکام کروائے گا۔ یہ ذمہ داری دنیا تک دعوت لے کرجانے اورلوگوں کے اندرہدایت پھیلانے کی ذمہ داری ہے،اس لئے امت اورافراد کی سیاسی تربیت ہی ان کے اندرسیاسی آگاہی پیداکرنے کاطریقہ ہے۔ اس بنا پرضروری ہے کہ امت کی سیاسی تربیت کی جائے جو وسیع پیمانے پر ہو۔ اسی سے امت کے اندرسیاسی آگاہی پیداہوگی اوریہی امرامت کواس قابل بنائے گا کہ وہ تخلیقی سیاستدانوں کی صفوں کی صفیں پیداکرے۔
ختم شد