اُنیسویں صدی کے آواخر میں مغربی تہذیب کے دلدادہ نیم تعلیم یافتہ اشخاص کی طرف سے ایک فکر کی حیثیت سے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر : بلال المہاجر
اُنیسویں صدی کے آواخر میں مغربی تہذیب کے دلدادہ نیم تعلیم یافتہ اشخاص کی طرف سے ایک فکر کی حیثیت سےقومی ریاست nation stateکی طرف دعوت نے ریاستِ خلافت پر تباہ کُن اثرات مرتب کیے۔مغربی قومی ریاست کی سوچ کے زیر ِاثر 1876ء کا دستور بنایا گیا، اِس دستور کی رو سے عثمانی رشتے کو اس جدید رشتے کے لیے ایک اساس کے طور پر اپنایا گیا ، یہ جدید رابطہ ایساتھا جو مختلف قومیتوں اور لسانی اختلاف کے باوجود ریاست کے تمام شہریوں اور رعایا کو،بنا کسی استثناء کے، اس بنیاد پرجوڑتاتھا کہ وہ سب عثمانی قومیت کے حامل ہیں ۔ اس دستور نے نسلی رشتوں کے ظہور کا دروازہ کھول دیاکیونکہ اس کے بعد اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں طورانی اور عرب قومیتوں نے سر اُٹھالیا۔ اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے،کیونکہ اپنے آپ کو اصلاح پسند کہنے والےمغرب کے دُم چھلے اور مغربی فکر سے متاثر لوگوں نے ، بقول آسٹرین مفکرBischoff "آگ اور پانی کو یکجا کرنے ” کی کوشش کی۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ عثمانی ریاست کومغربی تہذیب کے ذریعے اٹھانا اورطاقتور بنانا چاہتے ہیں،مگر انہوں نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ یہی تھا کہ اُنہوں نے خلافت کو مسلمانوں کی عمومی ریاست سےتبدیل کرکے ایک ایسی حکومت کی شکل میں ڈھالاجو رومن امپائر سے بہت مشابہت رکھتی تھی، اوراس بات کا کوئی خیال ہی نہیں رکھا کہ اسلامی ریاست کُرۂ ارضی کے تمام اقوام کے لیے ہے ،جس میں کسی بھی نسل کے افراد کو دوسروں پر کوئی برتری اور فضیلت حاصل ہوتی ہے، نہ ہی ریاست کو کسی قومی یا نسلی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جاتی ہے،جیسا کہ انہوں نے 1876ء کے دستور کے ذریعے کیا تھا۔ اس قانون نے اس بات کو رواج دیا کہ ریاست کے تمام باشندے عثمانی کہلائے جائیں گے، اور یہ کہ ریاست کا مملکتی مذہب اسلام اور سرکاری زبان ترکی ہوگی،یہ سب کچھ مغرب کی "نیشن اسٹیٹ” کی اندھا دھند نقل تھی۔
ابتدا ء میں جس امرکو عثمانی رشتے کا نام دیا گیا ،اس کو ایجاد کرنے کی کوشش ایک طرح کی پیوندکاری یااسلامی ریاست اور قومی ریاست کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی ایک جد وجہد تھی، جو اس زمانے میں مغربی یورپ میں عُروج پرتھی۔ اُن دنوں یہ سوچ مشرقی یورپ ، بشمول بلقان کی طرف اپنا راستہ بنانے لگی تھی۔ بلقان عثمانی ریاست کی ایک طفیلی ریاست تھی۔ نیز یہ ان شرعی احکامات کو لپیٹ کر نظر انداز کردینے کی کوشش تھی جو ریاست اور اس کی اسلامی رعایا کے درمیان تعلقات کی بندوبست سے متعلق ہیں،کیونکہ اس رشتے کے مطابق وطنیت کا قانون بنایا گیا، جس کا منبع ریاست کے اندر سیاسی تعلقات کے بندو بست کے حوالے سے مخصوص عمرانی معاہدہSocial Contractتھا۔ عثمانی ریاست میں عثمانی عصبیت پر زور دے کر قومی ریاست کی نقل کرنےکی جو روش اپنائی گئی تھی، اس کی وجہ سےاصلاح پسندوں نے اسلامی ریاست کو زوال کے دہانے لاکھڑا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا وجود اسلامی تصورات کے ساتھ نہیں جوڑا گیا تھا، جو اسلام کے نفاذ اوراس کو ایک عالمی پیغام کے طور پر پیش کرنے کے لیے ریاست کی موجودگی کوضروری قرار دیتے ہیں۔ اب ریاست اپنے وجود کے جواز کے لیے وطن اور ہم وطنی کے اصول کا سہارا لینے لگی،سلطان یا حاکم کو اب عوام یااُمّت کا نمائندہ ہونے کی بنا پرسندِ جواز فراہم کیا جانے لگا،جیسا کہ قومی ریاست کے سایے تلے مغرب میں ہوتا ہے۔یہی و ہ حقیقت ہے جس کی وجہ سےوطنی اور قومی تحریکوں کے لیےاپنے قومی اور وطنی نعرے بلند کرنے کے لیے دروازے چوپٹ کھل گئے۔ اسی سے نسلی قومیت نے شعلہ لیا۔ جب کہ عثمانی ربط و رشتے جیسا رشتہ ،جس کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا،موجودہ نسلی رشتے کےاپنے مخصوص مزاج میں ظاہر ہوئے بغیر پیدا کرنا مشکل تھا، بالخصوص اس فکری انحطاط کے دور میں جو اُس زمانے میں اُمت ِ مسلمہ پر چھایا ہوا تھا۔ کیونکہ 1976 کے دستورنےعثمانی ربط و رشتے کے اعتراف کے ساتھ، بھلےیہ اعتراف غیر ارادی طور پرہی سہی ، برادریوں اور قومیتوں کو بھی سیاسی تنظیم سازی کے لیے ایک بنیاد قرار دیا، یہ سیاسی تنظیم سازی ایگزیکٹیو باڈی کے فریم کے اندر تھی، جسے ریاست کے نام سے جاناجاتا تھا۔عثمانی ریاست کے انہدام اور سقوطِ خلافت کے ساتھ، جس میں قومیت اور وطنیت کے نعروں کا بڑا کردار تھا، قومی ریاست کی تباہ کن سوچ کے اثرات ختم نہیں ہوئے، کیونکہ وہ تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں ، جنہیں استعماری کافروں نے خلافت کے ملبے کے اوپر کھڑا کیا تھا،نے پبلک لا کے تحت قومی اور وطنی ریاست کی سوچ کو اپنے لیے ایک اساس قرار دیا ،جس سے وہ اپنے وجود کے لیے جواز حاصل کریں گی۔چنانچہ استعماری کافروں کے لئےاب ان ریاستوں کے اندر بےچینی کی صورتحال پیدا کرنےاور قومی ریاست کی سوچ اورہم وطنی یاعمرانی معاہدے کی فکرکے درمیان امتزاج سے نتیجے کے طور بر آمد ہونے والی کمزوری کے ذریعے، اُن کے اُمور میں مداخلت کرنے کے لیےاقلیتی گروہوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھانا آرام تھا۔سلطان عبد الحمید دوئم رحمہ اللہ نے اپنی سلطنت کے پہلے سال کے تجربہ کے بعد اگر چہ 1876 ء کے دستور کو تلپٹ کرکے رکھ دیاتھا، مگر جس رشتے میں اسلامی ریاست اپنے آخری ادوار میں اپنے باشندوں کو جوڑتی رہی تھی،اُس رشتے کی سوچ اس کے دل و دماغ پر سواررہی۔ چنانچہ سلطان عبد الحمید دوئم نے عثمانی ریاست کو اس سے بچانا چاہا۔اس کے لیے انہوں نے عثمانی رابطہ کی جگہ اسلامی لیگ یا رابطۂ اسلامی کو بنیاد بناناچاہا،لیکن یہ بھی بجائے خود مغربی سوچ سے متاثر ہونے کی دلیل تھا،کیونکہ اسلامی ریاست ایک دن کے لیے بھی اس قسم کے روابط کے ساتھ جُڑی یا ان پر کھڑی رہی،نہ ہی مسلمان کسی بھی زمانے میں” اپنی ریاست” کی بقا کی خواہشمند رہے ، اگر ایسی کوئی خواہش ان کی تھی تو اس یقین کی وجہ سے تھی کہ اسلام ایک دین ہے،ریاست اس کاجزو ہے، اور اسلام کو حکمران کے بغیر نافذ نہیں کیا جاسکتا ۔ انہی تصورات اوراعتقادات کے سبب مسلمانوں نے اپنی ریاست کی حفاظت کی اور اس کے ساتھ اپنی وفاداری نبھاتےرہے۔ اسلامی لیگ وغیرہ کے افکار مغربی فکر یا نیشن اسٹیٹ کے تصور سے متاثر ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔
قومی ریاست کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے "ایک ریاست کے فریم میں کسی مخصوص قوم کا ایک سیاسی نظم”۔ مغربی قانون دان اور سیاسی نظاموں کے ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ریاست کا تین عناصر پر مشتمل ہونا ضروری ہے؛ لوگ، زمین اور ان دونوں پر عمومی اختیارات۔ اور قومی ریاست تین عناصر کے پائے جانے پر تشکیل پاتی ہے:میں اس حقیقت کو ایک اقتباس کے ذریعے مختصر بیان کرنا چاہوں گا ،یہ اقتباس "عراق 1920 اور 1930کے درمیان ” سے متعلق برطانوی ریسرچ سکالر راجر اوین کے ایک لیکچر سے لیا گیا ہے، یہ لیکچر اس نے 1993ء میں عراقی کلچرل پلیٹ فارم کی طرف سے منعقدہ کانفرنس میں دیا تھا۔ اس کا عنوان تھا” قومیت، اس کی نشوو نما ، نظریات، اعتراضات اور مسائل”۔اوین نے کہا:” پہلی عالمی جنگ کے بعد جب برطانیہ نے جدید ریاست کا اعلان کیا، تو اکثریت اور اقلیت کے مسئلہ کھڑاہوا،اسی طرح کمیونٹیز کی تعریف اور ان کی نئی شناخت کی تعیین پر اختلافات سامنے آئے،وہ کہتا ہے: 1930 کے بعد عراق کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا،اور شناخت کا مسئلہ دوبارہ کھڑا ہوا۔
- یہ کہ وہ زمینی سیاسی سرحدوں کے اندر قائم ہو، اس کی بنیاد پر وہ مادی قوتوں کی ملکیت کا جواز سمیٹ لیتی ہے،تعلقات منظم کرنے اور تنازعات کو ختم کرنے کا اختیار حاصل کرتی ہے۔
- دوسرا عنصرکسی ایک قومیت کی تاریخی یاثقافتی و تہذیبی عامل کی موجودگی۔
- تیسرا عنصر دفاع ، لازمی تعلیم اور جنرل ٹیکس وصول کرنے کا حق۔
تاریخ کے مطابق قومی ریاست سب سے پہلے انگلینڈ میں سترھویں صدی میں قائم ہوئی، پھر اٹھارھویں صدی کے اواخر میں فرانس میں، اور اُنیسویں صدی میں جرمنی اور اٹلی میں قائم ہوئی۔ حقیقت میں اگرچہ قومی ریاست کا سنگ ِبنیاد ویسٹ فیلیا کانفرنس 1648ء میں ہی رکھا گیا تھا،جس میں عالمی توازن کا نظریہ پیش کیا گیا تھا، جس کے مطابق اگر کوئی ریاست دیگر ریاستوں کے وجود کے لیے خطرہ بن کر توسیع کی کوشش کرے گی ،تو تمام ریاستیں اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اکٹھی ہوکر دفاع کریں گی، تاکہ عالمی توازن کی حفاظت کی جائے ،جو جنگ روکنے اور امن عام کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
جہاں تک مارکسی تعلیمات کا تعلق ہے، تو اس کے مطابق قومی ریاست کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ یہ جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ ظلم کے خلاف عوامی انقلابات کا نتیجہ ہوتی ہے،اور یہ سرمایہ دارانہ حکومتوں کی قومی بورژوا Bourgeoisiesکے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ قومی آزادی کےاس مرحلے میں کیمونسٹ پارٹی کی قیادت تلے پرولتاری (مزدور)proletariat تحریک کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اکثریتی قوتوں کے ساتھ جُڑجائے، کیونکہ وہی میدان کا طاقتور ترین طبقہ ہے۔ ان کی تعلیمات کے مطابق سرمایہ دارانہ قومی ریاست بیرونی طور پر عنقریب استعمار کی جانب اور داخلی طور پر ظلم و ستم کی طرف چلنے لگتی ہے،اس لیے حقیقی قومی آزادی اور قومی ریاستوں کے درمیان سرحدوں کا خاتمہ صرف مزدور طبقہ( پرولتاریہ) کے حکمرانی تک پہنچنے سے ہوگا۔ چنانچہ اس سے اس بات کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے کہ اشتراکی (سوشلسٹ) ریاستیں دیگر اقوام کی قومی آزادی کی تحریکوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔
چونکہ درست عقلی تحقیق ہی درُست نتیجہ یاایک حقیقت کے بارے میں صحیح فیصلے تک پہنچاتی ہے، ایسی تحقیق جو کسی حقیقت کو محسوس کرنے اور سابقہ معلومات کے ساتھ اس حقیقت کے ربط کو سوچ کی بنیاد بناتی ہے، مادہ کو سوچ کا منبع نہیں بناتی، چنانچہ قومی ریاست کی حقیقت کو بھی اسی اساس پر دیکھنا ضروری ہے۔ اس طرح اس حقیقت کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ قومی ریاست کی سوچ ایک رجعت پسندانہ سوچ ہے،جس نے انسانوں کو قومی اور قبائلی رشتوں کی طرف دھکیلا ،یا وطنیت کی طرف،خواہ کتنی ہی اچھی صورت میں ہو،ان سب کو قومیت کے روابط کا نام دیا جاسکتا ہے، اسی سوچ نے قومیت، فاشزم اور نازی ازم کی راہ ہموار کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ریاست کی سوچ اپنی ہلاکت کے اسباب کو اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے، یہ ان تمام مشکلوں سے نظر آتا ہے،جو حقیقت میں اس فکرکو نافذ کرنے کی کوششوں کے دوران نمودار ہوتی ہیں۔ یہاں اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ انسانی تعلقات کو منظم کرنے کے لیے ریاست ہی ایک ڈھانچہ ہے جس تک انسانی سوچ کی رسائی ہوئی ہے، لیکن قومی ریاست کی سوچ کے نفاذ کے ساتھ خواہ یہ نفاذ جزوی شکل میں اوراقلیتوں کے حقوق کو چھیڑے بغیر ہی کیوں نہ تھا، مختلف مشکلات ،ظہور پذیر ہوئیں۔ یہ اس لیے کہ یہ بات ناممکن سی ہے کہ کوئی ملک مختلف قومیتوں سے خالی ہو، چونکہ لفظ قومیت لاطینی لفظ Natioسے نکلا ہے، جس کے معنی قومیت یا کسی قومیت کی طرف نسبت کے ہیں، اس بنا پر قومی ریاست،جیسا کہ اس کی یورپین تعریف ذکر کی گئی ہے؛ یہ کسی ایک قوم کی ریاست ہوتی ہے، جہاں اس قومی ریاست کی جغرافیائی حدود کے اندر کسی اور قوم کا لحاظ نہیں کیا جاتا،اوراٹل جغرافیائی حدود ہی تمام عوامل میں سے وہ پہلا عامل ہیں جن کی تکمیل ریاست کے لیے ضروری ہوتی ہے تاکہ اس کو ایک قومی ریاست کا نام دیا جاسکے۔
دوسرے عامل یعنی تہذیبی و ثقافتی عامل کےحصول کے لیے، جس کا حصہ زبان و تاریخ بھی ہیں،ضروری ہے کہ قومی ریاست اقلیتوں کا نسلی صفایا کرکے ان کو کچلنےیا مقتدرہ قومیت میں مدغم کردینے پر کام کرے، چاہے یہ اقلیتیں قدیم زمانے سے موجود اصل اقلیتیں ہوں ،جو اس ملک کے اندر قومی ریاست کے قیام سے قبل موجود ہوں ،جیسے مشرقی یورپ میں جرمن اقلیتیں،اور یورپ میں بسنے والے یہود ی اور جپسی وغیرہ،یا وہ اقلیتیں ہوں جنہوں نے دورِ حاضرمیں قومی ریاستوں کی طرف ہجرتیں کیں،جیسے مغربی دنیا میں آکر بسنے والے آج کل مسلمانوں کی حالت ہے۔
قومی ریاست میں وہاں کی غالب قومیت راج کرتی ہے، جس کی وجہ سے تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے نام پر،جس میں اس غالب قومیت کی تاریخ و زبان بھی شامل ہیں،تباہی اور ادغام(amalgamation) لازمی قرار پاتاہے۔ نیز جب اس قوم پرست سوچ کو نافذ کیا جاتا ہے، تو اس سے حقیقی مسائل جنم لیتے ہیں، جیسے اقلیتوں کا مسئلہ ، جو قومی ریاست کا حتمی نتیجہ ہے، بشمول اس کے کہ قومی ریاست اس عمرانی معاہدے social contractکی فکر سے بھی متناقض ہے ، جو مغربی فکر کا شاخسانہ اورسرمایہ دارانہ نظام کے فریم ورک میں جمہوری حکومت کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔اس عمرانی معاہدہ کے مطابق افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ اور خود مختار روابط ہوتے ہیں، یہ روسو Rousseau تھا جس نے اسےعمرانی معاہدہ کا نام دیاتھا۔ فرد اورریاست کے درمیان اس معاہدے کی اساس پر ،وفاداری ریاست کے لیے ہوتی ہے، اور ریاست اور فرد کےدرمیان تعلقات بنتے ہیں۔ یہ تعلق یعنی ہم وطنیت قومی ریاست کی فکر کے ساتھ ٹکراتا ہے، جو نسلی یا قومی نسبت کی عکاس ہوتی ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فرانسیسی انقلاب نے،جو فرانس میں قومی ریاست کے ظہور کے دور میں برپا ہوا تھا، قومیت کی تعریف کو تلپٹ کرنے کی کوشش کی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس انقلاب نے قومی ریاست اور معاہدہ عمرانی کو یکجا کرنا چاہا، چنانچہ فرانسیسی انقلاب کے گمان میں یہی تھا کہ وہ ایک جدید قوم کی تاسیس کررہا ہے،جس کا بائیولوجیکل منبع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس کا واحد منبع ہم وطنوں کی طرف سے آزادانہ فیصلہ ہے،جو بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کے سایے میں مشترکہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں،اوریہ وہی امرہے جو مغربی افکار میں عوام کی بالادستی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی بنا پر فرانسیسی قومی انقلاب نے یہ مشہور کیا تھا کہ یہ آئیڈیالوجیکل (نظریاتی) معاشرے کی قومیت ہے، آزاد اختیارات کی حامل قومیت، ہم وطنوں کی قومیت،اور یہ وہ حقیقی قومیت نہیں جو کسی خاص نسل سے تعلق رکھتی ہو،نہ ہی یہ پرانے لوگوں کی قومیت ہے۔ اس طرح فرانسیسی انقلاب نےجدید فرانسیسی قومیت کی اس جدید تعریف کے ذریعے فرانس کے یہودیوں کو بھی عوام یا فرانسیسی قومیت میں ضم کرنا ممکن بنایا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی مسائل جو قومی ریاست کے نفاذ کے ساتھ رونما ہوئے تھے، قومیت کی اس جدید تعریف کی بدولت ختم ہوگئے، جو قومیت یا نسلی قومیت کی حقیقت سے متناقض تعریف ہے،کیونکہ اس کے بعد بھی بالخصوص فرانس جیسی ریاست میں فرانسیسی قوم کے لئےتہذیبی و ثقافتی ورثہ کی حفاظت کا مسئلہ برابر قائم رہا۔یہ بات یورپی اقوام بالخصوص فرانسیسیوں کی ان پالیسیوں سے واضح ہوتی ہے، جو وہ عالم اسلام سےنئے وارد ہونے والوں کے لیے بناتے ہیں،سو وہ اگر چہ اپنے اوپرفرانسیسی دستور کے مطابق فرانسیسی قوانین کے نفاذ کو تسلیم کرلیتے ہیں،نیز وہ ہم وطنیت کو اپنے اور فرانسیسی ریاست کے درمیان ایک معاہدہ کے طورپر قبول کرلیتے ہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست میڈیا اور ثقافتی مہم کے ذریعے مسلمانوں کو فرانسیسی معاشرہ یا ان کی تعبیر میں فرانسیسی قومیت میں مدغم کرنے کے لیے ان کے تعاقب میں لگی رہتی ہے، بلکہ فرانسیسی ریاست نے کھیل کے قوانین ہی بدل ڈالے ۔ ریاست کی سوچ یہ ہے کہ قوانین مسلط کرکے مسلمانوں کو تہذیبی لحاظ سے فرانسیسی معاشرہ میں مدغم کیا جائے ، چنانچہ ہم وطنیت یا وفاداری کے قانون کے لیے نئی شرائط لاگو کی گئیں ۔چنانچہ فرانس میں مسلمانوں کے سامنے دو آپشن رکھے جاتے ہیں ، یا تو وہ ہم وطنیت کے قوانین کی پابندی کریں ، یا پھر وہ ہم وطنیت اور ماتحتی سے دستبردار ہوجائیں۔ حالانکہ ان کا تو دعویٰ یہ ہے کہ بالادستی عوام کی ہے،اور عوام ہی قوانین بناتی ہیں ،تو ان کے لیے یہ کیسے ممکن ہوا کہ فرانسیسی انقلاب کے بعد ان کی جدید تعریف کے مطابق جس قومیت کو اُنہوں نے ایجاد کیا تھا ، وہ اس کے برخلاف قوانین میں ردّ وبدل کریں، حالانکہ فرانسیسی قوم کا ایک بڑے طبقہ اس کی مخالفت کرتا ہے ؟ یہ ناممکن تھا اگر غالب نسلی اکثریت جو فرانسیسیوں سے ہی مل کر بنی ہے، اپنی قومی ریاست کے تحفظ کی خاطر معاشرے کو انہی کے مخصوص تہذیبی وثقافتی رنگ میں رنگنے کی خواہشمند نہ ہوتی،کیونکہ صرف اسی صورت میں ہی قومی ریاست کے عناصراس کے اندرمکمل طور پر پائے جائیں گے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قومی ریاست اور عمرانی معاہدہ کو آپس میں خلط ملط کرنے کی غرض سے قومیت کی جدید تعریف پر ان کا اتفاق اس مشکل کا مداوا نہیں تھا۔یہ فقط ایک نامعقول بات تھی جس کا جھوٹ اتنا واضح ہے کہ اس کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ قومی ریاست کی سوچ صرف نفاذ میں ہی نہیں بلکہ اپنی بنیاد میں باطل اور لغو سوچ ہے ۔
قومی ریاست کی سوچ ایک رجعت پسندانہ سوچ ہے جس نے نسلی وقومی نسبتوں کی بنیادوں پر لوگوں کے درمیان تفریق پیدا کی، اور زمین کے باشندوں،بشمول ِاس کو اپنا نے والوں پر مصائب اور حادثات لے کرآئی،یہ قومی فخرو غرور کی پرورش کرتی ہے،چنانچہ اس سوچ نے اس ریاست کے بااختیار لوگوں کے لیے اپنے ہم وطنوں کے اندر قومی اور وطنی جذبات ابھار کر ان کو سرمایہ دارانہ استعماری مفادات کی خاطر جنگوں میں جھونک دینے کی تحریک سہل
بنادی، اسی سے نسلی صفایا اور جبری ثقافتی ادغام جیسے مسائل نے جنم لیا، اور انسانی معاملات نے وہ شکل اختیار کرلی جو قبل از اسلام کے زمانے میں تھی۔چنانچہ قومی ریاست کی سوچ تسلط، قبضہ اور استحصال کی سوچ ہے، چہ جائیکہ یہ قوموں کے درمیان تعلقات کی بُنیاد بن جائے ۔
اسلام کی نظر میں قومیتوں اور قبائل کا مقصد باہمی جان پہچان اور تعارف ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ).” اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے،اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ،ہر چیز سے باخبر ہے۔” (الحجرات – 13)اسی طرح اسلامی ریاستِ خلافت کو گرانے میں قومیت کا بہت اثر تھا، خلافت کو ڈھادینے کے بعد قومی ریاستوں نے ،جنھیں استعماری کافر نے اسلامی ریاست کے ملبے پر کھڑا کیا تھا،عالم اسلام کے اندر اقلیتوں کا مسئلہ پیدا کیا۔ اقلیتوں کے مسائل کی آڑ میں استعماری کافر کے لیے ان ریاستوں کے اُمور میں مداخلت کے لیے راہ ہموار ہوئی، اس مداخلت کا مقصد ان ٹکڑوں کے مزید ٹکڑے کرنے اور تقسیم در تقسیم کا عمل اور عالم اسلام کے اوپر اپنے قبضے کو مزید مستحکم کرنا تھا۔
قومی رجعت پسند ریاست کے برعکس اسلام کے احکام یہ بتاتے ہیں کہ ریاست کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں، ایک نسل کو دوسری نسل پر کوئی برتری حاصل نہیں، نہ ہی کسی قوم کو دوسری قوم پر کسی قسم کی فضیلت دی گئی ہے، پس کوئی عربی کسی عجمی سے بہتر نہیں ، سوائے اس کے کہ وہ تقویٰ میں اس سے آگے ہو۔ اس ریاست میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جاتاہے ، پس ریاست کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ حکمرانی ، عدالت یا دیکھ بھال وغیرہ جیسے اُمور میں اپنے رعایا کے درمیان کسی بھی قسم کی تفریق و تمیز رو ا رکھے،بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ قومیت ، مذہب یا رنگ و نسل وغیر ہ سےبالا تر ہوکر سب کو ایک نظر سے دیکھے۔
اورچونکہ اسلامی ریاست”خلافت” تمام انسانوں کے لیے ایک انسانی ریاست ہوتی ہے، یہ مغربی معنوں میں کوئی مذہبی ریاست ہے، اور نہ ہی قومی ۔ چنانچہ اللہ کے اذن سے جب یہ دوبارہ قائم ہوگی تواپنے قیام کے پہلے دن سے ہی سب کے لیے امن و انصاف اور حقوق کی ضمانت دے گی، چنانچہ اسلام کے عدل اور اس کے درست نفاذ کے نتیجے میں لوگ اللہ کے دین میں جو ق درجوق داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ اس دن کی صبح جلد اپنی کرنیں دکھائے،
اَلّٰلہُمَّ اٰمِیْن، وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
ختم شد