پاکستان کے گلے سڑے اور کرپٹ نظامِ حکمرانی کو سنوارنے کے لیے جو تازہ ترین تجربہ زیرِ عمل ہے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کے گلے سڑے اور کرپٹ نظامِ حکمرانی کو سنوارنے کے لیے جو تازہ ترین تجربہ زیرِ عمل ہے،اسے اب ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ۔ اس "نئے پاکستان "کے تجربے کی کارگردگی کیسی رہی ؟ کیا کرپشن اور غربت کے خاتمے کے جو وعدے کیے گئے تھے،پورے ہوئے ؟ کیا ہمیں اب بھی جمہوریت کو مزید وقت دینا چاہیے یا یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کا قیام ہی وقت کی ضرورت اور حقیقی تبدیلی ہے؟
جہاں تک کرپشن کا معاملہ ہے تو کرپٹ ٹولہ آج بھی اپنی جمع کردہ دولت کے انبار پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے جبکہ حکومت کا اُن سے اربوں ڈالر نکلوانے کا وعدہ دھرے کا دھرا رہ گیا ۔ پچھلی حکومتوں کے کئی کرپٹ افراد نےنئی حکومت کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی جبکہ حکومت کے کرتا دھرتابھی یہ رونا روتے نظر آتے ہیں کہ حکومت کی "ٹیم ” نااہل ہے۔ اور اسی کرپٹ ٹولے کے دیگر افراد ،اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر، موجودہ نظام میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے اُدھم مچا رہے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت ان کے ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرے گی جیسا کہ وہ کئی دہائیوں سے کرتی آرہی ہے۔ جمہوریت میں عدلیہ ظالموں کو تحفظ فراہم کرتی ہے جس کا مظاہرہ مشرف کیس،سانحہ ساہیوال اور ریمنڈ ڈیوس کے مقدمے میں ہم سب نے دیکھا ۔ جبکہ دوسری طرف مظلوم افراد
دہائیوں تک عدالتوں میں دھکے کھا تے رہتے ہیں اور انہیں انصاف کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ یقیناً نئے پاکستان کے تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ موجودہ نظام کو درست نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جمہوریت کرپشن اور ناانصافی کی فیکٹری ہے اور پوری دنیا میں جمہوریت کی یہی حقیقت ہے ۔
کرپشن کو حقیقی طور پر ختم کرنے کے لیے ہمیں جمہوری نظام سے نظریں ہٹا کر اپنے عظیم دین ِاسلام اور اس
کے نظامِ حکمرانی یعنی خلافت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ
عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ " ہم جس کو کسی کام پر عامل بنائیں اور ہم اس کی کچھ روزی(تنخواہ) مقرر کر دیں پھر وہ اپنے مقررہ حصے سے جو کچھ بھی زیادہ لے گا تو وہ خیانت ہے "(ابو داؤد)۔ حکمران کی دولت میں غیر معمولی اضافے کو خلافت کی عدلیہ فوراً واپس لے کر ریاست کےخزانے میں شامل کردے گی کیونکہ اسلام میں اتنا ثابت ہونا ہی کافی ہے کہ حکمران کی حکمرانی کے دوران اس کی دولت میں غیر معمولی اضافہ ہوا،اوریہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ کن ذرائع اور لین دین کو استعمال کر کے یہ دولت سمیٹی گئی۔ اس طرح اسلام کرپشن کے دروازے کو مضبوطی سے بند کردیتا ہے کیونکہ اس کے قوانین اسمبلیوں میں
بیٹھے کرپٹ افراد کی خواہشات اور تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ یہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ پر مبنی ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُمْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلاَ
تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ "اور(ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی کبھی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ یہ کسی حکم سے، جو اللہ نےآپ پر نازل فرمایا ہے ، آپ کو بہکانہ دیں "(المائدہ 5:49)۔
جہاں تک غربت کا معاملہ ہے تو جمہوریت آئی ایم ایف (IMF) کی ظالمانہ پالیسیوں کے نفاذ کے لیے ایک کھلا راستہ ہے، یہ پالیسیاں ہماری مشکلات اور تکلیفوں میں مستقل اضافہ کر رہی ہیں ۔ اس حکومت کے ایک سال کے عرصے کے دوران لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں اور اگلے سال مزید لاکھوں افراد متوقع طور پر غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ ہزارہا افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں کیونکہ کاروبار بیٹھ گئے ہیں یا بیٹھنے کے قریب ہیں، اور آئندہ سال مزید ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ بھاری ٹیکسوں کا بوجھ اُنہی لوگوں پر لاددیا گیا ہےجو پہلے ہی غربت اور مشکلات کا شکار ہیں جبکہ کرپٹ حکومتی اشرافیہ کے لیے ٹیکس معافی (Tax Amnesty)کی اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں اوراستعماری کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ فراہم کی گئی ہے۔ جمہوریت ملک کو مزید سودی قرضوں کی دلدل میں دھکیل رہی ہے اور صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ٹیکس سے جمع ہونے والی رقم کاآدھے سے زیادہ حصہ محض سود کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے جبکہ اصل قرض کا حجم اپنی جگہ پر ہی قائم رہتا ہے ۔
اے اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرنے والے ،پاک سرزمین کے مسلمانو! غربت کے خاتمے کے لیے ہمیں جمہوریت کے نظام سے نظریں ہٹا کر اپنے عظیم دینِ اسلام اور اس کے نظامِ حکمرانی یعنی خلافت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ ہمارا دین توانائی کے ذرائع ، معدنی ذخائر اور سرکاری شعبوں کے تحت چلنے والی بڑی کمپنیوں کے ذریعے ریاست کے خزانے کے لیے بڑی مقدار میں محاصل کے حصول کو یقینی بناتا ہے۔ خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جن صنعتوں میں بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے وہاں ریاستی کمپنیوں کو بالادستی حاصل ہو جیسا کہ ٹیلی کمیونیکیشن، ریلویز، آبی و ہوائی جہاز رانی، تعمیرات اور بھاری مشین سازی وغیرہ کیونکہ رسول اللہﷺ کی سنت ہمیں عنان ، ابدان اور مضاربہ کی نوعیت کی کمپنیاں بنانے کی اجازت دیتی ہے ، یہ امر طبعی طور پر نجی شعبے کے لیے وسیع سرمائے کے حصول کو محدود کرتا ہے۔ خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ توانائی اور معدنیات کے شعبوں سے حاصل ہونے والے محاصل کو پوری امت پر خرچ کیا جائےنہ کہ نج کاری کے ذریعے چند لوگ ان سے حاصل ہونے والا بھاری منافع سمیٹ لیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ "مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)"(مُسندِاحمد) ۔ ہمارے دین میں محاصل اُس سے لیے جاتے ہیں جو انہیں ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جیسا کہ زکوٰۃ اُس سے لی جاتی ہے جو سونے و چاندی، کرنسی، مویشیوں یا تجارتی سامان کا مالک ہو اور خراج اس سے لیا جاتا ہے جو زرعی زمین کا مالک ہو۔ اور ان محاصل کو ایسے لوگوں پر خرچ کیا جاتا ہے جو غریب، تباہ حال ،قرض میں ڈوبے ہوئے اور مشکلات کا شکار ہوں۔
پوری مسلم دنیا میں کئی دہائیوں سے جمہوریت کا نفاذیہ ثابت کرچکا ہے کہ جمہوریت کو سنوارانہیں جاسکتا اور اب اسے لازمی طور پرمسترد اوردفن کردینا چاہیے۔ امت شدید غربت کا شکار ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کے قدموں تلے دنیا کے خزانے مدفون کررکھے ہیں۔ امت پر حملے کیے جاتے ہیں، اس کے دین کی وجہ سے اسےظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، اس کے کشمیر و فلسطین جیسے علاقوں پر ایسی افواج قابض ہیں جنہیں ہرانا امت کے لیے آسان ہے کہ جس کے پاس مجموعی طور پر تیس لاکھ سے زائد قابل اور بہادر افواج موجود ہیں۔ یقیناً جمہوریت وہ سوراخ ہے جس سے امت بار بار ڈَسی گئی ہے ،پس اس باطل نظام سے کسی صورت خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے خبردار فرمایا، لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ " مومن کو ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں لگتا "(بخاری، مسلم)۔ہم سب پر لازم ہے کہ حزب التحریر کی اسلامی طرزِ زندگی کو بحال کرنے کی جدوجہد کا حصہ بنیں کیونکہ یہی ایسی مخلص ،باخبر اور قابل قیادت ہے جو جمہوریت کے خاتمے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی دعوت پیش کررہی ہے۔ صرف خلافت کے قیام کے بعد ہی ہم ظلم و جبر کے دور کے خاتمے اوراسلام کی حکمرانی کے دَورکا مشاہدہ کریں گے۔ اما م احمد نے رسول اللہﷺ کی یہ حدیث روایت کی ، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ "پھر جبر کی حکمرانی ہو گی، اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اسے ختم کردے گا جب وہ چاہے گا۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی۔ یہ فرماکر آپﷺ خاموش ہوگئے”(مُسندِاحمد)۔
اے افواج پاکستان کے شیرو! کرپشن اور ظلم کی نگہبان جمہوریت آج تک صرف اس لیے جاری و ساری ہے کیونکہ آپ کی قیادت میں موجود غداروں نے آپ کی طاقت کو ہمیشہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کیسے اپنی طاقت کے اس قدر غلط استعمال کو قبول کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اس بات کی قسم اٹھا رکھی ہے کہ اس ملک اور اس کے لوگوں کی حفاظت کریں گے؟! رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست انصار کی مددونصرت سےقائم کی تھی جو ایک عسکری و جنگی قوت تھے بالکل ویسے ہی جیسے آج آپ ایک عسکری و جنگی قوت ہیں۔تو اب آپ پر لازم ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب ان کرپٹ حکمرانوں کا ظلم و جبر اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے،آپ نبوت کےنقشِ قدم پر خلافت کے فوری قیام کے لیے حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کریں ،ان حکمرانوں کو دبوچ لیں اور اپنی گردن سے اتار پھینکیں ،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کوحاصل کرلیں اور اس کے غیض و غضب سے خود کو محفوظ بنا لیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، إنَّ النَّاسَ إَذا رَأوُا الظَّالِمَ فَلمْ يَأْخُذُوا عَلى يَدَيْهِ أوْشَكَ أن يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقَاب "لوگ جب ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں، اور اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لے "(ابو داؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ)۔
حزب التحریر
ولایہ پاکستان
11 ربیع الاول 1441 ہجری
8 نومبر 2019 ء
ختم شد