دَم اور جھاڑ پھونک
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍؓ، أَنَّ رَسُولَ اللّهِ ﷺ قَالَ: «لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا، أَوْ سَبْعُمِائَةِ أَلْفٍ مُتَمَاسِكُونَ، آخِذٌ بَعْضُهُمْ بَعْضًا (صفًا واحدًا بعضهم بجنب بعض). لاَ يَدْخُلُ أَوَّلُهُمْ حَتَّى يَدْخُلَ آخِرُهُمْ (أي أن دخولهم يكون في وقت واحد) وَجُوهُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ”سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے ستر ہزاریا سات لاکھ (ابوحازم جو اس حدیث کے راوی ہیں انہیں یاد نہیں رہا کہ سہل نے ستر ہزار کہا یا سات لاکھ )آدمی جنت میں جائیں گے، ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے( یعنی ایک کا ہاتھ دوسرے کے ہاتھ میں ہوگا اور اکٹھےہوکر ایک ہی صف میں ایک دوسرے کے سنگ داخل ہوں گے)کوئی بھی ان میں سے پہلے نہیں گھسے گا جب تک ان کا آخری آدمی داخل نہ ہوجائے ( یعنی ان کا جنت میں داخلہ بیک وقت ہوگا) اور ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔ "
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے: "میرے سامنے اُمتیں لائی گئیں، ایک نبی ایسے تھے کہ ان کی امت کے لوگ دس سے بھی کم ہوں گے، بعض نبیوں کو دیکھا جن کے ساتھ ایک یا دو آدمی تھے، اور بعض کے ساتھ کوئی ایک امتی بھی نہ تھا، اس اثنا میں ایک بڑی امت آئی ( یعنی زیادہ لوگ جو دور سے نظر آتے ہیں ) میں سمجھا کہ یہ میری امت ہے، پھر مجھے بتایا گیا کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام ) ہیں اور ان کی امت ہے، آپ آسمان کے کنارے کو دیکھیں۔ میں نے اس طرف دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ دیکھا، مجھے کہا گیا اب دوسرے کنارےکی طرف دیکھیے،دیکھا تو اس طرف بھی انسانوں کا سواد عظیم ہے( بخاری کی روایت میں ہے: اتنی زیادہ تعداد دیکھی جس سے اُفُق چھپ گیا تھا) پھر مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ ﷺ کی امت ہے، ان میں ستر ہزار وہ بھی ہیں جو بغیر کسی حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔” روای کہتا ہے کہ اس کے بعد آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ تو لوگوں نے گفتگو کی ( کچھ شورسا بن گیاا اور آوازیں اُٹھیں) بغیر کسی حساب و عذاب کے جنت میں داخل ہونے والوں کے بارے میں۔ کسی نے کہا : شاید وہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہوں گے، کسی نے کہا: شاید وہ لوگ ہوں گے جو پیدائشی مسلمان ہوں گے اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کبھی شرک نہیں کیا،بعضوں نے کچھ اور کہا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: تم لوگ کس چیز میں بحث کر رہے ہو؟ لوگوں نے بات بتائی،تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جونہ منتر جھاڑ پھونک کرتے ہیں ( یعنی دوسروں کو دم نہیں کرتے) اور نہ جھاڑپھونک کراتے ہیں(کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ان کا اعتماد اور بھروسہ قوی ہوتا ہے) نہ ہی وہ بدشگونی کرتے ہیں( یہ طیر سے ماخوذ ہے، اصل میں بد شگونی کو کہتے ہیں جس کا جاہلیت میں بہت چرچا تھا، مگر اس میں ہر قسم کی دیکھی ہوئی یا سنی ہوئی شے اور زمان و مکان شامل ہے)اور اپنے پروردگار پر ہی توکل و اعتماد کرتے ہیں( یہی وہ جامع اصل ہے جس سے پہلے ذکر کردہ تمام افعال وکردارنشو و نما پاتے ہیں، یعنی اللہ پر توکل اور سچائی سے اس کی پناہ لینا) یہ سن کر عُکاشہ بن مِحصَن نے کھڑے ہوکر عرض کیا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تو ان ہی میں سے ہے” ( بخاریؒ کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اے اللہ ان کو انہی میں سے کردے) پھر ایک اور شخص اُٹھا اور بولا یا رسول اللہ !” میرے لیے دعا کیجیےکہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں سے کردے” تو آپ ﷺ نے فرمایا: "عکاشہ تجھ سے پہلے یہ کام کرچکا” ۔امام مسلمؒ نے عمران رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہےاس میں یہ بھی ہے کہ ” وہ داغ نہیں لگاتے ہیں (یعنی علاج کے لیے) بخاریؒ نے اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پر توکل کرنے کا مقام ومرتبہ آخرت میں کتنا بلند ہے! کہ ایسا بندہ بغیر کسی حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوگا۔ کیونکہ وہ دم اور جھاڑ پھونک، بدفالی اور داغ لگانا لگوانا چھوڑ کر صرف اللہ پر توکل کرتا ہے، جو کمال ایمان کی نشانی ہے،اور توکل علی اللہ کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔ حدیث میں پیروکاروں کی کثرت کی بنا پر نبی ﷺ کی فضیلت و شرف بھی بیان کیا گیا ہے، اور دیگر امتو ں پر اس امت کی برتری کا بیان بھی کیا گیا ہے،نیز یہ کہ اس امت میں اللہ پر بہترین توکل کرنے والے موجود ہوں گے ، ایمان کے کئی درجے ہیں، جن میں سے اعلیٰ ترین درجہ اللہ پر صحیح طریقے سے توکل اور بھروسہ ہے۔
جہاں تک شرعی رقیہ( دَم) کا تعلق ہے تو وہ جائز ہے، مگر اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرکےاسے چھوڑنا بڑا مرتبہ ہے، دَم وہ جائز ہے جو کلام الہٰی یا اسمائے حسنیٰ یا اللہ کے صفاتی ناموں سے کیا جائے یا نبی ﷺ سے منقول و ماثور دعاؤں سے۔ نیز یہ اعتقاد بھی ضروری ہے، کہ دَم بذات خود مؤثر نہیں ،بلکہ اس کے اندر تاثیر اللہ تعالیٰ ڈالتے ہیں۔ علماء نے اس میں کلام کیا ہے کہ: دَم نبی ﷺ کا طریقہ یعنی سنت ہے، آپ ﷺ جھاڑپھونک کیا کرتے تھے، صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہے، مسلم کی حدیث جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو دَم کیا تھا، عائشہ رضی اللہ نے بھی دَم کیا تھا ،یہ حدیث صحیحین میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے۔ اسی طرح صحابہ دم اور جھاڑ پھونک کرتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دَم کیا اور دیگر صحابہ نے بھی دَم کیا، جیسا کہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور متفق علیہ ہے،ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس صحابی کا قصہ نقل کیا گیا ہے جس نے ایک گاؤں کے سردار کوسورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا، اور آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس سے دم کیا جاسکتا ہے؟” یہ علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ دم کرنے والا دوسرے کے ساتھ بھلائی کرتا ہے، تو اس احسان سے کیوں روکا جائے؟ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:” یا رسول اللہ ﷺ میں دم کرسکتا ہوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تو کرے۔” اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور فرمایا:” جھاڑ پھونک میں شرک کی آمیزش نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔”جہاں تک آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے” وہ جھاڑ پھونک نہیں کرواتے” تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی اور سے جھاڑ پھونک کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو ستر ہزار والی فضیلت پانے کا خواہشمند ہو یعنی جنت میں بلا حساب و عذاب داخلہ چاہتا ہے، تو وہ جھاڑ پھونک نہ کروائے، کیونکہ حدیث میں ان لوگوں کی یہ صفت مذکور ہے، حدیث میں استرقاء کا لفظ آیا ہے،اس میں الف ، س اور ت ، طلب یعنی مانگنے پر دلالت کے لیے آتے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جائز ہونے کے باوجود جھاڑ پھونک کا مطالبہ نہیں کرتے ، جو اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد اور خود سپردگی کی علامت ہے، اور اللہ کے علاوہ سے لا تعلق ہونے کی نشانی ہے۔ پس جھاڑپھونک کا مطالبہ کرنے والے کا اس پر ایمان ہوتا ہے کہ جھاڑ پھونک جائز ہے، اور اپنی شرائط کے ساتھ اس میں شفاء بھی ہے، اگر اللہ شفاء دینا چاہے۔ اسی طرح اس کا یہ بھی ایمان ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی شفاء دینے والا ہے، اور اس کو میری حالت کا علم ہے، اللہ ہی ہے جو میرا کام بناتا ہے، اور میری حالت اچھی کرتا ہے۔ایک مسلمان کا جھاڑ پھونک کو چھوڑ نے کے معنی ہیں کہ وہ اسی پر راضی ہے جو اللہ کی مرضی ہے، یعنی شفاء ملے تب بھی ، نہ ملے تب بھی،ایسا مسلمان اپنا معاملہ کُلی طور پر اپنے رب کے سپرد کردیتاہے۔
جہاں تک حدیث میں آئے ان الفاظ "لَاَ يَتَطَيَّرُونَ" کا تعلق ہے ( یہ طیر سے لیا گیا ہے، طیر بمعنی پرندہ، یہ اصل میں کسی پرندے سے بدفالی لینے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ عرب میں اس کا اس کا دستور تھا اور عام طور پر مشہور تھا، پرانے زمانے میں جب شمالی جانب سے کوئی پرندہ اڑ تا دکھائی دیتا یا پیچھے کی جانب مڑ تا دکھائی دیتا تو وہ اس سے بدفالی لیتے تھے، دائیں طرف چلا جاتا، تو وہ اس سے نیک شگونی لیتے تھے، اسی وجہ سے بد شگونی کو تَطَیُّر کہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ بد فالی کسی پرند کے ذریعے ہی ہو۔ یہ ہر قسم کی بدفالی کو شامل ہے، خواہ آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز سے ہو، جیسے کسی پرندے کو دیکھنا، یا سنُی ہوئی چیز سے ہو،مثلا کوئی ناپسندیدہ آواز سنائی دے اور اسی سے اپنی موجودہ یا آئندہ قسمت و انجام وابستہ کردے اور اسی انتظار میں اپنے شب و روز گزارتا رہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگوں میں ایک بات مشہور ہوجاتی ہے، جس کی کوئی بھی حقیت نہیں ہوتی، مگر وہ اس کو سچا مانتے ہیں پھر اس سے بدفالی لیتے ہیں۔ مخصوص دنوں سے بدفالی بھی ایسی ہے، چنانچہ ہر دیکھی ہوئی یا سنی ہوئی یا جانی ہوئی چیز سے بدفالی کرنے سے نہی کی گئی ہے۔ بد فالی کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس سے منع کیا ہے، اور اس کے مقابل نیک شگونی کی دعوت دی ہے ،صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل شدہ حدیث اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” کوئی چھوت چھات نہیں ، کوئی بد شگونی نہیں۔” انس رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” چھوت چھات نہیں ، کوئی بد فالی نہیں۔ میں نیک شگونی کو پسند کرتا ہوں۔” صحابہ نے عرض کیا : نیک شگونی کیا ہوتی ہے؟ فرمایا: ” اچھی بات” یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ پس حدیث میں بد فالی کی مذمت کی گئی ہے ۔بد فالی توحید کے بھی منافی ہے، اس و جہ سے کہ بد فالی کرنے والے شخص کا اللہ پر سے توکل و اعتماد اُٹھ جاتا ہے،اور دوسری چیزوں پر بھروسہ کرتا ہے، یا کسی ایسی چیز سے تعلق استوار کرلیتا ہے جس کی کوئی حقیقت ہوتی نہیں۔
جہاں تک اس قول (وَلاَ يَكْتَوُونَ) کا تعلق ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داغ لگانے اور اس کے ذریعے شفاءطلبی ستر ہزار والی فضیلت کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہے، داغ لگا نے کے بارے میں متعدد دلائل آئے ہیں ، کچھ اس کی مذمت پر مشتمل ہیں اور کچھ اس کی اباحت یعنی جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ چنانچہ صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ” شفاء تین چیزوں میں ہے، حجامہ کے نشتر میں ،یا شہد پینے میں یا آگ کے ذریعے داغ لگانے میں ، (لیکن) میں اپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں” اور صحیحین ہی کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے سعد بن معاذؓ کو داغ لگایا تھا جب ان کی رگ میں تیر لگ گیا تھا۔ ان احادیث کی وجہ سے علماء نے اس کے حکم میں اختلاف کیا ہے، زیادہ ظاہر اس کا جواز ہے واللہ اعلم، بالخصوص جب ضروری ہو۔ اور حدیث میں اس سے جو نہی وارد ہوئی ہے اس کو کراہت پر محمول کیا جائے گا۔
اہم اس کا ترک کرنااولیٰ ہے۔ابن القیم رحمہ اللہ نے ان دلائل کے درمیان نہایت خوش اسلوبی سے تطبیق دی ہے، وہ فرماتے ہیں: داغ لگا نے کی احادیث چار اقسام پر مشتمل ہیں: ایک اس کا کرنا، دوسری حدیث اس سے آپ ﷺ کا محبت نہ کرنا، تیسری چھوڑنے والے کی تعریف ، اور چوتھی اس سے نہی یعنی منع کرنا۔ لیکن الحمد للہ ان احادیث کے درمیان کوئی تعارض یا تضاد نہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کا اس کو کرنا اس کےجواز پر دلالت کرتا ہے، اور آپ ﷺ کا اس سے محبت نہ کرنا اس سے منع کی دلیل نہیں۔ اور چھوڑنے والے کی تعریف اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کا چھوڑنا اولیٰ اور افضل ہے، جہاں تک اس سے نہی کی بات ہے تو اس سے مراد کراہت ہے ، یا پھر اس سے داغ کی وہ قسم مراد ہے جس کی ضرورت نہ ہو، بلکہ اس کو بیماریوں کے خوف کی وجہ سے کرتا ہو۔ (زاد المعاد، لابن القیم الجوزیہ)
جہاں تک آ پ ﷺ کے قول( وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ) کا تعلق ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ پر بھروسے کی فضیلت اور اس کے بلندی مرتبہ کی طرف اشارہ ہے، یہی وہ الفاظ ہیں جو ماقبل کے تمام اوصاف کا جامع ہے، یعنی وہ کسی سے تعویذ گنڈے کے لیے نہیں کہتے، نہ ہی بد فالی کرتے ہیں، اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان امور سے اس لیے بچتے ہیں کہ ان کا اللہ جل شانہ پر کامل اعتماد ہوتا ہے۔توکل کیا ہے؟ توکل یہ ہے کہ اللہ عزّ وجل ّ پر سچے اور کھرے اعتماد و اطمینان کے ساتھ ساتھ اسباب کو بھی اختیار کیا جائے، اللہ پر سچا اعتماد یہ ہے کہ اپنا معاملہ مکمل طور پر اللہ کے سپرد کردے۔ اطمینان یہ کہ وہ اس سوچ کے ساتھ رہے کہ اللہ اس کے لیے کافی ہے جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے ﴿وَمَن يَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسۡبُهُ﴾” جو اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔”اس کے ساتھ ساتھ اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے کوشش ضروری ہے، کیونکہ عمل نہ کرناسستی ہے، یہ توکل نہیں۔ ابن القیم نے کہا ہے: لوگوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ توکل اسباب اختیار کرنے کے منافی نہیں۔ پس یہ درست نہیں کہ توکل کیا جائے ماسوائے یہ کہ اس کے ساتھ عمل بھی کیا جائے (مدارج السالکین) یہ بھی جائز ہے کہ مسلمان کہے کہ میں نے فلاں کام میں اللہ پر توکل کیا، اس سے اپنے قصد کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے، دوسرا اس سے اللہ سبحانہْ کے حضور اپنی بندگی اور عبودیت کا اظہار ہے۔
ختم شد