جہاد کے احکامات مطلق ہیں اور یہ کسی اور چیز سے مشروط نہیں جیسا کہ…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: محمد عمران
کیا جہاد کے لیے ریاست کی اجازت لازمی ہے؟
جہاد کے احکامات مطلق ہیں اور یہ کسی اور چیز سے مشروط نہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: (کُتِبَ عَلَیکُمُ الْقِتَالُ) ” اور تم پر جہاد فرض کر دیا گیا ہے…” ] البقرہ:216[ پس جہاد کی فرضیت کا خلیفہ یا اسلامی ریاست کی موجودگی سے کوئی تعلق نہیں اور جہاد فرض رہے گا خواہ خلیفہ موجود ہو یا نہیں۔ مغرب کافی عرصے سے اس معاملے میں کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے شدید خوفزدہ ہے،اسے مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کر کے کبھی چین حاصل نہیں ہوسکا اور ہمیشہ شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ آج تک جاری ہے۔ پس مغرب بار بار یہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ حکمران کے بغیر جہاد نہیں ہو سکتا۔ اور جہاد کرنے کیلئے خلیفہ یا حاکم وقت کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مسلمانوں میں سے بھی بعض ان کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے اور انھوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ کچھ لوگوں نے موجودہ حکمرانوں کی اجازت کے بغیر امریکہ کے خلاف جہاد کو بھی حرام قرار دے دیا اگرچہ مشرف اور کرزئی جیسے امریکی ایجنٹ مسلم دنیا کے حکمران تھے۔ بھلا یہ حکمران کیونکر امریکہ کے خلاف لڑنے کی اجازت دیں گے؟ یوں امریکہ نے جہاد کو ان حکمرانوں کے ساتھ جوڑ کر اپنے خلاف ہونے والی مزاحمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ واضح رہے کہ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ امت کا کوئی شرعی عقد نہیں اسی لئے شریعت کی رو سے یہ ہمارے اولیٰ الامر نہیں جن کی اطاعت ہم پر فرض ہو۔ اسلام میں ایک حکمران اس وقت ہمارا اولیٰ الامر ہوتا ہے جب امت نے اسے اسلام کے نفاذ کی شرط پر سمع و طاعت کی بیعت دی ہو۔ اس وقت کسی بھی حکمران کے ساتھ مسلمانوں کی ان شرائط پر بیعت موجود نہیں اور یہ تمام حکمران بلاکسی تخصیص کفر کے نظام کے ذریعے حکومت کر رہے ہیں جن کی اطاعت لازم نہیں۔ لہذا شریعت کی رو سے ان میں سے کسی کی بھی اطاعت فرض نہیں کہ وہ ہمیں امریکہ کے خلاف لڑنے سے منع کر سکے یا ہمیں قابض قوتوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے ان کی اجازت کی ضرورت ہو۔ پاکستان کے حکمرانوں نے امریکی اشارے پر تعلیمی نصاب سے سورة التوبہ کی آیات کو حذف کر دیاتاکہ کافروں کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد نئی نسل کے ذہنوں سے ماند پڑ جائے۔ ماضی میں انگریز نے مسلمانوں میں بعض ایسے گروہ پیدا کئے جنہوں نے جہاد کا انکار کرتے ہوئے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا اعلان کیا اور ان کی اولادیں آج بھی انھی کوششوں میں مصروف ہیں ، قادیانی بھی ان کوششوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔
چنانچہ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جہاد کی فرضیت خلیفہ کی موجودگی سے مشروط نہیں اور نہ ہی اسے کسی موجودہ حکمران کی اجازت کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے کیونکہ قرآن و سنت میں وارد ہونے والے جہاد کے احکامات مطلق ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کی قید نہیں لگائی جاسکتی۔ تاہم یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگرچہ جہاد کی فرضیت کسی اسلامی اتھارٹی سے مشروط نہیں تاہم ایک ایسے خلیفہ کی موجودگی میں جس کو شریعت کے مطابق بیعت دی گئی ہو ، جہاد کا انتظامی معاملہ خلیفہ کو تفویض ہو جاتا ہے جیسے مسلمانوں کے دیگر اجتماعی فرائض خلیفہ کے ذریعے منظم ہوتے ہیں۔ خلیفہ اپنے اجتہاد کے مطابق جہاد کو سر انجام دیتا ہے خواہ وہ خلیفہ ظالم ہی کیوں نہ ہو ، جب تک وہ موجود ہے یہ معاملہ اس کی ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کیلئے لازم ہے کہ وہ اس کی رائے کا اتباع کریں ۔ ابوداؤد نے ابوہریرہ سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (الجھاد واجب علیکم مع کل امیر برا کان او فاجر)”تم پر جہاد ہر امیر کے ساتھ فرض ہے چاہے وہ عادل ہو یا ظالم (ابوداؤد)” اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اگر خلیفہ موجود نہ ہو تو جہاد کا فرض ہم سے ساقط ہو جائیگا۔
خلیفہ کیلئے لازم ہے کہ وہ افواج کی براہِ راست کمان کرے اور جہاد کی ذمہ داریوں سے براہِ راست عہدہ برآ ہو ، خلیفہ کیلئے نمائشی کمانڈر انچیف بننا جائز نہیں ۔
جہاد اصغر اور جہاد اکبر:
ایک اور سوچ جو مسلمانوں میں پھیلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کافر دشمن کے خلاف قتال جہادِ اصغر جبکہ اپنے نفس کے خلاف لڑنا جہاد ِاکبر ہے۔ اس کی دلیل میں عام طور پر یہ حدیث روایت کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رَجَعْنَا مِنَالْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ ‘ ‘ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی جانب آ گئے ہیں ”۔ انھوں نے پوچھا؛”جہاد اکبر کیا ہے ”۔ نبیﷺ نے جواب دیا؛” یہ اپنے نفس کے خلاف جہاد ہے۔” یہ حدیث روایتاً اور درایتاً دونوں لحاظ سے مردود ہے۔ روایتاً (روایت کے لحاظ سے) یہ حدیث ”موضوع” یعنی گھڑی گئی ہے۔ حافظ عراقی کے نزدیک یہ ضیعف حدیث ہے جبکہ ابنِ حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کی حدیث نہیں ہے بلکہ ایک شخص ابراہیم ابن ابی عیلا کا قول ہے۔ امام سیوطی بھی اپنی مشہور تصنیف جامع الصغیرمیں ا س ”حدیث” کو مسترد کرتے ہیں۔ نیز درایتاً (مطلب کے لحاظ سے) یہ قرآن و حدیث کے احکامات کے خلاف ہے جس میں کافر دشمن کے خلاف جہاد کو عظیم ترین عمل گردانا گیا ہے۔ معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((راس الامر الاسلام و عمودہ الصلا ة وذروة سنامہ الجھاد فی سبیل اللہ)) ” بنیادی امر اسلام ہے، صلاة (نماز) اس کا ستون ہے، اور جہاد فی سبیل اللہ اس کی چوٹی ہے” (نسائی)۔ جہاداکبرو جہاد اصغر کی بحث کو پھیلانے کا مقصد لوگوں کو جہاد کے فریضے کو ترک کرنے پر مطمئن کرنا ہے اور انہیں یہ جھوٹی تسلی دینا ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو شراب، زنا، جھوٹ و خیانت سے بچا رہے ہیں تو انہیں جہاد فی سبیل اللہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔
مسلمانوں کے درمیان لڑائی جہاد نہیں:
مسلمانوں کے درمیان لڑائی جہاد نہیں اور نہ ہی اس لڑائی میں کوئی شہید ہوتا ہے، اگرچہ یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک فریق حق پر ہو اور ایک باطل پر، جیسا کہ اسلامی ریاستِ خلافت کی باغی مسلمانوں سے لڑائی وغیرہ۔ تاہم اس کے باوجود یہ لڑائی جہاد نہیں اور نہ ہی اس میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے۔ اس لڑائی کے احکامات مختلف ہیں اور اس میں نہ مال غنیمت ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کوغلام یا لونڈی بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کسی شخص کے اقتدار کو غصب کر کے حکمران بن بیٹھنے کے خلاف لڑنا اور اسے بزور تلوار مسند اقتدار سے اتارنا خروج کہلاتا ہے اور یہ بھی شرعی جہاد کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی کی جان، مال اور عزت پر حملہ کر رہا ہو تو ایسے میں ایک مسلمان دفاع میں لڑنے کا حق رکھتا ہے لیکن اسے بھی جہاد نہیں کہتے۔ جہاد صرف اور صرف اِعلاء کلمة اللہ کے لئے کافروں کے خلاف قتال کو کہتے ہیں، مسلمانوں کے خلاف لڑنا جہاد نہیں ہوتا خواہ وہ لڑائی اسلام کی رو سے درست ہی کیوں نہ ہو۔ فقہاء نے جہاد کی جو تعریفیں لکھی ہیں اس میں واضح طور پر اس کو غیر مسلموں سے لڑنے کو شرط بتایا ہے، یہی وجہ ہے کہ خروج، اپنی جان و مال، عزت و آبرو کا دفاع وغیرہ کو فقہاء نے جہاد کے ابواب میں ذکر نہیں کیا۔
چنانچہ ایسی استثنائی صورتوں کے علاوہ مسلمانوں کی آپس میں لڑائی بنیادی طور پر ایک فتنہ ہے اور استثنائی صورتحال کے علاوہ دونوں جانب مرنے والے جہنمی ہوتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار، قلنا يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال انه كان حريصا على قتل صاحبه)) "جب دو مسلمان لڑائی میں ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہیں اور (ان میں سے) ایک دوسرے کو قتل کردیتا ہے، تو قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنم کی آگ میں جائیں گے، صحابہ نے پوچھا ، اے اللہ کے پیغمبر ایک تو قاتل ہے لیکن جس کو قتل کیا گیا اس کے متعلق بھی یہی فیصلہ ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کیونکہ اس کا بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ تھا”(بخاری)۔ تمام مسلمانوں کی جان ، مال ، عزت، آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے سوائے شرعی دلیل کے۔ مسلمانوں کے دو گروہوں کی آپس میں لڑائی کی صورت میں مسلمانوں کا اصل کام ان دونوں کو اللہ کے حکم پر لوٹانا ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:( وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ) ” اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو پس اگر ایک ان میں سے دوسرے پر ظلم کریں تو ان سے لڑو جو دوسرے پر زیادتی کرتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم سے رجوع کرے ، پھر اگر وہ رجوع کرے تو دونوں میں انصاف سے صلح کرا دواور انصاف کرو بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔” ]الحجرات : 9[لہذا مسلمانوں کا مسلمانوں کے خلاف لڑنا مسلمانوں کیلئے فتنہ ہے جیسا کہ عراق اور ایران جنگ کی مثال ہے یا جیسا کہ پاکستان کی افواج اور بعض عسکری گروہ، جو پورے پاکستان میں جہاں موقع ملے افواج پر حملہ آور ہوتے ہیں ،کے درمیان جنگ کا تعلق ہے۔موجودہ حالات میں جب کفار کے زیر اثر غدار اورایجنٹ پاکستانی حکمرانوں نے مسلمان افواج کو مسلمان مجاہدین کے خلاف استعمال کیا اور اس کے جواب میں عسکری گروہ ان حکمرانوں اور افواج پر حملہ آور ہو گئے تو اس نے مسلمانوں کیلئے ایک فتنے کی صورتحال پیدا کر دی ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان دونوں گروہوں کو اللہ کے حکم کی جانب لوٹائیں۔ اور اس کا طریقہ منہج نبوی کی اتباع کرتے ہوئے فکری و سیاسی جدوجہداور اہلِ قوت کی مدد سے ان حکمرانوں کو اس کفریہ نظام سمیت اکھاڑنا اور اس کی جگہ خلافت قائم کرنا ہے اور پھر ان مسلم افواج کو جہاد کی ذمہ داری سونپتے ہوئے ان کے ذریعے امریکہ کو خطے سے باہر نکالنا ہے۔ اسلام میں قصاص انفرادی ہوتا ہے نہ کہ پورے ادارے کے خلاف ۔ پس جس نے ظلم کیا اس سے قصاص لیا جا سکتا ہے جس کے تفصیلی احکامات شریعت میں موجود ہیں ۔ میدان جنگ سے باہر چھاؤنیوں اور دیگر اداروں میں موجودمسلمانوں سے بدلہ لینا کہ ان کا کسی نہ کسی درجے میں اس قتل عام سے تعلق ہے ، ایک غلط دلیل ہے۔ اگر اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر ہر عام شہری کو بھی اس جنگ میں معاون قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ اس ریاست کو چار و ناچار ٹیکس دینے پر مجبور ہے اور یہ غدار حکمران اسی ٹیکس کے پیسے سے افواج پاکستان کو قبائلی علاقے میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ عسکری گروہ بھی موبائل فون استعمال کرکے اور بجلی اور گیس کا بل دے کر بالواسطہ ٹیکس کی شکل میں ان غداروں کے ہاں پیسہ جمع کروا رہے ہیں ؟! فوج اور قبائلی مسلمان دونوں امت کے عظیم اثاثے ہیں۔ زیادہ فوجیوں کی ہلاکت یا زیادہ جنگجوؤں کا مرنا اس فتنے کی صورتِ حال کا حل نہیں ہے بلکہ یہ کافر صلیبیوں کی عظیم خدمت ہے۔
جہاد ریاستِ خلافت کو قائم کرنے کا طریقہ نہیں:
جس طرح کے پیچھے مختلف حصوں میں گزر چکا ہے کہ جہاد اسلام کے کوہان کی چوٹی اور اسلام کی شان ہے، یہ ایک عظیم فرض ہے اورعظیم الشان اجر کا حامل ہے۔ اور اسی طرح خلافت کے قیام کا فرض بنیادی فرض ہے ، جس پر تمام اسلام کے قیام کی بنیاد ہے، اسی سے حدود جاری ہونگی، جہاد اپنے اصل حقیقت میں لوٹے گا ، مسلمانوں کی جان ، مال، عزت، عقیدے اور سر زمین کا تحفظ ہو گا اور مسلمان ایک بار پھر دنیا کے رہنما بن جائیں گے۔ تاہم یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ دو مختلف فرائض ہیں اور دونوں کے لوازمات، منہج، وسائل اور انداز مختلف ہیں۔ جہاں تک خلافت کے قیام کا تعلق ہے ، تو اس کا منہج رسول اللہﷺ کی مکی دور سے اخذ کیا جاتا ہے جب مسلمان دارالاسلام (دار المہاجرین) سے محروم تھے اور وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس دور میں رسول اللہﷺ نے صریحاً ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ؛ اور جب آپ سے اس کی اجازت مانگی گئی تو آپﷺ نے ‘لم نؤمر بذالک بعد’ یعنی ‘ ابھی اس کی اجازت نہیں ہے (طبقات الکبریٰ)’کہہ کر اسکا منہج واضح کر دیا۔ وگر نہ صحابہ کرامؓ بلا شک و شبہ ہم تمام مسلمانوں سے زیادہ غیرت مند تھے۔ لیکن نبیﷺنے صرف سیاسی اور فکری جدودجہد کی اور تشدد، بائیکاٹ، پروپیگنڈا، دھمکیاں، قتل اور طنز و تشنیع کے باوجود کبھی مادی (عسکری) جواب نہیں دیا۔ اور آخر کار مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے بعدآپ نے طلبِ نصرہ (اہلِ قوت کو قائل کرنے) کے ذریعے ریاست قائم کر دی۔ جبکہ اس کے برخلاف جہاد کا بنیادی طریقہ ہی تلوار، گھوڑے، تیر و تفنگ اور اس کے موجودہ ذرائع جیسے جنگی جہاز، بم، میزائیل، ٹینک اور ایٹمی ہتھیار ہیں۔ جہاد مظاہروں، پریس کانفرنس، سیمیناروں اور امن کانفرنسوں اور مذاکراتوں سے نہیں ہوتا بلکہ یہ میدان جنگ میں ہوتا ہے، جیسا کہ نبیﷺ نے بدر، احد، خندق، موتہ، تبوک اور دیگر غزوات میں کیا۔ ان دونوں فرائض کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کرنے سے مسلمان اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتے۔ حالیہ دور میں بعض علماء نے ،جو جہاد کے ساتھ وابستہ رہے ہیں ، اسلامی سرزمین کے حکمرانوں کے خلاف عسکری جدوجہد کو اسلامی ریاست کے قیام کا طریقہ کار قرار دیا ہے۔ وہ اس عسکری جدوجہد کو ”جہاد” کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اور حکمرانوں میں وہ ان تمام لوگوں کو شامل کرتے ہیں جو اس حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہیں۔ ان کی اس سوچ کی بنیاد چار دلائل ہیں۔
1) موجودہ حکمران اسلام سے مرتد ہو چکے ہیں ۔ ان حکمرانوں کو استعما ری منصوبوں کے مطابق کھڑا کیا گیا ہے ، ان کا اسلام صرف برائے نام ہے، خواہ یہ بظاہر نمازیں پڑیں، روزے رکھیں لیکن درحقیقت یہ اسلام سے ارتداد کے مرتکب ہیں۔ پس امن مسلمانوں کیلئے ہے اور جہاد کافروں اور مرتد حکمرانوں کے لئے۔ اسلئے ان سے لڑنا جائز ہے۔
2) مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب (ادائیگی فرض کیلئے جو کچھ ضروری ہے وہ بذات خود فرض ہو جاتا ہے)۔ ان کے مطابق چونکہ اسلامی ریاست کا قیام فرض ہے اسلئے اس فرض کو حاصل کرنے کیلئے جو کچھ ضروری ہے تو وہ بھی فرض ہو جاتا ہے خواہ وہ حکمرانوں سے لڑنا ہی کیوں نہ ہو۔
3)قبضے کی دلیل: استعماری ممالک دراصل ہمارے ممالک پر قابض ہو چکے ہیں اور یہ حکمران ان کے ایجنٹ ہیں پس جس طرح کفار کے قبضے کی صورت میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے اسلئے اس نظام اور ان حکمرانوں سے، جو کہ قابض قوتوں کے نمائندہ ہیں، ان سے لڑنا سب پر فرض ہو گیا ہے۔
4) کفر بواح و کفر صریح کے ارتکاب کی دلیل: وہ قاضی عیاض کا وہ قول (فتویٰ) لے کر آتے ہیں جس میں انھو ں نے کہا ہے کہ ”اگر حکمرانکفر کے نفاذ، شریعت کی تبدیلی یا بدعات کے رواج پر بضد ہو تو اس کی اطاعت غیر موثر اور اس کے خلاف بغاوت کرنا، اس کو ہٹانا اور اس کی جگہ ایک عادل امام کا نفاذ لازم ہے اگر ممکن ہو۔ ” پس چونکہ یہ حکمران درج بالا افعال کے مرتکب ہیں اور یہ اپنی حکومت سے ہٹنے پر تیار نہیں اور اپنی حکومت کی حفاظت کیلئے بڑی افواج رکھتے ہیں اسلئے اسلامی ریاست قائم کرنے کیلئے لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔
جہاں تک ان دلائل کا تعلق ہے ان کے مختصر جوابات درج ذیل ہیں۔
1) ارتدد کی دلیل: ارتداد کی دلیل دراصل سورة مائدہ کی 44, 45, اور 47نمبر آیات سے لی گئی ہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کے نازل کردہ احکامات سے فیصلہ (حکومت) نہیں کرتا پس وہی لوگ ظالم، فاسق اور کافر ہیں۔ اور یقیناً یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا واضح فیصلہ ہے ۔ ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ جو کوئی شریعت میں موجود قرآن کے کسی قطعی فیصلے کا انکار کرے پس وہ کافرہے، اور جو کوئی کہے کہ اللہ کا قانون نافذ نہیں ہونا چاہئے وہ کافر ہے، اور جو کوئی کہے کہ انسان کا قانون اللہ کے قانون سے بہتر ہے پس وہ کافر ہے ، اور جو کوئی اللہ کے احکامات کا انکار نہ کرے لیکن کہے کہ اللہ کے قانون کے علاوہ میں سے بھی کچھ نافذکرنا جائز ہے تو وہ بھی کافر ہے کیونکہ وہ حکم کو صرف اللہ تک محدود نہیں کرتا، بیشک وہ یہ کہے کہ اللہ کا قانون اگرچہ بہتر ہے۔ تاہم اگر کوئی اللہ کے قانون کے علاوہ کسی اور قانون سے فیصلے اور حکومت کرے لیکن وہ ان پرایمان نہ رکھتا ہو بلکہ ان سے نفرت کرتا ہو تو یہ کفر من دون کفر ہے۔ یعنی یہ کفر سے کچھ کم کفر ہے۔ پس اگرچہ یہ عظیم گناہ ہے اور قطعی حرام ہے ،مگر وہ ظالم اور فاسق کہلایا جائے گا اور اسے کافر نہیں کہا جائے گا ۔ مزید یہ کہ ارتداد کا فیصلہ کرنے کیلئے قطعی ثبوت کی ضرورت ہے۔ عبادہ ابن صامتؓ سے روایت حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا؛ ”۔۔۔ سوائے اس کے کہ تم صریح کفر دیکھ لو جس کیلئے تمھارے پاس اللہ کی جانب سے واضح دلیل ہو۔” واضح دلیل سے مراد قطعی ثبوت ہے۔ جبکہ بیک جنبش قلم تمام حکمرانوں ، ان کے وزرا ، مشیروں اور تمام اعلیٰ حکام کے بارے میں ارتداد کا فیصلہ قطعیت پر مبنی نہیں
2) مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب کا اصول ایک عمومی اصول ہے اور یہ صرف اس صورت میں استعمال ہو سکتا ہے جب اس حقیقت سے متعلق براہ راست کوئی دلیل موجود نہ ہو جس کی متعلق حکم اخذ کیا جا رہا ہو۔ پس براہ راست دلائل کی موجودگی میں عمومی اصول استعمال نہیں ہو سکتا۔ چونکہ اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق تفصیل سے سیرة میں منہج موجود ہے اسلئے اس اصول کا استعمال درست نہیں۔ چنانچہ کفر نافذ کرنے والے حکمرانوں کو ہٹانے اور ان کی جگہ شرعی اتھارٹی کے حامل خلیفہ کو عنان حکومت سونپنے کے لئے سیرت میں وارد شدہ شرعی احکامات کی اتباع ہی کی جاسکتی ہے جس میں عسکری جدوجہد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد میں کسی بھی قسم کی عسکریت کی اجازت نہ دی۔ اسی لئے ہم بھی آج دار الاسلام کے قیام کے لئے محض فکری و سیاسی جدوجہد اور طلب النصرہ کے اسلامی احکامات کے پابند ہیں اور اس سے رو گردانی کرنا شریعت کے احکامات سے رو گردانی کرنے کے مترادف ہے۔
3) قبضے کی دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ یہ حکمران کافر کے ایجنٹ کے طور پر عمل کر رہے ہیں جبکہ کافر استعمار نے اپنا کنٹرول مسلمان ممالک پر جما دیا ہے اسلئے جہاد الدفع کے تحت مسلمانوں پر لڑنا فرض عین ہو گیاہے۔ اس دلیل میں غلطی حقیقت کو غلط طور پر سمجھنے سے واقع ہوئی ہے۔ یعنی استعمار کا کنٹرول کس نوعیت کا ہے۔ اگر ان کا کنٹرول فوجی نوعیت کا ہے تو پھر شرع اس فوج کے خلاف لڑنے کا حکم دیتی ہے ،لیکن اگر ان کے تسلط کی بنیاد فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے تو پھر اس حقیقت کے متعلق شرع سے حکم معلوم کیا جائے گا۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ، مقبوضہ فلسطین اور افغانستان کی حقیقت ایک ہے یا مختلف؟ مقبوضہ فلسطین، اور افغانستان جیسے ممالک میں کافر ملک کی فوجیں گھس کر مسلمانوں کی اتھارٹی کو نیست و نابود کر کے پورے ملک پر فوجی تسلط قائم کیے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان ، ترکی مصر وغیرہ جیسے ممالک میں ان کا قبضہ سیاسی سیٹ اپ کے ذریعے ہے نہ کہ براہِ راست اپنی افواج کے ذریعے ۔ یعنی اب بھی اسلامی علاقوں میں تحفظ مسلم افواج کی بدولت ہے اور ۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی ا فواج بحیثیت ایک حقیقت کے موجود ہیں اور تحفظ یا سیکورٹی ان کے ہاتھوں میں ہے۔
ایسے میں بجائے اس کے کہ ان کافر ریاستوں کے سیاسی اثر رسوخ کا خاتمہ کیا جائے اور ان مسلم افواج کو اسلام کے احکامات نافذ کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے، اپنے ہی مسلمان فوجیوں اور ریاستی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا مسلمانوں کی قوت کے ذرائع کو کمزور کرنا ہے۔ اسلام اس مسئلہ کا حل بھی منہج نبوی کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ جس کے تحت سیاسی جدوجہد کے ذریعے استعمار کے منصوبوں اور چالوں کو عوام کے سامنے بے نقاب اور ان کے ایجنٹوں کی کفار کے ساتھ ساز باز کو آشکار کیا جاتا ہے۔ یوں عوام کے سامنے ان کے ایجنٹوں کے کمزورہونے سے درحقیقت استعمار کے سیاسی اثر و رسوخ میں کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر ان پر آخری وار اہلِ طاقت سے نصرت طلب کرتے ہوئے کیا جاتا ہے جب اہل طاقت میں سے چند مخلص عناصر اس نظام کو اکھاڑ کر خلافت کے قیام کے لئے نصرت فراہم کرتے ہیں۔ یوں نہ صرف ریاست کے تمام تر وسائل مخلص خلیفہ کی اتھارٹی میں آجاتے ہیں بلکہ مسلمانوں کی مضبوط فوج بھی اس کی کمان میں آجاتی ہے جو آج ان غدار حکمرانوں کی بدولت استعمار کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔
4) کفر بواح و کفر صریح کی دلیل کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ احادیث موقع و محل کے برخلاف استعمال کی گئی ہیں کیونکہ یہ احادیث جن میں تلوار سے امام کے خلاف اٹھنے کا حکم ہے، صرف دارالاسلام کیلئے ہیں نہ کہ دارالکفر کیلئے۔ کیونکہ احادیث اس امر میں واضح ہیں کہ اس امام کی اطاعت کی جا رہی تھی اور اب کفر بواح و کفر صریح کے باعث خروج کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اور اطاعت صرف ایسے امام کی کی جاتی ہے جس نے جائز طور پر بیعت لی ہو۔ مزید برآن ان احادیث میں تلوار اٹھانے کو روکا جا رہا ہے اس وقت تک ” جب تک وہ صلوٰة (بمعنی شریعت) قائم کر رہے ہو۔” جو کہ صرف ایک خلیفہ کرتا ہے۔ پس دارالاسلام سے متعلقہ حکم کو دارالاکفر پر لاگو کرنا صریحا غلطی ہے۔
مزید برآں ”جہادی” طریقے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ”طریقہ ” معاشرے میں موجود فاسد نظریات، جذبات و احساسات کی تبدیلی اور دعوت کے ذریعے اہلِ طاقت افراد کو اپنے ساتھ جوڑنے کے نبوی طریقہ کار سے عمومی طور پر عاری ہے جس سے اس طریقے کے قائل لوگوں میں زور، زبردستی، جبر اور سزاؤں کے ذریعے ہی نظام کو نافذ کرنے کی سوچ غالب ہوتی ہے۔ پس یہ ”طریقہ ” شرعی دلائل اور حقیقت دونوں کے اعتبار سے غلط ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ” منہج” دراصل مسلمانوں پر کفار کے ہولناک اور لرزہ خیز مظالم کے ردعمل میں بعض مسلمانوں کی جانب سے اپنایا گیا ہے جو اسلامی جذبات کی شدت کے باعث اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتے ہیں تاہم اس ”منہج ”کو چننے کے بعد اس کے لئے شرعی دلائل سے تاویل کی گئی ہے۔ کسی بھی ریاست کو چلانے کے لئے ایک نظام کی واضح تصویر اور ایسے افراد درکار ہوتے ہیں جو اس نظام کو پوری طرح سمجھتے ہوں لیکن افسوس جہاد کے ذریعے تبدیلی لانے کے خواہاں نہ کوئی اسلامی نظام کا خاکہ پیش کرتے ہیں اور نہ ہی وہ سیاسی تدبر اور بصیرت رکھنے والی ٹیم جو خلافت کو چلانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ ان میں حالات و واقعات کو گہرائی سے مطالعہ کرنے کا بھی فقدان ہوتا ہے جس کے باعث کبھی وہ کسی ایک قصبے میں” امارت ”کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی قابض فوج کی بندوق کے نیچے کسی دوسرے گاؤں میں” امارت اسلامیہ” کے عہدیداروں اور امیروں کے ناموں کی تشہیرکرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یقیناً جہاد ایک عظیم فرض اور اعلیٰ ترین اعمال میں سے ہے تاہم اس کو دوسرے فرائض سے گڈ مڈ کرنے کے باعث کوئی بھی فرض درست انداز میں شرعی طور پر ادا نہیں ہو پا تا۔
دعوت ِ اسلام اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کا محور اور جہاد اس کا عملی طریقہ ہوتا ہے:
خلافت کی خارجہ پالیسی کی بنیاد تمام عالم تک اسلامی دعوت کو پہنچانا ہے۔ خلافت صدیوں تک اسلام کی دعوت کو دیگر اقوام تک پہنچاتی رہی ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: (وَمَا ھُوَ ِالَّا ذِکْرُ لِّلْعَالَمِیْنَ) ”یہ (اسلام) تمام جہان کے لیے یاد دہانی وپیغام ہے ”]القلم:2 5[ اور فرمایا: (وَمَا أَرْسَلْنَاکَ ِالَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُون) ” اور(اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو انسانیت کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کربھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں”]السبا: 28[ پس ان آیات سے واضح ہے کہ اسلام پوری انسانیت کے لئے ہے نہ کہ صرف مسلمانوں کے لئے۔ چنانچہ اس رحمت کو دیگر اقوام تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں ہر وہ ریاست یا اتھارٹی جو اسلام کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے میں رکاوٹ بنے گی اسے ہٹانا مسلمانوں کے لئے فرض ہے چاہے انہیں ایسا کرنے میں طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ چنانچہ اسلامی دعوت کا پہنچانا ہی خلافت کے دوسری اقوام کے ساتھ باہمی تعلقات کی بنیاد بنتا ہے۔ اور کافروں کو دعوت دینے کا طریقہ ان پر اسلامی نظام کا نفاذ ہے جس سے کفار عملی طور پر اسلام کے احکامات کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ خلافت کی ذمہ داری اندرونی طور پر اسلام کو نافذ کرنا اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسے تمام دنیا تک پھیلانا ہے۔ یہی اس ریاست کا مقصد اور جواز ہے۔
انسانیت کو ظلم سے نجات دلانے کے ضمن میں جہاد اس امت پر بہت عظیم ذمہ داری ہے۔ آج ایک شودر ذات کا ہندو یا ہریجن بھارت میں جانور سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یورپ کا عام شہری سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہا ہے اور اس کی دولت کا 30 سے 50 فیصد ٹیکسوں کے نام پر سرمایہ دار چھین کر لے جاتا ہے۔ امریکہ میں آزادی کے نام پر عورت کو خریدوفروخت کی شئے بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ان تمام انسانوں کو اس ظلم سے کون نکالے گا؟ کیا ہم ”پر امن بقائے باہمی” کے باطل اصول کو بنیاد بنا کر انہیں ظلم کی آگ میں جلنے کے لئے چھوڑ دیں؟ ہر گز نہیں!! اسلام ہمیں انہیں اس ظلم سے نکالنے کی تلقین کرتا ہے۔ جو صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان کے حقوق اسلامی نظام کے نفاذ کے ذریعے انہیں فراہم کریں گے۔ وہ نظام جس نے چودہ سو سال قبل انسان کو انسان کی غلامی سے نکالا۔ عورت، غلام اور کمزور کو اس کے حقوق فراہم کئے۔ آج اسلام ایک بار پھر اس جدید جاہلیت کے دور میں انسان کو جانوروں کی سی زندگی سے نجات دلائے گا۔ اسی لئے ایک مسلمان اس دکھی انسانیت کو ظلم کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکالنے کے لئے جہاد کرتا ہے۔ جہاد کافروں کو زبردستی مسلمان بنانے یا محض کشور کشائی کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مقصد اس کفر نظام کا خاتمہ ہے جس کے ذریعے انسانیت پر ظلم کیا جارہا ہے۔ اللہ واضح طور غیر اللہ کے قوانین کو ظلم کا موجب قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَن لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ھُمُ الظَّالِمُونَ) ” اور جو اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ سے فیصلہ (حکمرانی) کریں وہی ظالم ہیں” (المائدہ:45) چنانچہ اگر واقعی ہم دیگر انسانیت کے لئے پریشان ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم خلافت ِراشدہ قائم کرتے ہوئے اس منظم جہاد کی شروعات کریں جو اسلامی نظام کو پھیلائے گا اور انسانیت کو نظام ِکفر کے ظلم سے نکالے گا۔
آج جہاد کماحقہ ادا نہیں ہو رہا اور ‘اقدامی جہاد’ کا تو تصور بھی محال ہی کیونکہ آج اس امت پر ایک خلیفہ موجود نہیں۔ وہ خلیفہ جو جہاد کو ایک بار پھر وہیں سے جاری کرے جہاں سے یہ عثمانی خلافت کے دور میں منقطع ہوا تھا تاکہ اس بار مسلمان یورپ اور امریکہ کو بھی اسلام کے لئے کھول دیں اور حدیث کے مطابق کوئی وبر(کچا گھر) نہ بچے اور کوئی مدر(پکا گھر) نہ بچے جس میں اسلام داخل نہ ہو ، عزت والے کو عزت دے کر(اسلام کی قبولیت سے) اور ذلت والے کو ذلیل کر کے(جزیہ کی ادائیگی سے)۔ اور مشرق و مغرب پر اللہ جل جلالہ کا نظام ہی غالب آجائے۔ یقیناً یہ عمل دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔ (ھُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِینِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ)
”یہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ اسے دیگر تمام ادیان پر غالب کر دے چاہے مشرکوں کو برا ہی لگے” (التوبہ:33)
ختم شد