پاکستان کے معاشی غنڈے، ڈاکٹر رضا باقر اور ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کفار کی اطاعت میں آئی ایم ایف کے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر خالد صلاح الدین
پاکستان کے معاشی غنڈے، ڈاکٹر رضا باقر اور ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کفار کی اطاعت میں آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کے سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ 4 دسمبر 2019 کو ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں اپنی معاشی پالیسیوں کی نام نہاد کامیابی کے شادیانے بجائے گئے۔ پریس کانفرنس کے دوران کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی، فارن ڈائرکٹ انوسٹمنٹ (FDI) اور بین الاقوامی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور موڈیز کی جانب سے دیے گئے مثبت بیانات کے متعلق بحث ہوتی رہی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام کس طرح آگے بڑھ رہا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ اس پروگرام کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں اور ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر کا کیا کردار ہے۔
آئی ایم ایف اور بین الاقوامی قرضے فراہم کرنے والے ادارے حقیقت میں منافع کمانے کے ادارے ہیں جو قرض لینے والے ملک کو یہ دیکھتے ہوئے ڈالر میں قرض دیتے ہیں کہ وہ اصل قرض کی واپسی اور اس پر منافع دینے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دینے والے اداروں میں یہ فرق ہے کہ آئی ایم ایف امریکا کی صورت میں سیاسی مقاصد بھی رکھتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قرض لینے والا ملک اس کے مطالبات کو پورا کرسکے۔ یوں آئی ایم ایف کے حمایت یافتہ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ضرورت پیدا ہوتی ہے جو آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عمل کریں۔
قرض کی پیشگی شرط کے طور پر آئی ایم ایف نے اصرار کیا تھا کہ حکومت ایسی پالیسیاں نافذ کرے جس سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد کے حوالے سے اس کا اخلاص ثابت ہو۔ پیشگی شرائط میں کرنسی کے شرح تبادلہ کو اسٹیٹ بینک کے ذریعے قابو میں رکھنے کے عمل کو ختم کرکے اسے مارکیٹ پر چھوڑ دینا یعنی آزاد شرح تبادلہ ، شرح سود میں اضافہ اور تیل، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل تھے۔
کرنسی کی آزاد شرح تبادلہ اور شرح سود میں اضافے کا معیشت کی بہتری کے حوالے سے کوئی بنیادی کردار نہیں ہے۔ ان کا کردار مقامی اور بین الاقوامی بینکوں کے لیے ترغیب فراہم کرنا ہے کہ وہ پیسے بنائیں جیسا کہ ثاقب شیرانی (1)کے مضمون میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہ کام اس طریقے سے ہوتا ہے؛ شرح سود میں بین الاقوامی سطح سے بھی زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے جس کے بعد بینک کم شرح سود پر مغربی بینکوں سے قرض اٹھاتے ہیں اور اس پیسے سےزیادہ شرح سود کے حامل مختصر مدتی پاکستانی ٹی-بلز خریدتے ہیں اور زبردست منافع کماتے ہیں۔
اس طرح براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم پاکستان میں آئی ہے۔ تین مہینے کے قرض پر لندن انٹر بینک آفرریٹ(لائی بور) 1.9فیصد ہے جبکہ تین مہینے پر محیط حکومتِ پاکستان کے ٹریژری بل پر شرح سود 13.6فیصد ہے اور اس طرح منافع میں 11.7فیصدکا فرق ہے۔ اس کے علاوہ اس منافع میں اس وجہ سے مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ پچھلی جولائی سے اب تک روپیہ 5 فیصد اپنی قدر کھو چکا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک سرمایہ کار یورپین بینک سےایک ملین ڈالر کا قرض لیتا ہے اور 3 سے 6 ماہ پر مشتمل ٹریثری بل خریدتا ہے تو وہ ایک ڈالر کے بدلے 160 روپے کی شرح تبادلہ کی بنیاد پر 160 ملین روپے کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ 11.7 فیصد کے منافع کے ساتھ یہ رقم 178.7ملین روپے بن جائے گی۔ اس وقت ڈالر 154 روپے کا ہوچکا ہے جسے معاشی استحکام کے طور پر پیش کر کے بہت ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ اس طرح سے 178.7ملین روپے 1.160ملین ڈالر میں تبدیل ہوجائیں گے جس کا مطلب ہے کہ اس سرمایہ کار کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر کا منافع حاصل ہوا۔ پھر جیسے ہی شرح سود کی شرح کم ہو گی یہ باہر سے آنے والے پیسے باہر چلے جائیں گے، اور ان پیسوں کی اس خاصیت کی وجہ سے انہیں "ہاٹ منی” Hot Moneyکہا جاتاہے، لہٰذا حکومت شرح سود کو کم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ باہر سے آنے والے ڈالر واپس جانا شروع ہوجائیں گے۔ رینیسنس کیپیٹل Renaissance Capital کے چیف اکنامسٹ، چارلس رابرٹسن نے کہا کہ پاکستان کے بانڈز خریدنے کی وجہ بالکل سادہ ہے، "ایک کم قیمت کی کرنسی پر کہا ں آپ کو ڈبل ڈیجٹ میں منافع مل سکتا ہے؟”(2)۔
یہ کم مدتی قرضے ہیں ، لہٰذا حکومت کو صرف ایک ملین ڈالر ہی نہیں روکنے بلکہ اسے مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈ الر کابھی بندوبست کرنا ہے جو اس نے شرح سود کی صورت میں سرمایہ کار کو دینے ہیں۔ کیونکہ حکومت ڈالر نہیں چھاپتی تو پھر یہ زائد ڈالر کہاں سے لائے گی؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ اضافی ڈالر برآمدات سے کمائے گئے ڈالرز سے نکالے جائیں گے جس کا مطلب ہے کہ ہم مسلمان اس قسم کی بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے مفاد کو قربان کر کے دیا جانے والا منافع سیدھا قومی اور بین الاقوامی بینکوں میں چلا جائے گا۔ اس قسم کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری جسےFDI کہا جاتا ہے بینکوں کے درمیان چلتی رہتی ہے اور اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ لہٰذا وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر مغربی اشرافیہ کی دولت کی چوکیداری کررہے ہیں۔
4 دسمبر 2019 کی پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر حفیظ شیخ، ڈاکٹر رضا باقر، حماد اظہر اور شبر زیدی نے معیشت میں استحکام کی جانب شروع ہونے والے سفر کے حوالے سے کچھ اقدامات کا ذکر کیا:
1۔ "۔۔۔۔کرنٹ اکاونٹ خسارے میں 35 فیصد کمی آئی ہے اور پچھلے پانچ مہینوں میں اس میں مزید بہتری دیکھی گئی ہے”۔ لیکن کرنٹ اکاونٹ خسارےمیں کمی روپے کی قدر میں کمی کر کے کی گئی۔ یہ کام آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت شرط کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ایک بحران پیدا ہوا ،تو کیا اس تبدیلی کو حاصل کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا؟ اس کے علاوہ جولائی 2019 میں تیل کی قیمت 72 ڈالر فی بیرل تھی اور اس کے بعد اگلے پانچ مہینوں میں اس کے قیمت 62 ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ رہی۔ تو خسارے میں کمی واقع ہونے کا اس پالیسی کے نفاذ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
2۔ "۔۔۔پورٹ فولیو سرمایہ کاری اور براہ راست بیرونی سرمایہ (ایف ڈی آئی) میں بھی اوپر کی جانب بہتری دیکھی گئی”۔ یقیناً ایسا ہی ہے، لیکن براہ راست سرمایہ کاری ایک بڑا حصہ مختصر مدتی قرضوں کے شکل میں تھا جسے اوپر "ہاٹ منی” کہا گیا۔ لیکن اس سے کسی مقامی صنعت میں سرمایہ کاری کی گئی کہ جس سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچا ہو؟ اس سے بھی زیادہ بنیادی بات یہ ہے کہ ، ٹیکسٹائل کی صنعت کو چھوڑ کر ، کیا ہمارے پاس ایسی صنعتیں ہیں کہ جس میں سرمایہ کاری کر کے برآمدات کو بڑھا یا جاسکے؟
3۔ "۔۔۔۔عالمی بینک کے صدر نے اپنے پاکستان کے دورے کے دوران معاشی کارکردگی کی تعریف کی”۔ یقیناً وہ تو تعریف کریں گے کیونکہ ان کے شراکت دار قرض دینے والوں کو تقریباً 16 فیصد کی شرح سے اپنی سرمایہ کاری پر منافع جو مل رہا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بنیادی بات یہ ہے کہ کیا عالمی بینک کی تعریف پر فخر محسوس کرنا چاہیے یا شرم محسوس کرنی چاہیے؟ کیا عالمی بینک کی نگرانی میں 1994 کی توانائی کی پالیسی تیار نہیں کی گئی تھی جس کی وجہ سے توانائی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا اور جس کا بوجھ مسلمانوں نے اٹھایا؟ کیا عالمی بینک کی نگرانی میں تیار کردہ 1994 کی توانائی کی پالیسی کی وجہ سے توانائی کے شعبے میں گردشی قرض کا انتہائی سنگین مسئلہ پیدا نہیں ہوا؟
4۔ "۔۔۔پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ دنیا کی مشہور ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو منفی سے مستحکم قرار دے دیا ہے”۔ برطانوی اخبار دی گارڈین(3) نے یہ خبر دی تھی کہ موڈیز نے تقریباً 864 ملین ڈالر امریکا کی وفاقی اور ریاستی حکام کو ادا کیے ہیں کیونکہ اس نے خطرناک مورگیج سیکیوریٹیز کو 2008 کے مالیاتی بحران سے کچھ پہلے اچھی ریٹنگز دیں تھیں۔ لہٰذا موڈیز مجرم ہے کہ اس نے امریکی شہریوں کے ساتھ 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران دھوکہ کیا۔ اگر امریکی حکومت ان ریٹنگ ایجنسیوں پر بھروسہ نہیں کرسکتی تو ہمارے معاشی بدمعاش (حفیظ شیخ اور رضا باقر) کیسے ان پر اعتماد اور بھروسہ کرسکتے ہیں؟
سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ یہ اقدامات کیسے ہماری معیشت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور کس طرح ہم زائد ڈالر واپس کریں گے؟ 1990 کی دہائی کے آخری سالوں سے بڑی پیداواری صنعتوں (لارج اسکیل منیو فیکچرنگ)میں زوال کا سلسلہ جاری ہے لہٰذا برآمدات میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے اور عالمی سطح پر ٹیکسٹائل کی صنعت میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے ہماری حکومت کے ساتھ مل کر اس حوالے سے پہلے ہی منصوبے بنا لیے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ آئی ایم ایف نے کچھ پیشگی شرائط پر اصرار کیا تھا۔ آئی ایم ایف کا قرض حاصل کرنے سے پہلے ہی گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا تھا تا کہ آئی آیم ایف کی پالیسیوں کےنفاذ کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی اور صلاحیت کا امتحان لیا جاسکے۔ اس سال بجلی کی قیمت میں 15 بار اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت میں 18 فیصد اضافہ ہوا، اور گیس کی قیمت میں 55 فیصد کا بھاری بھرگم اضافہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے یہ شرائط اس لیے پیش کی گئی تھیں کیونکہ آئی ایم ایف گردشی قرض کے مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے جس نے توانائی کی کمپنیوں کو شدید بیمار کردیا ہے اور گردشی قرض کو ختم کرنا ان اداروں کی نجکاری سے پہلے ایک لازمی شرط ہے۔ نجکاری کے عمل میں بین الاقوامی بولی لگانے والے شامل ہوں گے جنہیں اس بنا پر خوش آمدید کہا جائے گا کہ وہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری لا رہے ہیں، اور پھر اس عمل سے حاصل ہونے والی رقم کو آئی ایم ایف کو سود کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اس طرح ہمارے معاشی بدمعاشوں کی جانب سے بچھائی جانے والے سازشی جال کی صورت واضح ہے۔ یہ پوری توانائی سے مغربی اقوام کو امیر کرنے کے لیے کام کرتے ہیں، ہمیں سودی معاہدوں میں جگڑتے ہیں جس سے قوم غلام بن جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ مزید جانفشانی سے ہمارے توانائی کے وسائل کی نجکاری کے لیے کام کرتے ہیں تا کہ ہماری بنیادی ضروریات جیسا کہ گیس اور بجلی مغربی اقوام کے کنٹرول میں چلی جائیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کےمعاشی بدمعاش(ہِٹ مین) یہ کام دولت کے لیے نہیں کرتے بلکہ وہ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے معاشی تصورات درست ہیں۔
اس نظام کا المیہ یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر حفیظ اور ڈاکٹر باقر جیسوں کو اس سازش پر عمل کرنے کے لیے مکمل سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اگر ملک میں اسلام کا نظام نافذ ہوتا تو یہ سازش سوچی بھی نہیں جاسکتی چہ جائیکہ اس پر عمل درآمد شروع ہو کر مکمل بھی ہوجائے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتْ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمْ الآياتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ "مومنو! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازداں نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی (اورفتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے، ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہوہی چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں ۔اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں"(آل عمران 3:118)۔
اس آیت میں دیے گئے حکم سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کفر ہمیں تباہ کرنے کے لیے زبردست کوشش کرے گا۔ تو پھر کس طرح ایک مسلمان عالمی بینک اور کسی معاملے پر،مثلاًتوانائی پر پالیسی کے حوالے سے، ان کے مشوروں پر بھروسہ کرسکتا ہے۔ اس طرح 1994 کی توانائی کی پالیسی عالمی بینک کے لیےپالیسی بنانے والوں کے لیے ایک خواب بن جاتی ۔ اس کے علاوہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ "مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں:پانی، چراہ گاہیں اور آگ(توانائی)"(احمد)۔ اس حدیث کے مطابق توانائی کے ذرائع مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے یعنی عوامی ملکیت ہے اور ایک فرد یا چند افراد اس کے مالک نہیں بن سکتے ۔ یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ حدیث میں ان تین چیزوں کا نام لیا گیا ہے اور وہ اخذ کیے ہوئے نام نہیں ہیں یعنی جامد ہیں، اور نہ ہی ان تین چیزوں کو عوامی ملکیت قرار دینے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ حدیث میں وجہ بیان نہیں کی گئی تو ا س کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ صرف یہی تین چیزیں عوامی ملکیت کے ضمن میں آتی ہیں اور اس بات کو نہیں دیکھا جائے گا کہ کیا وہ معاشرے کی اجتماعی ضرورت ہیں یا نہیں ۔ لیکن جب اس مسئلے کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے طائف اور خیبر میں پانی کی نجی ملکیت کی اجازت دی اور وہ اس کے حقیقت میں مالک تھے کیونکہ وہ اپنے درختوں اور فصلوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اگر پانی کو اس وجہ سے عوامی ملکیت قرار دیا جاتا کہ بس وہ پانی ہے اور اس بات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا کہ کیا معاشرے کو اجتماعی طور پر اس کی ضرورت ہے تو پھر رسول اللہﷺ افراد کو اس پر قبضے کی اجازت نہیں دیتے۔ آپﷺ کی جانب سے فرد کو پانی پر قبضے کی اجازت دینے سے پانی، چراہگاہوں اور آگ (توانائی) کو عوامی ملکیت قرار دینے کی یہ وجہ اخذ کی جاسکتی ہے کہ اگر وہ معاشرے کی اس طرح ضرورت بن جائیں گےکہ انہیں فرد کی ملکیت میں دینے سے معاشرہ محروم ہوجائے گا توپھر یہ تین اشیاء عوامی ملکیت کے حکم میں آئیں گی۔ پس حدیث جن تین چیزوں کا ذکر کرتی ہے ،انہیں عوامی ملکیت قرار دیا جائے گا اگر وہ معاشرے کی ضرورت ہیں۔ اس طرح یہ وجہ ایک اصول بن جاتا ہے ،کہ کوئی بھی ایسی چیز جو معاشرے کی اس طرح سے ضرورت بن جائے کہ فرد کو دینے سے معاشرہ محروم ہوجائے گا تو اسے عوامی ملکیت قرار دیا جائے گا چاہے وہ حدیث میں ذکر کی گئی تین چیزوں میں سے نہ بھی ہو۔
لہٰذا کوئی بھی قدرتی ذخیرہ جسے حرارت اور توانائی کے حصول کے لیے نکالا جائے وہ معاشرے کی ضرورت ہے جیسا کہ لکڑی، کوئلہ اور تیل۔ اس طرح کسی بھی ذخیرے کے نجکاری کی اسلام اجازت نہیں دیتا چاہے خواہ اس کا مالک مسلمان ہی کیوں نہ ہو، تو کافر کو دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔تو موجودہ توانائی کی مشکل اور بری صورتحال سے پہلے مرحلے پر ہی بچا جاسکتا تھا جب کسی نے اس کے متعلق خیا ل ہی پیش کیا تھا،کیونکہ پھر عالمی بینک سے تعاون نہ کیاجاتا اور نہ ہی ان کی نجکاری کی جاتی۔
نظام کے حوالے سے اسلام کا معیشت کے متعلق ایک منفرد نقطہ نظر ہے۔ ایک طرف اسلام سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دے کر کاغذی کرنسی کو ہی ختم کریتا ہے اور دوسری طرف برآمدات اور درآمد ت کے درمیان ممکنہ فرق کی وجہ سے دولت کے ملک سے باہر جانے کے مسئلے کو کہیں زیادہ بنیادی معاشی طریقے سے حل کرتا ہے۔
اسلام میں ریاست خیال رکھنے والی ریاست ہوتی ہے۔ وہ ایسی ریاست نہیں ہوتی جو دولت کو چند ہاتھوں میں محدود کرنے کے لیے کام کرے۔ خیال رکھنے کا تصور یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کا خیال اس طرح سے رکھتی ہے جیسے باپ اپنی اولاد کا خیال رکھتا ہے۔ ریاست بھوکوں کو کھانا کھلاتی ہے، جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے نہ ہو تو انہیں کپڑے دیتی ہے اور رہنے کے لیے چھت مہیا کرتی ہے۔ وہ شہریوں کو تعلم اور صحت کی سہولیات اور انہیں جان و مال کے خوف سےتحفظ فراہم کرتی ہے۔اسلام میں یہ ہے خیال رکھنے کا تصور جس پر عمل کرنا ریاست پر فرض ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،«الْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ» "پس امام(خلیفہ) لوگوں پر نگہبان ہے اور اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا"(بخاری)۔ شریعت کے مطابق ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو کام کرنے کے مواقع فراہم کرے۔ رسول اللہﷺ نے ریاست کے سربراہ کے طور پر غریب فرد کے نان نفقے کو ریاست پر فرض قرار دیا ہے جس کا کوئی رشتہ دار ایسا نہ ہو جو اس کا بوجھ اٹھا سکے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «مَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ وَمَنْ تَرَكَ كَلاً فَإِلَيْنَا»" جو کوئی مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جو کوئی بوجھ چھوڑ جائے(قرض یا بال بچے)وہ ہماری ذمہ داری ہے "(بخاری)۔ صحت کی سہولیات اور خوراک تک رسائی بنیادی حقوق ہیں جس سے تمام شہریوں کو مستفید ہونا چاہیے، رسول اللہﷺ فرمایا، «مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا»” تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھر میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی(خوراک) اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی "(ترمذی)۔
ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دولت کی تقسیم پر توجہ اس طرح سےمرکو زرکھے کہ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوجائیں۔ پالیسی بالکل واضح ہے کہ زمین کو خوراک کی پیداوار لینے کے لیے استعمال کیا جائے گا تا کہ لوگوں کی بھوک کو مٹایا جائے اور قدرتی ذخائر کو کرپٹ حکمرانوں کی جیبوں کو بھرنے یا زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے برآمد نہیں کیا جائے گا بلکہ مسلمانوں کے فائدے کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ پاکستان کے پاس بہت قابلِ کاشت زمین ہے جس سے پوری مسلم دنیا کی خوارک کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے اور اتنے تیل اور معدنیات کے ذخائر ہیں کہ صنعتوں کو چلانے کے لیے دوسروں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس طرح لازمی پالیسی یہ ہو گی کہ ان وسائل کو استعمال میں لایا جائے اور مسلمانوں میں دولت کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ ریاست بھاری صنعتوں کو قائم کرکےاہم مشنری کی تیاری میں خودکفالت حاصل کرے گی۔ ہماری بنیادی ضروریات یا ٹیکسٹائل اور دوسری صنعتوں کے لیے درکار مشینری کی درآمد کوئی مسئلہ نہیں رہے گی۔ اس طرح یہ صرف نبوت کے طریقے پر خلافت ہی ہو گی جس کے ذریعے ہم دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح حاصل کرسکیں گے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا،وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَ تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ "اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ” (القصص 28:77)۔
ختم شد