فاتحِ قسطُنطنیہ ، سلطان محمد الفاتح اُن اہلِ قوت کے لیے متاثر کن اور حوصلہ افزاء مثال ہے جو مقبوضہ کشمیر اور القدس کو آزاد کرائیں گےاور روم کو فتح کریں گے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
احمد نے اپنی مسند میں اور حاکم نے مستدرک میں عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا:”جب ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع تھے اور لکھ رہے تھے تو ہم نے پوچھا کہ کونسا شہر پہلے فتح ہوگا، قسطنطنیہ یا روم؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلاً، يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ»"ھرقُل کا شہر پہلے فتح ہوگا یعنی قسطنطنیہ”۔یہ 857 ہجری میں جمادی الاول کا اسلامی مہینہ تھا ،جب اس کی 20 تاریخ کو مسلمانوں کے سلطان محمد الفاتح کو قسطنطنیہ کا شہرفتح کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ رسول اللہﷺ کی بشارت پوری ہو ئی؛ اپنے ناقابل تسخیر دارالحکومت کی فتح کے نتیجے میں دشمن کے حوصلےٹوٹ گئے ا ور وہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یوں سلطان الفاتح نے اسلام کی عالمی بالادستی کو مزید وسعت دی اور عالمی سپر طاقت کے حیثیت سے اسلامی ریاست کے مقام کو اتنا مستحکم کیا کہ جسے کوئی چیلنج نہ کرسکے۔ آج ہمارے دور کے اہلِ قوت میں موجود مخلص لوگوں کے لیے سلطان الفاتح کی زندگی میں ایک درخشاں اور متاثر کن مثال موجود ہے جن کے دل ذلت آمیز خارجہ پالیسی، دشمن کے مسلسل حملوں کے جواب میں ہاتھ روکے رکھنے کی بزدلانہ پالیسی، مسلم علاقوں پر قبضے اور مسلمانوں کے قتل عام سے سخت افسردہ ہیں۔ ایک اسلامی سیاسی و فوجی رہنما کی حیثیت سے سلطان محمد الفاتح اسلام کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ تھے کیونکہ اُن کی تربیت اُس دور کے مشہور علماء نے کی تھی۔ یقیناً خلافت میں اہلِ قوت کی سیاسی و فوجی تعلیم و تربیت اسلام کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اسلام ذاتی و انفرادی اعمال کے ساتھ ساتھ سیاسی و فوجی اعمال کے لیے بھی واحد بنیاد ہے اور اسلام سے ہٹ کر کیا جانے والا ہر عمل مسترد ہے۔ ایک مخلص اور باخبر مومن ہونے کے ناطے سلطان الفاتح جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ کی بشارتوں کی کیا حیثیت ہے۔ آپ نے قسطنطنیہ کی فتح سے متعلق رسول اللہﷺ کی بشارت کو معمولی نہیں سمجھا تھا ،نہ ہی محض ایک کہانی کے طور پر پڑھا تھا اور نہ ہی خود کو صرف دعا کرنےتک محدود رکھا تھا۔ اہل قوت کا سربراہ ہونے کی وجہ سے آپ کو اپنی ذمہ داری کا بھر پور احساس تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں کس صلاحیت سے نوازا ہے۔ محمد الفاتح نے زبر دست کوشش کی کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہو جائے کہ وہ اس فوج کی قیادت کریں جس کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت کو پورا ہونا تھا اور جسے یہ عظیم عزت حاصل ہونا تھی۔ احمد نے عبد اللہ بن بشر حثعمی سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سنا،«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ» "تم ضرور بالضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے اور کیا ہی اعلیٰ اس کا امیر ہو گا اور کیا ہی اعلیٰ وہ لشکر ہو گا جو اسے فتح کرے گا"۔لہٰذا اہلِ قوت کو الفاتح کی زندگی سے سبق لینا چاہیے اور خود کو ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ آنے والی خلافت میں سیاسی و فوجی قیادت رسول اللہﷺ کی بشارتوں کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی چاہے اس بشارت کا تعلق روم کی فتح سے ہو یا ہند کو آزاد کرانے سے ہو یا یہود کو شکستِ فاش دینے سے ہو۔
مسلمانوں کی فوجی قیادت ہونے کے ناطے، سلطان الفاتح نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلمانوں کی فوج کسی کی محتاج نہ ہو اور یہ ایک بہت طاقتور فوج ہو۔ اسلام کے معاشی نظام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلامی ریاست غیر ملکی طاقتوں کی مالی مدد پر انحصار کرنے والی نہ ہو بلکہ اس کے پاس جنگ کی تیاریوں کے لیے وافر وسائل میسر ہوں اور یہ دین کی رُو سے فرض ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ " اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو تاکہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں اور خوداپنے دشمنوں پر ہیبت ڈال سکو اوران لوگوں پر بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے "(الانفال 8:60)۔ چونکہ الفاتح اسلام کی کے ذریعے حکمرانی کررہے تھے ، لہٰذا انہوں نے اپنے دشمن کے خلاف کبھی بھی کفار سے عسکری مدد یا اڈے حاصل کرنے کے متعلق نہیں سوچا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لا تستضيئوا بنار المشركين "مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو "(احمد، نسائی)۔ آگ کا لفظ یہاں جنگ کی معنوں میں کنایتاًاستعمال ہوا ہے اور اس طرح اسلام کسی بھی ایسی خودمختار کافر وجود سے تعلقات قائم کرنے سے منع کرتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہو، چاہے اس کا تعلق انٹیلی جنس معلومات کے تبادلےسے ہو یا افواج کی نقل و حرکت، حکمتِ عملی ، رسدیا اسلحے سے ہو۔
چنانچہ الفاتح نے آبنائے دانیال Dardanellesکو عبور کیا ، اور اپنی فوجوں کو آبنا کی ایشیائی سمت سے باسفورس کی طرف لے گیا اور انادولوہساری کے مقام پر آبناکو یورپی سمت کی طرف عبورکر کے افواج کو رومیلی ہساری کے مقام پر لے گیا ۔ اِس مقام پر اُس نےاسلامی ریاست کے لیے ایک قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ الفاتح نے ہنگری کے ایک فوجی انجینئر اُوربَن کی خدمات حاصل کیں جس نے اسلامی ریاست کے لیے ایسی توپیں تیار کیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں بنائیں گئیں تھیں۔ جیسے ہی قلعہ تعمیر ہوا تو 31 اگست 1452 عیسوی کو ایک توپ قلعہ کے ایک مرکزی مینار پر نسب کردی گئی ۔ الفاتح نے عثمانی بحری بیڑے کو "سنہرہ سینگ”Golden Horn میں اتارنے کے لیے چالاک تدبیر اختیار کی۔ محاصرے کی ابتداء میں اس نے انجینئرز کو حکم دیا کہ وہ ایک سڑک بنائیں جو انہیں پہاڑیوں پر سے گزارتے ہوئے اور گالاٹا کے قصبے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے باسفورس سے سنہرے سینگ کے مقام پر لے جائے۔ 22 اپریل کو اسلامی ریاست کے مسلمان انجینئرز نے بیلوں کی مدد سے 72 بحری جہازوں کو اس سڑک پر بچھائے گئے چربی لگے تختوں پر گھسیٹا اور سنہرے سینگ کے ساحلوں پر(Kasimpasa) Valley of springsکے مقام پر پہنچ گئے اور پھر ان جہازوں پر توپیں نصب کی گئیں جو پہلے ہی وہاں پہنچا دی گئی تھیں۔ قسطنطنیہ کے شہر میں موجود کفار کی افواج اسلامی ریاست کے بحری بیڑے کو سنہرے سینگ کے مقام پر دیکھ کر سخت حیرت زدہ ہوگئیں، یوں شمال کی جانب سے قسطنطنیہ پر حملہ ممکن ہوگیا۔ یورپی مورخ کریتوبولوس(Kritoboulos) نے لکھا ہے کہ "سنہرے سینگ کے مقام پر ترک بحریہ کو دیکھ کر یونانی حیرت زدہ رہ گئے کہ ناممکن کیسے ممکن ہوگیا اور سخت پریشانی اور اضطراب کا شکار ہوگئے۔انہیں کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ اب کیا کریں اور وہ مایوسی کا شکار ہوگئے”۔ کفار کے دلوں میں خوف پیدا کرنا صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ اسلامی ریاست نے کسی بھی معاملے میں کفار پر انحصار نہیں کیا ،وہ اپنے معاملات میں مکمل طور پر آزاد اور خودمختار تھی اور اس نے صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر انحصار کیا۔
تو اہل قوت کو الفاتح کی مثال سے سبق اور حوصلہ لینا چاہیے اور خود کو تیار کرنا چاہیے۔ آنے والی خلافت میں سیاسی و فوجی قیادت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مسلمان معیشت اور صنعت کے شعبوں کے ساتھ ساتھ فوجی اسلحے، رسد اور حکمت عملی میں بھی کسی پر انحصار نہ کریں تا کہ اسلام کے علاقوں کو آزاد کرانے کے اپنے فرض کو بغیر کسی رکاوٹ اور بہانوں کے پورا کرسکیں۔
امت کی سیاسی قیادت ہونے کے ناطے اسلام کے پیغام کو دعوت و جہاد کے ذریعے پھیلانے کے لیےسلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کو مستحکم کیا ۔ اسلام میں حکمران کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خلافت کی حدود کو وسیع کرتا رہے، نئے علاقوں کو کفر کی حکمرانی کے ظلم سے آزاد کرائے تا کہ اسلام کو غیر مسلموں پر نافذ کیا جا سکے۔ لہٰذا غیر مسلم بلا روک ٹوک اپنی آنکھوں سے اسلام کی عظمت اور انصاف کا مشاہدہ کریں اورکسی زبردستی اور دھونس کے بغیر بڑی تعداد میں اسلام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوسکیں۔ یقیناً اگر آج مسلمان دنیا بھر میں بڑی تعداد میں موجود اور پھیلے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی طریقہ کار ہے جسے خلافتِ راشدہ نے رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق اختیار کیا تھا اور جس کا سلسلہ 1924 عیسوی میں خلافت کے انہدام تک جاری رہا تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖۙ " وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (دین ِاسلام ) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کردے "(التوبہ 9:33)۔
قسطنطنیہ کی فتح کے بعد مسلمان نماز جمعہ کے لیے جمع ہوئے، سلطان نے اعلان کیا کہ تمام تعریفیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہی ہیں جو تمام جہانوں کا مالک ہے جس کے جواب میں فاتح مسلمان لشکرنے ہاتھ اٹھائے اور خوشی سے نعرے بلند کیے۔ سلطان نے مسجدیں اور دیگر کئی عمارتیں بنوائیں جو کہ یونانی قسطنطنیہ کو ، جو کہ بازنطینی سلطنت کا دار الحکومت تھا، اسلامی استنبول بنانے کا پہلا مرحلہ تھا، جو اب اسلامی ریاست کا دارالحکومت تھا ۔ اس شہر نے رومیلی ہساری اور Yedikule کے قلعوں، مسجد الفاتح اور محمود پاشا کی مسجد، ایسکی سرے اور توپ کاپی سرے کے محلات، چھت والا بازار، سنہرے سینگ کے مقام پر بحری بیڑہ، باسفورس میں توپیں بنانے کا کارخانہ اور ان میناروں کی تعمیر دیکھی جو آیا صوفیہ کی مسجد پر تعمیر کیے گئے تھے۔
سلطان ہونے کی حیثیت سے محمد الفاتح نے غیر مسلموں کو یقین دلایا کہ وہ محفوظ ہیں اور ریاست کے شہری ہیں اوران کے دلوں کو اسلام قبول کرنے کے لیے نرم کیا۔ غیر مسلموں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ملتوں کے نظام میں تقسیم کیا گیا ۔ لہٰذا یونانی قوم کی نمائندگی آرتھوڈوکس کلیسا، آرمینیا کی نمائندگی جارجین کلیسا اور یہود کی نمائندگی ان کا سب سے بڑا ربی کرتا تھا۔ ملت کا نظام اسلامی ریاست کی اس صفت کا مظہر تھا کہ یہ ریاست کئی قومیتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ،جس کے تحت غیر مسلموں کو یہ اجازت تھی کہ وہ اپنےمذہبی معاملات خود چلائیں اور اسلامی ریاست سے اپنے حقوق کا تقاضا کریں۔
تو اہل قوت کو الفاتح کی مثال سے سبق اور حوصلہ لینا چاہیے اور خود کو تیار کرنا چاہیے۔ آنے والی خلافت کی افواج بہادری کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں گی تا کہ اسلامی حدود کو مسلسل وسیع کیا جائے، لوگوں کو انسانوں کے بنائے قوانین کے ظلم سے نجات دلائی جائے، دین حق کو قبول کرنے کے لیے غیر مسلموں کو آسانی فراہم کی جائے۔ خلافت ویسٹ فیلیا Westphaliaکے قومی ریاستوں کے تصور کو اپنے پیروں تلے کچل دے گی اور نارملائزیشن اور تحمل کی پالیسی کو مسترد کردے گی۔ جی ہاں، اہلِ قوت کو الفاتح کی مثال سے سبق اور حوصلہ لینا چاہیے۔ یقیناً وہ ناتو پیغمبروں میں سے تھا اورنا ہی صحابہؓ میں سے تھا مگر ایک مخلص، نیک اور باخبر مسلمان تھا۔ اُس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ اُس کے ساتھ سچا تھا۔ اُس نے نہ صرف اسلام کو اپنی ذاتی زندگی پر بلکہ ریاست کے امور بشمول جنگ اور شہریوں کے امور دیکھ بھال پر بھی مضبوطی سے نافذکیا ۔ ایک ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں مودی نے شیطانیت مچا رکھی ہے اور عظیم و بابرکت مسجد الاقصیٰ یہود کے زیر قبضہ ہے ، تو آج کے اہلِ قوت بھی اسلام کے نفاذ کے ذریعے رسول اللہﷺ کی بشارتوں کو حاصل کرسکتے ہیں۔ تو اہلِ قوت کو آگے آنا چاہیے اور حزب التحریر کے امیر ، عالی قدر فقیہ عطاء بن خلیل ابو الرشتہ کو نُصرہ فراہم کر کے خلافت کی واپسی کی بشارت کو پورا کرنا چاہیے۔ احمد نے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، «ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ» "پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی ، اس کے بعد آپﷺ خاموش ہوگئے "(احمد)۔ اور اہل قوت کو روم کی فتح کے ساتھ ساتھ ہند میں اسلام کی بالادستی کی رسول اللہﷺ کی بشارت کو حاصل کرنے کے لیے بھی سوچنا چاہیے ۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ، وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ص) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم ( مسلمانوں ) سے ہندوستان پر لشکر کشی کا وعدہ فرمایا، یعنی پیش گوئی کی، تو اگر ہند پر لشکر کشی میری زندگی میں ہوئی تو میں جان و مال کے ساتھ اس میں شریک ہوں گا۔ اگر میں قتل کر دیا گیا تو بہترین شہداء میں سے ہوں گا، اور اگر زندہ واپس آ یا تو میں (جہنم سے)نجات یافتہ ابوہریرہ کہلاؤں گا"(احمد، نسائی، حاکم)۔ ثعبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، عِصابتان من أُمّتي أَحْرَزَهُما اللّـهُ من النار: عِصابةٌ تغزو الهندَ، وعِصابةٌ تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام " میری امت میں دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہنم سے محفوظ کر دیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہو گا جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہو گا جو عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا"(احمد، نسائی)۔
ختم شد