دسمبر 2019 میں بھارت نے ایک قانون منظور کیا ہے جسے شہریت ترمیمی ایکٹ کہا جاتا ہے، جس کے…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: حمید بن احمد
دسمبر 2019 میں بھارت نے ایک قانون منظور کیا ہے جسے شہریت ترمیمی ایکٹ کہا جاتا ہے، جس کے تحت ہمسایہ ممالک کے مسلمانوں کے علاوہ ان کی مذہبی اقلیتوں کو بھارت کی شہریت دی جاسکے گی۔ یہ نیا قانون 1955 کے قانون میں ترمیم ہے اور اس کے ذریعے بنگلادیش، افغانستان اور پاکستان میں "ظلم کی شکار” اقلیتوں:ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی بھارتی شہریت حاصل کرسکیں گے لیکن اس میں مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ قانون بھارتی پارلیمنٹ سے حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے منظور کرایا اور صدر رام ناتھ کوویند نے 12 دسمبر 2019 کو اس کی توثیق کی۔ یہ قانون جب نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی)سے جوڑا جاتا ہے تو غیر مسلموں کو بھارت کی شہریت فراہم کرتا ہے جبکہ مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے محروم کرکے انہیں بے ریاست کردیتا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں کہتی ہیں کہ یہ قانون امتیازی ہے کیونکہ یہ قانون 130 کروڑ کے سیکولر ملک میں مسلم اقلیت کو خصوصی طور پر نشانہ بناتا ہے۔ مسلمان بھارت کی آبادی کا تقریباً پندرہ فیصد ہیں۔ ناقدین اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ اس قانون کو لانے کے پیچھے ہندوتا ایجنڈا ہے جس کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنا کر غیر مسلموں کے ووٹوں کو پکا کرنا مقصود ہے ۔ اس ایجنڈے پر وزیر اعظم مودی کی حکومت اس وقت سے عمل پیرا ہے جب وہ چھ سال قبل اقتدار میں آئی تھی۔ اس قانون کے خلاف بہت مظاہرے ہوچکے ہیں جس میں کئی مظاہرے طلبہ نے کیے خصوصاً جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کے مظاہرے قابلِ ذکر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز چل رہی ہیں جس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح پولیس افسران اور کئی دوسرے افراد کسی مسلمان مرد، عورت یا بچے کو ظالمانہ طریقے سے پیٹ رہے ہیں۔ اس صورتحال اورمسلمانوں کو شہریت سے محروم کردینے والے ایسے قانون کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف کافائدہ اٹھاتے ہوئے، بائیں بازو اور اور بائیں بازو کے قریب سمجھے جانے والی سیاسی جماعتوں (یو پی اے) نے خود کو مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرنے والوں کے طور پر پیش کیا تا کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ لے کر اگلے انتخابات جیت سکیں۔ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے یہ صورتحال ویسی ہے جس کا سامنا وہ اس وقت سے کرتے چلے آرہے ہیں جب بھارت کو 1947 میں آزادی دی گئی تھی۔ مسلمانوں کو محض ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست بھارتی جمہوریت کی ایک عام خصوصیت ہے بالکل ویسے ہی جیسے دنیا کی تمام جمہوریتوں میں ووٹ بینک کی سیاست کی جاتی ہے۔
اس تمام ڈرامے اور بظاہر کبھی نا ختم ہونے والے مسائل کے تناظر میں مسلمانوں کے لیےیہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایک مکمل حل کے لیے ایک مخصوص راستے پر مکمل اعتماد کے ساتھ چلیں۔ جب رستے کا تعین کیا جارہا ہو تو مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان سوالات کے جواب تلاش کریں کہ: کیا مسلمان ایسے مظاہروں سے دور رہیں جو قوم پرستی، سیکولرازم اور جمہوری آئین کو بچانے کے نام پر کیے جارہے ہیں اور خود کو سیاسی نظام سے الگ تھلگ کرلیں؟ یا یہ کہ وہ مزید ان مظاہروں میں حصہ لیں اور جمہوری نظام کا حصہ بن کر اپنے لیے کوئی راہ نکالیں؟ یا موجودہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی متبادل حل ڈھونڈیں؟
جمہوریت کی حقیقت:
جمہوری نظام ،جس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ :لوگوں کی حکمرانی ہے”، ایک 2500 سال قدیم نظریہ ہے جو 600 قبل مسیح میں یونان میں سامنے آیا تھا۔ یہ ایک سیاسی نظام ہے جو انسانی ذہن کی پیداوار ہے اور یہ قانون سازی کے لیے انسانی ذہن پر ہی انحصار کرتا ہے۔ لیکن انسانی ذہن کی حقیقت یہ ہے کہ وہ محدود صلاحیت رکھتا ہے، وہ زندگی کے مقصد کا ادراک نہیں کرسکتا، وہ اس بات کا ادراک نہیں کرسکتا کہ زندگی سے پہلے کیا تھا اور اس کے بعد کیا ہے، اور وہ اس بات کا بھی ادراک نہیں کرسکتا کہ کیا مکمل طور پراچھا ہے اور کیا مکمل طور پر برا ہے۔ لہٰذا مسلم امت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے جو انسانیت پر گواہ بنائی جائےگی کہ کیا انسانوں کے بنائے فریبی نظام سے دور رہنا ہے یا اس کا حصہ بننا ہے یا پھر یہ کہ آگے بڑھنے کے لیے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈنا ہے تا کہ موجودہ مسائل کو حل کیا جاسکے۔
اسلامی نقطہ نظر:
جمہوریت ایسا نظام حکمرانی ہے جو کفر عقیدے سے پھوٹتا ہے جسے سیکولر ازم کہتے ہیں۔ سیکولر ازم اس بات پر زور دیتا ہے کہ مذہب اور رب معاشرے کے سیاسی امور میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے اور معاشرے کے لوگوں کو یہ طاقت دیتا ہے کہ وہ اپنی عقل کی بنیاد پر قوانین بنائیں۔ لہٰذا لوگ اپنے نمائندے چنتے ہیں کہ وہ حکومت بنائیں اور ان کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے معاشرے کے لیے قانون سازی کریں۔ اس طرح اقتدار اعلیٰ اور اختیار اللہ کا نہیں بلکہ انسانوں کا ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا کہ، ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّه﴾"حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے”(الانعام 6:57)۔
جمہوریت میں انسان قوانین بناتا ہے اور اس طرح وہ کردار ادا کرتا ہے جو صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہی خاص ہے۔ زندگی کے متعلق اس نقطہ ٔنظر اور سیکولر عقیدے کی وجہ سے اللہ کی ربوبیت صرف بندوں کی ذاتی زندگی تک محدود ہے اور معاشرتی امور میں اللہ کے کردار کو ختم کردیا گیا ہے کیونکہ وہاں انسان اپنے محدود علم اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ قانون سازی کرتا ہے اور معاشرے کے لیے حلال و حرام کا تعین کرتا ہے۔ یہ وہ خاص عمل ہے جس کی رسول اللہﷺ نے ممانعت کی ہے جیسا کہ عدی بن حاتم ؓ والی حدیث میں بتایا گیا ہے۔ عدی بن حاتؓم نے روایت کی کہ، "میں نےانہیں (آپﷺ) کو سورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتے سنا ،﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾”انہوں (یہود یوں اور عیسائیوں)نے اپنے علماء اور مشائخ کو الله کے سوا رب بنا لیا”(التوبہ 9:31) پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا، «بَلَى إِنَّهُمْ حَرَّمُوا عَلَيْهِمُ الْحَلَالَ وَأَحَلُّوا لَهُمُ الْحَرَامَ فَاتَّبَعُوهُمْ فَذَلِكَ عِبَادَتُهُمْ إِيَّاهُم»"جہاں تک ان (یہود و عیسائی)کا تعلق ہے تو وہ ان (اپنے علماء)کی عبادت نہیں کرتے بلکہ جب وہ ان کے لیے کسی چیز کو حلال کردیتے ہیں تو وہ اسے حلال سمجھتے ہیں اور جب وہ کوئی چیز ان کے لیے حرام کردیتے ہیں تو وہ اسے حرام سمجھتے (یہی ان کا عبادت کرناتھا) "(سنن ترمذی)۔
اس حدیث سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کی جگہ دوسروں کو قانون سازی کا اختیار دینا درحقیقت اللہ کی حاکمیت کا انکار ہے۔ اسلامی عقیدہ یہ لازم قرار دیتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں ،چاہے ان کا تعلق ذاتی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہی شارع سمجھا جائے۔ اسلام میں اقتدار اعلیٰ اور قانون سازی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہی حق ہے جبکہ حکمران (خلیفہ)کو منتخب کرنےکا حق لوگوں کا ہے۔ یہ ہے بنیادی فرق جمہوریت میں جو سیکولر ازم کے عقیدے پر مبنی ہے اور خلافت میں جس کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہے۔
مسلمان کس طرح جواب دیں؟ پہلی اور لازمی بات یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان 1947 میں بھارت کو ملنے والی آزادی کے بعد سے خود پر لگے اقلیتی لیبل سے پیدا ہونے والی احساس کمتری سے نکلیں ۔ اس ٹھپے کے زیر سایہ مسلمان احساس کمتری اور خوف کے سائے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ انہیں اس احساس کمتری سے نکلنا ہوگا اور خود کو فخر سے صرف اور صرف مسلمان کے طور پر شناخت کرانا ہوگا اور انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ انسانیت کے رہنما ہیں، وہ رہنما جو اس راہ کی جانب لے جاتے ہیں جس کو روشن انسانیت کے خالق نے کیا ہوا ہے۔ انہیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت آج جہاں کھڑا ہے اس میں سب سے زیادہ حصہ مسلمانوں نے ڈالا ہے جنہوں نے اس زمین پر 10 صدیوں تک حکمرانی اور اس کے لوگوں پر اسلامی شریعت نافذ کی تھی۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اس تصور کا حامل ہونا چاہیے جو ربیع بن عامر ؓ نے سلطنت فارس کے فوجی کمانڈر رستم کے سامنے پیش کیا تھا۔ رستم نے ربیع بن عامرؓ سے پوچھا تھا کہ ان کا مقصد کیا ہے اور وہ کیوں فارس آئے ہیں؟ ربیعؓ نے فرمایا،” اللہ عزوجل نے ہمیں بھیجا ہے کہ تمہیں مخلوق کی عبادت سے ہٹا کر مخلوق کو بنانے والے خالق کی عبادت کی طرف لے آئیں اور تمہیں اس دنیا کی تنگی سے نکال کر اس دنیا اور آخرت کی وسعتوں سے ہمکنار کردیں اور تمہیں دیگر مذاہب کے ظلم سے نجات دلا کر اسلام کے انصاف
سے روشناس کرادیں۔ اللہ عز و جل نے ہمیں بھیجا ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کی عبادت کرنے سے بچائیں”۔
مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو دعوت دیں اور انہیں اسلامی عقیدے اور اسلامی طرز زندگی کی دعوت پیش کریں۔ انہیں انسانوں کے بنائے نظام جمہوریت کی کمزوریوں اور دھوکوں سے باخبر کریں اور اسلامی طرز زندگی کو اس دنیا اور آخرت کے لیے واحد طرز زندگی کے طور پر پیش کریں ۔ انہیں اپنے نفس کو قابو میں رکھنا ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی ، تا کہ وہ اس تلخ حقیقت کوتسلیم کرلیں کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے اور انسانیت کے لیے واحد راستہ اسلام کا راستہ ہی ہے۔ اسلام اپنے عقیدے اور طرز زندگی کے ساتھ تمام مسائل کا حل دیتا ہے جس کا انسانیت کو آج سامنا ہے۔ اسلام وحی پر مبنی نظام ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانیت پر نازل فرمایا ہے۔ لہٰذا ایک کمزور اور انسانوں کے بنائے نظامِ جمہوریت سے حل ڈھونڈنے کی بجائے مسلمانوں کو، جو کہ بہترین امت ہے جسے انسانیت پر گواہ بنانے کے لیے لایا گیا ہے، رہنمائی کے منصب کو سنبھالنا ہوگا اور انسانیت کو انسانوں کے بنائے نظام جمہوریت اور سرمایہ داریت کی اندھیروں سے نکالنے کے منصوبے پر ،اسلام کے روشنی میں کام کرنا ہوگا جو رنگ، نسل، ذات، قومیت اور مذہبی امتیاز سے بالاتر ہو کر انصاف قائم کرے گا۔ انہیں یہ کام رسول اللہﷺ کی سنت پر چلتے ہوئے کرنا ہوگا۔ انہیں لازمی جمہوریت کو مسترد کر کے اسلام کے سیاسی نظام، خلافت ، کے منصوبے پر کام کرنا ہوگا تا کہ اسلام طرز زندگی کو بحال کیا جاسکے۔ اس منصوبے کو زندگی کا اہم ترین مقصد بنانا ہوگا اور اپنی کوششوں کو ایک ہی سمت میں یکجا کرنا ہوگا اور ایک ہی بار اس مقصد کے حصول کے لیے پوری قوت لگانی ہوگی۔
﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِين﴾
"اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا"(آل عمران 3:85)
ختم شد