ایک آئیڈیالوجی پر استواربلند فکر قوم اس آئیڈیالوجی کا تحفظ کرتی ہے اور پروان چڑھاتی ہے جسے اس قوم…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر : عثمان عادل
ایک آئیڈیالوجی پر استواربلند فکر قوم اس آئیڈیالوجی کا تحفظ کرتی ہے اور پروان چڑھاتی ہے جسے اس قوم نے اختیار کیا ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتی ہے ۔ کیونکہ یہ آئیڈیالوجی ہی اس کی طاقت کا راز ہوتی ہے۔ آئیڈیالوجی کے تحفظ کا اہم پہلو فاسد افکار اور تصورات کو اپنی آئیڈیالوجی میں داخل ہونے سے روکنا ہے ۔ یہ اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ اس ثقافت کی حفاظت کی جائے کہ جس کا تعلق اس آئیڈیالوجی کی سمجھ سے ہے ۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اسلام کے بحیثیت دین اور اپنی طاقت کے راز کے طور پر آگاہ تھے پس انہوں نے اسلام کی آئیڈیالوجی کے فکر ی مآخذ کو محفوظ بنانے کو حد درجے اہمیت دی۔ قرآن کو مصحف کی شکل دینے اور پھر مسلمانوں کو قریش کی قرآت پر جمع کرنے کا کام صحابہؓ کے دور میں ہی انجام پا گیا ۔ جب یمامہ کی جنگ میں حفاظ کی بڑی تعداد شہید ہو گئی تو ابوبکرؓ کے دور خلافت میں قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں جمع کر دیاگیا۔ اور جب عثمان کے دورِ خلافت میں قرآت کے اختلاف کے نتیجے میں قرآن میں اختلاف کا خطرہ پیدا ہوا تو اسی مصحف سے جو زید بن ثابتؓ نے ابوبکر اور عمرؓ کے کہنے پر جمع کیا تھا اور جو ام المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس موجود تھا ، قرآن کی سات نقلیں بنا کر اسے تمام اہم اسلامی علاقوں میں بھجوا دیا گیا۔ آئیڈیالوجی کا دوسرا ماخذ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ اسے محفوظ بنانے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب دشمنانِ اسلام نے اسلام کے دوسرے بنیادی مآخذ پر ضرب لگانے کی کوشش کی اور جھوٹی احادیث کو گھڑکر انہیں رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا ، اور یہ کام بھی نبی ﷺ کی امت نے احسن طریقے سے سرانجام دے دیا۔
قرآن کی حفاظت کے سلسلے میں یہ بات واضح طور پر بیان کی جاتی ہے کہ اس کام کی سرپرستی ریاستِ خلافت نے خود کی تھی اور مسلمانوں کے حکمران خلفائے راشدین نے اس ذمہ داری کی اہمیت کو سمجھا تھا۔ مگر احادیث کے سلسلے میں یہ پہلو عام طور پر تذکرے سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ کام بھی صرف امت نے نہیں بلکہ امت اور ریاست نے مل کر سرانجام دیا تھا ۔ یعنی ریاست اس سازش کی خطرناکی سےغافل نہ تھی۔ چنانچہ وہ زنادقہ (زندیق کی جمع)جنہوں نے جھوٹی احادیث گھڑ کر امت میں پھیلائیں تھیں انہیں سزا دی گئی۔ جلال الدین سیوطی نے بیان کیا ہے کہ عبد الکریم بن ابی عوجاء جو جھوٹی احادیث گھڑا کرتا تھا اسے خلیفہ مہدی کے دورِ حکومت میں حدیثیں وضع کرنے کے جرم میں قتل کیا گیا اور سولی دی گئی۔ اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے چار ہزار جھوٹی احادیث گھڑ ی ہیں جن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا گیا ہے(تدریب الراوی )۔ اسی طرح خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک زندیق کو لایا گیا جس کا سر قلم کرنے کا فرمان صادر ہوا تو اس زندیق نے ہارون الرشید سے پوچھا کہ تم میری گردن کیوں مارو گے۔ ہارون الرشید نے جواب دیا: اللہ کے بندوں کو تمہارے شر سے نجات و راحت دینے کے لیے ۔ اس زندیق نے کہا: مگر تم ان ایک ہزار حدیثوں سے تم کہاں راحت پا سکو گے جنہیں میں نے رسول ﷺ پر گھڑا ہے۔ خلیفہ نے جواب دیا: فاین انت یا عدو اللہ من ابی اسحاق الفزاری و عبد اللہ بن المبارک ینخلانھا فیخرجانھا حرفا حرفا”اے اللہ کے دشمن! تو ابو اسحاق فزاری اور عبد اللہ بن مبارک سے کہاں غافل ہےجو تیری جھوٹی احادیث کو بھوسی کی طرح چھان کراس کا ایک ایک حرف الگ کر دیں گے”(تھذیب التھذیب)۔ گویا احادیث کو جمع کرنے میں بھی ریاستِ خلافت کا براہِ راست عمل دخل تھا۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز(م 101ھ) جو کہ تابعین کے دور سے ہیں، نے مدینہ کے گورنر قاضی ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ احادیثِ نبوی تلاش و جستجو کرکے انہیں لکھ لو کیونکہ مجھے علم کے مٹنے اور علماء کے ختم ہو جانے کا خوف ہے مگرتم صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو قبول کرنا(بخاری)، اسی طرح کے خطوط آپ نے دیگر والیوں کو بھی تحریر کیے۔ (فتح الباری)
حزب نے اپنے نشر کردہ لیفلٹ "دخل المجتمع” میں بیان کیا ہے کہ ریاست ایک تنفیذی وجود ہوتی ہے جبکہ معاشرے میں پایہ جانے والا تکتل ایک فکری وجود ہے۔ پس تابعین، تبع تابعین ، ایک فکری وجود تھے کہ جنہوں نے اسلام کے فکری مآخذ کو کرپٹ ہونے سے بچانے کا بیڑا اٹھایا اور ریاستِ خلافت نے ایک تنفیذی وجود ہونے کے ناطے جھوٹی احادیث گھڑنے والوں کو سزا دے کر اس فتنے کا سدِ باب کرنے میں کردار ادا کیا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جھوٹی احادیث گھڑنے کی سازش کا آغاز کب ہوا تو یہ موقع اسلام دشمن عناصر کو اس وقت ملا جب اسلامی ریاست سیاسی انتشار کا شکار ہوئی، اور یہ صورتِ حال عثمانؓ کی شہادت کے بعد پیش آئی۔ اس سے قبل احادیث کی جانچ پڑتال کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ صحابہ ؓتمام کے تمام عادل و ثقہ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ رسول اللہﷺ اور صحابہ کے دور میں لوگ اسناد نہیں پوچھا کرتے تھے ۔ عثمان ؓ کی شہادت کے بعد خود صحابہ نے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ اس بات کو دیکھیں کہ وہ کس سے حدیث لے رہے ہیں۔ ابو سکینہ مجاشی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے علیؓ کوکوفہ کی مسجد میں کھڑے ہو کریہ فرماتے ہوئے سنا:انظروا عمن تاخذون ھذا العلم فانما ھو الدین”اس شخص کو پرکھ لو کہ جس سے تم یہ علم حاصل کرتے ہو کیونکہ یہ دین ہے”۔ امام ابن سیرین بیان کرتے ہیں : لم یکونوا یسالون عن الاسناد فلما وقعت الفتنۃ قالوا سموا لنا حالکم فینظر الی اھل السنۃ فیوخذ حدیثھم و ینظر الی اھل البدع فلا یوخذ حدیثھم "لوگ پہلے سند کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے مگر جب فتنہ وقوع پزیر ہوا تو کہتے: ہم سے اپنے رجال کے نام بتاؤ تو اگر رجالِ حدیث سنت پر کاربند لوگوں میں سے نظر آتے تو ان کی حدیث لی جاتی اور اگر اہلِ بدعت دکھائی دیتے تو ان کی روایت کی ہوئی حدیث نہ لی جاتی”(مقدمہ لسان المیزان)۔ یہاں فتنے سے مراد سیدنا عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ ہے کہ جس کے بعد مسلمانوں کے درمیان جنگیں وقوع پزیر ہوئیں۔ جیسا کہ سعید بن مسیب (م 93) کا فرمان ہے: فلما وقعت الفتۃ الاولی یعنی مقتل عثمان فلم یبق من اصحاب بدر احدا”جب فتنہ اولیٰ یعنی عثمان ؓکے قتل کا واقعہ ہوا اس وقت (یعنی اس کے نتیجے میں ) اصحابِ بدر میں کوئی باقی نہیں بچا”۔ شہادتِ عثمانؓ کے بعد مختلف فرقے اٹھے جن میں شیعہ اورخوارج شامل ہیں ، ان کے پیروکاروں نے مختلف رائے اپنائیں اور جب انہیں اپنی آرا کے متعلق کوئی شرعی دلیل نہ ملی تو انہوں نے احادیث گھڑ کر انہیں رسول اللہ ﷺ سےمنسوب کردیا۔
تاہم جھوٹی احادیث گھڑنے کے اس نمایاں سبب کے علاوہ کچھ اور اسباب بھی تھے، جیسا کہ بعض جاہل صوفیا نے خیر و بھلائی کے کاموں کی طرف لوگوں کو مائل و راغب کرنے کے لیے جھوٹی احادیث وضع کیں اور کچھ نے اہلِ علم اور عقل و دانش رکھنے والے لوگوں کے اقوال کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کردیا اور بعض نے حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے احادیث گھڑیں۔
احادیث کے راویوں کی جانچ پڑتال کو اصطلاحی طور پر جرح و تعدیل کہا جاتا ہے اور ان راویوں کے حالات کے علم کو علم الرجال کہاجاتاہے ،جَرح :عربی میں زخمی کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اردو میں ہم جو لفظ جارحیت استعمال کرتے ہیں وہ اسی سے نکلا ہے۔ تاہم اصطلاحی طور پر اس سے مراد ہے کہ راوی یا شاہد میں ایسا وصف بیان کرنا جس کی وجہ سے اس کا قول ناقابلِ اعتبار ٹھہرے اور اس پر عمل کرنا باطل قرار پائے۔جبکہ تعدیل عدل سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی ہیں کسی کواچھا وعادل یعنی uprightقرار دینا۔ اور اصطلاحاً اس کے معنی ہیں ایسا وصف جو کسی راوی یا شاہد میں موجود ہو تو اس کی کہی ہوئی بات مان لی جائے اور قابل ِ عمل ہو جائے۔
جرح و تعدیل کی تمام تر بحث کا تعلق تابعین سے لے کر ان محدثین کے دور تک ہے کہ جنہوں نے احادیث کو قلمبند کیا ،اس کا تعلق نہ اس سے قبل سے ہے اور نہ بعد سے۔ تابعین سے قبل اس وجہ سے نہیں کہ تابعین سے قبل صحابہؓ تھے۔ اورصحابہؓ کے متعلق کوئی بحث نہیں ۔کیونکہ صحابہؓ سب کے سب ثقہ ہیں ، اس وجہ سے نہیں کہ وہ گناہوں سےمعصوم ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ ان کی عدالت شک و شبہ سے بالاتر ہے، اور ان کا رسول اللہ ﷺ پر دروخ گوئی کرنا بعید از قیاس ہے ۔ جرح و تعدیل کی بحث کا تعلق محدثین کے دورکے بعد سے اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے احادیث کو روایت کر کے قلمبند کر دیا اور زبانی روایت کا سلسلہ موقوف ہو گیا۔ اس کے بعد احادیث پر جتنا بھی کام ہے وہ راویوں کے حالات، احادیث کو مختلف اقسام میں تقسیم کرنے ، راویوں کے ثقہ و غیر ثقہ قرار دینے کے اصول اور پیمانوںکو بیان کرنے اور مختلف احادیث پر حکم لگانے سے متعلق ہے، نہ کہ احادیث کو قلمبند کرنے سے متعلق۔
فن جرح و تعدیل کے ماہر محدثین تیسری صدی ہجری کے بعد سے لے کر نویں صدی ہجری تک ہر صدی میں موجود رہے اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ جیسا کہ 9ویں صدی ہجری کے جرح و تعدیل کے ماہرین میں حافظ ابن حجر عسقلانی ، زین العراقی، برہان الدین حلبی، بدرالدین عینی، امام سخاوی کے نام نمایاں ہیں۔
صحابہ کا دور11 ہجری میں رسول اللہﷺ کے وصال سے لے کر 100ہجری تک کا ہے ۔ طویل ترین عمر والے صحابہ میں، سہل بن سعدؓاور انس بن مالکؓ شامل ہیں۔ انس بن مالکؓ نے 103 سال کی عمر میں 91یا 92یا 93 ہجری میں بصرہ میں وفات پائی ۔ ان سے ایک شخص نے پوچھا کہ اب کوئی صحابی باقی ہے یا نہیں توانس ؓ نے جواب دیا: صحابی تو کوئی نہیں ،البتہ دیہات کے چند بدو باقی رہ گئے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے ۔ جبکہ عامر بن واثلہ نے 110ہجری میں مکہ میں وفات پائی ، وہ فرمایا کرتے تھے کہ آج میرے سوا کوئی ایسا شخص نہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہو۔ صحابہؓ کے دور کے بعد تابعین کا دور ہے ، تابعین وہ ہیں جنہوں نے صحابہ سے ملاقات کی اور ان سے احادیث روایت کیں، ان میں بھی جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والوں کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم انہوں نے روایت کرنے میں اور ان کی تشریح کرنے میں غلطیاں کیں۔تابعین کا دَوردوسری صدی ہجری کے اخیر تک چلتا ہے۔ حافظ سخاوی جو کہ ابن حجر عسقلانی کے شاگرد ہیں اپنی کتاب فتح المغیث میں بیان کرتے ہیں کہ خلف بن خلیفہ آخری تابعی ہیں جن کے بعد تابعین کے وجود سے دنیا خالی ہو گئی اور ان کی وفات 181ھ میں ہوئی ۔ اس کے بعد تبع تابعین کا دور ہے ۔ 150 ہجری سے 180 ہجری کے لگ بھگ تابعین کے خاتمے کا دور ہےاوریہ تبع تابعین کا ابتدائی دور ہے اور تبع تابعین کا یہ دورتیسری صدی کے شروع تک رہا۔ اور پھر تیسری صدی ہجری میں احادیث کی وہ کتابیں لکھی گئیں جو کہ مشہور و معروف اور مرجع حدیث ہیں یعنی بخاری، مسلم، ابن ماجہ،ترمذی، مسند احمد بن حنبل، مسند ابو داؤد، دارمی وغیرہ۔ گو کہ احادیث کوصحیفوں اور کتابی شکل میں اس سے قبل تابعین اور تبع تابعین نے بھی قلمبند کیاہے ۔ وہ آخری محدث جنہوں نے براہِ راست راویوں سے حدیث روایت کر کے قلمبند کی وہ امام بیہقی ہیں جن کا سنِ وفات 458ہجری ہے ۔
کس دور میں کون کون سے محدثین، کتب السیر کے مولفین اور آئمہ مجتہدین موجود تھے ، مندرجہ ذیل سے اس کا ایک خاکہ مل سکتا ہے:
دوسری صدی ہجری
حسن بصری م110ھ
ابن سیرین م110ھ
شہاب زہری م124ھ
موسیٰ بن عقبہ م 145ھ
امام ابو حنیفہ م150ھ
امام مالک بن انس م 179ھ
امام عبد اللہ بن مبارک م 181ھ
تیسری صدی ہجری
امام ادریس شافعی م 204ھ
ابنِ ہشام م218ھ
ابن سعد م230ھ
امام احمد بن حنبل م 241ھ
امام عبد الرحمن بن عبد اللہ دارمی م 255ھ
امام محمد بن اسماعیل بخاری م256ھ
امام مسلم م 261ھ
امام ابن ماجہ م273ھ
امام ابوداؤد م 275ھ
امام ابو عیسی ٰ ترمذی م 279ھ
اس تمام تمہید کے بعد ہم اس موضوع کی طرف آتے ہیں کہ احادیث کے راویوں کی جانچ پڑتال یعنی جرح و تعدیل کے متعلق حزب کی رائے کیا ہے۔ یہ چیز واضح ہے کہ حزب صحیح حدیث کو دلیل کے طور پر لیتی ہے اور ضعیف احادیث سے استدلال نہیں کرتی۔ تاہم مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے کہ جب شباب ایک حدیث بیان کرتے ہیں تو کسی مکتبہ فکر کے لوگ یہ کہتے ہے کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں کیونکہ جو حدیث آپ نے بیان کی وہ ضعیف ہے، فلاں فلاں محدث نے اسے ضعیف کہا ہے۔جیسا کہ ایک بحث واقدی کے متعلق ہے کہ جن سےمحمد بن سعد نے روایت کیا ہے اور یوں سیرت کا ایک قبلِ ذکر حصہ واقدی سے مروی ہے،یا وہ احادیث جو پہننے والے زیورات پر زکوٰۃ نہ ہونے سے متعلق ہیں یا اس حدیث سے متعلق کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی اتباع کرو گے ہدایت پائے گے یا پھر ملکیت عامہ کے متعلق حدیث جسے شباب اکثر بیان کرتے ہیں مگر بعض لوگ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔
دوسری طرف ہمیں پاکستان میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں کہ وہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہر حدیث کو قبول کرکے، صحیح و ضعف کی بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان احادیث سے استدلال کرتے نظر آتے ہیں ، جس کا مقصد یہ ہے کہ ان کے وہ رجحانات اور رسومات جنہیں انہوں نے دین کے طوراختیار کر رکھا ہے، کی گنجائش نکل سکے۔ اور یہ سوال بہرحال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا صحاح ستہ میں بیان کردہ تمام احادیث کو درست تسلیم نہیں کرلینا چاہئے، خاص طور پرجب ہم یہ کہتے ہیں کہ محدثین نے احادیث کو چھان پھٹک کر قبول کیا تو کیا ہمیں ان آئمہ محدثین کی تحقیق کے اوپر کسی اور کی تحقیق کو قبول کرنا چاہئے۔ جبکہ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے آئمہ مجتہدین کے اجتہادات اوران کے شاگردوں کی مرتب کردہ فقہ کو بے وقعت کرنے کے لیے احادیث کاپیمانہ انتہائی سخت بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ فقہ کی کتابوں میں منقول احادیث کو مسترد کر سکیں اوراپنی مخصوص آرا کے علاوہ باقی تمام کو رد کرسکیں۔ اور ان کے اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے عملی طور پر اسلام کو عقائد،عبادات، اور چند معاملات تک محدود کر دیا ہے، اوراسلام کے نظاموں اور ریاستی پالیسیوں کی بحث سے ہاتھ جھاڑ لیے ہیں ۔ تاریخی طور پران کے اس طرزِ عمل سے عدم اخلاص کی بُو آتی ہے۔
درست طرزعمل یہ ہے کہ ہمیں احادیث کو مسترد کرنے میں ضروت سے زیادہ سخت نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ہمیں احادیث کی جانچ میں غفلت اور لا پرواہی کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے۔
جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے کہ جن کے ضعیف ہونے میں محدثین کا اختلاف ہو، کچھ لوگ اس کو ضعیف قرار دے کر اس سے استدلال نہ کرتے ہوں اور کچھ لوگ اس کو قابل استدلال سمجھ رہے ہوں۔ تو عموماًایسا دو وجوہات سے ہوتا ہے کہ
کچھ محدثین کچھ راویوں کو مجہول (غیر معروف) سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین انہی راویوں کو معروف سمجھتے ہیں۔
یا کچھ محدثین کچھ راویوں کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین انہی راویوں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔
اگر کچھ محدثین نےکسی راوی کومجہول سمجھا جبکہ کسی اور محدث نے اسے معروف سمجھا یعنی اُس نے اس راوی کی شناحت کردی اور اس کا ثقہ ہونابیان کردیا ، تو جب یہ صورت حال ہو تو اب وہ راوی مجہول یعنی نامعلوم نہیں رہا۔ پس اگر تمام دیگر محدثین ایک راوی کو نہ جانتے ہوں اور ایک محدث اس راوی کو جانتا ہو اور اسے اس کی ثقاہت پر اطمینان ہو تو یہ اس حدیث کو قبول کرنے کے لیے کافی ہے۔ بشرطیکہ کہ اس حدیث کو مسترد کرنے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو۔ اوریہی معاملہ ان احادیث کا ہے کہ جن میں ایک محدث کے نزدیک ایک راوی کا اپنے اوپر والے راوی سے سننا ثابت نہ ہو جبکہ دوسرے محدث کے نزدیک سماعت ثابت ہو۔ یہ تو کسی راوی کے مجہول یعنی غیر معروف ہونے کے متعلق تھا،جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کچھ محدثین کچھ راویوں کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین انہی راویوں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے تو یہاں ایک ہی راوی کی جرح اور تعدیل میں اختلاف ہے۔ یعنی کچھ اس راوی پر جرح کر رہے ہیں اورغیر ثقہ قرار دے رہے ہیں اور کچھ اس راوی کی تعدیل کرکے اسے قابلِ قبول قراردے رہے ہیں ۔تو اس سلسلے میں اصول یہ ہے کہ جرح مُفسر تعدیل پر مقدم ہے ۔ اور جرح غیرمفسر پر تعدیل مقدم ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب ایک محدث نے کسی راوی پر جرح کی ہو کہ اور اسے ضعیف بتلایا ہو اوریہ بھی بیان کیا گیا ہو کہ اس کی وجہ کیا ہےمثال کے طورپرکہ فلاں راوی جان بوجھ کرجھوٹ بولتا تھا، یا فاسق تھا، یا اہلِ بدعت میں سے تھا، یا اس کا حافظہ بہت کمزور تھا، یا وہ کثرت سے غلطیاں کرتا تھا، یا اس کی بیان کردہ احادیث اُن راویوں کی بیان کردہ احادیث سے متعارض ہیں جو کہ اپنی ثقاہت میں مشہور ہیں، تو یہ جرح مفسر ہےاور اس بنا پراس راوی کو عادل اور ضابط کہنے والوں کی رائے کو رد کیا جائے گا، لیکن اگر محدث نے کسی راوی پر جرح کی ہو اور اسے ضعیف قرار دیا ہو مگر وجہ بیان نہ کی ہو تویہ جرح غیر مفسر ہے، اس جرح کو قبول نہیں کیا جائے گا اور تعدیل کو مقدم کیا جائے گا۔پس آئمہ حدیث کا جرح کا سبب ذکر کیے بغیر یہ کہنا کہ یہ حدیث غیر ثابت ہے، یا منکر ہے، یا فلاں راوی مجروح ہے ، یا عادل نہیں ، تو یہ جرح قابلِ قبول نہیں۔ یہ اصول اس بنا پر ہے کہ بعض محدثین نے مختلف راویوں کو کسی ایسی وجہ سے بھی مجروح قرار دیا ہے جو حقیقت میں ان راویوں کو غیر ثقہ نہیں بناتا۔مثلاًخطیب بغدادی نے بیان کیا ہے کہ امام شافعی کو ایک شخص کے متعلق خبر ملی کہ اس نے ایک راوی کو مجروح ٹھہرایا ہے تو آپ نے اس سے جرح کا سبب دریافت کیا۔ جرح کرنے والے نے کہا میں نے اسے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: اس میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اسے مجروح ٹھہرایا جائے۔ اس نے کہا کہ وجہ یہ ہے کہ وہ جب کھڑے ہوکر پیشاب کرتا ہے تو اس کے جسم اور کپڑے پر پیشاب کی چھینٹیں پڑتی ہیں پھر وہ اسی حال میں نماز پڑھتا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: کیاتم نے اس حال میں اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے ؟تو اس نے کہا: نہیں۔یعنی گویا امام شافعی کے نزدیک یہ جرح درست نہیں۔ اسی طرح امام شعبہ سے دریافت کیا گیا کہ فلاں کی حدیث آپ نے ترک کیوں کر دی تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے اسےجوتے میں ایڑ ( spur)لگا کرترکی گھوڑے پر سوار دیکھا تو اس کی روایت کی ہوئی حدیث ترک کر دی۔ اسی طرح امام شعبہ منہال بن عمرو کے پاس آئے تو ان کے گھر سے ایک آواز سنائی دی ، وہ آواز ستار یا لحن کے ساتھ قرآت کی آواز تھی ، اس بنا پر انہوں نے منہال کی روایت کو ترک کر دیا۔ حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے زاذان سے روایت کیوں نہیں کی تو آپ نے جواب دیا وہ بہت زیادہ بولتے تھے۔ جرید بن عبد الحمید نے سماک بن حرب کو کھڑ ے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تو ان کی روایت کو ترک کر دیا۔ تو یہ اور اس جیسی دیگر وجوہات کسی راوی کو غیر معتبر قرار دینے کے لیے کافی نہیں۔
جرح و تعدیل کرنے والے کا خود بھی علم وتقویٰ کا حامل اور جرح و تعدیل کے اسباب سے واقف ہونا ضروری ہے۔ مشہور محدث حافظ ذہبی جارح اور معدل کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: اگر تمہیں خود اپنی فہم صداقت ، دین داری اور ورع پر اطمینان ہو تو جرح کرو ورنہ یہ کام نہ کرو۔ اگر تم پر نفسانیت، عصبیت اور کسی خاص رائے اور مذہب کی بے حمایت و جانب داری غالب ہو تو اللہ کے واسطے مشقت مت اٹھاؤ۔ اور اگر تم اپنے متعلق یہ جانتے ہو کہ تم خلط ملط کردیتے ہو، خبط باز ہو اور اللہ کی حدود کو ترک کرنے والے ہو تو ہمیں اپنی ذات سے نجات اور راحت دو(تذکرہ حفاظ)
جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے کہ جنہیں مجتہدین نے اپنی کتابوں میں مسائل کی دلیل کے طور پربیان کیا ہے تو وہ بھی قابلِ قبول ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ضروراس مجتہد کے نزدیک اس حدیث سے حکم کا استنباط درست تھااور ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ ایک مجتہد ایک حدیث کو دلیل کے طور پر استعمال کرے جبکہ وہ دلیل کے درجے سے گری ہوئی ہو اور اس کا رسول اللہﷺ کی حدیث ہونا ثابت نہ ہو۔ آئمہ مجتہدین کی فقہ کی کتابوں میں بیان کردہ احادیث کو یکسر مسترد کردینا احادیث کو جمع کرنے کے محرک و مقصد کے ہی خلاف ہے۔ محدثین نے احادیث کو محض اس لیے جمع نہیں کیا تھا کہ کیونکہ انہیں یہ علمی نوعیت کا کام پسند تھا اور وہ صرف اپنے پاس رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے اقوام جمع کرنا چاہتے تھے، بلکہ یہ اس وجہ سے تھا کہ نبی کریمِ ﷺ کا اسوۃ حلال و حرام کو طے کرنے کے لیے دلیل ہے۔ تو یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ اگر یہ گمان کیا جائے کہ محدثین کو تو احادیث کے صحیح اور قابلِ قبول ہونے کی پرواہ تھی مگر وہ مجتہدین کہ جنہوں نے ان احادیث کی بنیاد پر حلال و حرام کا استنباط کرنا تھا ، انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ وہ کونسی حدیث لے رہے ہیں اور کس سے لے رہے ہیں۔ ایک حدیث سے مجتہدین کا استنباط کرنا خاص طور پر آئمہ مجتہدین کا اور اکثر مجتہدین کا اسے دلیل کے طور پر استعمال کرنا اس بات پر اطمینان پیدا کرتا ہے کہ اسے دلیل کے طورپر استعمال کیا جا سکتا ہے اور ایسی احادیث حسن کے درجے میں ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ فقہ اور اصول کی کتابوں میں بیان کردہ تمام تر احادیث قابل قبول ہیں۔ بلکہ اس حدیث کو دیکھنے کے ضرورت ہے کہ اس کا ضعف کس نوعیت کا ہے۔ اگر تمام محدثین اس حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں تو اس حدیث کو اس بنا پر نہیں لیا جائے گا کہ مجتہدین نے اس سے استدلال کیا ہے اور عام طور پر صورتِ حال یہ ہے کہ جس حدیث کا ضعیف ہونا محدثین میں معروف و متفق ہے مجتہدین اس سے استدلال ہی نہیں کرتے۔ لیکن جس حدیث کے ضعیف ہونے کے متعلق محدثین میں اختلاف ہے ، مجتہدین کی طرف سے اس حدیث کا استعمال اور تقویت کے دیگرشواہد ا س کے ضعف کو دور کر دیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اگر کسی حدیث کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ حدیث کے بعض علماء کے نزدیک ضعیف ہے تویہ کافی نہیں کہ اسے ایک طرف ڈال دیا جائے اور اس سے استدلال نہ کیا جائے بلکہ اس کے ضعف کے اسباب کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا مجتہدین نے اس کو استعمال کیا ہے یعنی قابل اعتبار مجتہدین اور فقہاء نے یا کیا اس کے ایسے شواہد اور پیروی ہے یا نہیں کہ جس سے اس کا ضعف دور ہو جاتا ہو، کیا حدیث کے تمام علماء نے اسے ضعیف قرار دیا ہے؟ یا اس کے ضعیف ہونے کے اسباب میں اختلاف کیا ہے۔اس سب کی چھان بین سے ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس حدیث سے استدلال کیا جائے یہ استدلال نہ کیا جائے۔
میں اپنی بات کا اختتام اس نکتہ پر کرتا ہوں کہ اسلامی علوم یعنی ، فن حدیث، فن تفسیر، فنِ سیرت، عربی زبان، فقہ، اصول اور تاریخ پر بیش قدر کتابیں موجود ہیں جو ہمیں نہ صرف اسلام کے احکامات سے آگاہ کرتی ہیں اور اسلام کے نظاموں سے متعلق ہماری سمجھ میں اضافہ کرتی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس فکری انقلاب کی داستان بھی سناتی ہیں جو اسلام کی آئیڈیالوجی کے نفاذ نے برپا کیا تھا۔ مسلمانوں نے کئی علوم و فنون کی بنیاد رکھی اور ہر فن میں ماہرین پیدا کیے۔ یہ ماہرین سینکڑوں میں نہیں، ایک دو ہزار نہیں بلکہ ہزار وں میں تھے۔ اسلام کا علمی سرمایہ کسی بھی قوم سے زیادہ ہے۔ اور اس امت کی علمی خدمات کسی بھی قوم سے زیادہ ہیں۔ اور کسی قوم نے اپنی آئیدیالوجی کی تشریح اور تفصیلات کو اتنی شرح و بسط کے ساتھ بیان نہیں کیا جیسا کہ مسلمانوں نے کیاتھا۔ اورکسی آئیڈیالوجی نے اپنے ماننے والوں کو اس آئیڈیالوجی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس قدر متحرک نہیں کیا جتنا اسلام کی آئیڈیالوجی نے کیا تھا۔ اسلامی علوم کا تفصیلی مطالعہ جہاں ہمیں اسلام کو بہتر سمجھنےمیں مدد فراہم کرتا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے کہ جب یہ آئیدیالوجی دوبارا نافذ ہوگی تو دوبارا کیسا فکری ماحول جنم دے گی۔ اس لیے ہمارے لیے فائدہ مند ہے کہ ہم ان اسلامی علوم میں کی گئی کاوشوں کا مطالعہ کریں تبھی ہم اس ماحول کا تصور ذہن میں لا سکیں گے جو صدی درصدی امت مسلمہ میں موجود رہا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج سیکولر طبقےنے اسلام کے ماضی کے تذکرے کو خلفا کے چند واقعات اور گنی چنی قبیح مثالوں تک محدود کر دیا ہے اور ان سرچشموں سے امت کے بیٹوں کی نظر کو پھیر دیا ہے کہ جن سے انہیں اپنے آپ کوسیراب کرنا چاہئے تھا، پس امت کے یہ بیٹے اپنی فکری و علمی پیاس بجھانے کے لیے یورپ کی بیمار اور sickeningتاریخ اور فلسفوں کی طرف رجوع کرتے ہیں، اس کو معیار و مرجع بناکر خود بھی بیمار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بیمار کرتے ہیں۔ لیکن الحمد للہ اس امت میں حزب جیسی جماعت موجود ہے کہ جس نے اپنے پیروکاروں کے لیے ایسی ثقافت ترتیب دی ہے جو انہیں اس بات میں رہنمائی مہیا کرتی ہے کہ انہوں نے افکار و علوم کے بے کراں سمندر میں سے کن موضوعات کا مطالعہ کرنا ہے ورنہ ان علوم کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر ہم خود انفرادی طور پران علوم کی معرفت حاصل کرنے کے لیے میدان میں اترتے تو شاید ایک یا چند علوم کی معرفت حاصل کرنے اور اس میں سے صحیح و غلط اورمضبوط اور کمزور کی تمیز کرنے میں ہی ہماری زندگی صرف ہو جاتی۔ اللہ امتِ مسلمہ کو جلد وہ خلافت عطا کرے جو اس تمام میل کچیل کو دھو ڈالے گی جس نے مسلمانوں کو فکری طور پر منتشر کر دیا ہے اوران کے ذہنوں سے اسلام کی اعلیٰ سمجھ کو دھندلا دیا ہے۔ میں اپنی بات کا اختتام اس روایت پر کرتا
ہو ں:کثیر بن قیسؓ فرماتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابو درداؓ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور اس نے کہا اے ابو دردا! میں آپ کے رسول کے شہر مدینہ طیبہ سے صرف ایک حدیث کو جاننے کے لیے آیا ہوں ۔ حضرت ابو درداء ؓنے فرمایا: اس کے علاوہ کسی اور حاجت کے لیے تو نہیں آئے؟ اس نے کہا : نہیں۔ حضرت ابودرداء نے فرمایا: اور کسی تجارت کے لیے بھی نہیں آئے ہو؟ اس شخص نے کہا:نہیں۔
حضرت ابو درداؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانِ فِي الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ"جس نے علم کی طلب کے لیے کوئی راستہ طے کیا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلائے گا اور ملائکہ طالب علم کی خوشنودی کے لیے اپنے پر بچھا دیا کرتے ہیں، اور دنیا پر موجود ہر چیز اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتی ہے، حتیٰ کہ سمندر میں موجود مچھلیاں بھی ۔ ایک(باعمل) عالم کی ایک عبادت گزارپر فضیلت ویسی ہی ہے جیسے کہ چاند کی باقی تمام ستاروں پر۔ علماء انبیا کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء اپنے پیچھے درہم اور دینار نہیں چھوڑ کر جاتے بلکہ ان کی وارث علم ہے ۔ تو جس نے علم حاصل کیا اس نے اس وراثت کا بڑا حصہ لے لیا” (ابن ماجہ، ترمذی، ابوداؤد)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی ہی طلب اور تڑپ عطا فرمائے اور اسے علم سیکھنے والے اور سکھانے والے دونوں کے حق میں قبول فرمائے، بے شک اللہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں زیادہ عطا کرنے والا ہے ۔ (آمین )
ختم شد