ہر آئیڈیالوجی کا اپنا ایک عقیدہ ہے جس سے اس کے نظام پھوٹتے ہیں ۔ان نظاموں کے نفاذ میں یہ…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: محمد اکمل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر آئیڈیالوجی کا اپنا ایک عقیدہ ہے جس سے اس کے نظام پھوٹتے ہیں ۔ان نظاموں کے نفاذ میں یہ آئیڈیالوجیز ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی(کیپٹلزم) کے مطابق معاشرہ محض افراد کا مجموعہ ہے چنانچہ افراد کے امور کے منظم ہو جانے سے معاشرہ کے امور بھی منظم ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ اگر ہر ایک فرد اپنے معاملات کی دیکھ بھال میں مخصوص آزادیوں کا حامل ہو تو بعید از قیاس نہیں وہ اپنے امور کو اپنے اطمینان کے مطابق استوار کر لے۔ جیسا کہ معاشرہ افراد ہی کا مجموعہ ہے تو افراد کا اپنے انفرادی امور کو منظم کرنے سے خو دکار طریقہ سے معاشرے کے امور بھی منظم ہو جائیں گئیں۔ یہیں سے انسانی آزادیاں سرمایہ دارا نہ آئیڈیالوجی میں بنیادی تصورکی حیثیت حاصل کرتی ہیں۔ اور یہیں سے ریاست کا تصور جنم لیتا ہے اور معاشرے میں ریاست کا کردار بھی واضح ہوتا ہے۔ سرمایہ داریت کے نزدیک ریاست کا کام صرف اور صرف آزادیوں کی نگرانی اور داخلی اور خارجی عناصر سے حفاظت ہے۔ پس اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی آزادی میں دست درازی کرے تو تبھی ریاست مداخلت کرے گی لیکن اگر یہ سب کچھ دونوں فریقین کی باہم رضا مندی سے ہو رہا ہو تو اسے آزادی پر دست درازی نہیں کہا جائے گا نہ ہی ریاست ایسے معاملات میں مداخلت کرے گی کیونکہ ریاست کا وجود ان آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے(theory of liabilities)۔ ان آزادیوں میں نمایاں آزادی مال کی آزادی ہے جس کے مطابق ہر کوئی اپنے مال میں تصرف اور اضافے کا مکمل اختیار رکھتا ہے ،اس میں مداخلت اس فرد کی آزادی سلب کرنے کے برابر ہے۔ اسی آزادی کو ریاستی املاک کے بہترین استعمال کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ سرمایہ داریت کے نظریہ(کیپٹلزم) کے حامل مفکرین کے نزدیک بنیادی اقتصادی مسئلہ ان گنت خواہشات اور محدود وسائل کی موجودگی میں ان وسائل کی تقسیم ہے۔ یعنی معاشرہ کے وسائل کا بہترین استعمال کب اور کیسے ہو گا۔ چونکہ ملکیت کی آزادی دیگر آزادیوں میں سے سب سے نمایاں اور دوسروں پر حاوی ہے جس کے تحت ایک فرد کو اپنی املاک میں تصرف، یعنی وہ اسے کیسے استعمال کرتا ہے، کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ پس اس مال میں بغیر مالک کی اجازت کے تصرف ڈاکہ کے برابر ہے۔ اسی نسبت سے ٹیکس اس مال میں دست درازی قرار دیا گیا کیونکہ ٹیکس ریاست کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کسی کی املاک میں زبردستی حصہ حاصل کرنا ہے۔ بلکہ اس کے لیے توجیہہ دی جاتی ہے کہ سرمایہ دار سے ٹیکس لے کر معاشرہ کے پیچھے رہ جانے والے طبقہ کو نقد دینا یا ان کے لیے سہولیات کا مہیا کرنا اصل میں مال کے استعمال میں بہترین قابلیت رکھنے والے سے مال لے کر اسے مال کے استعمال میں بدترین قابلیت رکھنے والے معاشرے کے فردکے حوالے کرنادرست نہیں بلکہ ایسا کرنے سے معاشرے کے اموال کا ضیاع ہو گا۔ ان کے نزدیک بہترین صورت تو یہی ہوتی کہ اس مال کا بہترین استعمال ہو جو کہ تب ہی ممکن تھا کہ معاشرہ میں مالی معاملات میں بہترین اہلیت رکھنے والے کے پاس ہی مال کی ملکیت رہنی چاہیے اور ایسا کرنا سرمایہ دار اور غریب دونوں کے لیے یکساں فائدہ مند ہو گا۔ سرمایہ دار کے لیے منافع کی شکل میں اور مزدور کے لیے اجرت کے مواقع کی شکل میں۔ آزادیوں میں سے شخصی آزادی کے تصور میں یہ بات بھی شامل ہے کی ہر آزاد انسان کسی دوسرے آزاد انسان ساتھ کسی معاہدہ میں بندھنے میں آزاد ہے لیکن فریقین پر ایسا معاہدہ جس کے ایجاب و قبول میں دونوں آزاد تھے کی تمام شقوں اور پابندیوں کو پورا کرنا لازم ہے۔ گویا contract کاتقدس لازمی ہےاور یہی بات labor problem کی بنیاد بنی۔ اب اگر کسی مالک نے ملازم کے ساتھ دن میں 14گھنٹے کام کرنے کا معاہدہ کیا تو وہ ملازم 14 گھنٹے کام کرنے کا پابند ہے ،اگر نہیں کرے گا تو معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب سمجھا جائے گا اور مالک تمام تر قانونی چارہ جوئی پر حق بجا نب ہے۔
چنانچہ سیاست اور اقتصاد کا یہ تعلق سرمایہ داریت کے اولین ادوار سے جاری رہا اور اس نے مغربی ریاستوں میں زبردست قسم کا بگاڑ پیدا کر دیا۔ اسی اثنا میں اشتراکیت(سوشلنزم) کے نظریہ نے زور پکڑنا شروع کیا، اب سرمایہ داریت کی آئیڈیالوجی کے مقابلے میں متبادل موجود تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے اواخر میں روس میں سرخ انقلاب کے بعد اشتراکی نظریہ کی پشت پناہی کرنے والی ریاست وجود میں آ چکی تھی۔ ریاست کے وجود کا صرف آزادیوں کے ضامن کی حد تک محدود ہونے کا نظریہ دباؤ کا سامنا کرنا لگا۔ مالک اور ملازم کے درمیان ربط منظم ہونے کی بجائے ایک استحصالی تعلق بن گیا،مزید برآں theory of liabilities کے تحت سرمایہ دار ،ریاست کی مکمل قوت کو عدالتوں کے ذریعے، اپنے مفاد کے تحفظ کے حق میں استعمال کر رہا تھا۔ سوشلسٹ نظریے کے حاملین نے ملازم خواہ وہ عام مزدور تھے یا ٹیکنیکل ماہرین، دونوں کی حالت زار کو اپنا مؤقف بنایا اور اس استحصال زدہ طبقے کے لیے انصاف کے تقاضے کے طور پرمختلف انواع کی خدمات کو کہیں ضروری کہا اور کہیں حق گردانا ۔رہی سہی کسر گریٹ ڈیپریشن نے مکمل کر دی۔ سرمایہ داریت کے نیچے سسکتی انسانیت کا دل اس سے اچاٹ ہوا چلا تھا۔
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ o فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ o وَلاَ يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ o
تو نے دیکھا اُسکو جو جھٹلاتا ہے انصاف ہونے کو۔ سو یہ وہی ہے جو دھکے دیتا ہے یتیم کو۔ اور نہیں تاکید کرتا محتاج کے کھانے پر۔(الماعون 1-3:)
بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں حالات کچھ ایسے تھے کہ 1900 میں پورے ملک میں صرف ۵ کمپنیاں تھی جو اپنے ملازمین کو پینشن کی سہولت دے رہے تھے جو کہ 1932 میں بڑھ کر 15% ہو گئی۔1929 میں شروع ہونے والے گریٹ ڈیپریشن نے ایک آفت بن کر امریکہ کی تمام آبادی کو لپیٹ لیا۔ 10,000بینک دیوالیہ ہو گئے، امریکی GNP آنے والے دو سالوں میں 105 ارب ڈالر سے 55 ارب ڈالر پر آ گئی۔ تنخواہیں 50 ارب ڈالر سے کم ہو کر محض 30 ارب ڈالر رہ گئی تھی۔ بیس لاکھ بالغ امریکی شہری بے مقصد بے کار ،بے گھر ،شہروں میں آوارگی کرنے پر مجبور تھے اور غرباء کے لیے سوائے مخیر حضرات کی طرف سے صدقات کے علاوہ کوئی اور آسرا نہیں تھا۔ ایسے میں ملک کے طول و عرض میں مختلف افکار کی بنیاد پر کئی تحاریک اٹھیں۔ ان میں سے چند سیاسی تحریکات ، جو سیاسی اصلاحات کا پیش خیمہ بنیں ،مندرجہ ذیل ہیں:
ہر کس بادشاہ:
اپنی دولت میں شریک کے نام پر ایک تنظیم لوزیآنہ ( (Louisiana کے گورنر ہوئی لانگ (Huey Long) نے قائم کی جس کا نعرہ تھا کہ ہر کس بادشاہ ہے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ریاست کے سرمایہ داروں کی دولتیں ضبط کر لی جائیں ۔اور وفاقی حکومت ہر خاندان کو سال کا $5000 دے ۔ یاد رہے کہ اس وقت ایک متوسط خاندان کا سال کا خرچہ ساڑھے تین ہزار ڈالر تھا۔ اس کے مطالبوں میں یہ بھی تھا کہ انفرادی دولت پر پانچ کروڑ کی حد مقرر کی جائے اور کسی کو سال میں دس لاکھ ڈالر سے زیادہ تنخواہ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تحریک لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ ایسے وقت جب امریکہ کی آبادی 12 کروڑ تھی اس تحریک کے 27000 کلب اور 70 لاکھ ممبران رجسٹرڈ تھے ۔
ٹاؤن سینڈ تحریک:
فرانسس ٹاؤن سینڈ کیلیفورنیا کے ایک ڈاکٹر تھا اور 66سال کی عمر میں بے روز گار ہو گیا۔ اس نے اس صورتحال کے نتیجے میں ایک تحریک شروع کی جس کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ہر60 سال سے زائد عمر والے ریٹائر فرد کو $200 مہینے کے ملنے چاہییں اس رقم کو 2% سیلز ٹیکس لگا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی کچھ شرائط بھی تھی کہ کون اس پروگرام کا حقدار ہو گا۔ ٹاؤن سینڈ نے اپنا مقالہ ایک مقامی اخبار میں شائع کروایا۔ اور دو سال کے مختصر عرصہ میں اس تحریک کے 7000 کلب میں 22لاکھ ممبران رجسٹرڈ تھے۔ یہ تحریک اس حد تک زور آور ہوئی کہ وہ 1949 میں امریکی کانگرس میں اس پروگرام کو اپنانے کے لیے بل پر رائے شماری میں صرف 39 عددی کمی سے رہ گیا۔
کیلیفورنیا کی EPICتحریک:
اپٹن سنکلیر (Upton Sinclair) کیلیفورنیا سے ایک اعلانیہ سوشلست کارکن تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی ہی کے ناراض گروپ نے ان سے ریاست کے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے پارٹی ایجنڈا کی تشکیل میں مدد چاہی ۔اس کی طرف سے دئیے گئے پلان سے گروپ کے اراکین اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپٹن سے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ سے گورنر کا الیکشن لڑنے کی استدعا کی ۔ کیلیفورنیا آبادی کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے۔1934 کےاس ریاست کے گورنر کے تین طرفہ الیکشن میں ریپبلک پارٹی کے امیدوار نے 48% ،اپٹن نے 37% اور پروگریسو امیدوار نے 17% ووٹ حاصل کیے۔ یعنی اگر یہ دو طرفہ مقابلہ ہوتا تو ایک اعلانیہ سوشلست امریکہ کی سب سے بڑی ریاست کا گورنر ہوتا۔
Ham and eggs:
بعض تحاریک مضحکہ خیز مطالبات کی بنیاد پر بھی قائم ہوئیں اور عوام میں پذیرائی حاصل کر گئیں۔ انہیں میں سےایک Ham and eggs ہے جس کا مطالبہ مزید ایک فرضی کرنسی کے اجرا کا تھا ،اوریہ کہ ہر جمعرات کو پچاس سال سے زیادہ عمر والے ہر بے روز گار کو تیس ڈالر ملنے چاہیے۔
Lets stay away from politics
Regardless of who hollers
Let’s not be fooled by childish tricks
LET’S GET OUR THIRTY DOLLARS
ان لوگوں کا مطالبہ جب ریفرینڈم کے لیے پیش ہوا تووہ 14 لاکھ ووٹ کے مقابلے میں ساڑھے گیارہ لاکھ ووٹ لے کر ناکام رہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تحریک کے قائدین عجیب کردار کے حامل تھے۔ آپس میں ان کے جھگڑے تھے۔ بار بار سکینڈل اخبار کی زینت بنتے رہتے تھے اور ان کی طرف سے دئیے گئے حل فکری لحاظ سے خوش گپی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے لیکن اس سب کے باوجود عوام میں ان کی مقبولیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ عوام میں اس مسئلہ کے متعلق کس حد تک فکر مندی موجود تھی ۔
یہ صرف چند مثالیں تھیں جو امریکہ میں قومی سطح کی حد تک مقبولیت حاصل کر سکیں۔ ورنہ فیکٹریوں ، قصبوں یا شہروں کی سطح پر ہونے والے پر امن اور پر تشدد واقعات پر کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں، جن میں یکم مئی 1886 کے شکاگو کے مظاہرے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ غرض یہ کہ 1934 میں حالات کچھ یوں تھے کہ لوگوں کا معمول کے اداروں پر سے اعتماد اٹھ چکا تھا۔ کافی عرصہ پہلے ہی صنعتی انقلاب سے آنے والی معاشرتی تبدیلیاں ان پلٹ حالت میں پہنچ چکیں تھیں ، روایتی معاشرتی حفظ ما تقدم ،خاص کر معمر افراد کے لیے ،یعنی خاندانی تعاون اور مخیر افراد کی خیرات وغیرہ جیسے اقدامات ناکام ہو چکے تھے۔ انقلابی قسم کے حل کے لیے مطالبے خودرو جھاڑیوں کی طرح چار سُو پھیل رہے تھے ۔ اس صورتِ حال میں سرمایہ دار طبقے کو پورا نظام لپٹتا ہو نظر آرہا تھا،جو اب تک کسی بھی قسم کی ایسے اقدام، جس میں ان پر ٹیکس لگا کر معاشرے کے کمزور طبقہ پر خرچ کیا جائے ، کو اپنی املاک پر ڈاکہ یعنی اپنی آزادی کا سلب ہو جانا سمجھتا تھا ۔اور اب کسی نا کسی طرح اس استحصال زدہ طبقے کے غصہ کو ٹھنڈا کرنا ضروری سمجھتا تھا، جو کہ شورش کی راہ پر گامزن ہو چکاتھا ۔ دوسری طرف روسی ریاست اشتراکیت کے تحت تمام وسطی ایشیا کو ضم کرکے مستحکم ہو چکی تھی اور اب اس کی نظریں یورپ پر تھیں۔ درج بالا حالات و واقعات حالانکہ ریاست ہائے امریکہ کے لیے ہیں لیکن ایسا ہی سب کچھ یورپ کی استعماری ممالک کے لیے بھی اِ سی طرح سچ تھا۔ فرانس، انگلینڈ ،جرمنی میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی تحقیقاتی رپورٹ اور ان کے مطابق ایسے پروگرام متعارف کرائے جو ان کی عوام کے غصہ کو ٹھنڈا کر سکیں۔
اس نظریاتی چیلنج نے مغربی مفکرین کو مجبور کیا کہ وہ contract کے تقدس اور liability کی طرف اپنے رجحان کو تبدیل کریں۔ حالت یہ تھی کہ اگر دو آزاد فریقین آپس میں ایک محنت اور اُجرت کا معاہدہ کریں جس میں اگر ایک فریق دن کے 14 گھنٹے کام کرنے کی حامی بھر چکا ہو تو یہ فریق کنٹریکٹ کی تکمیل کا پابند ہے، چاہے اِس میں اُس کی جان چلی جائے۔ پس ان معاہدات کو ایسے قوانین کے تابع کیا گیا جن کی حیثیت ایک پیوند سے زیادہ نہیں تھی، مزید برآں یہ قوانین سرمایہ داریت کے اپنے ہی عقائد اور نظریات سے متصادم تھے۔ ان کی شخصی آزادی کے نظریہ کے تحت ہر دو آزاد فرد کو آپس میں معاہدہ کرنے کی مکمل آزادی ہے اور اس معاملہ میں کسی بھی تیسرے فریق کی دخل اندازی پہلے دو کی آزادی پر روک سمجھی جاتی ہے، لیکن اس تضاد کو ایک کڑوی گولی قرار دے کر ان معاہدوں کو کچھ اصول اور قواعد کا پابند کیا جانے لگا۔ جیسا کہ دن میں کام کرنے کے گھنٹوں کی حد، کم ترین اجرت کی حد، کم سے کم عمر کی حد، یونین بنانے کی اجازت ، ہڑتال کرنے کا حق ، پنشن وغیرہ۔
جہاں امریکہ میں سوشل سیکورٹی کے نام سے استحصال زدہ طبقہ کو رام کرنے کی کوشش کی گئی تو یورپ میں بھی ایسے پروگراموں کو "فلاحی ریاست” کے نام کے ساتھ متعارف کرایا گیا۔ یہ پروگرام اصلاً آزادیوں کے تصور کے ساتھ متصادم تھے اور چاروناچار سرمایہ دار طبقے نے اسے قبول کیا تھا۔ یہ ایسا ہی تھا کہ جو گیارہ ستمبر کے سانحہ کے بعد ہوا جب امریکہ اور باقی ترقی یافتہ ممالک نے قومی سلامتی کے نام پر رائے کی آزادی کے خلاف قوانین متعارف کرائے اور اپنے ہی نظریے کے خلاف چلے۔
سوشل سیکورٹی ،فلاحی ریاست اور معاشرتی عدل ایک ہی مسئلہ کے لیے ،ایک ہی جیسے حل کے مختلف نام ہیں۔ ان اصطلاحات کا اطلاق ان تمام پروگراموں پر ہوتا ہے جو ملکیت کی آزادی اورباقی تمام تصورات کی موجودگی میں ،معاشرے کے کچھ مخصوص افراد کے لیے مخصوص سہولیات مشروط طور پر مہیا کرنے سے متعلق تھے ۔ اگرچہ بائیں بازو کے مفکرین اسے عوام کے حق کے طور پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر سوشلسٹ نظریات کی طرف سے جیسے ہی دباؤ میں کمی محسوس ہونا شروع ہوئی، فلاحی ریاست ،سوشل سیکورٹی اور معاشرتی عدل (عدل اجتماعی) کے معاملات اپنے نافذ العمل ہونے کے کم و بیش تیس سال بعد ہی واپس ہو نا شروع ہو گئے۔ اور Neo-liberalism کی شناخت کے ساتھ امریکہ میں صدر ریگن اور برطانیہ میں وزیر اعظم مارگرٹ تھیچر نے رفتہ رفتہ ان سہولیات کو واپس لینا شروع کیا جنہیں 1940 کی دہائی میں پسے ہوئے طبقہ کے لیے لازم قرار دے دیا گیا تھا۔ رہی سہی کسر نوے کی دہائی میں گلوبلائزیشن نے پوری کر دی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرمایہ دار انہ آئیڈیالوجی کے ناقدین کی بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ اس نظام میں سرمایہ دار بھوکے کو اس لیے نہیں کھلاتا ہے کہ یہ رب العالمین کا حکم ہے بلکہ اس لیے کہ ایسا کرنے سے وہ اس کے مال میں چوری نہیں کرے گا۔ اور یہ کہ ایسا کوئی بھی معاشرہ جس کے افراد، دوسرے افراد کو صرف اپنے نفع اور مفاد کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر معاشرے میں اقتصادی سرگرمی کی بنیاد رکھتے ہیں ،ایسے لوگ معاشروں اور انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔
سوشل سیکورٹی ،فلاحی ریاست اور عدل اجتماعی مترادف اصطلاحات ہیں اور ان کی بنیاداور آغاز ایک ہی قسم کے حالات اور نظریات ہیں۔ ان کے مطابق ریاست کے کچھ لوگ (تمام نہیں) مشروط طور پر کچھ سہولتوں کے حق دار ہیں۔ یہاں کچھ سہولتوں کوملازم رکھنے والے کے لیے ضروری قرار دیا گیا جیسا کہ پنشن اور صحت اور کچھ کو ریاست کے لیے ضروری گردانا گیاجیسا کہ تعلیم۔ یہی ان اصطلاحات کی حقیقت ہے۔ فکری انحطاط کے اِس دور میں ان اصطلاحات کی اسلام کے کچھ احکام سے مماثلت کی بنیاد پر ان اصطلاحات کے زمرے میں آنے والے کام اور اہداف کو اسلامی گردانا گیا اور عاقبت نا اندیش خود ساختہ دانشوروں نے ایسے مرکبات متعارف کرائے جن میں ہر اصطلاح دوسرے کی نفی کرتی ہے، چنانچہ اسلامی فلاحی ریاست میں اسلامی ریاست کو فلاحی سے متصف کرنا یہ لازم کرتا ہے کہ اسلام میں کچھ معاملات فلاح والے ہیں اور کچھ معاملات میں فلاح کے لیے اسلام کے علاوہ اور نظاموں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ باوجود یہ کہ ایسی فکرپر یقین رکھنا بموجب کفر ہے ۔ اس اصطلاح کے استعمال اور ترویج میں کسی احتیاط کی رُورعایت نہیں رکھی گئی۔ بحیثیت حاملینِ دعوت یہ ہمارے لیے ازبس ضروری ہے کہ اسلام سے اجنبی افکار کونہ صرف پہچانا جائے بلکہ ان کا انکار بھی کیا جائے۔
یہاں پر تین پہلو تفصیل طلب ہیں
اول: کیا ان اصطلاحات کی اسلام میں گنجائش موجود ہے؟
دوم: کیا اسلامی ریاست میں استحصالی طبقہ موجود ہوتاہے یا موجود ہونے کا امکان ہے؟
سوم: اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور کیا ہے اور ان کا حقدار کون ہے؟
اول: کسی بھی اصطلاح کے استعمال سے پہلے اس بات کا تعین بہت ضروری ہے کہ اس کا مآخذ کسی اجنبی تہذیب سے تو نہیں۔ اوپر دی گئی اصطلاحات میں "فلاحی ریاست "اور عدلِ اجتماعی میں دو صفات یعنی فلاح اور عدل زندگی کے بارے نقطۂ نظر پر منحصر ہیں۔ آئیڈیالوجی بدلنے سے فلاح اور عدل کے معنی بھی بدل جائیں گئیں۔ مغربی سیاسی مفکرین کے نزدیک عدل اجتماعی کا مطلب معاشرے کے ضرورت مند طبقے کو تعلیم اور صحت اور برسر روز گار افراد کو حقوق کے تحفظ کی فراہمی ہے جبکہ اسلام میں عدل کے معنی ظلم کی ضد میں آتے ہیں مزید یہ کہ اسلام تعلیم اور صحت امیر اور غریب دونوں کے لیے یکساں ضروری قرار دیتا ہے اور حقوق کا تحفظ بھی ریاست کے ہرشہری ، خاص ہویا عام ، کمزور ہو یا طاقتور ، مسلم ہو یا غیر مسلم، کسان ہو یامزدور، سب کے لیے لازم ہے۔ ایسی بیش ہا اصطلاحات سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق علوم میں موجود ہیں جو کسی نظریاتی بنیاد پر اخذ نہیں کی گئیں بلکہ مشاہدات کو منظم کرنے کے لیے موجود ہیں۔ ایسی اصطلاحات کے استعمال اور اختیار کر لینے کے متعلق اسلام میں ممانعت نہیں۔ لیکن ہر ایسی اصطلاح جس کی بنیاد کوئی نظریہ حیات ہو تو ایسی اصطلاحات کا استعمال اور انہیں اختیار کر لینا حرام ہے جیسا کہ نماز پڑھانے والے کو پادری کہنا ۔ اخیر الکلام فلاحی ریاست کی اصطلاح کا لازمی نتیجہ یہ ہے ریاست کے معاملات مغربی آزادیوں کے تصور یعنی سرمایہ داریت کے مطابق ہی چلائے جائیں اور ان سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو فلاحی ریاست کے ڈھکوسلوں کی مرہم پٹی سے ڈھانپ دیا جائے ،اور اسلام میں اس امرکی کوئی گنجائش نہیں۔
دوم: جیسا کہ اوپر بحث میں مذکور ہے مزدور کی حالت زار کی بنیادی وجہ مالک اور ملازم کے درمیان آزادیوں کی بنیاد پر ہونے والے کام کے معاہدات ہیں۔ جہاں اس معاملہ میں سوشلسٹ نے ملازم کی خرابیٔ حال کو لے کر ملازم ہی کو کل قرار دے کر حل پیش کرنے کی کو شش کی ، وہاں سرمایہ دارانہ نظریے کے حاملین نے اپنے نظریات میں اپنے نظریے سے متناقض پیوند لگائے۔ یعنی ہر دو فریقین کو معاہدہ کرتے ہوئے تیسرے فریق کے قائم کردہ قوائد و اصول کا پابند کر دیا۔ اسلام میں اول تو طبقاتی جنگ یا دو متحارب فریق یعنی سرمایہ دار اور مزدور جو کہ اپنے اپنے حقوق کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہیں کا وجود نہیں۔ کیونکہ اسلام میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے معاشرے میں موجود تمام تعلقات میں ہر فریق کے لیے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین شریعت کے ذریعے منظم کر دیا ہے،جیسے کے میاں و بیوی، حاکم و رعایا، آجر و اجیر، بائع و مشتری وغیرہ۔ چنانچہ مزدور کو پہلے اپنے حقوق کے تعین کے لیے اور بعد میں حصول کے لیے یونین بنانا اور دوسرے ایسے اسالیب جس سے مخالف فریق دباؤ میں آئیے کی ضرورت نہیں۔ اول ریاست اسلام کے نفاذ کی ذمہ دار ہے ،نہیں تو محکمۂ المظالم کے ذریعے حکومت کی غفلت کی دوری کا بندوبست کیا جا سکتا ہے اور آخر میں یہ ذمہ داری امت کی طرف پلٹتی ہے کہ وہ حاکم کا ہاتھ حق کی طرف موڑے۔ اسلام میں طبقات نہیں چنانچہ کوئی مسئلہ محض مزدور ڈاکٹر وکیل کسان کا نہیں بلکہ ریاست کے ایک شہری کا ہے اور امت کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ ہر منکر پر حکومت کا محاسبہ کرے۔ اس لیے اسلامی ریاست میں بادی النظر labor problem نا تو موجود ہو گا نا ہی پیدا ہو جانے کا خدشہ ہو گا۔
سوم: مغربی افکار میں چونکہ آزادیاں کلیدی مقام رکھتی ہیں چنانچہ ان آزادیوں کا تعین اور جانچ افراد کے مخصوص اعمال کے متحمل ہونے کے ساتھ ہے۔ اور یہی سے حقوق کی بحث شروع ہوتی ہے۔ کہ ایک فرد کو اپنا عقیدہ رکھنے کی آزادی ہے تو افراد ہر وقت اسی جانچ میں لگا رہتا ہے کہ کیا وہ کوئی بھی عقیدہ رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ ایک فرد کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے تو کیا وہ اپنی رائے دینے پر کسی ملامت کا شکار تو نہیں۔یا ایک فرد کو اپنے مال کو جیسے وہ چاہتا ہے استعمال کرنے کی آزادی حاصل ہے یا نہیں ؟ اور یہ کہ انسان کو اپنی ذات کے مفاد اور بہتری میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہے ۔یہی سے عقیدہ کا حق ،رائے کا حق ،مال میں اختیار کا حق، اپنی ذات میں اختیار کا حق جس میں ‘میرا جسم میری مرضی’ شامل ہے وجود میں آتے ہیں۔ انہیں بنیادی حقوق کی مزید تاویل کے ذریعے تعلیم، صحت اور روز گار کو بھی شامل کیا گیا۔
اسلام کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ اللہ سبحانہ وقدوس نے انسان حیات اور کائنات کو پیدا کیا اور انسان کے لیے اومر و نواہی وحی کے ذریعے نازل کیے اور ان کا پابند بنایا۔ اور مغربی فکری بنیاد سے برعکس شریعت میں زور ذمہ داریوں پر ہے۔ چنانچہ شریعت اسلامی میں ہر فریق کی ذمہ داری کی سیر حاصل تفصیل موجود ہے ۔ جیسے کہ رسول اقدس ﷺ نے فرمایا کہ امام ذمہ دار ہے رعیت کا اور اس بابت جواب دہ ہے۔ اسی طرح خاوند کی ذمہ داری بیوی اور گھرانے کی طرف ،بیوی کی ذمہ داری گھرانے اور شوہر کی طرف، فروخت کنندہ کی خریدار کی جانب، سرمایہ دار کی مال کی جانب، زمین دار کی زمین کی جانب ، آجر کی اجیر کی جانب ہے ۔ اس ضمن میں پھر سوال یوں ہوگا کہ کسی ایک فرد یا کل عوام سے متعلق اجتماعاً اور فرداً فرداًحاکم پر، معاشرے پر اور خاندان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔
چنانچہ اسلام میں ریاست کی ذمہ داری ہے تمام شہریوں کے لیے صحت اور تعلیم کے مواقع فراہم کرے ۔اس میں امیر اور غریب دونوں یکساں حقدار ہیں۔ اس سہولت پر کسی قسم کی شرط کا نفاذخواہ یہ شرط غربت کی ہویا بر سرِ روز گار ہو نے کی ہویا کسی علاقہ سے ہونے کی ہو وغیرہ ،محروم کیے جانے والے کے ساتھ ظلم ہو گا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بات اجاگر کی جائے کہ معاشرے میں سرمایہ دارا نہ نظام کی وجہ سے بگاڑ کو صرف سرمایہ داریت کو جڑسے اکھیڑ کر پھینکنے اور اسلام کے نظام خلافت کے قیام سے ممکن ہے۔ فلاحی ریاست، عدل اجتماعی اور سوشل سیکورٹی والے وقتی مرہم کے نتائج ، ہر جگہ ہر دور میں انسان کی صرف مزید تکلیف، اذیت اور تذلیل کی صورت میں ہی نکلیں گے۔ ایسی ہر ایک اصطلاح کا استعمال اور اس کے تحت عوامل لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔
ختم شد