شام سے افغانستان تک امریکی جارحیت بڑھتی جارہی ہے اور پاکستان کے حکمران "تحمل” کی پالیسی پر چل رہے ہیں
بسم الله الرحمن الرحيم
پریس ریلیز
نئی امریکی انتظامیہ کے پالیسی واضح طور پر مسلمانوں کو قتل اور ان کے اسلام کو قوت سے کچلنے پر مبنی ہے۔ لہٰذا اسلام اور مسلمانوں کےخاتمے کے لیے شام میں امریکی ایجنٹ حکمران بشار نے مسلمانوں کو کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے دم گھونٹ کر مارا اور پھر 13 اپریل 2017 کو امریکہ نے سب سے بڑے غیر ایٹمی بم افغانستان میں استعمال کیا جو کہ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت، پاکستان کے دروازے پر واقع ہے۔
امریکہ کی پالیسی دنیا بھر میں اور خصوصاً مسلم دنیا میں افراتفری اور عدم استحکام کو پھیلانے پر مبنی ہے۔ یہ حقیقت صلیبی قیادت میں کام کرنے والی "بین الاقوامی برادری” پر واضح ہے اور مسلم دنیا کے حکمران بھی آگاہ ہیں۔ لیکن اس بات کے باوجود کہ "بدمعاش ریاست” امریکہ نے موجودہ اور پچھلی دہائی میں کئی بار اپنے ڈرونز، انٹیلی جنس، فوج اور غیر سرکاری فوج کے ذریعے پاکستان کے خطے میں مسلمانوں کی سیکیورٹی، استحکام اور خون کی بے حرمتی کی ہے، پاکستان کے حکمرانوں نے ایک جارح بدمعاش قوت کے خلاف اپنی روایتی "تحمل” کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ایسا کب ہوا ہے کہ "تحمل” کی پالیسی نے جارح قوت کے بڑھتے قدموں کو روک دیا ہو؟ بلکہ ایسا کرنے سے اسے مزید جارحیت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ کیا مسلمانوں کی عظیم تاریخ میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ جہاں "تحمل” کی پالیسی کے ذریعے جارح کو، چاہے وہ صلیبی ہوں یا تاتاری، پلٹنے پر مجبور کر دیا گیا ہو؟ مسلم دنیا بلکہ پوری دنیا ایک ایسی بہادر ریاست کے انتظار میں ہے جو بلا آخر امریکہ کی بدمعاشی اور دھمکیوں کے سلسلے کو روک دے گی۔ اگر امریکہ کو یقین ہوتا کہ اس کے "تمام بمبوں کی ماں” کے استعمال کے نتیجے میں آنے والا ردعمل بھی "تمام رد عمل کی ماں” ہو گا، جو امریکہ کو "ماوں کی ماں” یعنی نانی یاد کرا دے گا، تو امریکہ اپنے بڑھتے قدم روک لیتا۔ ایک مخلص قیادت کم از کم افغان ہوئی اڈے پر موجود اُن امریکی تنصیبات کو تباہ کر دیتی جو اس بم کو طیارے کے ذریعے گرانے کے لیے استعمال ہوئیں تھیں۔ کیا مسلمانوں کی افواج، جو مجموعی طور پر تیس لاکھ ہیں، صرف اس مقصد کے لیے ہیں کہ وہ حکمرانوں کے اقتدار کا تحفظ کریں، یا مسلمانوں کے خلاف امریکی صلیبی جنگ میں امریکہ کے کہنے پر حرکت میں آئیں جیسا کہ "دہشت گردی” کے خلاف سعودی قیادت میں بنایا جانے والا فوجی اتحاد ہے؟
افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! مشرف سے باجوہ تک، "تحمل” کی پالیسی نے کب ہماری سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنایا ہے؟ امریکہ کے سامنے مشرف کی "تحمل” کی پالیسی کے نتیجے میں امریکہ نے ہماری انٹیلی جنس، ہوائی اور زمینی راستوں کو ہمارے خطے پر قبضہ کرنےکے لیے بھر پور طریقے سے استعمال کیا۔ ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے خلاف کیانی کی "تحمل” کی پالیسی نے امریکہ اور اس کے اتحادی بھارت کو ہمارے خلاف جارحیت کرنے کے لیےمزید حوصلہ فراہم کیا۔ ہماری افواج سے مزید کارروائیوں کے امریکی مطالبے کے سامنے راحیل کی "تحمل” کی پالیسی نے افغانستان میں امریکہ اور بھارت کی موجودگی کو مزید مستحکم کیا۔ اور اب ہمیں جارحیت کے اس کھلے اور تباہ کُن مظاہرے کے سامنے "تحمل” کا مظاہرہ کرنا ہے جس کے نتیجے میں ہماری عسکری صلاحیت ایک مذاق بن جائے گی۔
ٹیپو سلطان نے جب بہت بڑی برطانوی استعماری افواج کا سامنا کیا تو اس نے پوری استقامت کے ساتھ اعلان کیا کہ، "شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے”۔ لہٰذا ہم آپ سےپوچھتے ہیں کہ آج اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے آپ میں سے کون صلیبیوں کے خلاف بہادرانہ عمل کا مظاہرہ کرے گا؟ آپ میں سے کون ہمیں دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست، امریکہ کے ساتھ اتحاد کی بیڑیوں سے نجات دلائے گا؟
آپ میں سے کون آگے آ کر نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرے گا؟ پھر ہم اکٹھے خلیفہ کی بیعت کا منظر دیکھیں گے جو امریکہ، اس کی اتحادی صلیبی ریاستوں کے ساتھ ساتھ ہندو ریاست اور یہودی وجود کو اپنے شیاطین تک بھول جانے پر مجبور کر دے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
"ان سے تم جنگ کرو، اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل و رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا” (التوبۃ:14)
پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
جمعہ، 17 رجب 1438 ہجری
بمطابق 15 اپریل 2017