تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کسی کی تعریف نہیں کرتے کہ صرف وہی ذات باری تعالیٰ ہمارےدلوں کے حال اور ہمارے جذبات و احساسات سے واقف ہے۔ میں نے نوید بٹ میں جو خیرو بھلائی دیکھی، میں اسے بیا ن کرتے ہوئے اللہ کو گواہ بناتا ہوں تا کہ لوگ ان کے حق میں دعا کریں اور ان کی رہائی کے لیے کوشش کریں۔ میری نوید بٹ سے پہلی ملاقات 1999ء کی سردیوں میں ہوئی اور میری ان سے آخری گفتگو 9 مئی 2012 ء کو ہوئی جس کے ٹھیک دو دن بعد 11 مئی 2012 ء کو انہیں پاکستان کی ایجنسیوں نے اغوا کرلیا ۔ عزیز اور محترم نوید بٹ کے حوالےسے میرے پاس بہت سی یادیں ہیں اور میں جب ان کے لیے دعا کرتا ہوں تو وہ یادیں میری آنکھوں کو نم کردیتی ہیں۔ میں ان میں سے کچھ یادیں گوش گزار کرتا ہوں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان یادوں کا ذکرفائدہ منداور نتیجہ خیز ہو۔
نوید کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زبردست حاضر دماغی اور شاندار شخصیت سے نوازا ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات 1999 کی سردیوں میں اسلام آباد میں ان کے گھر پر ہوئی تھی۔ لمبا قد، خوش شکل ، کھِلاہوا چہرہ اور ذہانت کی غمازی کرتی چمکدارآنکھیں۔ ان کا گھر دعوتی سرگرمیوں کے مرکز کا ایسامنظر پیش کررہا تھا جس سے یہ واضح تھا کہ وہ اللہ کی نازل کردہ وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی بحالی کے لیے کس قدر سرگرم ہیں۔ ان کی صحبت میں بیٹھنا روح کو توانا کردیتا اور تھکن کو اتار دیتا ۔ سمارٹ فون کے دور سے قبل ان کے پاس ایک فائل ہوتی تھی جو کہ متوقع ملاقاتوں کی فہرست اور منصوبہ بندی سے بھری ہوتی تھی، وہ دن رات اسلام کی سر بلندی کی کوشش میں جتے رہتے تھے۔
میں نوید بٹ کے غربت کے دورکا بھی گواہ ہوں ، جس کا سامنا انہوں نے کچھ عرصے تک کیااور اس دوران انہوں نے صبر وشکرکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ نوید دوسروں کی مالی مدد کیاکرتے تھے حالانکہ خودانہیں بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی ۔ ان کا نرم دل کسی مسلمان کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ کاروبار میں فراخ دل تھےاور دوسروں کے لیے اپنا حق چھوڑ دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اسلام کا علم حاصل کرنے کے لیے کس قدر پرجوش تھے اورعبادت میں نافلہ عبادتوں کا کس قدر اہتمام کیا کرتے تھے۔ اور مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ انہوں نے مال و متاع اور دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے کتنے سنہری مواقع اللہ کے دین کی خدمت کیلئےقربان کر دیے، جب وہ امریکا سے واپس پاکستان آئے۔ انہیں دیکھ کر مجھے حضرت مصعب بن عمیرؓ یاد آجاتے ہیں، جو اسلام قبول کرنے سے قبل ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزارتے تھے مگرقبولِ اسلام کے بعد انہوں نے اپنی نگاہیں صرف اور صرف آخرت پر جما لی تھیں ، اگرچہ دنیا کا مال و متاع چاروں طرف ان کی دسترس میں تھا۔
اپنے اغوا سے کئی سال پہلے سے ہی ، جب سے وہ ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان بنے تھے، نوید بٹ کو مسلسل اغوا اور حراست کا خطرہ لاحق رہتا تھا اور کئی بار یہ خطرہ بہت شدید ہوجاتا ۔ لیکن انہیں دیکھنے سے اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا تھا کہ یہ شخص مسلسل خطرے کی زد میں ہے کیونکہ ان کے چہرے پر کبھی بھی خوف کا تأثر نظر نہ آتا اور نہ ہی ان کے کام میں کوئی کمی آتی ۔ یقیناً اس دعوت کے کام میں کچھ لوگ پچھلی صفوں میں ہیں اور کچھ لوگ اگلی صفوں میں ہیں اور پھر نوید بٹ جیسے بھی ہیں جو دعوت کی اُفق پرستاروں کی مانند چمکتے ہیں اور دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے لیے رستہ واضح کرتے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ جب نوید نے 2001ء کی سردیوں میں بش کی صلیبی جنگ میں مشرف کی حمایت کے خلاف ایک مظاہرے کی قیادت کرنی تھی۔ پولیس کا ایک بڑا دستہ انہیں گرفتار کرنے کے لیے جمع ہوگیا اور ان کے میڈیا آفس کو گھیر لیا گیا ، نوید بٹ بلاخوف و خطر آگے بڑھے اورحکومتی سختی کا سامنا کیا، یہ ان کی گرفتاری کی کوششوں کے سلسلے کی پہلی گرفتاری تھی۔
گرفتاری کے دوران نوید بٹ خلافت کے قیام کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے پر حکام کا خوب محاسبہ کرتے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال رکھتے کہ ان کے باقی ساتھی ظالموں سے محفوظ رہیں پس وہ حکام کو اپنی ساتھیوں کے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے صاف انکار کردیتے ۔ ان کی کوشش ہوتی کہ حکام کی توجہ انہی پر مرکوز رہے تا کہ حکام دوسرے شباب کو غیر اہم سمجھیں اورآج جو بہت سے شباب آزادفضاء میں سانس لے رہے ہیں ، ان کی گردن پر نوید کا احسان موجودہے ۔ ایک بار حزب کے ایک اوربہادر شاب اُس تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئے کہ جو اس سے قبل نوید سے تفتیش کر رہا تھا۔ وہ جب داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ تفتیشی آفیسرنے فرسٹریٹشن اور پریشان حالی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام رکھا ہے۔ اس آفیسر نے اس شاب کی جانب دیکھا اور پوچھا کہ وہ کون ہے۔ اس شب نے مضبوط لہجے کے ساتھ اپنا نام بتایا اور کہا "میں حزب التحریر سے ہوں”، یہ سنتے ہی اس تفتیشی آفیسر نے ایک بار پھراپنے سر کو اپنے ہاتھوں میں دے دیا!
خطرے کی صورت میں نوید بٹ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حفاظت حاصل کرنے کے لیے یہ آیت تلاوت کیا کرتے تھے، وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ” اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی۔ پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے”(سورۃیٰس:9)۔ ایک بار انہوں نے 29 اکتوبر 2004 ءکے مظاہروں میں گرفتار ہونے والے شباب کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کا اہتما م کیا ۔ یہ مظاہرے مشرف کے اس منصوبے کے خلاف کیے گئےتھے جس کے تحت وہ ہماری افواج کو عراق بھیجنا چاہتا تھا تا کہ عراق پر امریکہ کے قبضے کو مستحکم کیا جاسکے۔ نوید کوگرفتار کرنے کےلیے تین مختلف پولیس سٹیشنوں سے پولیس کو بھیجا گیا۔ ایک جرأت مند اور بہادر شاب نے نوید کو بچانے کی کوشش کی اور انہیں عمارت سے نکالنے کے لیے اپنی گاڑی عمارت کی بیسمنٹ میں لے گیا ۔ نوید عمارت کی بیسمنٹ میں جانے کیلئے لِفٹ میں داخل ہوئے تواس میں پولیس موجود تھی جو انہیں تلاش کرتی ہوئی لفٹ کے ذریعے اوپر آ رہی تھی۔ نوید نے سورۃ یٰس کی اسی آیت9 نمبر کی تلاوت شروع کردی اور پولیس نے اس پر غور ہی نہیں کیا کہ لفٹ میں ان کے ساتھ موجود شخص کون ہے ۔ یوں وہ گاڑی میں داخل ہوئے اور وہ شاب انہیں گا ڑی میں لے کر عمارت سے نکل گیا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر پولیس نے انہیں پکڑ لیا اور ان سے ان کے گھر کا پتہ جاننے کی کوشش کرنے لگے جو نوید انہیں بتانے پر تیار نہیں تھے۔ آخر کار پولیس نے انہیں گاڑی میں بٹھایا اور شہر میں گھمانے پھرانے کے بعد چھوڑ دیا لیکن ان کے پیچھے تعاقب کے لیے ایک اہلکارکو لگا دیا تا کہ وہ ان کا پیچھا کرتے ہوئےان کے گھر تک پہنچ جائے۔ نوید موقع ملتے ہی پیچھا کرنے والے کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ انہوں نے نہر میں چھلانگ لگادی جو اس وقت خشک تھی۔ پولیس اہلکار نے ان کا پیچھا کیا۔ نوید بھاگتے ہوئے گر گئے اور ایک جھاڑی کے نیچے دبک گئے۔ اس جھاڑی کے پتے تک جھڑ چکے تھےاور صرف خشک ٹہنیاں ہی تھیں جو دن کی روشنی میں انہیں کچھ آڑ فراہم کررہی تھیں۔ ایک بار پھر نوید نے سورۃ یٰس کی آیت نمبر 9 کی تلاوت کرنا شروع کردی۔ جو اہلکار ان کا پیچھا کررہا تھا وہ وہاں تک پہنچ گیا اور اس نے جھاڑی کی طرف جھانک کر بھی دیکھا لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے وہ نوید کو دیکھ نہیں سکا اور بالآخر مایوس ہو کر اس نے نوید کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا۔
پھر 9 مئی 2012 کو میری ان سے آخری بات چیت ہوئی۔ یہ بات واضح تھی کہ جابروں نے ان پر توجہ مرکوز کردی ہے اور انہیں پکڑنے کے لیے وہ ہر جگہ انہیں تلاش کررہے ہیں۔ میں ان کے حوالے سے پریشان تھا کیونکہ کچھ ہی عرصہ قبل وہ ٹائیفائیڈ کے بخار سے صحت یاب ہوئے تھےاور ان میں کمزوری کےآثار اب بھی موجود تھے۔ لہٰذا میں نے انہیں کچھ دنوں کے لیےان جگہوں پر جانے سے منع کیا جہاں وہ عموماً جاتے رہتے تھے۔ مجھے آج بھی ان کا وہ پرسکون ردِعمل یاد ہے،انہوں نے پوری استقامت سے مجھے اطمینان دِلاتے ہوئے کہا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہے۔ یقیناً آج بھی اُن کے اِن الفاظ سے مجھے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث یاد آتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے تقویٰ کے مطابق ہم پر آزمائشیں ڈالتا ہے۔ جو جتنا متقی ہوتا ہے وہ اتنی ہی بڑی آزمائش اور امتحان سے گزرتا ہے کیونکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت گزاری کی راہ میں آنے والی ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
نوید بٹ کے اغوا کے بعد جب متعدد ذرائع سے ان کی رہائی کی کوشش کی گئی تو یہ بات بار بار سامنے آئی کہ نوید بٹ نے کمزوری نہیں دکھائی بلکہ مضبوطی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ ایک سرکاری اہلکار نے شکایت کی کہ انہوں نے ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی معلومات نہیں دیں۔ ان کے اغوا کے کچھ سال بعد ایک اور سرکاری اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایجنسیاں انہیں چھوڑنے کے لیے کوئی بہانہ تلاش کرتی رہی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نوید اپنے اُس موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو انہوں نے پہلے دن اختیار کیا تھا۔ نوید نے یہ مضبوط موقف اپنایا اگرچہ ایک سرکاری اہلکار نے یہ تصدیق کی کہ انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور تکبر سے انہیں یہ کہا گیا کہ وہ یہاں "مہمان” بن کر نہیں آئے ہوئے ۔ اور یہ خبر بھی ملی کہ انہیں ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جہاں انہیں ذہنی تشدد سے دوچار کرنے والی متحرک اشکال دکھائی گئیں ،جن کی وجہ سے وہ چکرا کر زمین پر گرگئے اور ان کا سر زخمی ہو گیا۔ یہاں پر میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! نوید پر ظلم کرنے والوں سے اپنا انتقام لےکیونکہ تو نے ارشاد فرمایا ہے: ،
إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ
” جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دین کی وجہ سے تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کیلئے دوزخ کا عذاب ہے اور ان کیلئے جلائے جانے کا عذاب ہے”(البروج : 10)۔
دوسروں کی طرح ، آٹھ سال گزر جانے کے بعدمجھے بھی کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ شاید جابروں نے نوید کو کسی موقع پر شہید ہی نہ کردیا ہو۔ لیکن پھر میں خود کو یہ یاد دہانی کراتا ہوں کہ اگر ایسا ہوا بھی ہو تو یہ نوید اور اس کے خاندان کے لیے کسی نقصان کا باعث نہیں۔ کیونکہ یقیناً یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو اس کے گھر والوں کے ساتھ ملائے گا ، صرف اس دنیا کی مختصر سی زندگی کے لیے نہیں بلکہ آخرت کی اُس ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے لیے کہ جس کے بعد کوئی جدائی نہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ءَابَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ
” (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغات جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو نیکوکار ہوں گے وہ بھی (بہشت میں جائیں گے) اور فرشتے (جنت کے) ہر ایک دروازے سے ان کے پاس آئیں گے”(الرعد:23 )۔
اگر یہی معاملہ ہے تو میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ نوید بٹ کو شہداء کے ساتھ اٹھائے کہ انہوں نے ہمیشہ کلمۂ حق بولا ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَرَجُلٌ قَامَ إِلَى إِمَامٍ جَائِرٍ فَأَمَرَهُ وَنَهَاهُ، فَقَتَلَهُ
” شہداء کے سردار حمزہؓ بن عبد المطلب ہیں اور وہ شخص جو جابر حکمران کے سامنے کھڑا ہوا، اسے اچھا عمل کرنے اور برے عمل سے باز رہنے کو کہا، اور حکمران نے اسے قتل کردیا”(الحاکم)۔
اور اگر یہی معاملہ ہے ، تو جو محبت ہم نوید بٹ کے ساتھ کرتے ہیں اس کے عوض اللہ جنت کے اعلیٰ درجوں میں ہمیں ان کے ساتھ اکٹھا کردے ، بزار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَنْ أَحَبَّ رَجُلا لِلَّهِ ، فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّكَ لِلَّهِ ، فَدَخَلا الْجَنَّةَ ، فَكَانَ الَّذِي أَحَبَّ أَرْفَعُ مَنْزِلَةً مِنَ الآخَرِ ، الْحَقُّ بِالَّذِي أَحَبَّ لِلَّهِ
" جس نے اپنے کسی دینی بھائی سے اللہ کی رضا کے لیے محبت کی اور کہا کہ میں تم سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرتا ہوں اور ان دونوں کا ٹھکانہ جنت ہوا، تو اگر وہ شخص جس سے محبت کی گئی دوسرے کے مقابلے میں جنت میں اونچے درجے پر ہوگا، تو محبت کرنے والے کو بھی اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا "۔
تاہم میرا دل یہ کہتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مقررہ وقت تک کے لیے نوید کو الگ کر رکھاہے کیونکہ جابراپنا کوئی بھی عمل کرتے ہیں تو ان کا عمل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے منصوبے کو ہی پورا کرتا ہے۔ جابر سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں لیکن ان کا غرور انہیں اندھا کر دیتا ہے اور وہ بھول جاتے ہیں کہ القاہر، الجابر اور القوی (سبحانہ و تعالیٰ) ہی تمام طاقت اور قدرت کا مالک ہے ۔ میں انتظار میں ہوں کہ نوید رہا ہوں اور میں انہیں اپنے سینے سےلگاؤں ۔ میں اس دن کے لیے دعا گو ہوں کہ میں اور نوید ایک ساتھ کھڑے ہوں اور ایک خلیفۂ راشد کو اسلام کی حکمرانی پر بیعت دینے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائیں ۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں۔
یقیناً پاکستان کے مسلمانوں میں خیر ہے اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان میں نوید بٹ جیسے بہادر بیٹے پیدا ہو رہے ہیں۔ ان میں موجود خیر کی ایک اور نشانی یہ بھی ہے کہ سال ہا سال گزر جانےکے باوجود وہ مسلسل نوید بٹ کی خیریت کے متعلق پوچھتے رہتے ہیں ۔ ہاں حکمرانوں کے پٹھو اور پیروکارخلافت کی دعوت کے علمبرداروں پر جملے کستے ہیں ا ور انہیں ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد خیر کے سمندر کے مقابلے میں چند قطروں کی مانند ہے۔ اکثر مسلمان نوید بٹ کے لیے اخلاص سے دعا کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی استعداد کے مطابق ان کی رہائی کی کوشش بھی کرتے رہےہیں۔ یقیناً لوگوں کا یہ حق ہے کہ ان پر مخلص مسلمان حکمرانی کریں اور پاکستان کے مسلمانوں کے لیےوہ وقت قریب آرہا ہےکہ اللہ کے اذن سے نوید جیسے لوگ ان کے حکمران ہوں۔
وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
” اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے ، اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے "(الروم، 5-4)
مصعب عمیر نے حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کے لیے یہ مضمون تحریر کیا۔