بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت میں پل بڑھ کر جوان ہونے والا ان سات طرح کے مبارک لوگوں میں سے ایک ہو گا جنہیں روزِ قیامت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا جب اس سائے کے سواکوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا،
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ فِي خَلاَءٍ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ إِلَى نَفْسِهَا قَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ. وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا، حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ يَمِينُهُ
"سات (طرح کے)آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا جبکہ عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ عادل حاکم،ایسا نوجوان جس کی پرورش اللہ کی بندگی میں ہوئی ، ایسا شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد کی طرف لگا رہتا ہے، وہ دوآدمی جوآپس میں اللہ کی خاطر محبت کرتے ہیں، وہ شخص جسے کسی بلند مرتبہ اور خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا اور اس نے جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے اتنا پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔”(بخاری)۔
اللہ نے ایسے نوجوان کو کتنا بلند مرتبہ عطا کیا ہے کہ جس نے اپنی جوانی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے گزاری !! عربی زبان میں ‘شاب’ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کی عمر بالغ ہونے سے لے کر 40 ہجری سال تک ہو۔
تواس نوجوان مسلمان کی کیا ہی بات ہے کہ جس میں اس خاصیت کے ساتھ وہ دیگر خصوصیات بھی موجود ہوں جن کا اوپر حدیث میں ذکر کیا گیا کہ جنہیں قیامت کے دن اللہ کے عرش کا سایہ نصیب ہوگا؟ ایسا نوجوان جو رات کو تنہائی میں اس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے کہ اس کے گھر والے بھی اس سے بے خبر رہتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خوف سےرات کو اورصبح کے قریب آنسو بہاتا ہے جبکہ اس جوانی کے عالم میں وہ اس قابل تھا کہ اپنی راتوں کا وقت دنیاکی دولت اور آسائشیں جمع کرنے کے لیے خرچ کرے ؟ اور ایسا نوجوان جو تسلسل سے مسجد جاتا ہے جو اللہ رب العزت کا گھر ہیں جبکہ یہ وہ عمر ہے کہ دنیا کی رنگینیاں اسےراغب کرتی ہیں کہ وہ کھیل تماشے اور بے کار گپوں اور چیٹ میں اپنا وقت ضائع کرے ؟ اُس نوجوان مسلمان کے کیا کہنے کہ جودین کو مضبوط بنانے کی سرگرمی میں لوگوں سے دوستی کرتا ہے اور اللہ کی خاطر دین پر چلنے والوں سے محبت کرتا ہے جبکہ نوجوانی کے دور میں اس کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دوستیاں اور وسیع تعلق بنا سکتا ہے ؟ اس نوجوان کی کیا ہی بات ہے جو شباب کے عروج پر ہے کہ جب حرام تعلق کی کشش بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایسی عورت کی گناہ کی دعوت کو رَد کر دیتا ہے جو خوبصورت بھی ہے اور اس کا گھرانہ بھی نامور ہے؟ اس نوجوان مسلمان کے متعلق کیا کہا جائے جو جس قدر ممکن ہو خفیہ طریقے سے صدقہ وخیرات دیتا ہے جبکہ اس کے رزق کے ذرائع محدود ہیں ، اس نے ابھی اپنے کاروبار کو مضبوط بنیاد فراہم کرنی ہے، اپنا کیرئیربنانا ہے،اور جبکہ یہ وہ عمر ہے کہ جس میں انسان میں خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ہمسر و ہم عصراس کی صلاحیتوں کا لوہا مانیں ؟ اس نوجوان مسلمان کے متعلق کیا کہا جائے جو عادل حکمران بھی ہو، جیسا کہ ہم اسلامی ادوار میں دیکھ چکے ہیں اور ان شاء اللہ ایک بار پھر جلد دیکھیں گے، جب نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا سلسلہ دوبارا قائم ہو گا۔ تو اے نوجوانو! کیا اللہ ربُ العزت کے عرشِ عظیم کے سائے کو حاصل کرنا ایسی سعادت نہیں کہ جس پر جوانی کے جوش و جذبے کو خرچ کیا جائے ؟!
یقیناً ایک نوجوان ، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خوف رکھتا ہے اور اللہ سے رحم اور معافی کی امید رکھتا ہے، وہی اپنی نوجوانی کا بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے۔ رسول اللہﷺ ایک نوجوان کے پاس گئے جب وہ بستر مرگ پر تھا۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا، كَيْفَ تَجِدُكَ "تم کیسا محسوس کررہے ہو؟”۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول!یقیناً مجھے اللہ سے اچھی امید ہے اور میں اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں ۔” رسول اللہﷺ نے فرمایا،
لاَ يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ
” یہ دونوں چیزیں ایسے وقت میں(وقتِ نزع میں )جس بندے کے دل میں جمع ہو جاتی ہیں تو اللہ اسے وہ چیز عطا کر دیتا ہے جس کی وہ اس سے امید رکھتا ہے اور اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے”(ترمذی)۔
ایسا ہوتا ہے وہ نوجوان جو دین کے رنگ میں رنگ جاتا ہے، دین کے ذریعے اپنی فکر اور سوچ کی آبیاری کرتاہے اور اپنے دل کو دین کے مطابق بدلتا ہے۔اچھا نوجوان نیک خاندان کا ثمر ہے اور پھر وہ خود بھی ایک نیک خاندان کی تعمیر کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
” مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں "(التحریم 66:6)۔
قتادہ نے اس کی تفسیر میں بیان کیا ہے:”وہ شخص اللہ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے تا کہ اللہ کی نافرمانی نہ ہو، وہ گھر والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کو تسلیم کریں اور اللہ کے احکامات پر چلنے میں اپنے گھر والوں کی مدد کرتا ہے۔ جب وہ اپنے گھر والوں میں سےکسی کو نافرمانی کرتے دیکھتا ہے تو وہ اسے ٹوکتا ہے اور اس پرعمل سے روکتا ہے”۔ ضحاک اور مقاتل نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے، بیان کیا :” مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے گھر والوں اور اپنے مرد و عورت غلاموں کی تربیت کرے، انہیں بتائے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے لیے کیا حلال کیا اور کیا حرام کیا ہے "۔ احمد ، ابو داؤد اور ترمذی نے یہ حدیث روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«مُرُوا الصَّبِيَّ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ، فَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِينَ فَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا»
” بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب دس سال کا ہو جائے تونماز (کے ترک کرنے)پر اسے مارو "(ابوداؤد)۔
ایسے گھرانے حقیقت میں دولت مند ہیں کیونکہ آخرت میں ان کا رتبہ و مقام بلند ہو گا۔ یہ وہ ہیں جو دین کو ہر معاملے میں سب سے آگے رکھتے ہیں اور دنیا کی تمام دوڑ دھوپ پر فوقیت دیتے ہیں۔ ایسے گھرانوں میں دین کی دعوت لوگوں تک پہنچانا زندگی کا مرکز و مقصد ہوتا ہے، پس وہ ڈگریوں اور عہدوں کے ذریعے دنیا کے رتبے اور سٹیٹس حاصل کرنے کی اندھا دھند دوڑ میں شریک نہیں ہوتے کہ جس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی پرسمجھوتہ کرنا پڑے۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی جو خود کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچانے سے متعلق ہے، ایک نوجوان یہ آیت سن کرخوف سے بے ہوش گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ اس کے دل پر رکھا اور دیکھاکہ اس کا دل دھڑک رہا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا، يا فتى قل لا إله إلا الله "اےنوجوان کہو: لا اله الا الله"۔ لڑکے نے دُہرایا: لا اله الا الله، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے جنت کی بشارت دی۔ صحابہؓ نے پوچھا: کیا یہ ہم میں سے صرف اسی کے لیے ہے اے اللہ کے رسول؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
أوَما سمعتم قوله تعالى ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ
"کیا تم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا: یہ اس شخص کے لیے ہے جو (قیامت کے روز) میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے (ابراہیم 14:14)”(حاکم وذھبی)۔
ایسا ہوتا ہے وہ نوجوان کہ جو رہتا تو اس دنیا میں ہے مگر اس کی آنکھیں مضبوطی سے آخرت پر جمی ہوتی ہیں۔
یقینا ً یہ نیک نوجوان ہی تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کی قیادت میں دنیا کو پہلی بار اسلام کی ہدایت سے روشناس کرایا تھا۔ رسول اللہﷺ کے کئی اصحابؓ نے اسلام کی دعوت کو نوجوانی کے اوائل میں قبول کیا تھا۔ چوتھے خلیفۂ راشد ، علیؓ ابن ابی طالب، نے صرف آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ جس نوجوان نے رسول اللہﷺ کومحفوظ رکھنے کے لیے کفار کے تیروں کے سامنے اپنے جسم کو ڈھال بنادیا تھا اور اسی کوشش میں ان کی انگلیاں شل ہوگئی تھیں ،وہ طلحہ بن عبید اللہؓ صرف گیارہ سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ارقم ابن ابئ ارقم، جنہوں نے اپنے گھر کو اسلام کی تعلیمات سیکھنے سکھانے کے لیے وقف کردیا تھا اور ان کا گھر رسول اللہﷺ کا ہیڈکواٹر بن گیا تھا، نے چودہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ جس نوجوان نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت پہنچائی تھی، یعنی جعفر بن ابی طالبؓ، ان کی عمر قبولِ اسلام کے وقت اٹھارہ سال تھی۔ تیسرے خلیفۂ راشد، عثمان بن عفانؓ، نے تقریباً بیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا جس کے بعد انہوں نے اسلام کی زبردست خدمت کی اور اس کے لیے بیش بہا مالی قربانیاں بھی دیں۔ خباب بن الآرت ؓ نے بیس سال کی عمر میں قبولِ اسلام کا اعلان کیا تھا جس کے بعد انہوں نے شدیدترین تشدد کا سامنا کیاتھا۔ وہ نوجوان جس کے ہاتھوں یثرب مدینہ منورہ میں تبدیل ہوا اور پہلی اسلامی ریاست بنا، جس نے مدینہ میں اسلام کی دعوت کو عام کیا اور اس کے سرداروں کو اسلام پر قائل کیا ، وہ مصعب بن عمیرؓتھے جو چوبیس سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ دوسرے خلیفۂ راشد ، عمر بن خطابؓ ، چھبیس سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا جب رسول اللہ ﷺ کی دعا ان کے حق میں قبول ہو گئی۔اس بہترین پہلی اسلامی نسل کے بہت بعد بھی،بیشتراسلامی ادوار میں، یہ اسلام کی بنیاد پر پرورش پانے والے نوجوانوں ہی تھے ، جو سیاسی و فوجی قیادت کے طور پر نمایاں ہوئے۔ تو ہم ان میں سے صرف تین کا تذکرہ یہاں کرتے ہیں جنہوں نے دین کو عظمت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا اور اسی دین کے ذریعے خود انہوں نےبھی عظمت کی بلندیوں کو چُھولِیا۔ وہ تین نوجوان یہ تھے: محمد الفاتح، اورنگ زیب عالمگیر اور ٹیپو سلطان، اللہ ان سب سے راضی ہو اور ان سب پر رحم فرمائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،
« لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»
” تم ضرور بالضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے اور کیا ہی اعلیٰ اس کا امیر ہو گا اور کیا ہی اعلیٰ وہ لشکر ہو گا جو اسے فتح کرے گا "(احمد)۔
یہ بشارت ایک نوجوان کے ہاتھوں پوری ہوئی، جی ہاں! محمد الفاتح، جو قسطنطنیہ کی فتح کے وقت اکیس سال سے زیادہ عمر کے نہیں تھے اور جن کی پرورش اسلام کے اصولوں پر ہوئی تھی۔ ان کے والد ، سلطان مراد دوئم نے ان کی پرورش کی جبکہ محمد فاتح کے اساتذہ اپنے وقت کی بہترین استاد تھے، جن میں احمد بن اسماعیل الکورانی بھی شامل تھے جن کے متعلق سیوطی نے بیان کیا کہ وہ محمد الفاتح کے پہلے استاد تھے اور کہا”وہ ایک فقیہ عالم تھے، ان کے دور کے علماء نے ان کی قابلیت اور فوقیت کی گواہی دی ہےبلکہ وہ انہیں’اپنے زمانے کا ابو حنیفہ’ کہتے تھے”۔ اسی طرح سے شیخ شمس الدین سنقر وہ استاد تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کی قسطنطنیہ والی حدیث بچپن سے ہی محمد الفاتح کے ذہن میں بٹھانا شروع کی تھی۔ تویوں یہ بچہ اس طرح سے پَلا بڑھا کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنااس کا ہدف بن گیا۔ شیخ شمس الدین سنقر نے محمد الفاتح کو قرآن ، حدیث ، سنت، فقہ اور عربی،فارسی اور ترک زبانیں سکھائیں۔ محمد الفاتح نے شیخ شمس الدین سنقر سے ریاضی، فلکیات، تاریخ کے مضامین بھی پڑھے۔ اس کے علاوہ محمد الفاتح کو گھڑ سواری اور فنِ حرب سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ ان نوجوانوں میں مغل سلطان اورنگ زیب بھی شامل تھے جن کی نشو نما اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ یقیناً اس عظیم مسلم قائد کی نشونما اس طرح کی گئی کہ اوائل عمری میں ہی ان میں موجود خصوصی صلاحیتیں واضح ہو گئیں۔ چھوٹی عمر میں ہی دین سے محبت، فضول باتوں اور کاموں سے دوری اور ذہانت کے آثاراورنگ زیب میں نظر آنے لگے تھے۔ ان کی نشو نما ایک خالص اسلامی ماحول میں ہوئی تھی جو کفر و گناہ کی آلودگی سے پاک تھے۔ ان کی تربیت امام محمد معصوم سرہندی نے کی جو شیخ سرہندی کے بیٹے تھے۔ اورنگ زیب نے قرآن سیکھا اور اس میں موجود خیر کو سمجھا۔ انہوں نے حنفی فقہ سیکھی اور اس میں بہت ترقی کی۔ وہ ایک بہت اچھے مصنف و شاعر بھی تھے اور انہیں شاعری سے بہت لگاؤتھی۔ انہوں نے گھڑسواری اور فوجی فنون میں بھی مہارت حاصل کی۔ انہوں نے عربی، فارسی اور ترک زبانیں سیکھیں۔ چالیس سال کی عمر میں وہ حکمران بن گئے اور اس کے بعد وہ 52 سال تک جہاد میں مصروف رہے ، یہاں تک کہ پورے برصغیر ہند پر یعنی ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر بحر ہند تک، اور موجودہ بنگلا دیش سے لے کر موجودہ ایران کی سرحد تک اسلام کا غلبہ ہوگیا ۔ ان کی اسلامی حکومت میں مسلمانوں نے تیس سے زائد اہم جنگیں لڑیں جس میں سے گیارہ کی قیادت خود اورنگ زیب نے کی تھی۔
ٹیپو سلطان نومبر 1750 عیسوی میں پیدا ہوئے اور 4 مئی 1799 کو شہادت کا مقام حاصل کیا۔ ٹیپو میسور کے حکمران تھے اور وہ "شیر میسور” کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جنگوں میں راکٹ کے استعمال کو متعارف کرایا۔ 1766 عیسوی میں جب وہ پندرہ سال کے تھے تو انہوں نے اپنے والد کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ انہوں نے سولہ سال کی عمر میں پیدل فوج کی قیادت کی۔ سترہ سال کی عمر میں ٹیپو کو اہم سفارتی و فوجی معاملات کو آزادانہ دیکھنے کی اجازت دے دی گئی ۔ وہ میدان جنگ میں شہید ہوئے جب وہ انگریزوں کے خلاف مسلم سرزمین کی حفاظت کررہے تھے۔ انگریز ان کی بہادری ،جنگی فن و ہنر اور تخلیقی چالوں سے خوف کھاتے تھے، اور ان کا نام آج بھی ہمارے اس خطے میں بہادری کا استعارہ ہے۔
ایسے تھے اسلام کے سائے میں پل بڑھ کر جوان ہونے والے مسلمان! آج امتِ مسلمہ کوایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے، ایک ایسے وقت میں جب امت پر اسلام کے دشمن چاروں طرف سے حملہ آور ہیں اور اسے برباد کر رہے ہیں! ان شاء اللہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کی واپسی کی رسول اللہﷺ کی بشارت پوری ہو گی اور امید ہے کہ یہ خلافت موجودہ نسل میں موجود اچھے مسلمان نوجوانوں کے کندھوں پر کھڑی ہوگی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَوْ آخِرُهُ»
"میری امت بارش کی طرح ہے، یہ نہیں پتہ کہ اس کا پہلا حصہ اچھا ہے یا آخری حصہ اچھا ہے”(ترمذی)۔