تجارت کے توازن کا مسئلہ اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے ڈالر کی کمی ہمارے اوپر نافذ سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے۔
تحریر: خالد صلاح الدین ، پاکستان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تجارت کے توازن کا مسئلہ اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے ڈالر کی کمی ہمارے اوپر نافذ سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے۔ تجارتی توازن، یعنی برآمدات اور درآمدات کا توازن،دراصل پیسوں کے لحاظ سے وہ فرق ہے جو درآمدات و برآمدات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم امریکہ سے درآمد کرتے ہیں تو ڈالر ادا کرتے ہیں۔ وہ ڈالر ادا کرنے کے لیے ہمیں برآمد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ہمیں ڈالر ادا کریں جس سے ہم درآمدات کی ادائیگی کر سکیں۔ چونکہ دنیا کی کرنسی ڈالر ہے، یعنی وہ کرنسی جس میں دنیا تجارت کرتی ہے ، لہٰذا بیشتر ممالک ڈالر کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا تجارت کا توازن ڈالر وں میں کیا جاتا ہے۔
لہٰذا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات ناکافی اور درآمدات بہت زیادہ ہیں۔ 2018-2017 کے پہلے 11 مہینوں میں درآمدات 55.23 ارب ڈالر تھی جبکہ برآمدات صرف 21.35 ارب ڈالر تھی جو درآمدات کا محض 38.7 فیصدبنتا ہے۔
تجارتی توازن کی ادائیگی کے مسئلے سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ درآمدات نہ کی جائیں اور اگر کی جائیں تو اس ایسی درآمدات نہ کی جائیں جن کے پیسوںکی ادائیگی ناممکن ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی معاشی پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ اپنے وسائل سے پیداوار کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کی جائیں، خصوصاً بنیادی ضروریات۔ اور یہ ہے ترقی کا مطلب ۔ آئیں ہم اس کو عملی طور پر بیان کریں ۔ اسد عمر نے اپنے ایک ٹویٹ[1] میں کہا:”بیرونی سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہترین دن ہے۔ سوزوکی موٹرز کے عالمی چیئرمین آئے اور پاکستان میں گاڑیوں کی پیداوار کو بڑھانے میں 450 ملین ڈالر سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی۔ اور دنیا کی سب سے بڑی توانائی کی کمپنی ایگزون موبل نے پاکستان چھوڑنے کے 27 سال بعد اپنے دفاتر (پاکستان میں )دوبارہ کھول دیےہیں”۔
سوزوکی پاکستان میں 450 ملین ڈالر گاڑیوں کی پیداوار میں لگائے گا اور تمام منافع واپس اپنے ملک لے جائے گا۔ پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ 450 ملین ڈالر باہر سے لائیں گے یا مقامی بینکوں سے قرضہ لیں گے؟ پھر گاڑیوں کے تمام حصے پرزے درآمد ہوں گے تو درآمدات کا خرچہ بڑھے گا۔ پھر یہ بحث ہی نہیں کہ یہ برآمدات میں کتنے ڈالر لائے گا، جس کا مطلب ہے کہ برآمدات توجہ کامرکز ہی نہیں ہے۔ پھروہ ٹیکنالوجی، جس کی مدد سے پاکستان اپنے وسائل بروئےکار لا کر خود انجن بنا سکتا ہے اور پرزے بیچ سکتا ہے، اس کی ترسیل پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ تو پھر یہ بہترین دن کیسے ہے؟
جہاں تک ایگزون موبل کے دفاتردوبارہ کھولنے کی بات ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی مہارت استعمال کریں گے، مشینیں درآمد کریں گے اور تیل نکالیں گے جس کی قیمت کا ایک خطیر حصہ ہم ان کے حوالے کر دیں گے۔ کیا امریکہ، برطانیہ، جرمنی یا فرانس اپنی تیل، سٹیل یا زراعت کی صنعتوں کو چین کے ذریعے فروغ دیتے ہیں؟
ہماری درآمدات کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔ تیل سے متعلقہ درآمدات 12.93 ارب ڈالر -یہ کُل درآمدات کا 23 فیصدہیں۔
2۔ دوسرے نمبر پر مشینوں سے متعلقہ درآمدات ہیں جو کل درآمدات کا 19.3 فیصدہیں۔ بجلی پیدا کرنے والی مشینیں ، دیگر بجلی کے آلات اور مشینیں، مواصلات اورکپڑے کی صنعت کی مشینیں اس میں شامل ہیں۔
3۔ تیسرے نمبر پر زراعت اور دیگر کیمیکل کی درآمدات ہیں جو 14.7فیصد ہیں۔
4۔ چوتھے نمبر پرخوراک سے متعلق اشیاء جو 5.72 ارب ڈالر کی درآمدات ہیں اور 10.3فیصد ہیں۔
ا۔ اس میں سے آدھی مقدار کھانے کے تیل اور چائے کی ہے جس کی مقامی پیداوار کم ہے۔
ب۔ باقی آدھا حصہ دودھ اور اس سے متعلقہ اشیاء، خشک میوہ جات، مرچیں اور دالیں وغیرہ ہیں۔ دودھ کی پیداوار میں اولین ممالک میں ہونے کے باوجود ملک میں 18-2017 میں 252 ملین ڈالر کی
دودھ اور متعلقہ اشیاء کی درآمدات ہوئیں۔
_____________________
[1] https://twitter.com/Asad_Umar/status/1067443406333517824
ج۔ 483 ملین ڈالر دالوں کی درآمدات پر خرچ ہوتا ہے۔ مسور کی مقامی پیداوار بدستور ایک ہی سطح پر منجمد ہے اور مونگ کی پیداوار دراصل 8.7فیصد گر چکی ہے۔
5۔ دیگر اشیاء جیسے گاڑیاں اور موٹرسائیکل کی درآمدات پر 1.3 ارب ڈالر کا خرچ آتا ہے جبکہ بسوں اور ٹرکوں پر 581 ملین ڈالر کا خرچ آتا ہے۔
6۔ دیگر تمام اشیاء پر 4.6 ارب ڈالر کا خرچ آتا ہے۔
تیل اور متعلقہ اشیاء:
حکومت کا اخلاص صرف ان پالیسیوں سے ہی ظاہر نہیں ہوتا جو درآمدات کو کم کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے ہیں بلکہ وہ پالیسیاں بھی اس بات کی غمازی کرتی ہیں جو وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیےاختیار کرے۔ تو تیل کی درآمدات گھٹانے کے لیے ان پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ تیل اور گیس کے نئے کنوؤں کی کھدائی
ا۔ بلوچستان میں تیل اور گیس کے کنوئیں موجود ہیں۔ اس کا درست اندازہ لگانا مکمل اعدادوشمار نہ ہونے کی وجہ سے مشکل ہے۔
ب۔ سندھ میں دریائے سندھ کے پاس تیل کے ثابت شدہ ذخائر ہیں کیونکہ ایلجی (algae)اور جرثوموں کے فاسل اس علاقے میں دریافت ہوئے ہیں۔
لیکن نئے تیل کے ذخائر کو دریافت کرنے کی کوئی جلدی نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی نیا کنواں مل بھی گیا تو ہم نے تیل کو ڈھونڈنے، کنوئیں کھودنے اور تیل نکالنے کی ٹیکنالوجی نہیں بنائی۔ ہم اپنے وسائل کو استعمال کرنے کے لیے بیرونی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں۔
2۔ متبادل توانائی کے ذرائع
2003 میں حکومتِ پاکستان نے Alternate Energy Development Board (AEDB) بنایا تھا تاکہ متبادل توانائی کے ذرائع میں ترقی کی جا سکے۔ اس کے آج تک کے نتائج مندرجہ ذیل ہیں۔
ا۔ پاکستان میں 2.9 ملین میگاواٹ شمسی توانائی کی صلاحیت ہے۔ AEDB کے مطابق دو درجن سے زائد شمسی تونائی کے پراجیکٹ تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں۔ AEDB کے مطابق ملک کی کل شمسی توانائی کی صلاحیت 2016 میں 400 میگاواٹ سے بڑھ کر 2018 میں 1556 میگاواٹ ہو جائے گی جبکہ بجلی کا حالیہ استعمال 22000 میگاواٹ ہے۔ ان اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حوالے سے حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے ۔
ب۔ ضلع ٹھٹھہ میں موجود ہوادار علاقہ ہی فقط 50000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔2006 میں اس وقت کی حکومت نے ملک میں 2030 تک کل توانائی میں ہواسے پیدا ہونے والی بجلی کی شرح 5فیصد کرنے کا ہدف رکھا تھا۔ اوقات کے تعین سےاندازی لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے۔
ج۔ بائیوڈیزل خوردنی تیل سے تیار کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان اپنی تمام بنجر زمین کو بائیوڈیزل کی پیداوار کے لیے استعمال کرے تو سالانہ 56 ملین ٹن بائیوڈیزل پیدا کر سکتا ہے جبکہ حالیہ ضرورت 8.5 ملین ٹن کی ہے۔ بائیوڈیزل بنانے کا آغاذ 2008 میں ہوا جس کے لیے یہ مشورہ دیا گیا کہ 2025 تک معدنی تیل کے ساتھ 10فیصد بائیوڈیزل استعمال کرنا لازم کردیاجائے ۔ ایک بار پھر طویل اوقات کے تعین سے جلدی نہ ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چاہے یہ اہداف حاصل ہوئے ہوں یا نہ ہوں (اور زیادہ تر نہیں ہوئے)، یہ اہداف بذاتِ خودتیل پرانحصار کم کرنے میں جلدی نہ ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اگرسی پیک کے توانائی کے تعمیراتی منصوبے 5 سال کے عرصے میں مکمل کر لیے گئے تو پھر ان منصوبوں پر کیوں ایسی ہی توجہ نہیں دی گئی، جو کہیں زیادہ سستی بجلی مہیا کرتے؟ جرمنی میں متبادل توانائی کا استعمال 1990 میں 3.4فیصد سے بڑھ کر2017 میں 34فیصد ہو گیا ہے۔ لہٰذا یہ تبدیلی بالکل ممکن ہے۔
لہٰذا فاسل توانائی (تیل و گیس)سے مکمل چھٹکارا ممکن ہے مگر اس کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوئی خواہش نظر نہیں آتی۔
اسی طرح کا تجزیہ باقی درآمدات پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ یہ ممکن ہے یا نہیں، معاملہ اخلاص اور ارادے کا ہے۔ تعمیراتی پالیسیوں کی توجہ تواس پر ہوتی ہے کہ کیسے بیرونی انحصار ختم کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا جائے۔ مگر اسد عمر اور عمران خان کے حکومت کی پالیسیوں میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی پالیسیاں کہاں ہیں؟
ہمارے معیشت دانوں اور سیاست دانوں پر بیرونی سرمایہ کاری کا بھوت سوار ہے۔ سی پیک معاہدوں نے بیرونی سرمایہ کاری کی عملی شکل واضح کر دی ہے۔ چینی سرمایہ کاری بنیادی تعمیراتی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ ہو گی لیکن تفصیلات[2] کے مطابق سٹیل، سیمنٹ، ٹرک، حتیٰ کہ مزدور بھی چین سے درآمد کیے جائیں گے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق، مواصلاتی کمپنیوں(جو کہ غیر ملکی ہیں) نے اپنے نیٹ ورک کو وسیع بنانے کے لیے مارچ 2016 تک بینکوں سے 55 ارب روپے لیے۔ لہٰذا مواصلاتی صنعت اپنا ڈھانچہ وسیع کرنے کے لیے ہمارے بینکوں سے ہمارا پیسہ قرض لے کر ہم سے منافع کماتے ہیں جو بعد میں ان کے ملک چلا جاتا ہے]3[۔ لہٰذا بیرونی سرمایہ کاری کے اس جذبے کی آڑ میں منافع باہر بھیجا جاتا ہے جس میں حکومت کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔
پاکستان کی بڑی معاشی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ ہے کہ پاکستان زیادہ تر بنیادی ضرورت کی اشیاء برآمد کرتا ہے جیسے چاول یا کپڑا اور چمڑے کی اشیاء۔ 2017 میں ہماری بہترین برآمدات یہ تھیں:
1۔ متعدد کپڑے کی اشیاء، لباس وغیرہ: 4 ارب ڈالر (کل برآمدات کا 18.1فیصد)
2۔ کپاس: 3.5 ارب ڈالر (16فیصد)
3۔ کراوٹ یا سلے سلائے کپڑے، اشیاء: 2.5 ارب ڈالر (11.5فیصد)
4۔ بیشتر کپڑے کی اشیاء (کراوٹ یا سلے سلائے کے علاوہ): 2.5 ارب ڈالر(11.3فیصد)
5۔ دالیں اناج : 1.8 ارب ڈالر (8فیصد)
کئی سال سے کپڑے کی صنعت عالمی تجارت کا 5فیصد سے بھی کم ہے۔ عالمی کپڑے اور لباس کی برآمدات میں پاکستان کا حصہ 1.83فیصدہے۔ انجینئرنگ شعبے کا عالمی تجارت میں حصہ 60 فیصد ہے مگر اس شعبے میں پاکستان کی برآمدات اس کی کُل برآمدات کا صرف 1.17فیصد ہیں۔ لہٰذا یہ کہاں کی عقل ہے کہ ہم پہلے ہی گرتی اور مقابلے والی منڈی میں برآمدات پر توجہ دیں؟ انجینئرنگ کے شعبے کی ترقی کی پالیسیاں کہاں ہیں؟
18-2017 میں بنیادی ضرورت کی اشیاءاور نیم تیار اشیاء کا ملک کی 23.22 ارب ڈالر کی کل برآمدات میں حجم 21.81 ارب ڈالر یا 93.92فیصد تھا۔ اسی سال میں 46.25 ارب ڈالر کی کل درآمدات میں گاڑیوں، مشینوں اور توانائی کے علاوہ شعبوں کاحجم 15.94 ارب ڈالر یا 34.46فیصد تھا۔ لہٰذا ہماری 94 فیصدبرآمدات صرف 35 فیصددرآمدات کا خرچہ اٹھاتی ہیں۔
بیرونی قرضوں کی ادائیگی ملکی وسائل پر ایک بوجھ ہے جو مالیاتی خسارے کو بڑھاتا ہے۔ جہاں ہماری قرضوں کی ادائیگی ڈالر میں ہوتی ہے وہاں ہمارا بمشکل حاصل شدہ زرِمبادلہ ہی اس کو ادا کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ حالت اس وقت خراب ہو جاتی ہےجب قرض لی گئی رقم کسی شے کو درآمدکرنے پر خرچ کی جاتی ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آئی ایم ایف قرض دیتا ہے تو یہ ڈالر ان اشیاء کی ادائیگی میں لگ جاتے ہیں جن کی درآمد کی وجہ سے اصل میں خسارہ پیدا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف کی ایسی کوئی شرائط نہیں جو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مددگارہوں۔ لہٰذ اجب 21 اکتوبر کو اسد عمر نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف سے آخری دفعہ قرض ہو گا، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ جھوٹ بول رہا ہے یا دھوکا دے رہا ہے، کیونکہ اسے تو معاشی معاملات کا فہم ہونا چاہیے۔
اسلام لوگوں کےمعاملات منظم کرنے کے لیے احکام دیتا ہے۔ صرف ان حکام کے ذریعے ہی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔
__________________
[2] https://www.dawn.com/news/1345741
[3] https://www.brecorder.com/2018/11/20/453674/telecoms-big-on-repatriation-short-on-fdi/
مثال کے طور پر جہاد کا حکم یہ لازمی کرتا ہے کہ ایسے ہتھیار بنائے جائیں جو دشمن کے دل میں رعب ڈال دے۔ اس واجب کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسی دفاعی صنعت وجود میں آتی ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔ یہی صنعت ضمنی طور پرگاڑیاں، ٹرک وغیرہ بنانے میں مدد دے گی۔ یہی صنعت آگے چل کر جامعات میں تحقیق اور تعمیری کام کے ذریعے جہاد کو مضبوط کرنے میں مدد دے گی۔ تمام فیکٹریاں جو جہاد کے لیے قائم ہوں گی وہ مشینری کی تمام ضروریات بھی پوری کریں گی۔
اسلام کا یہ حکم کہ جو بنجرزمین کو 3 سال تک کاشت نہ کرے اس سے زمین واپس لے کر کسی اور کو دے دی جائے ، کاشتکاری کو فروغ دے گا۔ انسان کو اس کی بنیادی ضروریات جیسے لباس، خوراک اور چھت مہیا کرنے کا حکم ایسی پالیسی کو جنم دے گا جو لوگوں کو کھانا مہیا کرنے والی اجناس کی پیداوار کا باعث بنے گا، نہ کہ زرِمبادلہ کمانے والی اجناس کی پیداوار کا ذریعہ۔ یہ معلوم ہے کہ پاکستان کی زرعی زمین حالیہ پیداوار کے مقابلے میں 3 سے 4 گنا زیادہ پیداوار دینےکی صلاحیت رکھتی ہے۔
اسلام میں تیل ، گیس کوئلہ جیسی معدنیات ریاستی یا انفرادی ملکیت نہیں بلکہ عوامی ملکیت ہیں۔ عوامی ملکیت سے متعلق اسلام کے اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ تھر کا کوئلہ تلاش کے بعد کچھ مہینوں میں نکالا جائے گا، نہ کہ دہائیوں میں۔ علاوہ ازیں، عوامی ملکیت کے حکم کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان کی معدنیات اور سونے کو لوگوں کے فائدے کے لیے نکالا جائے گا نہ کہ غیرملکیوں کے لیے جو اس میں سے حصہ لیں گے۔ غیر ملکیوں کو انفرادی طور پر ملازمت پر رکھا جا سکے گا جو خدمات(services) اور ٹیکنالوجی کی ترسیل کریں گے۔
لہٰذا ملک کی اصل دولت وہ وسائل ہیں جن پر انسان کام کر سکتے ہیں، جن سے وہ اشیاء پیدا ہوتی ہیں جو معاشرے کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ان اشیاء کی پیداوار کچھ خدمات کا تقاضاکرتی ہے جن کے ذریعے یہ اشیاء تیار کرکے لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں ۔ تمام معاشی حرکت اسی کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وہ معاشی سوچ ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا باعث بنے گی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا دفتر کے لیے لکھا گیا
خالد صلاح الدین ۔ پاکستان