فطری ریاستوں کی تعریف یہ ہے کہ وہ طرز حکمرانی کے حوالے سے عوام کے عمومی اتفا ق رائے کی عکاسی کرتی ہیں ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فطری ریاستوں کی تعریف یہ ہے کہ وہ طرز حکمرانی کے حوالے سے عوام کے عمومی اتفا ق رائے کی عکاسی کرتی ہیں ۔ کسی ریاست کی آزادی کو جاننے کامعیار یہ ہوتا ہے کہ اس کے تمام فیصلے اور ا قدامات کسی بھی دوسری ریاست کے ثقافتی، سیاسی اور فوجی دباؤ سے آزاد رہ کرکیے جاتے ہیں۔ لہٰذا فطری آزاد ریاستیں وہ ہوتی ہیں جو معاشرے کے عمومی اتفا ق رائے کی عکاس ہوتی ہیں کہ ان کا طرز حکمرانی کیا ہوگا اور یہ اتفا ق رائے خالصتاً ریاست کے اندر سے ہی جنم لیتا ہے۔ ایک ریاست کو غیر فطری کہا جائے گا اگر وہ اُس نظریہ حیات پرکھڑی کی جائےجس کو اس کی عوام کی حمایت حاصل نہیں ۔ اس قسم کی ریاست لازماً فطری طور پر آزاد بھی نہیں ہوگی کیونکہ اگر ریاست ایک ایسے نظریہ حیات پر کھڑی ہے جسے اس کی شہریوں کی حمایت حاصل نہ ہو تو پھر لازمی طور پراس کے بنیادی افکار غیروں سے لیے جائیں گے۔
آسیہ بی بی کے مقدمے نے ایک بار پھر پاکستان کے اس مسئلہ کی نشاندہی کی ہے کہ وہ ایک غیر فطری ایجنٹ ریاست ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو کہ آج معاشرے کو درپیش کئی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ مسئلہ کافی واضح ہے۔ اسلام اپنے عقیدے اور حرمات کی حفاظت ویسے ہی کرتا ہے جیسے کہ دوسری تمام تہذیبیں کرتی ہیں۔ ہر تہذیب اپنے نظریےکے تحت اپنی حرمات کا تعین کرتی ہے اور یہ حرمات مختلف نظریوں کے تحت مختلف ہو سکتیں ہیں جیسے کہ قومی سرحدیں ، مغربی آزادیاں، کمیونسٹ پارٹی اور راہنما، بنیادی تہذیبی عقائد، تاریخ جیساکہ ہولوکاسٹ، مذہب،سیاست اور ثقافت ۔ توہین رسالت کی سزا اسلام میں موت ہے۔ یہ سزا اس لیے رکھی گئی ہے تا کہ رسول اللہ ﷺ اور وحی کی حرمت کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ آسیہ بی بی کے مقدمے میں الجھن اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ یہ سوالات پیدا ہوئے کہ آیا توہین رسالت کاعمل در حقیقت ہوا بھی تھا یا نہیں۔ کچھ کایہ دعویٰ ہے کہ ایسا ہوا تھا جبکہ دیگر کاکہنا ہے کہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ توہین رسالت کی گئی تھی۔ایسی صورت میں اس ادارے کے پاس جایا جائے گا جو تنازع کو حل کرے ،یعنی کہ عدلیہ، کہ وہ اس معاملے پر فیصلہ دے کر اس مسئلہ کو حل کرے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں غیر فطری ایجنٹ ریاست کا مسئلہ ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی معاملات میں جہاں ریاست اور معاشرے کے تعلقات کا معاملہ درپیش ہو ہم نے ریاست کی غیر فطری نوعیت کا مشاہدہ کیا ہے۔ آسیہ بی بی کے مقدمے میں عدلیہ کے فیصلے کو اسلام پسند لوگ منصفانہ فیصلے کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔ لبرل حضرات نے اس فیصلے کی تعریف کی اور نہ صرف اسے قانونی بلکہ بہادرانہ فیصلہ بھی قرار دیا۔ نتیجتاًریاست اور اس کے اداروں کی شرعی اور قانونی حیثیت کے حوالے سے معاشرے میں ایک بحث شروع ہوگئی۔
پاکستان کی ریاست ایک غیر فطری ریاست ہے کیونکہ اس کی بنیاد سیکولر اصولوں اور افکار پر رکھی گئی ہے۔ ان اصولوں اور افکار کو معاشرے کی ایک عظیم اکثریت تسلیم ہی نہیں کرتی۔ پچھلے چند سال کے دوران پاکستان کی اہم سیکولر سیاسی جماعتوں کی سیاست عدالتی فیصلوں کے گرد گھومتی رہی ہے جہاں عدالت نے چند اہم اور بااثر سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا جس کی وجہ سےملکی سیاست کی صورتحال ہی تبدیل ہوگئی۔ لبرل دانشوروں نے ان عدالتی فیصلوں کی سختی سے مخالفت کی اور یہ کہا کہ عدلیہ نے یہ فیصلے مضبوط قانونی بنیادوں پر نہیں بلکہ فوجی قیادت کی ایما پر دیے ہیں۔ اس کے بعد ملک اور عوام نے سیاستدانوں اور لبرل دانشوروں کی جانب سے ایک زبردست مہم کا مشاہدہ کیا جس میں سیاستدانوں کی نااہلی کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی کہا گیا۔ لیکن آسیہ بی بی کے مقدمے میں انہی سیاست دانوں اور سیکولردانشوروں نے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو قبول کریں کیونکہ وہ ایک قانونی ادارہ ہے۔ اس قسم کا متضاد مطالبہ عوام کے اس یقین کو مستحکم کرتا ہے کہ لبرل حضرات اور سیاست دانوں کی جانب سےعدلیہ کے فیصلے کو قبول کرنے کا مطالبہ اس لیے نہیں کیا جارہا کہ عدالت نے آسیہ بی بی کے مقدمے میں منصفانہ فیصلہ دیا ہے کیونکہ انہی لبرل حضرات اور سیاست دانوں نے دوسرے معاملات میں عدلیہ کے فیصلوں پر سخت تنقید اور اس کے خلاف مہم بھی چلائی تھی۔ بلکہ عوام نے آسیہ بی بی کے مقدمے میں عدلیہ کے فیصلے کو قبول کرنے کے مطالبے کو اس نظر سے دیکھا کہ ریاست سیکولر ہے جہاں ریاست نے آسیہ کواس لیے نہیں رہا کیا کہ حقائق الزام کو ثابت نہیں کرسکے بلکہ چونکہ ریاست خود اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ توہین رسالت کوئی جرم ہے جس پر سزادی جانی چاہیے، اس لیے عدالت نے آسیہ کو رہا کردیا۔ عوام کی اس سوچ کا خود کچھ لبرل سیاست دانوں اور دانشوروں نے بھی اقرار کیا۔ لہٰذا اسلام پسندوں نے اس معاملے کو ایسے دیکھا کہ ریاست نے جانبداری کامظاہرہ کیا ہے۔ تو اب معاملہ قانون کے اطلاق کا نہیں رہا ۔ عوام کے اس یقین میں کہ ریاست نے جانبداری کامظاہرہ کیا ہے ، اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب یورپی یونین نے اپنی مارکیٹوں تک پاکستانی اشیاء کی رسائی کو آسیہ بی بی کی رہائی سے مشروط کردیا اور فیصلے سے چند دن قبل پاکستانی حکام کے ساتھ یورپی یونین کے وفد کی ملاقات بھی ہوئی جس میں ایسے مطالبات دہرائے گئے ۔ تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ غیر فطری سیکولر ریاست نے اپنی ضرورتوں کی خاطرمغربی طاقتوں کی بات مانتے ہوئے آسیہ بی بی کو رہا کیا۔اسلام پسندوں کی جانب سے آسیہ بی بی کے مقدمے کے فیصلے کے خلاف ردعمل درحقیقت عوام کی جانب سے سیکولر ریاست کی قانونی حیثیت کو قبول کرنے سے سختی سے انکار کرنا ہے۔ یہ ردعمل اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان کی ریاست ایک غیر فطری ریاست ہے۔ آج کی ریاست ِپاکستان اس نئی ریاست کا تسلسل ہے جسے برطانوی استعمار نے مغلوں کی اسلامی حکمرانی کے ملبے پر تعمیر کیا تھا۔ برطانیہ نے سیکولر افکار اور بنیادوں پر اس ریاست کو تعمیر کیا تھا۔ پاکستان پینل کوڈ(ایکٹ ایکس ایل وی آف 1860) ،جسے ضابطہ تعزیرات پاکستان کہا جاتا ہے، وہ پینل کوڈ ہےجسے برطانیہ نے جاری کیا تھا اور پھر وقتاً فوقتاً پاکستانی قانون ساز اس میں ترامیم کرتے رہے لیکن اس کا ڈھانچہ اور اصول وہی رہےجو برطانیہ نے بنائے تھے۔ برطانیہ نے اپنی نگرانی میں برصغیر میں سیاسی گروہ قائم کیےاور تعلیمی اصلاحات نافذ کروائیں ، اور اس طرح برطانیہ نے ایک مقامی سیاسی، فوجی اور دانشور اشرافیہ طبقہ پیدا کیا جو اسلام پسندوں کے دباؤ سے سے اس نئی سیکولر ریاست کی حفاظت کرے جو برطانیہ نے قائم کی تھی۔پاکستان ایک کے بعد ایک بحرانوں کاسامنا کرتا رہے گا کیونکہ تمام غیر فطری ریاستیں اصلاً غیر مستحکم ہوتی ہیں ۔ یہ اس لیے کیونکہ وہ اپنی قانونی حیثیت اور طاقت ان لوگوں سے حاصل نہیں کرتیں جن پروہ حکومت کرتیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنےلوگوں پرجبر اور دباؤ کے ذریعے حکومت کرتیں ہیں اور اپنی بقاء کے لیے بیرونی طاقتوں پر انحصار کرتیں ہیں۔ لہٰذا تمام غیر فطری ریاستیں یا تو اپنی فطرت میں جابر ہوتی ہیں یا غیر ملکی طاقتوں کے دباؤ اور مطالبات پر چلتی ہیں یا ان میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ پاکستان اس بحران ،جس کا مشاہدہ ہم نے آسیہ بی بی کے مقدمے کے فیصلے کے بعد کیا، کا خاتمہ صرف اسی صورت میں دیکھے گا جب وہ ایک فطری ریاست بن جائے گا۔ مسلمانوں اور اسلام کی فطری ریاست خلافت ہے جو مسلم علاقوں پر صدیوں تک حکومت کرتی رہی ہے اور جس نے اپنے شہریوں کو خوشحالی اور استحکام دیا اور جس نےعالمی سطح پر دین حق کو غالب کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ط هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
” یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں اوراللہ اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں، اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام ادیان پر غالب کرے، اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں"(التوبۃ: 33-32) ۔