جلیل القدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر” سے اقتباس
لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍفَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
” جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں( یعنی ان کےپاس نہ جانے کی قسم کھالیتے ہیں) ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ چنانچہ اگر وہ (قسم توڑ کر) رُجوع کرلیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے۔ اور اگر اُنہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو(بھی) اللہ سننے جاننے والا ہے”۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان دو آیاتِ کریمہ میں ایک اور حکم شرعی بیان فرماتے ہیں، اور یہ بھی اسی مضمون کے سیاق میں ہے جو ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا تھا،وہ حکم یہ ہے کہ چار مہینے سے زیادہ عورت سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم اٹھانا ایلا ء کہلاتا ہے، اور یہ قسم ان دیگر قسموں سے مختلف ہے جو سابقہ آیت کی تفسیر میں ہم نے ذکر کیں۔ سو یہاں یا تو اس طرح قسم اٹھائے گا کہ وہ اپنی عورت سے چار مہینے جماع یا ہمبستری نہیں کرے گا، یا اس سے کم یا اس سے زیادہ ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ :
پہلا: اگرقسم چار مہینے یا اس سے کم مدت تک جماع نہ کرنے کی ہو تو اس کو ایلاء نہیں کہتے ، بلکہ اس حالت میں یہ عام قسموں کی طرح ایک قسم ہے ،جتنی مدت کی قسم کھائی ہے ،وہ مدت پوری ہونے سےپہلے اگر وہ اپنی بیوی سے جماع کرکے اس قسم کو توڑ دے تو گویا اس نے قسم پوری نہیں کی،اس صورت میں وہ قسم کا کفارہ دے گا۔ اگر چار مہینے سے کم مدت جس کی اس نے قسم اٹھائی تھی ،اس میں اس نے ہمبستری نہیں کی تو اس صورت میں اس نے قسم پوری کردی ،اس پر کوئی گناہ نہیں۔ صحیحین(بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے:
((أن رسول اللهﷺ آلى من نسائه شهراً فنزل لتسع وعشرين وقال: الشهر تسع وعشرون))
"رسول اللہ ﷺنے اپنی ازواج سے ایک مہینے تک نہ ملنے کی قسم کھائی تھی پھر آپ ﷺ اُنتسویں کے دن ( اس کمرے سے) نیچے اتر آئے( جس میں آپ ﷺٹھہرے تھے) اور فرمایا : مہینہ اس دفعہ انتیس کا ہوا ہے"۔
دوسری بات: اس طرح قسم کھائے کہ وہ چار مہینے سے زیادہ اپنی بیوی سے جماع نہیں کرے گا،اسی کو شرعی ایلا ء کہتے ہیں، ان دو آیات کریمہ میں اسی کے احکامات کا بیان ہے، اور وہ احکامات یہ ہیں:
ا۔ اگر اس نے چار مہینے پورا ہونے سے پہلے جماع کیا ،تو اس صورت میں قسم کا کفار ہ دے ، اور بس۔
ب۔ اگر وہ رکا رہا یہاں تک کہ چار مہینے پورے ہوگئے ،اس صورت میں اسے دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔
پہلا: یا تو وہ فئی یعنی رجوع کرے گا،رجوع کا مطلب ہے کہ جس طرح قسم سے پہلے وہ جماع کیا کرتا تھا، اسی حالت کی طرف لوٹے،لہٰذا فئی جماع سے کنایہ ہے، اس صورت میں وہ قسم کا کفارہ دے گا۔
دوسرا: یا پھر طلاق دے گا۔
اگر وہ ان میں سے ایک کام بھی نہ کرنا چاہے ، تو حکمران اس کی بیوی سےطلاق کا فیصلہ صادر کر دے گا۔
یہ تفصیل جو ہم نے بیان کی ، دونوں آیات کریمہ کی دلالت سے اسی طرح معلوم ہوتی ہے ، یعنی:
(لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ)” جو لوگ اپنی بیویوں کےپاس نہ جانے کی قسم کھالیتے ہیں” (یؤلون ایلاء سے ہے)۔ اِیلا ء ، دراصل ایسی قسم ہوتی ہے کہ جس کام پر کھائی جائے اس میں نقصان ہونے کا تقاضا کرے، مثلاً کسی برے عمل کی قسم اٹھائے یا بھلائی والے کام میں کمی کرنے کی قسم اٹھائے ،جیسے اللہ سبحانہ فرماتے ہیں:(لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا) ” یہ لوگ تمہاری بد خواہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے”(آل عمران:118)۔اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی کا قول: (وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ) "اور تم میں سے جو لوگ اہل خیر ہیں اور مالی وسعت رکھتے ہیں، وہ ایسی قسم نہ کھائیں … "(النور:22)۔ بعد میں اس کے شرعی معنی لیے گئے ، یعنی بیوی کے ساتھ جماع سے روکنے والی قسم۔