بسم الله الرحمن الرحيم
( مصعب عمیر-پاکستان)
پاکستان اپنے باربار اٹھنے والے بحرانوں کی دلدل سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا, اگر یہ اپنے آپ کو انہی دو روایتی نظاموں یعنی پارلیمانی جمہوریت اور صدراتی جمہوریت تک ہی محدود رکھے ۔یہ تنگ نظر بحث صرف موجودہ سیاسی وفوجی قیادت کو ہی فائدہ پہنچاتی ہے ۔اگر مسلمان جمہوریت سے منہ موڑکراسلامی ریاستِ خلافت کے لئے تگ ودو نہیں کرتے ،توان کیلئے آنے والے مستقبل میں مزید بحرانوں کے سوا کچھ نہیں۔
سیاسی قیادت پارلیمانی جمہوریت کو ترجیح دیتی ہے جس کی یقین دہانی ، بھٹو کے 1973 کے آئین میں بھی ہے، کیونکہ یہ منتخب نمائندوں کو اس کا زیادہ اختیار دیتی ہے کہ وہ قانون میں ردوبدل کر کے اسے اپنے فائدے کیلئے استعمال کر سکیں ۔ فوجی قیادت، صدارتی جمہوریت کو ترجیح دیتی ہے ، جیسا کہ پہلے جنرل ایوب نے اور حال ہی میں جنرل مشرف نے اسے اپنایا تھا، کیونکہ یہ فوجی قیادت کو قانون سازی پر مضبوط کنٹرول دیتی ہے۔
تاہم صدارتی جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت، دونوں ہی مسائل کی جڑ ہیں۔ یہ دونوں ہی، صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی نازل کردہ وحی کوقانون سازی کا ماخذ بنانے کی تردید کرتے ہیں، یعنی کہ ہر قانون کی بنیاد صرف قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ کی سنتِ مبارکہ ہونی چاہئے۔ یہ دونوں، پاکستان پر ایسے قوانین کا بوجھ ڈالتے ہیں جو اپنی محدود سوچ اور بے انتہا حرص پر مبنی انسانوں کی خواہشات اور پسند وناپسند پر بنائے گئے ہیں۔ یہ دونوں ہی ،کرپٹ حکمرانوں اور ان کے مغربی آقاؤں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے پاکستان کے قوانین کومزید ردّوبدل کے لئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں ۔
حزب التحریر وہ واحد قیادت ہے جو ان مسائل سے نجات کا حل دیتی ہے۔ صرف حزب التحریرنے ہی، 191 دفعات پر مشتمل ایک دستور تیار کررکھا ہے جو کہ قرآنِ پاک ، سنتِ مبارکہ اور صحابۂ کرام کے اجماع سے اخذ کردہ دلائل سے ان نکات کو واضح کرتا ہے۔ حزب التحریر نے مراکش سے انڈونیشیا تک عالمی سطح پر اپنے سیاستدانوں کی ایک قابل جماعت تیار کررکھی ہے جو ریاستِ خلافت کو چلانے اور خلیفہ کا احتساب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اور حزب التحریر نےاپنے خلاف بدترین ظلم وتشدد کے باوجود، جس میں پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان، انجینئر نوید بٹ کا دس سال پہلے 11 مئی 2012 کا اغوا بھی شامل ہے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی مدد سے خلافت کے اس منصوبے پر سنگِ میل عبور کئے ہیں۔
چنانچہ جو کوئی بھی دین سے مخلص ہو اور مسلمانوں کے لئے نجات چاہتا ہو ، اسے حزب التحریر کے علاوہ کسی اور طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔