امت مسلمہ کی پہلی دفاعی لائن مسلم افواج ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحر یر : بلال المہاجر
ہر عظیم قوم کے لیے کچھ معاملات(ریڈ لائنز) ایسے ہوتے ہیں جن پر کسی صورت خاموشی اورمصلحت اختیار نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ان سے دستبردار ہواجاسکتا ہے۔ پس عظیم قومیں ، خصوصاً نظریاتی یا آئیڈیالوجیکل اقوام، اپنی فوجی طاقت و صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات کاخصوصی طور پر خیال رکھتی ہیں۔ عظیم قومیں عملی قدم اٹھاتی ہیں جو ان کےنظریات کے تحفظ،پھیلاؤ اور بالادستی کو یقینی بناتی ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنی فوجی طاقت و صلاحیت کو استعمال کرتی ہیں۔ تو اس طرح ریاستیں ایک ساتھ سیاسی، فوجی اور نظریاتی طاقت کو استعمال کرتی ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظریے اور اس کی بے اصولی حقیقت پرستانہ (pragmatic)سوچ کے ظہور کے بعد اقوام اور ریاستوں کے اہم ترین مفادات (ریڈ لائنز)پر سودے بازی اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنےکا ایک عملی طریقہ کار بن چکاہے۔ اس کا آغاز مقدسات کے خلاف جارحانہ رویے اورتوہین سے ہوا اور پھر یہ پھیلتا پھیلتا عزت پر حملے تک پہنچ گیا۔ اب لوگ مقدسات اور حرمتوں کی توہین ٹی وی اسکرینز پر یوں دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی دستاویزی یا تفریحی فلم دیکھ رہے ہوں۔ اور یہ مناظر بین الاقوامی برادری یا وسیع عالمی برادری کو ان کے خلاف حرکت میں نہیں لاتے سوائے اتنا ہی کہ جس سے وہ خود پر موجود دباؤ کو چند مذمتی بیانات دے کر کم کرسکے، اور وہ اسی وقت ایساکرتی ہے جب ظلم تمام حدیں پار کرچکتا ہے۔ یہ کہنا قطعی مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ مغرب کی یہ جدید بے اصولی حقیقت پرستانہ سوچ انسانی تاریخ کی سب سے گری ہوئی سوچ ہے۔ سوچ کا یہ پیمانہ دماغ کی صلاحیت کوہی ختم کردیتا ہے کہ وہ حقیقت کا درست ادراک کرسکے اور پھر صحیح اور مضبوط موقف اختیار کرے خصوصاً ایک ایسے وقت میں کہ جب یہ لازم ہوچکا ہے کہ فوری اور فیصلہ کن قدم اٹھایا جائے۔
اسلامی امت تاریخ میں وہ واحد امت تھی جس نے انسانی دماغ کویہ پیمانہ دیا کہ مقدسات اور حرمتوں کا احترام اور عزت کی جائے، اور سوچ کا یہ پیمانہ قدیم اور جدید تاریخ میں ایک روشن مثال بن گیا۔ اسلامی تاریخ سوچ کے اس پیمانے کے عملی اظہار سے بھری پڑی ہے۔
اس کی ایک مثال رسول اللہ ﷺ کی جانب سے قریش مکّہ کے ساتھ صلح حدیبیہ ہے، کہ جب قریش نے اس امن معاہدے کی ایک شق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے اتحادی قبیلے بنی بکر کو اسلحہ اور رقم کے ذریعے مدد فراہم کی تا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اتحادی قبیلے بنی خزاعہ کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرسکیں۔ صلح حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ مکّہ کے گرد رہنے والے قبائل کو یہ آزادی حاصل ہو گی کہ وہ چاہیں تو قریش یا رسول اللہ ﷺ کے اتحادی بن جائیں۔ بنی خزاعہ نے رسول اللہ ﷺ کا اور بنی بکر نے قریش کا اتحادی بننا قبول کیا۔ لیکن بنی بکر نے بنی خزاعہ پر حملہ کیا اور اس حملے میں قریش نے بنی بکر کی مدد کی۔ حملے کے بعد بنی خزاعہ کے رہنما عمرو بن سالم الخزاع رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور انہیں قریش کی مدد سے ہونے والے بنی بکر کے حملے سے آگاہ کیا جو کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ بنی خزاعہ کے رہنما مدینہ آئے، مسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑےہوئے اور ان سے یہ کہہ کر مدد کامطالبہ کیا،
يا رب إني ناشد محمدا حلف أبينا وأبيه الأتلدا
هم بيتونا بالوَتير هُجَّدا وقتلونا ركعـاً وسجـدا
اے رب، میں محمدﷺ سے ان کے اور ان کے والد کے قدیم عہد کی دہائی دے رہا ہوں
انہوں نے وتیر میں ہمارے گھروں پر اچانک حملہ کیا
اور ہمیں قتل کیاجب ہم رکوع اور سجدے کی حالت میں تھے
قریش کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیے گئے صلح حدیبیہ کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی رسول اللہ ﷺ کے لیے کافی تھی کہ وہ فوج کے قائد اور ریاست مدینہ کے سیاسی و نظریاتی قائد کے طور پر مسلم افواج کو حرکت میں لانے کا حکم دیں۔ افواج کو حرکت میں لانے کے حکم کا مقصد محض بنی خزاعہ کی اپنے علاقے میں واپسی کو یقینی بنانے اور اس غداری پر "معافی” مانگنے کے مطالبے کے لیے نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد قریش گڑھ کا خاتمہ کر کے مکہ کو آزادکرانا تھا۔ اور اس وقت جزیرۃ العرب میں دوسرے قبائل کے مابین مکّہ کی حیثیت ایسے تھی جیسے آج واشنگٹن کی ہے۔
مسلمانوں کےمقدسات اور حرمتوں کے پامالی کوکسی صورت قبول نہ کرنے کی ایک اور مثال بنی قینُقاع کی ہے۔ بنی قینقاع کے ایک یہودی مرد نے مسلم خاتون کے کپڑے کو بھرے بازار میں کھینچا جس سے وہ بے پردہ ہوگئیں۔ ایک مسلمان مردنے جب یہ دیکھا تو اس نے مسلمان عورت کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے اس یہودی کو قتل کردیا۔ لیکن اس وقت بازار میں کئی اور یہودی مرد موجود تھے جنہوں نے غیرت مند مسلمان کو قتل کردیا اور صورتحال شدید کشیدہ ہوگئی۔ جب اس بات کی خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تردد کے افواج کو حرکت میں آنے کا حکم دیا۔ افواج کو حرکت میں لانے کا مقصد محض یہ نہیں تھا کہ شہید ہونے والے مسلمان کے خون کے بدلے دیت کی رقم لی جائے یا ان سے خاتون کی بے حرمتی پر معافی مانگنے کامطالبہ کیا جائے بلکہ اس قبیلے کامحاصرہ کیاگیا جس کے بعد انہیں وہاں سےنکل جانے کا حکم دیا گیا۔
اور بنی قریضہ کوان کی غداری کی وجہ سے حضرت سعد بن معاذؓ کی جانب سے سنائی جانے والی سزا اسلامی احکامات کے عین مطابق اور خونِ مسلم کی حرمت اور عزت کے لیے مناسب تھی۔ آپؓ نے بنی قریضہکے مردوں کے قتل اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ سزا کسی ایسے شخص کی جانب سے نہیں دی گئی تھی جس کی یہود سے کوئی پرانی دشمنی ہو بلکہ وہ تو زمانہ جاہلیت میں بنی قریضہ کے دوست کے طور پرمشہور تھے اور اسی وجہ سے یہود نے اپنے معاملے کافیصلہ کرنے کا اختیار سعد بن معاذؓ کودینے کی درخواست رسول اللہ ﷺ سے کی تھی۔ سعد بن معاذؓ کا حکم اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق تھا ، یہاں تک کہ ان کے اس فیصلے کی تائیدمیں وحی نازل ہوئی جس کو رسول اللہ ﷺ نے حدیث میں اس طرح بیان کیا: لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ "تم(سعد) نے سات آسمانوں کےاوپر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ان کا فیصلہ کیا ہے”۔مسلمانوں کی تاریخ اپنے اہم مقدسات اور حرمات (ریڈ لائنز) کے دفاع سے بھری پڑی ہے۔ اس وقت امت اور اس کی افواج نے ان معاملات پر فیصلہ کن موقف اختیار کیا اور اس موقف کو پورا کرنے کے لیے اکثرجنگیں لڑنی پڑیں۔ یہ معاملات اسلام کے عقیدے کے دفاع کے لیے مرتدین کے خلاف جنگ ہو، یا رومی سلطنت میں قید ایک آزادمسلمان خاتون کی پکار پر جنگ ہو جس کے نتیجے میں اموریہ کا علاقہ فتح ہوا اور اسلامی ریاست کا حصہ بن گیا، یا سرزمین سندھ کے دروازے اسلام کے لیے کھولنا ہو جب قذاقوں نے مسلمانوں کے بحری جہازوں پر کھلے سمندر میں حملہ کیا ۔۔۔۔ اور اسی طرح کے کئی واقعات ہیں جن پر امت مسلمہ اور ان کی افواج نے ریڈ لائنز پر کسی سمجھوتے کو قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ اس وقت ہوتا تھاجب مسلمانوں کی ایک سیاسی اکائی تھی اُس اکائی کا سربراہ مسلمانوں کا سیاسی، فوجی اور نظریاتی رہنما ہوتا تھا۔ یہ اس وقت ہوتا تھا جب اسلامی نظریات امت اور اس کی ریاست کی رہنمائی کا کام کرتے تھے اور یہ اسلامی شرعی احکامات تھے جو حقائق پر منطبق کیے جاتے تھے اور مضبوط موقف اپنائے جاتے تھے۔
یقیناً امت کی حکمرانی سے اسلام کی غیر موجودگی اور مسلم افواج کے فوجی ڈاکٹرائن سے اسلامی عقیدے کی غیر موجودگی ، اس کے ساتھ ساتھ امت کے سروں پرمغرب کی جانب سے ایجنٹ حکمرانوں کومسلط کرنا جو ان پر کفر کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں اور مسلم افواج کے فوجی ڈاکٹرائن کا وطنی اور قومی بنیادوں پرمرتب ہونا، یہ وہ دو وجوہات ہیں کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے حکمران اور ان کی افواج مسلمانوں کی مقدسات اور حرمات کے تحفظ کے لیے انگلی تک حرکت میں نہیں لاتے۔ آج فلسطین، کشمیر، شام اور میانمار(برما) کے حوالے سے یہی صورتحال ہے اور ماضی میں بوسنیا اور دیگر کئی معاملات میں بھی یہی صورتحال رہی ہے۔ اگر ان حالات میں امت کے پاس ،رسول اللہ ﷺ جیسا رہنماہوتا، یا ابو بکرؓ، عمرؓ اور معتصم ؒ جیسا خلیفہ ہوتا تو وہ یہودکے معاملے میں موجودہ صورتحال کو کسی صورت قبول نہ کرتا بلکہ وہ ویسا کرتا جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ یہ حکم رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرمایاکہ، تُقَاتِلُونَ الْيَهُودَ حَتَّى يَخْتَبِيَ أَحَدُهُمْ وَرَاءَ الْحَجَرِ فَيَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ "تم (یعنی مسلمان) یہودسے اس وقت تک لڑو گے کہ جب ان میں سے کچھ پتھروں کے پیچھے چھپیں گے، اور پتھر کہیں گے، ‘اے عبداللہ(اے اللہ کے بندے)! میرے پیچھے ایک یہودی چھپا بیٹھا ہے، لہٰذا اسے قتل کردو'”۔ اور وہ بدھسٹوں سے اس سے کم کچھ قبول نہ کرتا۔ وہ امریکہ کی جانب سے بھی کچھ قبول نہ کرتا سوائے اس کے کہ جو رسول اللہ ﷺ نے مکّہ کی فتح کے موقع پر قریش کی جانب سے قبول کیا تھا۔ اور وہ روس سے کچھ قبول نہ کرتا سوائے اس کے جو سعد بن معاذؓ نے بنی قریضہ کے لیے مقرر کردیا تھا اور ماسکوکی فتح۔ ۔۔۔ اور اس سے کم کسی بھی چیز کی قبولیت کو اسلام نے بے شرمی، بے عزتی اوربے اصول حقیقت پرستی قرار دیا ہے، اور سب کچھ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ ” حالانکہ عزت اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے لیکن منافق نہیں جانتے "(المنافقون:8)۔
ختم شد