پاکستان کے مفاد ات کے تحفظ کے لیے نیٹو سپلائی لائن کاٹ دو، امریکہ کی غیر سرکاری فوج اور انٹیلی جنس کوملک بدر کرو اور امریکی سفارتخانے اور قونصل خانوں کوبند کرو جو جاسوسی کے اڈے ہیں
پریس نوٹ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
5 ستمبر 2018 کو امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل جوزف ایف ڈینفورڈ کے دورۂ پاکستان پر پاکستان کے نئے حکمرانوں کی جانب سے رضامندی ظاہر کرنےاور ان کے استقبال کی تیاریوں کو حزب التحریر ولایہ پاکستان مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ امریکہ کی سیاسی و فوجی قیادت کے دورۂ پاکستان کا مقصد پاکستان کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ افغان طالبان کے خلاف اپنی سیاسی و فوجی طاقت استعمال کر کے انہیں مذاکرات کی میز پر بٹھائے تا کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کو مستقل بنیادوں پر یقینی بنایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی پینٹاگون نے یکم ستمبر 2018 کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے 300 ملین ڈالر رقم کی ادائیگی یہ کہہ کر ختم کردی کہ پاکستان زبردست افغان مزاحمت کو ختم کرنےکے لیے مزید اقدامات اٹھائے (ڈو مور) ،وہ افغان مزاحمت کہ جس کی وجہ سے امریکہ کی قابض افواج گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہو چکی ہیں۔
پاکستان کے حکمران ایک طرف تو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ "آزاد” ہیں لیکن وہ امریکی منصوبوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں امریکی حکام کے ساتھ گفت و شنید کے لیے مسلسل اور کثرت سے ملاقاتیں کرتے ہیں اگرچہ خطے میں امریکی موجودگی ہی پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت امریکہ کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات برقرار رکھتی ہے اگرچہ امریکی موجودگی کی وجہ سے ہی افغانستان کے دروازے بھارت کے لیے کھلے تا کہ اسے وہاں زبردست اثرورسوخ حاصل ہوسکے اور اب اس اثرورسوخ کو ہندو ریاست پاکستان بھر میں فتنے کی آگ بھڑکانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ کیا حکمرانوں پر لازم نہیں کہ وہ امریکی افواج کے لیے پاکستان سے گزرنے والی سپلائی لائن کو مستقل طور پرختم کردیں؟ کیا حکمرانوں پر لازم نہیں کہ وہ امریکہ کی غیر سرکاری فوج اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو پکڑکر ملک بدر کردیں جو ہماری افواج پر حملے کرواتے ہیں تا کہ امریکہ کی جنگ ہماری جنگ بن سکے؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ امریکی سفارتخانے اور قونصل خانوں کو بند کیا جائے جو امریکی دفتر خارجہ اور پینٹاگون کے لیے جاسوسی کےمراکز کے طور پر کام کرتے ہیں؟ کیا حکمرانوں پرلازم نہیں کہ وہ مخلص قبائلی جنگجووں کی اس وقت تک حمایت کریں جب تک وہ صلیبی امریکہ کو بے دخل نہ کردیں بالکل ویسے ہی جیسےانہوں نے برطانوی راج اور سوویت رشیا کو بے دخل کیا تھا؟ کیا حکمرانوں پر لازم نہیں کہ وہ امریکیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کو مسترد کردیں جس کے ذریعے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت کے دروازےپر( یعنی افغانستان میں) امریکہ کو اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا موقع ملتا ہو؟یہ بات واضح ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے دیا جانے والا یہ تاثر کہ وہ "آزاد” ہیں اور ریاستِ مدینہ کےماڈل کی پیروی کریں گے محض باتیں ہی ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہی ہے۔ وقت آچکا ہے کہ مسلمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے مطالبے سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہو جو دنیا میں ہماری سربلندی و عزت کا باعث بنے گی اور آخرت میں ہمارے رتبے کو بلند کرے گی۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کا ماخذ نبوت کے طریقے پر قائم ہونے والی خلافت ہی ہے۔ صرف خلافت ہی نیٹو سپلائی لائن کاٹ کر، امریکہ کی غیر سرکاری فوج اور انٹیلی جنس اہلکاروں کوملک بدر کر کے اور سفارتخانے اور قونصل خانوں کے نام پر چلنے والے جاسوسی کے مراکز کوبند کر کے خطے میں امریکہ کی موجودگی کوجڑ سے اکھاڑدے گی۔ صرف خلافت ہی اسلام اور مسلمانوں کےمفادات کے تحفظ کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لائے گی۔ اور صرف خلافت ہی موجودہ مسلم ممالک کو یکجا کر کے دنیا کی ایک طاقتور اور باوسائل ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے کام کرے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا "جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب اللہ ہی کی ہے”(النساء:139)۔ ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس