مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کی جانب سے طاقت کے زور پر قبضہ کیا گیا اور اس کو آزاد بھی صرف افواج پاکستان کی طاقت اور جہاد کے ذریعے ہی کرایا جاسکتا ہے
پریس نوٹ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
27 ستمبر 2018 الجزیرہ ٹی وی کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے دیے گئے انٹرویو کے بعد پچھلے کچھ دنوں میں ایک بحث چل نکلی ہے۔ اس انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے کہا ، ” جنگ کوئی حل (آپشن) نہیں ہے۔
اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔صرف بات چیت ہی حل ہے۔”حالیہ چندہفتوں میں امریکہ کے حکم اور حوصلہ افزائ پر پاکستان کے غدار حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر سے غداری پر مبنی حل کو نافذ کرنے کے لئے پاکستان میں رائےعامہ کی تیاری کی مہم میں اضافہ کردیا ہے۔اس مہم کے ذریعہ غلط تاثر پاکستان کے مسلمانوں کو دیا جارہا ہے کہ پاکستان کی ریاست مقبوضہ کشمیر کو ہندہ قبضے کے شکنجے سے چھڑانے کی طاقت اور صلاحیت نہیں رکھتی۔یقینا اس مہم کے ذریعے پاکستان کی سیاسی وفوجی قیادت نے مغربی افکار اور مغرب کی جانب سےہمارے مسائل کے لیے پیش کیے جانے ،والے حل سے اپنی وافاداری کہ ثابت کر دیا حے ،وہ افکار اورحل جو مغرب ان حکمرانوں کو ہمارےسروں پر مسلط کر نے کے لے دیتا ہے۔ ٰ یہ حکمران طوطے کی طرح اپنے مغربی آقاوں کے پیش کردہ حل ہمارے سامنے دہرانا شروع کر دیتے ہیں اور کشمیر کی وادی کے مظلوم مسلمانو ں کی مدد کرنے کی زمےداری سے غفلت برتنے پر بہانے اور تجیحات پیش کرتے ہیں جبکہ وادی کے مسلمان انتہای محدود وسائل کے باوجود ہندوقبضے کے خلاف سیاسی و﷽عسکری جدوجہد کر رہے ہیں اور اس جدوجہد میں برہان وانی کی شہادت کے بعد زبردست اضافہ ہو گیا۔
پاکستان کے حکمران کشمیری مزاحمت کو ہتھیار فراحم کرنے سے انکاری ہیں جو کہ سات دہاہیو کے قبظے کے باوجود اتنی وسعت اور طاقت حاصل کر چکی ہے کہ قابض ہندو افواج اس کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں ۔یہ حکمران کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو ہتھیار اس لیے فراہم نہیں کرتے کیونکہ یہ امریکا کے احکامات پر چلتے ہیں جس نے اس مزاحمت کو "دہشت گردی ” قرار دیا ہوا ہے-یہ حکمران اس بات سےخوفزدہ ہیں کہ "بین الااقوامی برادری” برادری ناراض نہ ہو جائے جس کو کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”بین الااقوامی برادری” کی کشمیر کے مسئلے کے عدم دلچسپی کا واضع ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کو نسل کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے منظور ہونے والے قراردادیں اقوام متحدہ کے باب چارٹ کے باب 6 کےتحت منظور کی گئی ہے جن پر عمل درامد سکیورٹی کونسل پر لازم نہیں۔جن معملات پر سکیورٹی کونسل حملہ کرنے کے لئے سنجیدہ ہوتی ہے تو ان کے حوالے سے قراردوں کو اقوام متحدہ کے باب 7 کے تحت منظور کرتی ہے۔کیونکہ باب 7 کے تحت قراردوں پر عمل درآمد لازم ہوتاہے۔لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حکمران مسئلے کشمیر کے حل کے لئے نمائشی قراردادوں کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسےیہ اس مسئلے کو حل کرانے کی طاقت رکھتیں ہیں۔درحقیقت ان قراردادوں کی وقت ردی کے کاغذ سے زیادہ نہیں،الله سبحانه وتعالى نے فرمایا: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ أَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ أَنْ يَّتَحَاكَمُوْا إِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ أُمِرُوْا أَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖۗ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ أَنْ يُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًا بَعِيْدًا "کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دوعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب)تم پر نازل ہوئی اور جو(کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوہیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش(طاغوت)کے پاس لے جاکر فیصلہ کرایئں حالانکہ ان کے حکم دیا گیاتھا کہاس سے عتقاد نہ رکھیں اور شطان (تویہ)چہتا ہے کہ ان کو بہکا کر راستے سے دور ڈال دے (النسا:60)
جنگ پاکستان کی ھکمرانی اشرافیہ کے لیے کوئی حل(آپشن)نہیں ہوسکتا اس لیےکہ انہوں نے ویسٹ فلیا کے قومی ریاست کو دل سے لگا رکھاہے جو انہیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کر لی کیونکہ مقبوضہ کشمیر برطانی استعمار کی جانب سے بنائی گئی سرحد کے دوسری جانب واقع ہے۔ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ سری نگر لاہور ہوتا یا لاہور سری نگر ہوتا تو کیا پھر بھی جنگ کوئی حل یا آپشن نہیں ہوتا؟کیا کشمیر کے مسلمانوں کی عزت وحرمت کی ماپالی اس لیے قابل قبول ہے کیونکہ وہ سرحد کی دوسری جانب رہتے ہیں؟رسول الله ﷺ نے فرمایا، مَا مِنْ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ وَمَا مِنْ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ "کوئی مسلمان کسی مسلمان کو اُس جگہ تنہا نہیں چھوڑتا جہاں اس کی حرمت کو ماپال اور اس کہ عزت پر حملہ کیا جائے
سوائے اس کے کہ الله اسے اس جگہ تنہا چھوڑدے جہاں اسے مدد کی ضرورت ہو؛اور جو مسلمان کسی مسلمان کی جگہ مدد کرے جہاں اس کہ حرمت اور اس کی عزت پر حملہ کیا جاے تو اللہ اس کی اس جگہ مدد فرماتے ہیں جہاں اسے مدد ضرورت ہوتی ہے”(ابوداود)
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کہ لیے کو ئی حل یا آپشن نہیں لیکن اگر بات خطے میں نام نہاد ودہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں امریکی قبضے برقرار رکھنے کے امریکی مفادات کو حاصل کرنے کی آجاے تو ان حکمرانو ں کے لیے جنگ ا یک حل اور آپشن ہے ۔پھر ہمارے ٹینک ، لڑاکا طیارے اور توپ خانے حرکت میں آجاتے ہیں اور ہمارے فوجییوں کا خون فتنے کی جنگ کو جاری رکھنے ک لیے ایند ھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ یہ سب کچھ پاکستان اور اس کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ ہے ۔
باجوہ ،عمران حکومت ہندو ریاست کے ساتھ "نارملائزیشن” کے نتیجے میں ماشی خوشحالی کے جھوٹے خواب دیکھا کر عوام کو گمرہ کر رہی ہے۔یہ حکمران ہمیں اس بات کی دعوات دے رہی ہے کہ ہم معاشی فوائد کے لیے کشمیر کے مسلمانوں کے خون کا سودا کرلے۔یہ دلیل پیش کرکے پاکستان کے مسلمانوں کی توہین کی ہے جنہوں نے باربار اسلامی عقیدے سے اپنے والہانہ محبت اور لگاؤ اور اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے رسول ﷺ سے اطاعت کا مظاہرہ کیا ہے اور جو د نیاوی مفاد کے مقابلے میں مسلم اخوت اور بھای چارے کو فوقیت دیتے ہیں ۔ ہندو ریاست کو "نارملائزیشن” کی دعوت دے کر یہ حکومت ہمارے آباو اجداد زہانت اور جدوجہد کی تو ہین کر رہی ہے جنہوں نے ظالم ہندو کی حکمرانی میں رہنے سے مسترد کر دیا تھا اور مسلمانو ں ک لیے الگ مملکت کا مطالبہ کیا تھا – معاشی خوشحالی کا دعویٰ ا یک سراب ہے – یورپی یونین جو کہ یورپی اقوام پر مشتمل ایک معاشی یونین ہے جن ک درمیان عیسائی اور یہودی تہذیب اور سر ما یہ داریت کے افکار مشترک ہیں لیکن اس کے با وجود آج یہ یونین زوال پز یر ہیں ، تو پھر یہ ہم کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ ہند ریاست جو ک کفر کی بنیاد پر حکمرانی پر قائم ہے وہ پاکستان کے لوگوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہے جبکہ پاکستان کے مسلمان امن کے ساتھ زندگی گزارنا چا ہتے ہیں؟ اس خطے میں امن و خوشحالی صرف اور صرف اس صورت میں آے گی جب ایک بار پھر بر صغیر اسلام کی با لادستی کو بحال کر دیا جاے جیسا کہ صدیوں تک اس سے پہلے صورتحال رہی تھی
اے پاکستان کے مسلمانوں! " تبد یلی کے نام پر آنے والے حکمران کسی بھی طرح پچھلے حکمرانوں سے مختلف نہیں اور ہندو ریاست کے سامنے جھکنے میں انہی کی طرح کوئی شرم محسوسں نہیں کرتے ، آپ فوراً حرکت میں آیئں اور پاکستان میں نبوت طر یقے پر خلافت قیام کی جدوجہد کا حصہ بن جایے جو حقیقی تبدیلی میں ضامن ہے ۔ مسلمانوں کی خلافت امن ک حوالے سے کے تصور کو نافض کرے گی جس ک لیے ضروری ہے کہ طا قت و انصاف پسند امت کے ہاتھ میں ہو جو اس خطے اور دنےدنیا پر اسلام کے قوانین کے تحت دنیا پر حکمرانی کرے ۔ یقیناً بر صغیر امن اور خو شحالی کے اس تصور سے اجنبی نہیں ہے کیونکہ صدیوں تک اس پر اسلام کے تحت حکمرانی کی گی ہے ۔ مسلمانوں کی خلافت بین الااقوامی اداروں اور ویسٹ فیلیا کے
قومی ریاست کے تصور کو رد کرتے ہوے آپ کی
دنیا اور آخرت میں عزت اور وقار کی طرف قیادت کرے گی اور کشمیر کی آزادی ک لیے افواج پاکستان کے منظم جہاد کرے گی بلکہ اس سے بھی بڑھ کے خلافت عزوہ ہند کے حوالے سے رسول اللۃ ﷺ کی بشارت کو پورا کرنے ک لیے اس خطے کے مسلمانوں کی قیادت کرے گی ۔ ابو ہریرہ نے روائت کیا کہ، وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ﷺ) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ"اللہ کے رسول ﷺ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ کیا۔اگر میں نے وہ ذمانہ پالیا تو میں اس کے لیے اپنی جان اور مال لگادوں گا۔اگر میں مرگیا تو میں بہترین شہداء کی صحبت میں ہوںگا اور اگر میں زندہ واپس آیا تو میں(گناہوں سے)آزاد ابوہریرہ ہوں گا”(احمد ،نسائی،الحاکم)۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس