نَصر: اس کے معنی، اسباب ، دو شرائط اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں
عبد الکریم ابو مصعب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کی توفیق کی بنا پر ہم یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر اجنبی اور بیرونی ثقافتی یلغاروں کے اثرات اور اسلامی احکامات کی کما حقّہ ٗپابندی سے دوری جیسے دیگر اسباب کے نتیجے میں آج مسلمانوں کی اکثریت نُصرت کا درست مفہوم سمجھنے میں الجھن (کنفیوژن)کا شکارہو گئی ہے اوراس الجھن کے نتیجے میں ان کے درمیان اس حوالے سے اختلافات پیدا ہوگئے کہ نصرت کیسے حاصل کی جائے گی۔ اس الجھن کی وجہ سے آج عالمِ اسلام کی صورتحال سے متعلق مسلمانوں کے موقفوں میں اختلاف نظر آتا ہے۔
کچھ مسلمان نصرت کو ایک خُدائی عطیہ کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطاکردیتے ہیں چاہے کوئی اس کا حقدار ہوتا ہےیا نہیں، یا یہ کہ اس کی کیا قابلیت یا تیاری ہے، اورنہ ہی اس کے لیے آزمائشیں برداشت کرنا اور سختیاں برداشت کرنا ضروری ہے۔ نصرت کے حوالے سے یہ خیال درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ولَوۡ يَشَآءُ ٱللَّهُ لَٱنتَصَرَ مِنۡهُمۡ وَلَٰكِن لِّيَبۡلُوَاْ بَعۡضَكُم بِبَعۡضًۗ ٍوَٱلَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعۡمَٰلَهُمۡ ٤ سَيَهۡدِيهِمۡ وَيُصۡلِحُ بَالَهُمۡ ٥ وَيُدۡخِلُهُمُ ٱلۡجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمۡ ٦ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ أَقۡدَامَكُمۡ﴾ "اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے، اللہ اُن کے اعمال کو ہرگز اکارت نہیں کرے گا۔ وہ انہیں منزل تک پہنچا دے گا اور ان کی حالت سنوار دے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا جس کی انہیں خوب پہچان کرادی ہوگی۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ(کے دین ) کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا” (محمد:7-4)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نصرت کےحصول کی کچھ شرعی شرائط ہیں، یہ صرف تمناؤں سے نہیں ملتی جیسا کہ اہلِ کتاب گمان کیا کرتے تھے۔ فرمانِ الہٰی ہے:﴿لَّيۡسَ بِأَمَانِيِّكُمۡ وَلَآ أَمَانِيِّ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِۗ مَن يَعۡمَلۡ سُوٓءٗا يُجۡزَ بِهِۦ وَلَا يَجِدۡ لَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيّٗا وَلَا نَصِيرًا﴾”نہ تمہاری تمنائیں ( جنت میں لے جانے کے لیے)کافی ہیں، نہ اہلِ کتاب کی آرزوئیں۔ جو بھی
بُرا عمل کرے گا، اس کی سزا پائے گا اور اسے اللہ کے سوا اپنا کوئی یار و مددگار نہیں ملے گا”(النساء:123)۔ کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ حالات نصرت کی اجازت نہیں دیتے اورنصرت ہم سے بہت دُور ہے، چنانچہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیتے ہیں۔ کچھ لوگ نصرت کو حضرت مہدی کے ظہور اور آخری زمانے سے متعلق احادیث و اقوال کے ساتھ جوڑدیتے ہیں۔
لیکن تاریخ کی جستجو اور تہذیبوں کے کشمکش پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں اور ریاستوں کے درمیان بالادستی اور مغلوبیت کا ادل بدل ہوتا رہتا ہےاور یہ ایک کائناتی سنت ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی ریاست ہمیں نظر نہیں آتی جو پوری انسانی تاریخ میں غالب رہی ہو ۔ ایسی کوئی ریاست نہیں جسے لامحدود زمانے تک بقاء حاصل رہی ہو۔ انسانی معاشرے میں یہ اتار چڑھاؤ اللہ کی (طریقوں)سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ کبھی اہل باطل کی بالادستی اور قہاریت کے دن ہوتے ہیں اور کبھی اہل حق کو باطل کے مقابلے میں دبدبہ و شوکت اور غلبہ و سطوت حاصل ہوتا ہے۔ہاں اہلِ حق کو یہ ضمانت دی جا چکی ہے کہ جب تک وہ حق پر رہیں گے بالآخر کامیابی انہی کے قدم چومے گی۔ پس سنتِ الہیٰ ایک اَٹل قانون ہے جس میں اللہ کی اجازت اور اذن کے بغیر کسی کے لیے کوئی استثنا ہے نہ ہی کوئی رعایت ہے۔اس سنت کے دائرے میں کوئی بھی آتا ہو ، یہ اسی طرح اس پر جاری ہوتی ہے جیسا کہ دوسروں پر۔یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس قول سے سمجھی کی جاسکتی ہے: ﴿ إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾ ” اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔ یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں ، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا "(آل عمران:140)۔
آئیے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے نصرت کے مفہوم اور اس کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیےاس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔
لُغت میں نصرت کےمتعدد معنی کیے جاتے ہیں: مدد اور تائید وغیرہ ۔ اصطلاحی طور پر نصر کہتے ہیں؛ ایسی دستگیری اورمددکو جس کے ذریعے دشمن کو مغلوب کیا جائے اور اس پر بالادستی حاصل ہوجائے۔”النصر” کا لفظ قرآن کریم میں مختلف صیغوں(Patterns) اور مُشتقات(Derivatives) کی صورت میں بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔
شرعی لحاظ سے نصر ت کا ذکر گیارہ مقامات پر کیا گیا ہے،اور ہر جگہ مختلف معنوں میں آیا ہے،جو آیت کی سیاق و سباق سے متعین ہوتا ہے ،اس کے اہم معانی میں سے چندیہ ہیں:
پہلا: حفاظت اور دفاع، نصرت کے یہ معنی ان مقامات پر لیے گئے ہیں جہاں کفار اور فاسق و بدکار لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے ، اس کے لیے بھی مختلف صیغے (Patterns) استعمال کیےگئے ہیں:
1۔ آخرت کے عذاب سے عدم حفاظت کا صیغہ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ يَوْمَ لاَ يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلاَ هُمْ يُنْصَرُونَ﴾” جس دن ان کی مکاری ان کے کچھ کام نہیں آئے گی اور نہ ہی انہیں کوئی مدد مل سکے گی”(الطور:46)۔
2- عذاب کو ٹال دینے کی ذاتی قدرت کی نفی کا صیغہ،جیسے اللہ تعالیٰ کا قول: ﴿وَيَاقَوْمِ مَنْ يَنصُرُنِي مِنْ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ﴾”اور اے میری قوم! اگر میں ان لوگوں کو دُھتکار دوں تو کون مجھے اللہ ( کی پکڑ ) سے بچائے گا؟ کیا تم پھر بھی دِھیان نہیں دوگے؟” (هود:30)
3-ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے انتقام لینے کے صیغہ میں﴿وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ﴾” اور جو شخص اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد( برابر کا ) بدلہ لے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہے”(الشوری:41)۔
4- مدد اور معاونت کے صیغے میں﴿مَنْ كَانَ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَنْصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لِيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ﴾” جو شخص یہ سمجھتا تھا کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اس ( پیغمبر) کی مدد
نہیں کرے گا تو وہ آسمان تک ایک رسّی تان کر رابطہ کاٹ ڈالے، پھر دیکھے کہ کیا اُس کی یہ تدبیر اُس کی جھنجلاہٹ دُور کرسکتی ہے؟”(الحج:15)۔
یہاں علما ئے تفسیر نے نصر اور اعانت کے درمیان فرق بیان کیا ہے کہ نصر ت صرف تنازع کرنے والے کے خلاف ہوتی ہے جبکہ اعانت اس کے علاوہ میں بھی استعمال ہوتا ہے یعنی اعانت نصرت کی نسبت عام ہے۔
دوسرا: غلبہ اور فتحیابی: یہی معنی لفظِ اَلنَّصْرُ کو سنتے ہی ذہن میں سب سے پہلے آتا ہے مثلا اللہ تعالیٰ کا قول:﴿وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ ” اور یہ وعدہ اللہ نے کسی اور وجہ سے نہیں ، بلکہ صرف اس لیے کیا کہ وہ خوشخبری بنے اور تاکہ تمہارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو، ورنہ مدد کسی اور کے پاس سے نہیں ، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے”(الانفال :10)۔ ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اَلنَّصْرُصرف اور صرف اللہ ہی کے ساتھ خاص ہے۔
تیسرا: ” النصر” سے بنے دوسرے صیغے (Patterns): قرآن میں یہ بہت آئے ہیں ،ہم بر سبیل تذکرہ ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں: فتح، استحکام ، ظہور، کامیابی ، حق و باطل کے درمیان فرق ، نجات اور غلبہ وغیرہ۔
جیسا کہ اُصول الفقہ میں سبب کی تعریف کی گئی ہےکہ یہ وہ امر ہوتا ہے جس کے وجود کے ساتھ کسی دوسری چیز کا وجود اور جس کے عدم کے ساتھ دوسری چیز کا عدم لازم ہو،اس تعریف سے اور پچھلی گزارشات سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نصر کا سبب مکمل اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی قیمت یہ رکھی گئی ہے کہ ہم اُس کے دین کی نصرت کریں ۔ اس کی دو شرطیں ہیں جو ہم آگے بیان کریں گے لیکن پہلے شرط کے معنی سمجھیں۔ اُصول الفقہ کے مطابق شرط کی تعریف یہ ہے کہ جس کی غیر موجودگی سے عدم تو آتا ہے مگر اس کے وجود کے ساتھ یہ لازم نہیں کہ مشروط چیز بھی موجود ہو ،یعنی نصر اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہوتی ہے، اب آتے ہیں نصر کی دو شرطوں کی طرف:ایساایمان جو انسان کو فرمانبرداری پر آمادہ کرے، اور یہ کہ صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگی جائے، اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلاً إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنْ الَّذِينَ أَجْرَمُوا وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾”اور (اے پیغمبر! ) ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر اُن کی قوموں کے پاس بھیجے، چنانچہ وہ اُن کے پاس کھلے کھلے دلائل لے کر آئے۔ پھر جنہوں نے جرائم کا ارتکاب کیا تھا، ہم نے اُن سے انتقام لیا، اور ہم نے یہ ذمہ داری لی تھی کہ ایمان والوں کی مدد کریں گے”(الروم:47)۔
عام معنوں میں مضبوط تیاری اگرچہ پوری اور اکمل نہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ﴾ ” اور (مسلمانو!) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں، ان کے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے دُشمن اور اپنے(موجودہ) دُشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اوران کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر ) اللہ انہیں جانتا ہے”(الانفال:60)۔
نصرت کی کئی قسمیں ہیں جن میں یہ بھی ہیں :وہ مدد کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے،جبکہ ہم اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کردیں اور اس کی دونوں شرطیں پوری کریں، یعنی ایمان اور میسّرہ قوت۔ اس کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے،جیسا کہ اُحُد میں ہوا تھا جبکہ بعض صحابہؓ سے یہ کوتاہی ہوئی کہ تیر اندازوں نے اپنا مورچہ چھوڑکر رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت کی تھی۔ اسی طرح حنین کے دن اپنی کثرت کو دیکھ کر ان
کو غرور ہوا جو ایک قسم کا مخفی شرک تھا۔نصرت کی ایک قسم تفضیلی ہے،یہ الہیٰ حکمت ہوتی ہے جس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ایک کو دوسرے پر غلبہ دلایا جائے، اس کی مثال : ﴿غُلِبَتِ ٱلرُّومُ ٢ فِيٓ أَدۡنَى ٱلۡأَرۡضِ وَهُم مِّنۢ بَعۡدِ غَلَبِهِمۡ سَيَغۡلِبُونَ ٣ فِي بِضۡعِ سِنِينَۗ لِلَّهِ ٱلۡأَمۡرُ مِن قَبۡلُ وَمِنۢ بَعۡدُۚ وَيَوۡمَئِذٖ يَفۡرَحُ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ٤ ﴾”رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ چند ہی سالوں میں! سارا اختیار اللہ ہی کا ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اُس دن ایمان والے اللہ کی دی ہوئی فتح سے خوش ہوں گے”(الروم:4-2)۔
ایک قسم مبدأ پر نصر ت ہے،وہ یہ کہ انسان کو مبدأ پر موت آئے ،ایسا انسان اللہ کی طرف سے منصور ہوتا ہے، اس کی مثال اصحاب الاُخدود ہیں، ان سب کو قتل تو کیا گیا اور ان کو موت آئی مگر ان کو مبدئی نصر حاصل ہوا، کیونکہ وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔
یہ نصرت کے اقسام و انواع ہیں مگرجس نصر کا اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہےاور رسول کریم ﷺ نے جس کی بشارت دی ہے وہ پہلی قسم کی نصر ہے، یعنی جس کے لیے اپنے آپ کو مستحق ثابت کرنا پڑتا ہے، ہماری دعا ہے کہ وہ جلد از جلد ہو۔اب ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ آزمائش اور انسانی کوششوں کے ساتھ نصر کا تعلق کیا ہے۔ قرآن سے ثابت شدہ ایک مسلمہ حقیقت یہ بھی ہے کہ بغیر آزمائش کے نصر نہیں ملتی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ؛کیانصر حاصل کرنے کے لیے ہماری آزمائش ناگزیر ہے؟ جی ہاں ! اللہ تعالیٰ کی سنت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے شدائد و مصائب جھیلنا ضروری ہے،یہ آزمائش و امتحان اس حد تک ہو جس پر انسانی قوت و طاقت اور وسعت کی انتہا ہوجائے،ایسے ہی وقت میں تمام ظاہر ی و مادی اسباب سے مایوس ہوکر نصر کے کرشموں کا ظہور ہوتا ہے۔﴿ أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٞ﴾ ” کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب اللہ کی مدد آئے گی ۔ دیکھو اللہ کی مدد (عن) قریب (آيا چاہتی) ہے”(البقرۃ:214)۔
اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ باطل کو حق کے ذریعے مٹاتا ہے، اور اس کا قلع قمع کر دیتا ہے، تو اہلِ باطل اور مفسدلوگوں کو غلبہ حاصل ہوجائے، یوں نیک لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی اورزمین فساد سے بھر جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نصرآنے سے پہلے رسہ کشی کی صورتحال نظر آتی ہے، یعنی حق اور باطل کے مابین کشمکش برپا ہوتی ہے اور اس میں شدت آتی جاتی ہے اور بالآخر اللہ عز وجل اپنے نصر کو شامل حال کرکے حق والوں کو اپنی تائید سے نوازتے ہیں۔ یہ تائیداپنے قول سے بھی فرماتے ہیں، اور عملی طور پر بھی کہ واقع میں نصر آجاتی ہے اور نتیجہ کے لحاظ سے بھی غلبہ اہل حق کو حاصل ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ٱلَّذِينَ أُخۡرِجُواْ مِن دِيَٰرِهِم بِغَيۡرِ حَقٍّ إِلَّآ أَنْ يَّقُولُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُۗ وَلَوۡلَا دَفۡعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعۡضَهُم بِبَعۡضٖ لَّهُدِّمَتۡ صَوَٰمِعُ وَبِيَعٞ وَصَلَوَٰتٞ وَمَسَٰجِدُ يُذۡكَرُ فِيهَا ٱسۡمُ ٱللَّهِ كَثِيرٗاۗ وَلَيَنْصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنْصُرُهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ "یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اتنی بات پر اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ ( کے شر) کو دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور کلیسا اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، سب مسمار کردی جاتیں”(الحج:40)۔ آج کل مسلمانوں میں رائج بعض غلط تصورات سے ان کے ہاں توکل کے متعلق غلط تصور نے جنم لیا۔ اس کی وجہ اس دین سے ان کی ناواقفیت ہے جو انسانی زندگی کے لیے ایک خدائی منہج کے طور پر عطا کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ مادی دائرہ کار میں انسانی جد جہد کو بروئے کار لایا جائے ،نیز انسانوں میں سے ایک جماعت اس دین کو لے کر اٹھے،وہ جماعت ایسی ہو جو اس پر کامل ایمان رکھتی ہو
،اس کے لیے آزمائشیں سہہ لے، صبر آزما حالات سے گزرے،تاکہ اس دین پر انہیں استقامت ملے، پھر دوسروں کے دلوں میں اس کو راسخ کرنے کے لیے بھرپور جد وجہد کریں، یوں اس دین کو مضبوطی سے تھام کرپہلے اپنے آپ پر غلبہ حاصل کریں ، گویا یہ جماعت سب سے پہلے اپنے آپ میں تبدیلی لے آتی ہے، پھر نصر آتی ہے اور اللہ کی طرف سے حاالات کو بدل دیا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نےفرمایا: ﴿ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمۡۗ ﴾ "یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے”(الرعد:11)۔
اسی طرح یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ نصر کے موانع (روکنے والے)بھی ہوتے ہیں ۔ اُصول الفقہ کی اصطلاح میں مانع وہ ہوتا ہےجس کے وجود سے کسی چیز کا عدم لازم آتا ہو، اس کی عد م موجود گی پر نہ تو کسی چیز کا وجود مرتب ہوتا ہے نہ عدم ، بطور مثال:
- تنازع اور تفرقہ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَٰزَعُواْ فَتَفۡشَلُواْ وَتَذۡهَبَ رِيحُكُمۡۖ وَٱصۡبِرُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ﴾"اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے "(الانفال:46) ۔ یہاں تنازع سے مرادایسا اختلاف ہے جو قوت حاصل ہونے کے بعد اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے دلوں میں داخل ہوجاتا ہے۔
2۔ معصیت (گناہ)اور اوامر کی مخالفت : یہاں معصیت سے مراد اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی ہے اور اوامر کی مخالفت سے مراد قیادت کے حکم کی مخالفت ہے ، قیادت کی مخالفت ایسے احکامات میں جو اللہ کی ناراضگی پر مبنی نہ ہوں،یا اس صورت میں کہ جب قائدین مال و متاع اور عہدہ و منصب وغیرہ جیسے وقتی مفاد کے پیچھے نہ پڑے ہوں۔
3۔ غیر اللہ کے ساتھ وفاداری، اور اس کے راستے کے علاوہ دوسرے راستے پر چلنا: تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہماری نصرت فرمائیں تو ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم غیر اللہ کے ساتھ وفاداری نہ کریں اور اس کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے پر نہ چلیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ بِطَانَةٗ مِّن دُونِكُمۡ لَا يَأۡلُونَكُمۡ خَبَالٗا وَدُّواْ مَا عَنِتُّمۡ قَدۡ بَدَتِ ٱلۡبَغۡضَآءُ مِنۡ أَفۡوَٰهِهِمۡ وَمَا تُخۡفِي صُدُورُهُمۡ أَكۡبَرُۚ قَدۡ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلۡأٓيَٰتِۖ إِن كُنتُمۡ تَعۡقِلُونَ﴾
” اے ایمان والو! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو راز دار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اُٹھانہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اُٹھاؤ۔ بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتادی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو”(آل عمران: 118)۔ اور اس کے علاوہ دیگر موانع بھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے اس تمام تر دوری کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کی وعدہ کردہ نصرت کہاں ہے؟ مگر جو لوگ حقیقی طور پر عمل میں جتے ہوئے ہوتے ہیں اور اسلامی زندگی کی از سر نو واپسی کے لیے اپنے تن من دھن کی بازی لگاتے ہیں ، ان کو تو نصرت ملنی چاہیے ؟ بات یہ ہے کہ کبھی ان کو نصرت ملنے میں تاخیر واقع ہوجاتی ہے ، یہ اس لیے کہ نصرت اچانک نہیں آتی ، یہ ربانی سنت اور الہیٰ قانون کے تابع ہے،اگر اس میں کوئی تاخیر ہورہی ہو تو ضرور اللہ سبحانہ کی کوئی حکمت کار فرما ہوتی ہے، جس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ :امت ابھی نصرت کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی، تو اگر نصرت دی جائے ، تو کہیں وہ اس کی حفاظت نہ کرپائے۔
- یا امت پر ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں اکٹھی ہوکر بھی اللہ کے بغیر اس کی مدد نہیں کرسکتیں۔
- یا پھر امت کو یہ یقین حاصل نہیں ہوا کہ نصر آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا مضبوط تعلق ہی اس کی استقامت کی واحد ضمانت ہے۔
- یا تاخیر اس لیے ہورہی ہو تاکہ ہمارے سامنے ہر چھوٹا اور دغا باز بے نقاب ہوجائے، اور باطل کے پیرو کار ہر طرح سے ننگے ہوکر رہ جائیں۔
جہاں تک نصر جلد از جلد آنے کی خواہش کی بات ہے تو یہ کوئی عیب نہیں، کوئی حرام عمل نہیں، کیونکہ انسان کی خمیر ہی جلدی و عجلت سے اُٹھا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَيَدۡعُ ٱلۡإِنسَٰنُ بِٱلشَّرِّ دُعَآءَهُۥ بِٱلۡخَيۡرِۖ وَكَانَ ٱلۡإِنسَٰنُ عَجُولٗا﴾”اور انسان برائی اس طرح مانگتا ہے جیسے اُسے بھلائی مانگنی چاہیے اور انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے”(الاسراء:11)۔ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ نے ایک مرتبہ مطالبہ کیا کہ آپ ﷺ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا مانگیں، آپ ﷺ نے ان سے صبر و استقامت کا مطالبہ کیا۔ ایک مرتبہ حضرت خباب ؓ نے آپ ﷺ سے شکایت کی ۔ وہ فرماتے ہیں : ہم نے آپ ﷺ سے شکایت کی ، آپ ﷺ خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر مبارک پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ،ہم نے عرض کیا : آپ ہمارے لیے مدد کیوں نہیں طلب فرماتے۔ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیوں نہیں مانگتے؟ (ہم کافروں کی ایذادہی سے تنگ آ چکے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا:((كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ، فَيُجَاءُ بِالمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَاللَّهِ لَيَتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ، حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ)) ” (ایمان لانے کی سزا میں) تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور انہیں اس میں ڈال دیا جاتا۔ پھر ان کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے پھربھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتے۔ اللہ کی قسم یہ امر (اسلام) بھی کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا (لیکن راستوں کے پُرامن ہونے کی وجہ سے) اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔ یا صرف بھیڑئیے کا خوف ہو گا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو”۔ اس وضاحت کے بعد ہم کہتے ہیں: جی ہاں اللہ تعالیٰ کی نصرت لازماً آئے گی، لیکن یہ اس وقت ہوگا جب ہم اس کی شرائط پوری کرلیں گے۔ تبدیلی انسانوں کے ہاں سے شروع ہوگی، کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنے کندھوں پر اس جماعت میں ہونے کی ذمہ داریاں اٹھائے جو کامل خلوص کے ساتھ اللہ کے دین کی طرف دعوت دے کر بلاتی ہے، اپنے گناہوں کے بوجھ کو اس طرح ہلکا کردے کہ وہ کام کرنے والوں کے ساتھ کام میں لگ جائے،اور اس میں اپنی آخری کوششوں کو بروئے کار لائے۔ بالخصوص جبکہ ان دنوں بہت سے جھوٹے چہروں اور بے معنی قسم کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت بے نقاب ہوچکی ہے اور صرف تھوڑی سی تعداد ہے جو میدا ن میں کھڑی ہے۔ میرے بھائی! تھوڑی سی محنت کرکے آپ اس جماعت کو پا سکتے ہیں جس کے پاس ایک واضح پروگرام ہے،جس نے اپنا آئیڈیالوجیکل مقصد کو متعین کیا ہے، جو اللہ کی کتاب اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی سنت سے سر مو انحراف نہیں کرتی۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ کے طرف سے آپ کے بارے میں بھی خیر کے فیصلے ہوجائیں اور دل و دماغ روشن ہوں ، آپ سے کوشش کا مطالبہ ہی تو کیا گیا ہے اور یہ کہ تبدیلی کے لیے اجتماعی کوششوں میں شامل ہوں، ایسا کام کرکے آپ بری
الذمہ ہو سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کے ارادے پر اس کی مدد کرتا ہے۔
ختم شد