جنگی پالیسی (السیاسة الحربیة)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جنگی پالیسی اس انداز سے جنگی امور کی دیکھ بھال کرنا ہے جو مسلمانوں کے لیے فتح اور دشمنوں کے لیے شکست کا باعث بنے۔ فوری طور پر عمل کرنے کا پہلو اس پالیسی میں نمایاں ہے۔ شریعت نے اس کے اندر ایسے معاملات کی اجازت دی ہے جو اس کے علاوہ ممنوع ہیں اور ایسے معاملات کو ممنوع قرار دیا ہے جنکی اس کے علاوہ اجازت ہے۔ اس میں دشمن سے جھوٹ بولنا جائز ہے جبکہ جنگ کے علاوہ یہ حرام ہے۔ اس طرح شریعت نے جنگ کے لیے مخصوص قوانین بنائے ہیں۔ ان میں دشمن سے نمٹنے ، جنگ سے متعلق اعمال، اسلامی فوج اور دیگر معاملات سے متعلق قوانین شامل ہیں۔
دشمن کے ساتھ معاملات میں اللہ نے خلیفہ اور مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ دشمنوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا اور ان سے ویسی چیزیں ضبط کر لیں جیسی انہوں نے مسلمانوں سے ضبط کی ہیں اگرچہ وہ کوئی حرام چیز ہی ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (النحل:126)”اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بےشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے “۔ اس آیت کے سببِ نزول کے بارے میں روایت ہے کہ اُحد کےدن مشرکوں نے مسلمانوں کا مُثلہ کیا تھا ،انہوں نے ان کے پیٹ چاک کر دیے، نازک حصوں کو کاٹ دیا اور ناک چیردیے۔ انہوں نے حنظلہ بن راہب کے سوا کسی کو مثلہ کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ اللہ کے رسول ﷺ حمزہ ؓ کے پاس کھڑے ہوئے، ان کا مثلہ کیا گیا تھا۔ وہ بہت ہی برا منظر تھا، ان کا پیٹ چاک کیا گیا تھا ،اور انکی ناک کاٹ دی گئی تھی ،تو آپﷺ نے فرمایا: «أما والذي أحلف به إن أظفرني الله بهم لأمثلن بسبعين مكانك» ”اس ذات کی قسم جس کی قسم میں کھاتا ہوں اگر اللہ نے مجھے ان پر فتح دی تو میں آپ کے بدلے میں انکے ستر لوگوں کا مثلہ کرونگا“ اس کو طبرانی نے الکبیر میں روایت کیا ہے ۔ پس یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ آیت جنگ میں نازل ہوئی
اگرچہ یہ برابری کے انتقام سے زیادہ کو ممنوع قرار دیتی ہے اس کے باوجود یہ مسلمانوں کو واضح طور پر اجازت دیتی ہے کہ وہ بھی کافروں کے ساتھ ویسا سلوک کریں جیسا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ اس کے باوجود کہ مثلہ حرام ہے اور اس کی حرمت کے بارے میں روایات موجود ہیں۔ اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کفار کے مقتولین کا مثلہ جائز ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مقتولین کا مثلہ کیا ہو اس شرط پر کہ جتنا انہوں نے کیا اس سے زیادہ نہ ہو۔ اسی طرح دھوکہ اور عہد کو توڑنے کا معاملہ ہے۔ لہذا اگر دشمن ایسا کرے یا اس بات کا خوف ہو کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو ہمارے لیے جائز ہے کہ ایسا کریں ورنہ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پس اس کی ممانعت ہونے کے باوجود ہمیں یہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ صرف جنگی پالیسی کے طور پرہے کیونکہ ا سکی ممانعت صرف تب ہے جب دشمن ایسا نہ کرے اگر وہ ایسا کرے تو پھر مسلمانوں کوبھی اس کی اجازت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (الانفال:57) ’’اور اگر تمہیں کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان سے عہدتوڑ دو‘‘۔ اسی طرح مسلمانوں کو دشمن کے خلاف جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت ہے، قبل یہ کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اس کا استعمال کردیں کیونکہ تمام ریاستیں جنگ میں جوہری ہتھیار کے استعمال کی اجازت دیتی ہیں ۔ لہٰذا ان کے استعمال کی اجازت ہےاگرچہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ممنوع ہے کیونکہ یہ انسانیت کو تباہ کرتے ہیں ، جبکہ جہاد انسانیت کو ختم کرنے کیےلیے نہیں بلکہ انسانیت کو اسلام کے ذریعے زندہ کرنے کے لیے ہے۔جنگ کے اعمال سے متعلق یہ ہے کہ مسلمان کافروں کے درخت، ان کے کھانے، کھیت اور گھروں کو آگ لگا سکتے ہیں اور ان کو تباہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّيۡنَةٍ اَوۡ تَرَكۡتُمُوۡهَا قَآٮِٕمَةً عَلٰٓى اُصُوۡلِهَا فَبِاِذۡنِ اللّٰهِ وَلِيُخۡزِىَ الۡفٰسِقِيۡنَ(الحشر: 5)” تم نے کھجوروں کےجو درخت کاٹ ڈالے، یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا، یہ سب اللہ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی کہ اللہ فاسقوں کو رسوا کرے”۔ رسو ل اکرم ﷺ نے بنی نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو اس یقین کے باوجود جلا دیا تھا کہ وہ بالآخر ان کے پاس ہی آئیں گےجہاں تک اس روایت کا تعلق ہے جس کو یحیٰ بن سعید الانصاری نے روایت کیا ہے کہ ابو بکرصدیقؓ نے فوج کے امیر سے کہا: «لا تعقرن شاة ولا بعيراً إلا لمأكلة، ولا تحرقن نخلاً ولا تغرقنَّه»” کسی اونٹ یا بھیڑکو کھانے کے سوا نہ مارنا اور نہ ہی کھجور کے درختوں کو جلانا یا انہیں غرق کرنا”؛ اوراس پر تمام صحابہؓ نے اتفاق کیا اور کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، یہ جنگ کا اصل حکم ہےکہ نہ بستی کو خراب کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی درختوں کو کاٹا جا سکتا ہے لیکن اگر خلیفہ یا فوج کے امیر کی رائے ہے کہ جنگ جیتنے کے عمل کو تیز کرنے کے لئے کسی بستی کو تباہ کرنے یا درختوں کو کاٹنے کی ضرورت ہے توجنگی پالیسی کے تحت اس کی اجازت ہے کہ ایسا اللہ کے رسول نے کیا ،اسی طرح جانوروں کو قتل کرنے اور جلانے کا معاملہ ہے اور جو کچھ دشمن کے پاس ہے، اگر جنگی پالیسی کے تحت اس تباہ کرنے کی ضرورت ہے تو یہ عمل کیا جا سکتا ہےاگرچہ یہ حرام ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ (التوبہ: 120) "وہ کسی ایسی جگہ چلتے ہیں جس سے کفار کو غصہ آئےیا دشمن سے کوئی چیز لیتے ہیں تو ہر بات پہ ان کیلئے ایک نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے”۔ یہ الفاظ عام ہیں نہ ہی اس آیت میں کوئی ایسی چیز ہے جو ان کو مخصوص کرے اور نہ ہی کسی اور آیت یا حدیث میں ایسا کچھ وارد ہوا ہےجو اسے مخصوص کرے لہٰذا اس کی عمومیت برقرار ہے۔ گھروں کو جلانے اور درختوں کو کاٹنے یا جلانے کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔ مسلم نے ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنی نضیر کے درخت کاٹے اور جلائے۔ اسی بارے میں حضرت حسانؓ کا شعر ہے:
وهان على سراة بني لؤي
حريق بالبويرة مسـتطـير
"بویرہ میں پھیلتی ہوئی آگ کے ذریعے بنی لوئی کے سرداروں کو پسپا کیا گیا”
اس پر یہ آیت نازل ہوئی: مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّيۡنَةٍ اَوۡ تَرَكۡتُمُوۡهَا قَآٮِٕمَةً عَلٰٓى اُصُوۡلِهَا…(الحشر: 5)”تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا… "۔بخاری نے جریر بن عبد اللہؓ سے روایت کیا ہے ، انہوں نے کہاکہ مجھے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :۔«ألا تريحني من ذي الخَلَصَةِ، قال: فانطلقت في خمسين ومائة فارس من أحْمَسَ، وكانوا أصحاب خيل، وكان ذو الخلصة بيتاً في اليمن لخثعم وبجيلة فيه نصب يُعْبَد يقال له كعبة اليمانية، قال: فأتاها فحرقها بالنار وكسرها، ثم بعث رجلاً من أحْمَسَ يكنى أبا أرطأة إلى النبي ﷺ يبشره بذلك، فلما أتاه قال يا رسول الله: والذي بعثك بالحق ما جئت حتى تركتها كأنها جمل أجرب، قال: فبّرك النبي ﷺ على خيل أحْمَسَ ورجالها خمس مرات»"تم مجھے ذوالخصلہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟ انہوں نے کہا پس میں احمس کے ایک سو پچاس گھڑ سوار لے کر چلا اور وہ اعلیٰ گھڑ سوارتھے۔ذوالخصلہ یمن میں خثعم اور بجیلۃ قبیلےکا گھر تھا جس میں بتوں کی پوجا کی جاتی تھی اور اسے یمن کا کعبہ بھی کہتے تھے۔ پس وہ وہاں گئے اور اسے جلا کر تباہ کر دیا۔پھر احمس میں سے ایک شخص جس کی کنیت ابو ارطاہ تھی کو اللہ کے نبیﷺ کی طرف بھیجا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا،میں نہیں آیا مگر ان کو ایسی حالت میں چھوڑ کر جیسے خارش زدہ اونٹ۔ پس اللہ کے نبیﷺ نے پانچ مرتبہ فرمایا کہ احمس کے مردوں اور گھوڑوں میں برکت واقع ہو۔ احمد بن حنبل اور ابنِ ماجہ نےاسامہ بن زیدؓ سے روایت کی «بعثني رسول الله ﷺ إلى قرية يقال لها أُبْنَى فقال: ائتها ثم حرّق» "اللہ کے رسولﷺ نے مجھےاُبْنَی نامی شہرکی طرف بھیجا اور کہا کہ وہاں پہنچواور اسے جلا دو”۔ یہ ابنی نامی شہر فلسطین کا علاقہ ہے،جیسا کہ ابوبکرؓ کی وصیت سے ظاہر ہے جسے امام مالک نے مؤطا میں روایت کیا ہے ۔جب اس تمام کو اس موضوع سے متعلق دوسری روایات سے جوڑ کر دیکھا جائے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ درختوں کا کاٹنا ، آگ لگانا اور گھروں کو مسمار کرنا صرف ایسی صورت میں ہے جب کسی لڑائی یا جنگ کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو۔ لہٰذایہ جنگی حکمتِ عملی میں داخل ہے۔
اسلامی فوج سے متعلق یہ ہے کہ امام یا فوج کا سربراہ منافقوں، فاسقوں، فرار پرا کسانے والوں، افواہیں پھیلانے والوں اور اس طرح کے دیگرلوگوں کو جنگ میں شرکت سے روک سکتا ہے، کیونکہ سورۃ التوبہ آیت46،47 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:﴿وَلَوۡ اَرَادُوۡا الۡخُـرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَهٗ عُدَّةًوَّلٰـكِنۡ كَرِهَ اللّٰهُ انۢبِعَاثَهُمۡ فَثَبَّطَهُمۡ وَقِيۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِيۡنَ (۴۶) لَوۡ خَرَجُوۡا فِيۡكُمۡ مَّا زَادُوۡكُمۡ اِلَّا خَبَالاً وَّلَااَوۡضَعُوۡا خِلٰلَكُمۡ يَـبۡغُوۡنَكُمُ الۡفِتۡنَةَ ۚ وَفِيۡكُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَهُمۡؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ(۴۷)﴾ ” اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے سامان تیار کرتے لیکن اللہ نے ان کا اُٹھنا (اور نکلنا) پسند نہ کیا تو ان کو ہلنے جلنے ہی نہ دیا اور (ان سے) کہہ دیا گیا کہ جہاں (معذور) بیٹھے ہیں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہو (46)اگر وہ تم میں (شامل ہوکر) نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت کرتے اور تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے دوڑے دوڑے پھرتے اور تم میں ان کے جاسوس بھی ہیں اور خدا ظالموں کو خوب جانتا ہے” (47)۔ حالانکہ منافقوں اور فاسقوں کی اسلامی فوج میں شمولیت پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تاہم اگر جنگی پالیسی اس بات کا تقاضا کرے کہ ان کو جنگ میں شمولیت یا کس خاص کام کو کرنے یا خاص کام پر نگران بننے سے روک دیا جائے تو خلیفہ یا فوج کے سربراہ کو اجازت ہے کہ وہ ایسا کرے۔دشمن کےساتھ معاملات ، جنگی اعمال اور اسلامی فوج کے علاوہ اعمال سے متعلق یہ ہے کہ جیسے اللہ کے رسولﷺ غزوہ بنی مصطلِق سے نہایت تیز رفتاری کے ساتھ واپس آئے، انہوں نے رات اور دن اپنی پوری قوت کے ساتھ سفر کیا۔ یہاں تک کہ وہ مدینہ پہنچ گئے۔ اس محنت طلب سفر نے اسلامی فوج کو خاصا تھکا دیا حالانکہ فوج کے بارے میں آسانی کا معاملہ کرنے کی ہدایت ہے۔ جابرؓ نے بیان کیا :۔«كان رسول الله ﷺ يتخلف في السير فيزجي الضعيف ويردف ويدعو لهم»"رسول اللہﷺ سفر میں کمزوروں کی ہمت بندھاتے، ان کے پیچھے چلتے اور ان کے لیے دعا کرتے”اسے ابو درداء ؓنے روایت کیا ہے۔تاہم عبد اللہ بن اُبی بن سلول کی حرکات، جن سے وہ مسلمانوں یعنی مہاجرین و انصار کے بیچ تفرقہ پھیلا رہا تھا، کے بارے میں جنگی پالیسی اس بات کا تقاضا کر رہی تھی کہ فوج کے کمزور ترین فرد کی رفتار سے سفر طے نہ کیا جائے، بلکہ فوج کے مضبوط ترین فرد کی سی رفتار سے سفر کیا جائے تاکہ کسی کو بحث کا موقع نہ ملنےپائے۔
اسی طرح جنگی پالیسی امام سے اس بات تقاضا کرتی ہےکہ وہ جنگی معاملات کی دیکھ بھال کے لیے ایسے اقدامات کرے جو لڑائی یا جنگ کو جیتنے اور دشمن کو شکست سے دوچار کرنے اور اس پر قابو پالینے کے لیے ضروری ہوں۔لیکن ایسا صرف تب ہو سکتا ہے جب
کسی خاص عمل پر نص موجود نہ ہو۔ اگر کسی عمل کی حرمت پر نص موجود ہو جو کہ مخصوص نہ ہو بلکہ حالت جنگ و امن کے لیے عام ہو مثال کے طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا(الإسراء : 32) "زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو ، یہ فحاشی اور بہت ہی برا راستہ ہے”۔ تو اس نص کی موجودگی میں جنگی پالیسی کو حجت بنا کر یہ عمل کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ جس صورت میں یہ نازل ہوا ہے اسی طرح من و عن اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر حرمت کی یہ نص بغیر علت کے ہے تو اس کو کسی بھی حالت میں کرنا جائز نہیں اور اگر نص میں علت موجود ہے تو اس کا حکم، علت کے تابع ہوگا۔ اگر نص میں کسی کام کی ممانعت موجود ہے اور رسول اکرمﷺ سے وہ کام کسی خاص حالت میں کرنا ثابت ہے تو وہ کام ماسوائے اس خاص حالت کے کرنا جائز نہ ہوگا۔
پس وہ نصوص جن میں شریعت نے ممانعت کا حکم لگایا تو ان میں ممانعت کی پاسداری کی جائے گی اور ان میں کسی جنگی پالیسی کا عمل دخل نہ ہو گا۔بخاری نے ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے:«وُجِدت امرأة مقتولة في بعـض مغـازي رســـول الله ﷺ فـنــهـى رسـول الله ﷺ عـن قـتـل النـسـاء والصـبـيان»"رسول اللہﷺ کے کچھ غزوات میں ایک عورت قتل شدہ حالت میں پائی گئی تو رسول اللہﷺ نے وعورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا”۔احمدنے الاسود بن سریعؓ سے روایت کیا : «ما بـال أقـوام جـاوزهـم القتل اليوم حتى قتلوا الذرية، فقال رجل: يا رسول الله، إنما هم أولاد المشركين، فقال: ألا إن خياركم أبناء المشركين»"ان لوگوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے آج قتل کرنے میں اس حد تک تجاوز کیا کہ بچوں کو مار ڈالا۔ ایک شخص نے کہا اے اللہ کو رسولﷺ وہ مشرکوں کے بچے تھے، آپ ﷺنے فرمایا تم سب میں سے بہترین مشرکوں کے بچے ہیں”۔اور ابو داؤدنے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:۔«انطلقوا باسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله، لا تقتلوا شيخاً فانياً، ولا صغيراً ولا امرأة، ولا تغلوا، وضموا غنائمكم، وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنين»"نکلو اللہ کے نام اور اس کی مدد کے ہمراہ اور اللہ کے رسول ﷺکے عقیدے پر، کسی کمزور بوڑھے کوقتل نہ کرنا اور نہ ہی کسی بچے کو، اور نہ کسی عورت کو، اور نہ ہی تم حد سے تجاوز کرنا۔ اور مال غنیمت کو اکٹھے جمع رکھنا،نیک اعمال کرتے رہنا، اور احسان کرنا، بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے”۔ یہ احادیث جنگ میں چند مخصوص اعمال سے منع کرتی ہیں،لہٰذا جنگی پالیسی کو حجت بناتے ہوئے یہ اعمال کرنا جائز نہیں۔بلکہ یہ اعمال صرف نصوص میں وارد طریقے کے مطابق کیے جا سکتے ہیں۔ایسی نصوص موجود ہیں جو ان اعمال کوتوپوں کے استعمال اور بمباری میں جائز قرار دیتے ہیں ، اور جو کچھ
بھی بھاری چیزوں کے ذریعے فاصلے سے پھینکا جائے، اگرچہ اس کے باعث بچے اور عورتیں بھی مارے جائیں،اگر ملے جلے ہونے کی وجہ سے ان کو مارے بغیر کفار تک پہنچنا ممکن نہ ہو۔ بخاری ،صعب بن جثامہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ«أن رسول الله ﷺ سئل عن أن أهل الدار يبيتون من المشركين فيصاب من نسائهم وذراريهم قال: هم منهم»” رسول اللہﷺ سےمشرکین کے گھروں میں رہنے والوں کے متعلق سوال کیا گیا کہ ا ن میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : "وہ انہی میں سے ہیں”۔ صحیح ابنِ حبان میں صعب بن جثمہ سے روایت ہے کہ «سألت رسول الله ﷺ عن أولاد المشركين أن نقتلهم معهم, قال: نعم فانهم منهم»"میں نے رسول اللہﷺ سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا کہ کیا ہم انہیں مشرکین کے ساتھ قتل کر دیں؟ تو رسول اللہﷺ نے کہا،:”ہاں ، وہ انہی میں سے ہیں”۔ترمذی نے ثور بن یزیدسے روایت کیا ہے کہ «أن النبي ﷺ نصب المنجنيق على أهل الطائف»”رسول اللہﷺنے اہلِ طائف پہ منجنیق(ایسا آلہ جِس کے ذَریعے پتھر پھینکے جاتے تھے) نصب کی۔ اور جب منجنیق سے وار کیا جاتا ہےتو وہ عورتوں ،بچوں،درختوں وغیرہ میں تفریق نہیں کرتی جو اس بات کی دلیل ہے کہ بھاری ہتھیار جیسے توپ اور
بم جب جنگ میں استعمال کیے جائیں توان کے ذریعے قتل کرنا اور چیزکوبے دریغ تباہ کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح اگر عورتوں اور بچوں کو قتل کیے بغیر کفار تک پہنچنا ناممکن ہو، تو ان کے اختلاط کے سبب ان کو مارنا جائز ہے۔ منجنیق کے استعمال یا ایسے حالات کے علاوہ جن میں لڑنے والے کفار اور دیگر کے مابین تفریق ممکن نہ ہو ،تو ان اعمال کوکرنے کے بارے میں موجود نصوص کے مطابق تفصیل موجود ہے۔بچوں سے متعلق یہ ہے کہ مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ ان کا قتل مطلقاً حرام ہے۔ اور اسی طرح العسیف، یعنی اجرت پہ کام کرنے والا ملازم جو مجبوراً کسی قوم کے ساتھ ہو کیونکہ وہ کمزوروں میں سے ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ان دونوں کے قتل کی ممانعت قطعی طور پہ وارد ہوئی ہے اور اس میں کوئی علت بھی موجود نہیں ہے۔ عورتوں کے متعلق دو صورتیں ہیں:اگر وہ جنگ میں شریک ہو تو اس کا قتل جائز ہے اور اگر جنگ میں شریک نہ ہو تو اسے قتل کرنا جائز نہیں۔ احمداور ابوداؤدنے رباح بن ربیعؓ سے روایت کیا ہےکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے جس میں خالد بن ولیدہراول دستے میں موجود لڑائی لڑ رہے تھےتو رباح اور دیگر صحابہ کا گزر ایک مقتول عورت پر ہواجسے صف اول کے سپاہیوں نے قتل کیا تھا، تو وہ اسے دیکھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوئے، یہاں تک کہ اللہ کے رسولﷺ اپنی سواری پر پہنچے تو وہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے۔ رسول اللہﷺ اس عورت کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا «ما كانت هذه لتقاتل، فقال لأحدهم: إلحقْ خالداً فقل له: لا تقتلوا ذرية ولا عسيفاً»"یہ لڑنے والوں میں سے نہیں تھی، پھر ان میں سے ایک کو کہا کہ خالدؓ سے ملو اور کہو کہ بچوں اور اجرت پر کام کرنے والوں کو مت ماریں”۔
پس رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ”یہ لڑنے والوں میں سے نہیں تھی”، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر وہ لڑنے والوں میں سے ہوتی تواسکا قتل جائز ہوتا۔ یہ حدیث لڑائی نہ کرنے کو اس عورت کے قتل کی ممانعت کی علت بتاتی ہے۔ اور اسکی تائید عکرمہ کی روایت سے بھی ہوتی ہےجسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے کہ«مر بامرأة مقتولة يوم حنين فقال: من قتل هذه، فقال رجل أنا يا رسول الله غنمتها، فأردفتها خلفي فلما رأت الهزيمة فينا أهوت إلى قائم سيفي لتقتلني فقتلتها، فلم ينكر عليه رسول الله ﷺ» ” حنین کے دن رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک مقتول عورت پر ہوا تو آپﷺنے پوچھا اسے کس نے قتل کیا ہے؟ ایک شخص نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے اس کو غنیمت کے طور پر قابو کیا اور اپنے پیچھے رکھا، جب اس نے ہماری ہار دیکھی تو مجھے قتل کردینے کی نیت سے میری تلوار کی طرف بڑھی ،تب میں نے جواباً اسے قتل کر دیا۔تو اللہ کے رسول ﷺ نے اس کا انکار نہیں کیا”۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر عورت لڑائی کرے توا سے قتل کرنا جائز ہے جبکہ دوسری صورت میں جائز نہیں۔ اور جہاں تک کمزور بوڑھے کا تعلق ہےتو اگر اس میں کفار کے لیے کوئی فائدہ یا مسلمانوں کے لیے کوئی ضرر موجود نہیں ہے تو اسکا قتل جائز نہیں۔اور اگر اس میں کفار کے لیے فائدہ اورمسلمانوں کے لیے ضرر موجود ہو تو اس صورت میں قتل کرنا جائزہے۔جیسا کہ احمداور ترمذی نےسمرة ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا «اقتلوا شيوخ المشركين واستحيوا شرخهم» "مشرکوں میں سے بوڑھوںکو قتل کرو اور بچوں کو چھوڑ دو”۔ اور جیسا کہ بخاری نے ابو موسیؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ جب اللہ کے نبیﷺ حنین سے فارغ ہوئے تو ابو عامرؓ کواوطاس کے لشکر کی جانب بھیجا ، تو ان کی ملاقات درید بن الصمۃ سے ہوئی جس کی عمر سو سال سے زائد تھی اسے انہوں نے جنگی حکمت عملی تیار کرنے کے لیےبلایا ہوا تھا، تو ابو عامرؓ نے اسے قتل کردیا۔ اللہ کے نبیﷺ نے اس قتل کا انکار نہیں کیا۔ یوں انسؓ کی حدیث کو اُس کمزور بوڑھے پر محمول کیا جائے گا جس کا کفار کو کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان ہے، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
یہ وہ معاملات ہیں جن کے متعلق ممانعت وارد ہوئی ہے لہٰذا ان کو نہیں کیا جائے گا مگر نص کے مطابق۔اور جو عمل بھی مسلمان، دشمن کفار کے ساتھ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں جب تک یہ عمل حالت ِجنگ میں کیا جائے، چاہے یہ عمل حلال تھا یا جنگ کی صورت کے علاوہ حرام۔ اس بات سے کوئی عمل مستثناء نہیں ہے سوائے اس کے جس کی ممانعت عام ہواور اس میں تخصیص نہ ہو، جنگ میں یا امن میں ، مثلا زناً۔
حزب التحریرکی کتاب
الشخصیہ الاسلامیہ
جلد دوم سے منقول
ختم شد