پاکستان میں اسلامی تعلیم: ماضی اور حال
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان میں ‘اسلامی اسکول’ کی اصطلاح مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بنیادی سوال کے جواب پر ہی اتفاق نہیں پایا جاتا کہ کتنا اسلام پڑھایا جائے۔ اگر آپ کا کبھی کسی مدرسے یا اسلامی اسکول سے تعلق رہا ہوں تو ممکن ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ انتہاءپسند یا شدت پسند کا لفظ چسپاں کردیا جائے۔اصل میں ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا مدرسوں کی ہمیشہ سے یہی ساکھ رہی ہے، یا وہ حقیقت میں علم اور مطالعے کی معزز جگہ سمجھے جاتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ایسی ذی علم شخصیات اور علاقوں سے بھری ہوئی ہے جو لوگوں کی علم کی پیاس بجھانے کے لئے بہت مددگار تھیں۔ برصغیر میں اسلام کی پہلی بڑی توسیع بنوامیہ کے دور میں ہوئی جوعلم و دانش کے میدان میں ترقی کے لیے مشہور تھے۔ برصغیر میں اسلام کے باقاعدہ داخلے کے بعد سلطان غزنوی سے لے کر مغلوں تک مسلم حکمرانوں نے حکومت کی ، جن کو جنگجو، فاتحین اور بادشاہوں کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور ان کی طرف سے لوگوں کو تعلیم مہیا کرنے کی بے پناہ کوششوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ محمود غزنوی جوکہ خلیفہ کا والی تھا اور تعلیم کا بہت بڑا پشت پناہ تھا، اس کے دور حکومت میں لاہور تعلیم وثقافت کا عظیم مرکز بن گیا۔ اورلاہور "چھوٹا غزنی” کہلانے لگا۔ دہلی سلطنت کے دور میں مدرسوں کے نظام نے نمایاں ترقی حاصل کی جس نے پھر مغلیہ دور میں مزید ترقی پائی۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں تعلیم کی سہولت کم ازکم تین ذرائع سے میسر تھی۔ سرکاری ادارے ( مکتب اور مدارس کی شکل میں)، غیر رسمی ادارے (تعلیم کے نجی اداروں کی شکل میں) اور ذاتی استاد اور اتالیق(جو کہ معلم یا مؤدب کے نام سے جانے جاتے)۔
ایک تہذیب کے اعلیٰ ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ اس نے اپنے دور میں علم کے اعتبار سے کیا کچھ پیدا کیا اور اس کی آبادی کتنی تعلیم یافتہ تھی۔ ولیم ڈیل رمپل اپنی کتاب” دی لاسٹ مغلز” (2006)میں لکھتا ہے کہ دہلی علم و دانش کا مشہور مرکز تھا اور تقریباً 1850 ء تک وہ تہذیب و تمدن کی چوٹی پر رہا۔ اس وقت وہاں چھ بہت مشہور مدارس اور کم از کم چار دوسرے چھوٹے مدرسےموجود تھے، نو اخبارات اردو اور فارسی کے اور پانچ علمی رسالے، جو کہ دہلی کالج سے شائع ہوتے تھے، اَن گنت پرنٹنگ پریس اور ناشرین اور کم از کم ایک سو تیس یونانی طبیب وہاں موجود تھے۔ اس نے بیان کیا ہے کہ کرنل ولیم سلِیمَن William Sleemanاس بات کا اقرار کرتا ہے کہ دہلی کے تعلیمی مدارس میں دی جانے والی تعلیم غیر معمولی تھی۔
سلیمَن خود مغلیہ دارالحکومت دہلی کے اپنے دورے کے بارے میں لکھتا ہے کہ،” شاید ہی دنیا میں انڈیا کے محمدیوں کی طرح کوئی اور دوسری قوم ہو جس کے اندر علم اس طرح سرائیت کر گیا ہو۔ دفتر میں کام کرکے 20 روپے ماہانہ کمانے والا شخص بھی عام طور پر اپنے بیٹوں کو وزیراعظم کے مقابلے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ عربی اور فارسی زبانوں میں وہ علم حاصل کرتے ہیں جو ہمارے کالج کے نوجوان یونانی اور لاطینی زبان میں سیکھتے ہیں۔ یعنی صرف و نحو، خطابت اور منطق”۔
یہ اسلام کے دور حکومت میں برصغیر میں تعلیم کی تاریخ کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگ تعلیمی مدارس یا تعلیمی مراکز اس لیے نہیں جاتے تھے کہ نماز پڑھانے کے قابل امام بن جائیں، بلکہ ان اداروں سے حاصل ہونے والی ڈگری حکومتی اداروں میں نوکری حاصل کرنے کے لئے کافی ہوتی تھی۔
آج ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ تین طریقوں پر اسلامی تعلیم دی جاتی ہے: ا)عام سکول ب) اسلامی اسکول ج) دینی مدارس
ان میں سے کوئی بھی اس طرح استوار نہیں کیا گیا کہ بچے کو اس طریقے پر پروان چڑھایا جائے کہ وہ اپنی زندگی اس طرح گزارنے کے قابل بن جائے جس کا وہ حقدار ہے۔
عام اسکول: حقیقت میں یہ وہ ادارے ہیں جو برطانیہ نے سرکاری یارسمی تعلیم کے نام پر بنائے تھے۔ اسلامی تصورات پڑھائے جانے کی وجہ سے وہ مدرسوں کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آج کی حکومت بھی یہی سوچ رکھتی ہے۔ یہ اسکول دین کو دنیا کی زندگی سے الگ رکھتے ہیں اور دین کو محض ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور اس کو دنیا کے تمام معاملات سے علیحدہ رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف بچے سائنس میں ڈارون کی ارتقاء کی تھیوری پڑھتے ہیں اور دوسری طرف اسلامیات ، جس میں اللہ کو انسانوں کے خالق و مالک کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے، جہاں دین کو بندے اور قادرِ مطلق کے درمیان ایک ذاتی معاملے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔اسلامیات کی تمام کتابوں میں رسول ﷺ کی زندگی کے ایسے واقعات شامل کیے جاتے ہیں جو امن اور صبر کا درس دیتے ہیں، اس بات کو واضح کئے بغیر کے امن و سلامتی اور صبر اللہ کے حکم کی بجاآوری کے لئے تھا اور جب طاقت و قوت کے استعمال کی ضرورت پڑی تو فوری اور بھرپور اقدام کیا گیا۔ یہ اسکول اسلام کی بنیادی تعلیمات دینے سے بھی قاصر ہیں۔ اس کے نتیجے میں الجھن کا شکار اور کھوکھلی شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو اپنے دین سے شرمندہ ہیں، اس کو پسماندہ سمجھتی ہیں، وہ اسےایسا دین سمجھتی ہیں جو کہ موجودہ دور کے مسائل کا حل دینے کے قابل بھی نہیں اور نہ ہی آج کے دور سے مطابقت رکھتا ہے۔
اسلامی سکول: یہ اسکول آج کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی دین سے دنیا کی علیحدگی (سیکولرازم) اور مدرسوں میں دی جانے والی غیر معیاری دنیاوی تعلیم کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ وہ والدین جو اپنی اسلامی اقدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے تھے اور اپنے بچوں کو مغربی ہونے سے بھی بچانا چاہتے تھے انہیں اسلامی اسکولوں میں کچھ وقتی امید نظر آئی۔ یہ اسکول چھوٹے بچوں میں اسلام کی محبت پیدا کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں مگر وہ اس محبت کو کوئی مقصد دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہاں بچوں کو اپنے دین، تاریخ اور مشہور شخصیات پر فخر محسوس کرنا تو سکھایا جاتا ہے مگر یہ نہیں سکھایا جاتا کہ وہ خود کس طرح آنے والی نسلوں کے لیے فخر کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ ماحول کو اسلامی بنانے اور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلا خمار اور جلباب کو فروغ دے کر، لیکن یہ بچے اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ اگر یہ صحیح رویہ ہے تو معاشرے سے غائب کیوں ہے؟یہ اس لیے ہے کہ تمام معاشرتی
برائیوں کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ ذاتی اصلاح کو سمجھا جاتا ہے۔ بچہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کے صحیح کام کرنے کے باوجود بھی وہ ایک آئیڈیل اسلامی معاشرے سے محروم کیوں ہے۔
ان سکولوں میں بھی وطنیت کو فروغ دیا جاتا ہے اور ملک اور علاقے کی محبت پیدا کرنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں۔ والدین کو بھی دی جانے والی تعلیم کے معیار پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، خاص کر ابتدائی تعلیم کے بعد۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سائنس، ریاضی اور انگریزی جیسے مضامین پڑھانے کے لئے ماہر استادوں کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ اسکول مہیا نہیں کرپاتے۔ ان میں سے زیادہ تر سکول میٹرک یا او لیول تک ہوتے ہیں اور یہاں سے فارغ ہونے کے بعد والدین اور بچے بھٹکتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنے اسلامی عقائد کو لے کر، اعلیٰ تعلیم کے لیے، اب کہاں جائیں۔ اس معاملے کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی اسکول کا انتخاب دراصل باقی برائیوں میں "چھوٹی برائی” کا انتخاب کرنا ہے۔
مدرسہ: ایک رپورٹ کے مطابق جس کا عنوان تھا "مدرسوں کا معمہ- پاکستان میں دینی تعلیم کا حال”، پاکستان میں مدرسوں کی تعداد 35 ہزار سے زیادہ ہے جو کہ قیامِ پاکستان کے وقت تین سو سے بھی کم تھی۔اس کے بڑھنے کی وجہ یہ نہیں کہ ریاست کو اپنے لوگوں میں اسلامی تعلیمات کی کمی کی فکر تھی، نہ ہی اس کی وجہ یہ تھی کہ ریاست مجبورتھی اور دینی پیشواؤں نے حکومت کے علم میں لائے بغیر دھوکے سے ان مدرسوں کو قائم کیا۔ نہیں، بلکہ یہاں معاملہ بالکل مختلف ہے۔یہ ہرگز وہ مدارس نہیں جو کبھی دنیا میں علم کا نمونہ ہوا کرتے تھے۔ جہاں اسلامی تعلیمات کو تجرباتی سائنس اور دوسرے مضامین کے ساتھ بہترین اور کُلی طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ اس کے برعکس جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان مدارس کو افغان جہاد کے لیے جنگجو پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ افغان جہاد کے اختتام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا کیوں کہ یہی ادارے مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ مفت کھانا بھی فراہم کرتے تھے جبکہ مدرسوں کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن حالات اس حد تک خراب ہوگئے کہ نہ صرف ان طلباء نے مستقبل کے دینی اسکالرزبننے کی قابلیت بھی کھودی بلکہ انہیں ریاست کے دشمن کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔ان کو بنیاد پرست اور شدت پسند جیسے القابات نوازے گئے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان مدارس پر خفیہ ایجنسیوں کی گہری نظر ہوتی ہے یہاں تک کہ کچھ مدارس ان کے چندوں پر چلتے ہیں اور کچھ کو صوبائی حکومت عطیات دیتی ہیں۔ یہ سارے چندے اور عطیات مدرسوں کے بچوں کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے نہیں دیئے جاتے بلکہ یہ ذہنوں کو کنٹرول کرنے کے حکومتی مقصد کو پورا کرنے اور ان کے نصاب کو اپنے قابو میں رکھنے اور سیکیولر ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
حکومت جانتی ہے کہ اسلامی عقیدہ اور ریاست کی سیکولر پالیسی آپس میں ہم آہنگ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ان مدرسوں سے خوفزدہ رہتی ہے۔ اور مد رسوں میں دی جانے والی تعلیم کو تین مقاصد تک محدود رکھنا چاہتی ہے: نماز کی امامت، نکاح خوانی اور نماز جنازہ کی امامت۔اور جب کبھی بھی کوئی مدرسہ مقررہ حدود کو پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے، حکومت انہیں دوسروں کے لئے نشان عبرت بنا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر 2008 میں جامعہ حفصہ میں ہونے والا واقعہ ۔ جب ایک مدرسہ نہ صرف میدان جنگ بن گیا، کیونکہ اس نے اسلامی ریاست کی غیر موجودگی کی مخالفت کی، بلکہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے حکم پر وہاں کے طلبہ کے قتل و غارت سے یہ معاملہ اختتام پذیر ہوا۔
مدارس کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آج تک درس نظامی استعمال کرتے ہیں۔اس میں حدیث ،فقہ اور تفسیر کے ساتھ ساتھ ریاضی، فلکیات، منطق اور فلسفہ پڑھائے جاتے ہیں۔ جبکہ وہ علم الحدیث کی باریکی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مدرسہ کے ایک شاگرد نے بتایا کہ حدیث کے راویوں کی تصدیق پر توجہ نہیں دی جاتی، جبکہ یہ اسلامی سائنس کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں دی جانے والی تعلیم، طلباء کو اسلامی اصول اور قوانین کی محدود اور جزوی سمجھ دیتے ہیں اوراس بات کی سمجھ پیدا نہیں کہ جاتی کہ یہ قوانین حقیقی زندگی میں کیسے استعمال ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہاں پڑھایا جانے والا سائنسی مواد دقیانوسی اور فرسودہ ہے۔ اگرچہ مدرسے سے ملنے والی عالم کی ڈگری، عربی یا اسلامیات میں ایم ۔اے کی ڈگری کے برابر ہوتی ہے لیکن ان کے لیےملازمت کے کوئی خاص مواقع میسر نہیں ہوتے۔
اگر ہم1882 کی لیٹنر رپورٹ (Leitner’s Report)کا جائزہ لیں تو یہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ صرف پنجاب میں 330000 بچےعربی اور سنسکرت اسکولوں اور کالجوں میں تمام طرح کی سائنسز پڑھتے تھے… اس کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ
اور طب کی اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جاتی تھی”۔1857 کے بعد جب برطانوی نظامِ تعلیم نے اپنی جڑیں جما لیں تو اس طریقہ تعلیم کے طلباء کی تعداد گھٹ کر190،000 رہ گئی۔بہرحال اس خطے کے نظامِ تعلیم کے متعلق لیٹنر کا تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ یہ طریقہ تعلیم ا س تعلیمی نظام سے کہیں بہتر تھا جو 1835 میں انڈین کالونی کے لیے،لارڈمیکالے کے بیانیے کے نتیجے میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلمان اسلامی حکومت میں کہیں زیادہ خوشحال اور محفوظ تھے جبکہ آج ہمارے اسکولوں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ مغل شرابی اور عیاش حکمران تھے۔ جبکہ حقیقت میں انہوں نے ایسا نظام تشکیل دیا جو لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتا اور وہ نظام انسانی عقل کی پیداوار یا ایجاد نہیں تھا بلکہ اسلام کا دیا ہوا تھا۔ یقیناً ان کے دور حکومت میں ہر گاؤں کو ایسے استاد مہیا کیے جاتے تھےجو بچوں کو عربی پڑھاتے اور سکھاتے تھے۔اس کے علاوہ یہ نظام نہ صرف مسلمانوں کا بلکہ وہاں رہنے والے ہندو عوام کا بھی خیال رکھتا تھا۔
ہمیں چاہئے کہ ہم تاریخ کو اس طرح دیکھیں جیسے اس کا مشاہدہ کیا جانا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی تاریخ کی حقیقی تصویر دکھائیں۔یہ ہم پر ان کا حق ہے کہ ہم ان کو وہ روشنی دکھائیں جو ان کے مسائل کو حل کرے اور ان کی زندگیوں کو مقصد دے۔ ان کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ دین اور دنیا دو الگ چیزیں نہیں بلکہ وہ دونوں آپس میں ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا دونوں ہی کو کھو دینے کا سبب بنے گا۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنوں! آئیے ہم سب اس امت کے مستقبل کے کو بچانے کے لیے ایک دوسرے کا بازو بنیں اور حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ تعلیم سے کھلواڑ چھوڑ دے۔
آئیں ہم مل کر خلافت کے شاندار نظام کو واپس لانے کے لیے جدوجہد کریں جو کبھی دنیا کو اسلام کی روشنی سے منور کرتا تھا۔ کیونکہ صرف اللہ کی وحی پر مبنی نظام ہی اللہ کی رضا حاصل کرنے کے ہمارے مقصد میں ہمارا مددگارہوگا۔صرف یہی نظام لوگوں کو ایسے مواقع
فراہم کرے گا کہ وہ ایک منصف معاشرے میں، ایسے
حکمران کے تحت زندگی گزاریں جس میں وہ اس دنیا سے بھی لطف اندوز ہوسکیں اور یہی معاشرہ ،ان کے لیے اللہ کی رحمت کے سائے میں، آخرت کا اجروثواب حاصل کرنے میں بھی مددگار ہو۔اللہ کے رسول محمد ﷺ نے فرمایا:
ما من امیریلی امورالمسلمین ثم لا یجھد لھم وینصح لھم الا لم یدخل معھم الجنۃ
"ایسا حکمران جسے مسلمانوں کے معاملات میں اختیار حاصل ہواور وہ حددرجہ جاں فشانی سے ان کی بہتری کے لیے کوشش نہیں کرتا اور اخلاص کے ساتھ ان کی خدمت و خیر خواہی نہیں کرتا تو وہ ہر گز ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا” (مسلم)
اخلاق جہاں
مرکزی میڈیا آفس
حزب التحریر
ختم شد