امریکا کے ساتھ کوئی ڈبل گیم نہیں کی جارہی،پاکستان امریکا کی ماتحت ریاست ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کافی عرصے سے پاکستان میں آنے والی مختلف حکومتیں یہ تاثر دیتی رہی ہیں کہ وہ امریکا کے ساتھ ڈبل گیم یعنی دھوکا کررہیں ہیں۔ یہ حکومتیں ایسا اس لیے کہتی رہی ہیں کیونکہ وہ مسلسل پاکستان کے مسلمانوں کے مفادات کو امریکی مطالبات کو پورا کرنے کے لیے قربان کرتی آ رہیں ہیں۔ لہٰذا اس غدارانہ عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انھوں نے یہ مو قف اپنائے رکھا کہ وہ ڈبل گیم کر رہیں ہیں تا کہ اپنی غداری پر پردہ ڈال سکیں ۔ افغانستان میں جاری جنگ اور افغان طالبان کے حوالے سے پاکستان کے خلاف انتہائی سخت امریکی بیانات حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے ڈ بل گیم کے تاثر کو بظاہر تقویت پہنچاتے ہیں۔ لیکن مشرف کے دور سے لے آکر آج تک و قوع پذیر ہونے والے سیاسی حقائق کے تفصیلی اور گہرے تجزیےسے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے امریکا کے ساتھ کوئی ڈبل گیم نہیں کی گئی۔ درحقیقت پاکستان اپنے تمام معاملات میں امریکا کی ماتحت ریاست ہے ۔
اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ریاستیں مختلف اسالیب اور طریقے اختیار کرتی ہیں۔ ریاستوں کی جانب سے اہداف کے حصول کے لیےمنصوبوں کی تشکیل ایک عمومی پالیسی ہوتی ہے۔ یہ منصوبے عام طور پر طویل مدت کے لیے بنائے جاتےہیں اور یہ کم ہی تبدیل ہوتے ہیں لیکن ان منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے اختیار کیے جانے والے اسالیب تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اسالیب یا طریقہ کار ایک مخصوص پالیسی ہوتی ہے جس کا تعلق اس منصوبے کی تفصیلات یا جزیات سے ہوتا ہے۔ یہ اسالیب اس منصوبے کی تکمیل یا اس کی مضبوطی کے لیے معاون ہوتے ہیں۔ تو ریاست اپنے ہدف کا تعین کرتی ہے جسے وہ حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ منصوبے کا دوسرا حصہ اس ہدف کو حاصل کرنے کی عملی تفصیلات ہوتی ہیں۔
2008
سے افغانستان کے لیے امریکا کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ افغانستان کے مسئلے کے لیے ایک ایسے سیاسی حل کے حصول کے لیے کام کررہا ہے جہاں طالبان کو بھی کابل کی حمایت یافتہ حکومت کا حصہ بنایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا کو اس بات کی آزادی ہو کہ وہ افغانستان میں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھ سکے۔ ان فوجی اڈوں کو اس بہانے بر قرار رکھا جائے گا کہ کابل حکومت نے اپنی بقاء کو یقینی بنانے کے لیے انہیں بر قرار رکھنے کی درخواست کی ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے امریکا نے مذاکرات اور فوجی آپریشنز دونوں اسلوب اختیار کیے۔ اوباما کی پہلی مدت صدارات میں پینٹاگون اوباما کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں مزاحمت کاروں کو کمزور کرنے کے لیے فوجی آپریشنز کا اسلوب اختیار کیا جائے، اور اس طرح مزاحمت کاروں کو سیاسی حل کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جاسکے گا جبکہ دوسری جانب ان مذاکرات میں امریکا مضبوط پوزیشن سے بات کرسکے گا اور اس کی مرضی کاسیاسی حل نکل سکے گا۔
لیکن پاکستان اور افغانستان میں فوجی آپریشنز کے ذریعے مزاحمت کاروں کو کمزور کرنے میں ناکامی، امریکا میں افغان جنگ کا غیر مقبول ہونااور دنیا کے دیگر معاملات میں امریکا کودرپیش چیلنجز ، جیسا کہ ابھرتا ہوا چین، مشر ق وسطیٰ اور عرب ممالک میں انقلاب کی تحریکیں، عالمی معاشی تنزلی اور شمالی کوریا کا مسئلہ، عالمی معاملات میں چیلنجز میں اضافےنے امریکا کو افغانستان میں اپنے اسلوب کو بدلنے پر مجبور کیا۔ اب امریکا اپنے ہدف کے حصول یعنی افغانستان میں اپنے فوجی اڈوں کو برقرار رکھنے کے ہدف کے حصول کےلیے فوجی اسلوب کو چھوڑ کر کابل میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کی زیر سرپرستی مذاکرات کے اسلوب کو اپنانے کی راہ پر چل پڑا ہے۔
9/11 کے بعد سےایک کے بعد ایک آنے والی پاکستان کی حکومتیں امریکا کی وفادار رہیں اور اس کے مفادات کے حصول کے لیے فوری حرکت میں آتی رہیں بلکہ 9/11 سے پہلے بھی یہی صورتحال تھی۔ ماتحت ریاست کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ جس عالمی ریاست کی ماتحت ہوتی ہے اسی کی پالیسیوں کی پیروی کرتی ہےاس بات سے قطع نظر کہ وہ پالیسی یا عمل اس کے لیے نقصان کاباعث ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے ایک تقریرمیں، جو کہ اسلامی حوالاجات سے بھر پور تھی، اس بات کا اعلان کیا تھا کہ پاکستان امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ پاکستان میں افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف انتہائی مضبوط عوامی رائے پائی جاتی ہے،مشرف نے پاکستان کے بنیادی مفادات کاتعین کیا اور پاکستان کے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ پاکستان کے ان مفادات پر کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔ 19 ستمبر2001 کومشرف نے کہا ” ہمارے اہم مفادات ہماری خودمختاری،دوسرا ہماری معیشت، تیسرا ہمارے اسٹریٹیجک اثاثے(ایٹمی اور میزائل ) ،اور چوتھا کشمیر ہے”۔ آنے والے سالوں میں پاکستان کےان چاروں مفادات کو امریکی احکامات کی پیروی میں پاکستان کے حکمرانوں نے نظر انداز کر دیا ۔
مشرف کی حکومت کی جانب سے افغان مزاحمت میں متحرک پختون قبائل کے خلاف شروع کیے گئے فوجی آپریشنز نے پاکستان کی معیشت کو ہلاکررکھ دیا ۔ ان فوجی آپریشنز کو بعد میں آنی والی حکومتوں نے بھی جاری رکھا ۔ پاکستان اکنامک سروے کی 17-2016 کی رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان نے اندازہ لگا یا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو 123.13ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جو کہ پاکستان کی کُل ملکی پیداروار کا 40 فیصد بنتا ہے۔ امریکا کے ساتھ کیے گئے خفیہ معاہدے کے تحت پاکستان کے حکمرانوں نے امریکا کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ پاکستان کی خودمختاری کو تار تار کرتے ہوئے اس کی سرزمین پر پختون مزاحمت کاروں کے خلاف ڈرونز استعمال کرسکتا ہے۔
اس کے بعد امریکانے پاکستان کے حکمرانوں کی اجازت سے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف فضائی حملہ کیا۔ جب ڈاکٹر عبد القدیر پریہ الزام لگا کہ انہوں نے ایٹمی راز مختلف ریاستوں کو فروخت کیے ہیں تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی زبردست جانچ پڑتال اور اس پر تنقید کی گئی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ادارتی قدغنیں لگانے کے لیے امریکا نے اس مو قع کو استعمال کیا۔ واشنگٹن نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کے کمانڈ اینڈ کنڑول اسٹرکچر کو مضبوط بنانے لیے طریقہ کار واضح کرے، اور اس طرح امریکا کو مو قع ملا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کرسکے۔ مشرف نے کشمیری جہادی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا اور اس کے دور میں پاکستان کی ریاست نے ہندو ریاست کے ساتھ نارملائزیشن کی پالیسی اختیار کر کے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا – مشرف کے بعد ہر آنے والی حکومت نے اسی پالیسی کو جاری و ساری رکھا۔
پاکستان کی افغانستان کے معاملات میں قابل ذکر مداخلت کی ابتدا اس و قت ہوئی جب امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر بزین سکی نے افغانستان کے لیے منصونہ بنایا ۔ امریکی سی آئی اے اور پاکستان کی آئی ایس آئی کے مشترکہ اشتراک سے ایسی کارروائیاں کیں گئیں جس کے ذریعے امریکا نے سوویت یونین کوافغانستان پرحملے کے لیے ا کسایا۔ اس کے بعد امریکا نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو حمایت فراہم کرنے کے لیے پاکستان کواستعمال کیا جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ افغان جنگ کے حوالے سے امریکا کامنصوبہ یہ تھا کہ اس جنگ اور اس کے حوالے سے کارروائیوں کو پاکستان کے حوالے (Out source)کردیاجائے۔ امریکا نے جنگ کی منصوبہ بندی، عمل درآمد، اسلحے اور افراد کی نقل و حمل اور اس جنگ کے فکری پہلو کی آبکاری میں پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس کومکمل طور پر ملوث رکھا۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں ایک متحرک اور موثر ادارتی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے بہت بڑی کوشش درکار تھی۔ اس ادارتی ڈ ھانچے نے ایک طرف تو نظریاتی طور پر پاکستان اور افغانستان کے معاشرے کو جہاد کی حمایت کے لیے تیار کیا تو دوسری جانب اس نے پاکستان اور افغانستان میں ہزاروں قبائلی مردوں کو افغان جہاد میں شریک ہونے کے لیے تربیت فراہم کی۔ اس ادارتی ڈھانچے کے ذمے جہادیوں کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے کے لیے قابل بھروسہ نقل و حمل کا ڈ ھانچہ کھڑا کرنا بھی شامل تھا۔ ا س دور میں افغانستان کے لیےامریکاکامنصوبہ یہ تھا کہ افغانستان کے لیے امریکی منصوبے کی تمام ذمہ داریاں پاکستان کے حوالے کی جائیں۔
امریکی پالیسی ساز اس بات کا بالکل اندازہ نہیں لگا سکے کہ خطے میں یہ جہادی گروہ امریکا کے مفادات کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ۔ افغان جنگ کو پاکستان کے حوالے کرنے سے پاکستان کی افواج اور انٹیلی جنس میں ایسے آفسران کی ایک پوری نسل تیار ہو گئی جو افغانستان کے امور میں پاکستان کی مداخلت کو ادارے کے مفاد کے طور پر دیکھتے تھے۔ اس بات کی امریکا نے 1980 سے 2000 تک حوصلہ افزائی کی۔ پاکستان کا افغان امور میں اس قدر تفصیلی طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے امریکا اس قابل ہوا کہ سوویت یونین کو شکست دےاور اس کے جانے کے بعد افغانستان میں استحکام لا سکے۔ اس دور میں پاکستان کے فوجی منصوبہ سازوں نے بھارت کے خطرےکے انسداد کے لیے افغانستان میں پاکستان کی موجودگی کو لازمی قرار دیا۔ جنرل اسلم بیگ نے پہلی بار افغانستان کے لیے "اسٹریٹیجک ڈیپتھ” (تضویراتی گہرائی) کی اصطلاح استعمال کی ۔ بھارت کے حملے کے خطرے کے پیش نظر اور پاکستان کی جغرافیائی موٹائی کی کمی کی وجہ سے ایک دفاعی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں پاکستان کے فوجی اثاثوں کو رکھنے کا تصور پیش کیا گیا۔
اگرچہ اس فوجی تصور پر عمل کبھی نہیں ہوا لیکن یہ تصور پاکستان میں بہت مشہور ومعروف رہا اور اس کی بنیاد پر پاکستان افغانستان کے معاملات میں اپنی مداخلت کا جواز اپنی عوام کے سامنے پیش کرتا رہا۔ لیکن جب امریکا میں نیو کنزرویٹوز ا قتدار میں آئے تو انہوں نے افغانستان کے حوالے سے نیا منصوبہ پیش کیا جس کے تحت پاکستان اور افغانستان میں موجود جہادی گروہوں اور ان کو حمایت فراہم کرنے والے ڈھانچوں کو ختم یا انتہائی کمزور کرنا امریکی پا لیسی کا حصہ بن گیا ۔ پاکستان کی حکومت نے فوراً نئےامریکی مطالبات کو تسلیم کیا اور انتہائی جلد بازی میں افغان جہاد کو حمایت فراہم کرنے والے ادارتی ڈھانچوں کو ختم کرنا شروع کردیا۔ اس کا آغاز مشرف کے دور میں ہوا جب اس نے افواج پاکستان اور اس کے انٹیلی جنس اداروں سے ان افسران کو نکالنا شروع کردیا جو افغان جہاد میں ادارے کی جانب سے فرائض ادا کرتے رہے ۔ مشرف نے ایسے افسران کی تر قیاں روک دیں ، انہیں جلدی ریٹائر کردیا یا انہیں غیر جنگی یاکم اہم امور پر تعینات کردیا ، یاپھر سیدھا سیدھا فارغ کردیا۔پاکستان کی افغان پالیسی اور جہادی گروہوں کے حوالے سے اس نئی انقلابی تبدیلی،جسے اس دور میں "یو ٹرن”بھی کہا گیا، کی وجہ سے عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے جہاں پاکستان کی حکومت نے کئی دلائل پیش کیے وہیں امریکا کے ساتھ "ڈبل گیم”کا تصور بھی پیش کیا۔ ڈبل گیم یہ تھی کہ پاکستان سرکاری طور پر افغانستان میں امریکا کی مکمل مدد و معاونت کرے گا لیکن خفیہ طور پر اسے افغانستان میں ناکام کرنے کے لیے کام کرتا رہے گا۔
پاکستان کے حکمرانوں کی امریکا سے وفاداری کاسب سے بڑا ثبوت وہ جامع ادارتی اصلاحات ہیں جو مشرف حکومت اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے روشناس کرائیں تا کہ افغان جہاد کوحمایت فراہم کرنے والے ڈھانچے ختم ہو جائیں ۔ یہ اصلاحات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان امریکا کی ماتحت ریاست ہے۔ پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے ریاست کے اداروں اور ڈھانچوں کی سمت تبدیل کی تا کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا جاسکے۔ وہ ادارتی اصلاحات جو کہ پاکستان کے حکمرانوں نے امریکا کی کہنے پر کیں اور جس نے پاکستان کی ریاست کو تبدیل کردیا ان میں سے کچھ یہ ہیں:جہادی گروہوں کو کالعدم قرار دینا، 17 ویں آئینی ترمیم جس نے مشرف کی جانب سے اٹھائے گئے ان اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کیا جو اس نے افغانستان میں امریکی جنگ کو مدد فراہم کرنے کے لیے اٹھائے تھے، 21ویں آئینی ترمیم جس کے تحت پاکستان میں فوجی عدالتیں قائم کیں گئیں تا کہ ان لوگوں پر مقدمات چلائے جائیں جنہیں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، ایسے قوانین لائے گئے جس کے تحت ایسی خصوصی عدالتیں بنائیں گئیں جہاں ان افراد پرمقدمات چلائے گئے جنہیں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا قیام اور انسداد دہشت گردی کے قوانین میں تبدیلیاں، تعلیمی اصلاحات، انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی، نئے آئینی اداروں کا قیام جیسا کہ نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی، پبّی میں نیشنل کاونٹر ٹیرر ازم ٹرینگ سینٹر کا قیام ، پاکستان آرمی کی گرین بک میں تبدیلی کہ بھارت کو اب دشمن نمبر ایک کی پوزیشن سے ہٹا کر جہادی خطرے کو نمبر ایک خطرہ قرار دیا گیا، فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور ایشیا پیسیفک گروپ کے دباؤ پر منی لانڈرنگ اور کانٹر ٹیررازم فائنینسنگ کے قوانین کو سخت بنانا۔
پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات سوویت یونین کے افغانستان سے جانے کے بعد شروع ہوئے جب پاکستان نے انہیں افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے میں مدد فراہم کی تا کہ وہاں پر استحکام پیدا ہو۔ یہ اسی امریکی منصوبے کا تسلسل تھا جس کے تحت پاکستان نے امریکا کی جانب سے افغانستان کے معاملات چلا نا تھے۔9/11 کے بعد امریکا نے افغانستان کے حوالے سے اپنے منصوبے میں تبدیلی کی اور افغانستان میں اپنی براہ راست موجودگی قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے امریکا نے افغانستان کے امور کی براہ راست دیکھ بحال کی ذمہ داری پاکستان سے واپس لے لی۔ لیکن اس سے پہلے کہ امریکا افغانستان میں استحکام پیدا کرسکتا، وہ عرا ق کی جنگ میں ملوث ہوگیا جہاں وہ ایک ایسی دلدل میں پھنس گیا جس کی وجہ سے وہ افغانستان پر زیادہ توجہ مرکوز نہ رکھ سکا۔ اس صورتحال نے طالبان کو مو قع فراہم کیا کہ وہ ایک بار پھر منظم ہوں اور انہوں نے شہادت کے حصول کے شو ق کے ساتھ امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت شروع کردی ۔ بش کے دورِ حکومت کے اختتام پر امریکا کی افغانستان میں تقریباً 30 ہزار افواج موجود تھیں جو اوباما کے دور میں بڑھ کر ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد بڑھا کر جوش جذبے سے بھر پور افغان طالبان کے خلاف براہ راست لڑنے کی امریکی پالیسی بُری طرح سے ناکام ہوئی۔ امریکا افغان مزاحمت کو کچلنے میں ناکام رہا۔ امریکا نے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے پاکستان میں موجود ان ڈھانچوں کے خلاف فوجی آپریشنز کرائے جو افغان جہاد کو حمایت فراہم کرتے تھے لیکن اس سے بھی اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان میں افغان جہاد کو حمایت فراہم کرنے والے ڈ ھانچوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حکمرانوں نے طالبان قیادت کو حمایت اور رہنے کے لیے ٹھکانے فراہم کیے کہ ان پر وہ کچھ نہ کچھ اپنا اثرورسوخ بر قرار رکھ سکیں۔ عوامی بیانات میں امریکی حکام کا پاکستان سے یہ کہنا کہ وہ طالبان قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرے درحقیقت طالبان قیادت پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اس طرح کے بیانات کے ذریعے امریکا طالبان قیادت کویہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر انہوں نے امریکی مطالبات تسلیم نہ کیے تو وہ ان پر کس قسم کا دباؤ ڈال سکتا ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کی تعدادمیں اضافے اور پاکستان کے ذریعے فوجی آپریشنز کر اکر طالبان کو فوجی لحاظ سے دباؤ میں لانے کی پالیسی کی ناکامی کے بعد اس قسم کے عوامی بیانات طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ میں اضافہ کرتے ہیں اور اب امریکا پاکستان کے اس اثرورسوخ کو افغانستان میں سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ درحقیقت یہ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کا انتہائی ا ہم ترین حصہ ہے جس کے تحت پاکستان کے اثرورسوخ کو استعمال کرکے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔
افغان طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ کو امریکا اپنے ایک اثاثےکے طور پر دیکھتا ہےجسے وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی حکام نے حالیہ دنوں میں کئی بار بات کی ہے۔ 2 اکتوبر 2018 کو واشنگٹن میں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان ملا قات کے بعد امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ہیتر نویرٹ نے کہا کہ اعلیٰ سفارت کاروں نے "اس بات پر زور دیا کہ پاکستان افغانستان میں بات چیت کے ذریعے حل کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے”۔ حال ہی میں طالبان رہنما ، ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان کے حکام کی جانب سے رہائی ملنا اسی جانب ایک قدم ہے۔ یہ رہائی امریکی نمائندہ خصوصی برائےا فغانستان مفاہمت ، ذلمے خلیل زاد کی دوہا میں طالبان کے رہنماوں سے ملا قات کے بعد عمل میں آئی جس میں افغان تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے کئی آپشنزپر بات چیت کی گئی۔ یہ بات واضح رہے کہ اگرچہ پاکستان کا افغان طالبان پر کچھ اثرورسوخ ہے لیکن بحثیت مجموعی طالبان مزاحمت پر پاکستان کا مکمل اثروسوخ نہیں ہے۔ افغان طالبان قیادت کسی حد تک آزاد ہے۔ یہ وہ آزادی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے "ڈبل گیم” کے حوالے سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ طالبان مزاحمت پاکستان کے مکمل اور فیصلہ کن کنٹرول میں نہیں ہے۔
پاکستان کسی حد تک ضرور طالبان قیادت پر اثرورسوخ رکھتا ہے۔ امریکا یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اس اثرورسوخ کو افغانستان میں سیاسی حل تک پہنچنے میں استعمال کرسکتا ہے جس کے تحت وہاں اس کے فوجی اڈے بر قرار رہیں۔ پاکستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلہ پر آوا ز بلند کریں تا کہ افغان طالبان اس سازش کا شکار نہ ہوجائیں۔ مسلمانوں کو طالبان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ اپنے رب سے مخلص رہیں تا کہ وہ مذاکرات کی میز پرمیدان جنگ میں جیتی ہوئی جنگ نہ ہار دیں ۔ اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کریں تا کہ پاکستان کی زبردست صلاحتیں مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت اور اسلام کی بالادستی کے لیے استعمال ہو سکیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ﴾”تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تم تو غالب ہو۔ اور اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم (اور گم) نہیں کرے گا” (محمد:35)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا کے لیے
انجینئر معیز – پاکستان
ختم شد