انسانیت کے لئے بہترین تعلیمی نظام کامل نظریہ حیات(آئیڈیالوجی) سے پیدا ہوتا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: آمنہ عابد
تعلیم انسانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ نسلوں کے تصورات پر اس کا اثر ہوتا ہے۔تعلیم کے پیچھے کارفرما مقصد اس نظریہ حیات (آئیڈ یالوجی)کی طرف سے مقرّر ہوتا ہے جس کی نمائندگی ریاست کرتی ہے۔لہٰذا نظریہ حیات تعلیم کے لئے رہنما ہدایات فراہم کرتا ہے۔ اس طرح موجودہ مختلف نظریائے حیات جیسے کہ سرمایہ داریت، کمیونزم اور اسلام کے بھی مختلف اہداف ہیں جو وہ تعلیم کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔
اسلام تاریخی اور منطقی طور پر ثابت شدہ وہ واحد حقیقی نظریہ ہے جسے انسان نے نہیں بنایا۔ یہ انسانیت کی تاریخ کا پہلا نظریہ حیات ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلا نظریہ حیات ہےجو زندگی کے بارے میں ایک جامع حکم پیش کرتا ہے۔ اسلام وحی اور اسلامی عقیدہ پر مبنی ہے اور تمام انسانی معاملات کو اُن کی فطرت کے عین مطابق منظم کرتا ہے۔ اسلامی نظریہ یہ حکم دیتا ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کو رکھے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِيَعۡبُدُونِ﴾
"میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں”
(الضریات 51:56)
اس طرح جو ریاست اسلامی نظریہ پر مبنی ہوتی ہے وہ تعلیم کا مقصد مضبوط اسلامی فہم رکھنے والی نسلیں پیدا کرنا قرار دیتی ہے۔ اس طرح نوجوانوں اور بالغوں کو ایک اسلامی طریقہ کار اور رویے کو اپنانے کے لئے تربیت دی جائے گی۔ لہٰذا اسلام میں سرمایہ دارانہ نظریہ کی طرح تعلیم کا مقصد معاشی نظام کے لئے افرادی قوت پیدا کرنا نہیں ہوتا۔بلکہ اسلام مضبوط طاقتور اسلامی شخصیات پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو معاشرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور دنیا بھر میں شاندار اسلامی نظریات کو پھیلاتے ہیں۔
اسلامی تعلیمی نظام شخصیت سازی اور معلوماتِ عامہ کے حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ دونوں حصّے سیکھنے والوں میں ایک روشن خیال سوچ اور رویہ پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ نوجوان زندگی کو سمجھنا سیکھتے ہیں اور جو کچھ سیکھا ہے اُسے حقیقت سے جوڑتے ہیں اور اس طرح آج کل کے موجودہ منفی رویوں کے مسائل سے محفوظ رہتے ہیں ۔ مزید برآں، ریاست تعلیم کو کاروبار کے طور پر لے کے نہیں چلتی۔ لہٰذا ، اسلامی تعلیمی نظام میں ابتدائی اسکول سے ہائی اسکول تک ریاست کے تمام لوگوں کو بغیر فیس کے تعلیمی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔یونیورسٹی میں بھی فیس نہیں ہوتی یا پھر بہت مناسب ہوتی ہے۔ ریاست بھر میں یکساں تعلیمی نظام ہوتا ہے، نجی اسکولوں اور خصوصی اسلامی اسکولوں (مدرسے) کے نصاب میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی اختلاط نہیں ہوتا، چاہے طلباء ہوں یا اساتذہ، اور عمارتیں اور سیکھنے کا مواد بھی بہترین ممکنہ طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔ عربی زبان ریاست کی سرکاری زبان ہے، لہٰذا ہر شخص قرآنِ کریم کی زبان مؤثر طریقے سے سیکھ سکتا ہے اور شاید مجتہد بھی بن جائے۔ اسلامی ڈھانچے میں رہتے ہوئے تعلیم مرد اور عورت دونوں کو ایک ہی طریقے سے فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ خواتین ایک مضبوط اسلامی شخصیت بن جائیں کیونکہ وہ معاشرے پر بہت زیادہ اثر رکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے خواتین کی تعلیم کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ اسلامی تاریخ میں عظیم مسلمان خواتین جو تعلیم سے وابستہ رہی ہیں کی ایک مثال نبی ﷺکی ازواج مطہرات میں سےعائشہ ؓ ہیں جو صحابہؓ کو نبی ﷺ کی احادیث پڑھاتی تھی۔ ایک اور مثال فاطمہ الفحری کی ہے جنہوں نے دنیا کی پہلی یونیورسٹی قائم کی۔ انہوں نے مختلف سطحوں پر ڈگری جاری کرنے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا ماڈل بھی متعارف کیا۔
اسلامی تعلیمی نظام سائنس، طب، فلکیات، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں نئی تحقیق سے بھی وابستہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ریاست ان افراد کو تربیت دے گی جن کے اذہان اور ہنر مندی شہریوں کو فائدہ پہنچائے گی اور خلافت کو بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ مقام پر پہنچنے میں مدد فراہم کرے گے۔ اس نظامِ تعلیم کے ساتھ خلافت صنعتی جدّت، صحت کی دیکھ بھال، فنِ تعمیر اور انسانی وجود کے دیگر عملی مطالبات میں دنیا کی قیادت کرے گی۔ اسلامی نسل میں صلاحیت ہو گی کہ وہ تمام دنیا کو سیکولر حکومتوں کی پیدا کردہ جہالت اور تاریکی سے نکال کر اسلام کی روشن دنیا میں لے آئیں اور زندگی کے حقیقی معنیٰ سمجھائیں۔
تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ان لوگوں میں مکمل تبدیلی لے آتا ہے جو اس سے منسلک ہوتے ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ تبدیلیاں کتنی دور از اور باقی رہنے والی تھی۔ اس کے علاوہ، اسلام نے تمام لوگوں ، عربی اور عجمی، کو ایک جسم (اُمّت) کی مانند متحد کر دیا۔ انسانیت کی تاریخ میں کسی بھی وقت پر کسی تہذیب یافتہ قوم نے ایسا نہیں کیا۔ انسانیت پر اسلامی معاشرے کے اثرات مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام سے شروع ہوئے۔ پہلے صرف افراد ہی اسلام سے متاثر ہو سکتے تھے۔ ریاستِ خلافت کی صورت میں اسلام کے مکمل نفاذ سے ہی اسلامی معاشرے کا انسانیت پر ایک متاثر کن اثر ہوا۔ قرونِ وسطیٰ میں اسلامی معاشرہ دیگر معاشروں سے، جو مکمل اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے، الگ کھڑا نظر آتا تھا۔ اسلامی ثقافت اور مسلمانوں کی تعلیم نے قرون ِ وسطیٰ اور اُس سے پہلے کے تمام معاشروں کی حیثیت کم کر دی۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ خلافت کا دوبارہ قیام ہو تا کہ مسلمان اور پوری انسانیت ایک شاندار ترقی حاصل کر سکے۔
بدقسمتی سے مسلمان نوجوانوں کو سیکولر ممالک کے نوجوانوں کی طرح تاریک مستقبل کا اندیشہ ہے۔موجودہ اسکول کا نظام سیکولر اور جمہوری اقدار پر مبنی ہے۔ اسلامی اسکول اسلام کو محض ایک رسم و روایت کی مانند سکھاتے ہیں۔ یہ سب مسلمان نوجوانوں کو تباہ کرتا ہے اور انہیں حقیقی اسلامی تعلیمی نظام سے واقف نہیں ہونے دیتا۔ والدین اپنے بچوں کو اسلامی نصاب سکھانے اور انہیں اسلامی تعلیم کے حقیقی معنیٰ سمجھانے کے لئے کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس سے مضبوط اسلامی شخصیات کی نسل حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس سے اسلام اور معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔
اس وجہ سے دنیا کو ایک مضبوط تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو شروع سے ذہنی طور پر نوجوانوں کو تیار کرتا ہے، انہیں زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور انہیں مایوسی والی زندگی گزارنے نہیں دیتا۔ دنیا کو ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو مضبوط اسلامی شخصیات پیدا کرے جو اسلامی پرچم پوری دنیا میں لے جا سکیں۔ اس طرح کا تعلیمی نظام صرف اس وقت سامنے آ سکتا ہے جب ایک ریاست اسلامی نظریات کو اپنائے اور اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر تعلیمی نظام کی بنیاد، اہداف اورڈھانچہ قائم کرے: جو زندگی کا صحیح نظریہ ہے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے آمنہ عابد کی جانب سے لکھا گیا۔
ختم شد