پاکستان کا آبی مسئلہ: اصل حقیقت اور حل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: عمر شريف
نسلِ انسانی کی بقاء اورنشو ونما جن چیزوں پر منحصر ہے اُن میں پانی سب سے اہم ضرورت ہے۔ کسی بھی علاقے میں پانی کی کمی یا اِس کا نہ ہونا انسانی زندگی کو شدید متاثر کرتا ہے یا پھر اِس کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی کا شور پچھلے تقریبا30-25سال سے سُنائی دے رہا ہے اور کچھ بین الاقوامی تحقیقی اداروں کے مطابق تو پاکستان 2025تک پانی کی شدید قلّت کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا اور اِسکی بڑھتی ہوئی آبادی اور گھٹتی ہوئی زراعت کے لیے پانی کا حصول مزید مشکل صورتِ حال سے دو چار ہو جائے گا۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت آنے والی تمام سِول اور فوجی حکومتیں و سائل کے ہوتے ہوئے اِس اہم مسئلہ سے بھی اُسی طرح پہلوتہی کرتی رہیں جسطرح مسلم امت کے باقی اہم مسائل سے پوری مسلم دنیا کی مقامی حکومتیں کرتی چلی آرہی ہیں۔ پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومتوں نے کبھی تو اِس مسئلہ کی جڑ بھارتی آبی جارحیت کو قرار دیا۔ کبھی اِس کا الزام مختلف صوبائی رہنماؤں کے ذاتی اور سیاسی مفادات پر ڈال دیا اور کبھی تو عوام کی جانب سے پانی کے غیر محتاط اور بے جا استعمال کے سَر تھونپ دیااور آج بد قسمتی سے اِس مسئلہ کی شدّت اِس حد تک دکھائی گئی کہ ملک کی عدلیہ کے سر براہ یعنی چیف جسٹس کو اِس مسئلہ کے حل کے لیے ڈیم بنانے کی مہم کا آغاز کرنا پڑا اور اِس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اُنہیں اپنا وقت اِس صورتِ حال میں دینا پڑا کہ جب اُنکے اپنے ادارے یعنی پاکستانی عدالتی نظام میں لاکھوں مقدمات کئی سالوں سے زیر التواء ہیں اور وہ خود انگریز سا مراج کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کی ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں۔
کیا واقعی پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہے؟ کیا واقعی بھارتی آبی جارحیت اِس مسئلہ کی سب سے بڑی وجہ ہے؟ اِس مسئلہ کی شدّت کو بڑ ھانے اور لوگوں کے آبی مسائل میں اضافے میں ہماری سرمایہ دارانہ حکومتوں کی اپنی نا اہلی اور سُستی کتنی ہے؟ آج کا یہ مضمون اِن سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اِس مضمون میں اِس بات پر بھی بحث کی جائے گی کہ ڈیموں کی تعمیر سمیت جدید ٹیکنا لوجی کے وہ کون سے و سائل ہیں جو خصوصی طور پر زراعت کے میدان میں پانی کی کمی کا مسئلہ حل کرتےہیں۔اور انشاء اللہ آنے والی ریاست خلافت کس طرح اِسلام کی روشنی میں جدید ٹیکنالوجی سمیت تمام وسائل بروئے کار لا کر باقی مسائل کی طرح اِس مسئلہ کو بھی حَل کرے گی۔
جہاں تک اِس مسئلہ میں بھارتی کِردار کا تعلق ہے،تو قرآن ِ پاک کی تعلیمات ہمیں واضح طور پر آگاہ کر تی ہیں کہ مسلمان اِسلام دشمنی میں یہودیوں اور مشرکین کو بد ترین پائیں گے اوریہ ہمارے لیے کوئی زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ہمارے مشرک ہمسائے نے جب بھی اور جہاں بھی موقع ملا پاکستان کی مسلم عوام کو پریشانی اور مشکل سے دو چار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ پاکستان کے آبی مسئلہ میں بھارتی کردار جاننے کے لیے ہمیں 1947 میں تقسیمِ بر صغیر کو مختصر اًدیکھنا ہوگا۔ تقسیمِ ہندکے وقت ہندو اور مسلم آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا مشرقی حصّہ بھارت جبکہ مغربی حصّہ پاکستان کے حصّے میں آیا۔ بھارتی پنجاب کی دو تحصیلیں فیروز پور اور زِ را ،جو کہ پاکستانی پنجاب سے ملحقہ ہیں ریڈ کِلف ایوارڈ جو کہ تقسیم شدہ علاقوں کو واضح کرتا تھا ،کے مطابق مسلم آبادی کی اکثریت ہونے کی وجہ سے پاکستان کے حصّے میں آئیں۔ اِس ریڈ کِلف ایوارڈ کا اعلان 13 اگست 1947 کو ہونا تھا مگر اِ سے جان بوجھ کر چند دنوں کے لیے روک دیا گیا اور 17 اگست کو اِس کا اعلان کیا گیا۔اِ ن چار دنوں میں ریڈ کِلف ایوارڈ میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی گئیں ۔جن کا نقصان براہِ راست نوزائید ہ ریاست پاکستان کو ہوا ۔اِن تبدیلیوں میں سے ایک یہ تھی کہ مسلم اکثریت والی یہ دونوں تحصیلیں یعنی فیروز پور اور زِ را بھارت کو دے دی گئیں ۔ اگر یہ تحصیلیں پاکستان کے پاس آجاتیں تو دریائے ستلج کے کنارے سے بھی آگے تک کا حصّہ پاکستان کے کنٹرول میں آجاتا اور نہ صرف یہ کہ پاکستانی علاقوں کو سیراب کرنے والے فیروز پور تحصیل میں موجود فیروز پور بیراج اور دیپالپور نہر کے ہیڈ ورکس پاکستان کو مل جاتے بلکہ گنگا کینال جو بھارتی راجھستان کے کئی علاقوں کو سیراب کرتی ہے کا کنٹرول بھی پاکستان کے پاس ہوتا۔ جبکہ اِس صورت میں 1960 میں طے پانے والاسندھ طاس معاہدہ ( Indus Water Treaty )جس میں پاکستان کے آبی حقوق کو بُری طرح پا مال کیا گیا اُسکی شکل وہیبت اور بنیادی ڈھانچہ بھی مکمل طور پر تبدیل ہوتا اور نہ ہی پاکستان کو تین مشرقی دریاؤں یعنی ستلج، بیاس اور راوی کے پانی سے مکمل طور پر دستبردار کیا جاتا لیکن پاکستان کی اُس وقت کی سیاسی قیادت نے نہ تو اِن تحصیلوں کو زبر دستی بھارت کو دینے پر کوئی خاطر ِ خواہ احتجاج کیا اورنہ ہی کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے بلکہ”جو مل رہا ہے اُسے غنیمت سمجھو” کے تصور کے تحت اِسکو مِن و عن قبول کرلیا۔ اُس وقت کے رہنماؤں کی سیاسی نا بالیدگی نے پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔
31 مارچ 1948 کو بھارت نے پاکستان آنے والی دو اہم نہریں جو اَب سنٹرل باری دو آب نہریں کہلاتی ہیں کو بند کر دیا۔ اِن کی ایک شاخ لاہور کے درمیان سے گزرتی تھی جبکہ دوسری مرکزی شاخ فیروز پور روڈ پر للیانی کے مقام کو کراس کرتی تھی اور پورے لاہور ڈویژن کو سیراب کرتی تھی۔ اِس کے بعد 15 اپریل 1948 کو یعنی صرف 15 دنوں بعد ہی فیروز پور تحصیل جو کہ اب بھارت کا حصّہ تھی میں موجود فیروز پور ہیڈ ورکس سے نکلنے والی دیپالپور کینال کو بھی بند کر دیا گیا۔ یہ دیپالپور کینال پاکستانی پنجاب کے وسیع علاقے کو سیراب کرتی تھی اِس نہر کے اچانک بند ہو جانے سے ایک طرف تو وہ لاکھوں مہاجرین شدید متاثر ہوئے جنہیں عارضی طور پر حکومت ِ پاکستان نے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے اِرد گرد بسایا تھااِ ن ہزاروں ایکڑ زمین پر کھڑی گندم کی فصل تباہ ہو گئی بلکہ چاول، کپاس اور گنے کی فصل بھی پانی نہ ملنے سے نہ بوئی جا سکیں۔ اِن تین اہم نہروں کے اِسطرح بند کردیے جانے پر پاکستان کی سیاسی قیادت کو اپنی سیاسی غلطی کا پہلی بار احساس ہوا مگر پانی سر سے گزر چکا تھا۔
اپنے حق کو بزور شمشیرلینے کی بجائے ایک بار پھر وہی گِھسا پٹا مذاکرات کا راستہ اپنا یا گیا اور پاکستان کے اُس وقت کے وزیر خزانہ غلام محمد اور دو وزراء ممتاز دولتانہ اور سر دار شوکت حیات پر مشتمل وفد کو بھارت بھیجا گیا جہاں پر اِن نہروں کو کھلوانے کے لیے مذاکرات شروع کیے گئے اور 4 مئی 1948 کو ایک ایسے معاہدہ پر دستخط کیے گئے جِسکو اِس مسئلہ کا علاج سمجھاگیا مگر یہ علاج بیماری سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا اِس معاہدے کے تحت نہریں کھلوانے کے عوض اِس سارے پانی پر بھارت کے حق کو تسلیم کر لیا گیااور اِس بات پر آمادگی ظاہر کر دی گئی کہ پاکستان اپنے علاقوں کو سیراب کر نے کے لیے متبادل ذرائع اور نہروں کی تعمیر کرے گا جبکہ اُس وقت تک موجودہ تین نہروں میں پانی جاری کرنے اور اِسے پاکستانی علاقوں تک پہنچانے کے بدلے اس کے اخراجات بھی بھارت کو ادا کرے گا اِس طرح وہ پانی جس سے پاکستانی علاقے سیراب ہوتے تھے اور لاکھوں ٹن اناج مہیا کرتے تھے اُسکا مکمل حق پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو دے دیا گیا۔
اِس وفد کی واپسی پر بجائے اِسکے کہ پوری قوم کو حقیقت سے آگاہ کیا جاتا اِس پر پردہ ڈالا گیا اور اپنی نااہلی چھپاتے ہوئے ایک طرح سے آبی ایمر جنسی کا اعلان کر دیا گیا۔ جنگی بنیادوں پر موجودہ BRB نہر کی کھدائی اور تعمیر کا اعلان کیا گیا تاکہ اِسکے ذریعے دریائے چناب کا پانی پاکستانی پنجاب کے اُن وسیع علاقوں کی زرعی زمین تک پہنچایا جائے جو اِس سے پہلے اُن تین نہروں سے سیراب ہوتی تھی جسکا کنٹرول اب بھارت کے پاس تھا۔ اِس BRBنہر کی تعمیر اور کُھدائی کو ایک اہم قومیفریضہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ لوگوں کے جذبہ حُب الوطنی کو بڑھانے کے لیے ریڈیو پاکستان ، اخبارات اور سیاسی رہنماؤں کی تقاریر کے ذریعے اِس نہر کی اہمیت اور مسلمانوں سے ہندو ریاست کی دشمنی کو جواز بنا کر پیش کیا گیا،اِس نہر کی کُھدائی کے لیے طلباء یہاں تک کہ طالبات کو بھی بلا لیا گیا (آج بھا شا ڈیم کی تعمیر کے لیے بھی پاکستانیوں کے مال کو ریاستی وسائل کا حصّہ بنانے کے لیے اِسی جذبہ حب الوطنی کا سہارا لیا جا رہا ہے اور اُ سی طرح آبی ایمر جنسی کا اعلان کیا جا چکا ہے) لیکن اِسBRBنہر کی تعمیر بھی پانی کی اُس کمی کو پورا نہ کر سکی جو اُن تین نہروں سے آتا تھا جن کا کنٹرول بھارت کے پاس تھا۔
پانی کی کم ہو تی ہوئی مقدار اور اِسکے با وجود بھارت سےپانی پاکستان کو دینے اور پہنچانے کی قیمت ادا کر نے کی غلطی کا احساس جلد ہی پاکستان کو ہو گیا اور پاکستان نے اِس معاہدہ پر 1950 میں مزید عملدار آمد کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف پانی کی کمی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ اراضی اور لاکھوں مہاجرین بھی مشکلات کا شکار تھے جبکہ پاکستان اپنے رہنماؤں کی سیاسی غلطیوں جن میں بھارت سے بھارت کی شرائط پر مذاکرات بھی شامل تھے کی سزا بھگت رہا تھا یہی وہ وقت تھا جب عالمی طاقتوں نے اِس معاملے میں کِردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ امریکی ریاست Tenessee کے ایک آبی ادارے Tenessee Valley Authority (TVA) کے سابق چیئر مین David Lilienthal نے1951 میں پاکستان اور بھارت کے آبی تنازعہ پر ہنگامی دورہ کیا جو Indus Water Treaty کی بنیاد بنا۔ David Lilienthal نے دونوں ممالک میں پانی کے مسئلے کا جائزہ لینے کے بعد 1951 میں ہی Colliers Magazine میں ایک مضمون لکھا۔”Another Korea in the Making” ، اِس مضمون میں اِس نے پاکستان میں پانی کی بگڑتی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اُس نے اس مضمون میں لکھا کہ” بھارت کی جانب سے پانی کی بندش سے پاکستان ایک زبر دست تباہی سے دو چار ہو سکتاہے جبکہ پانی کے مسئلہ پر دونوں ممالک کے درمیان کوئی معاہدہ کشمیر میں مزید جنگ کے خطرے کو ٹال سکتا ہے اور خطّے میں ترقی لا سکتا ہے۔” پھر اِس نے اِس معاہدہ اور تصفیہ کے لیےWorld Bank کا نام تجویز کیا جو کہ اپنی سر براہی میں پاکستان اور بھارت دونوں کے ماہرین کو ساتھ ملا کر کسی حل تک پہنچے ۔ اِسکے ورلڈ بینک کے صدر Eugene Black نے اِس معاملے پر پیش رفت شروع کی اور دونوں ممالک کی حکومتوں سے رابطے کیے۔Indus Water Treaty کے نام پر دس سال مذاکرات چلتے رہے ۔ پاکستان کو کئی مرتبہ محسوس ہوا کہ اِس معاہدے میں ایسی کئی دفعات ہیں جن میں پاکستان کی نسبت بھارت کو زیادہ فائدہ پہنچا یا جا رہا ہے کئی مرتبہ یہ مذاکرات تعطّل کا شکار ہوئے کیونکہ پاکستان کی طرف سے اُسکے کئی خدشات کاتدارک نہیں کیا گیاتھامگر آخر کار کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے بعد اِس معاہدہ پر اتفاق کر لیا گیا اور صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم نہرو نے کراچی میں ورلڈ بینک کی سر براہی میں اِس پر دستخط کر دیے۔ اِس معاہدے کو تفصیل سے دیکھنے کے بعد کوئی بھی ذی شعور اِس میں پاکستانی حکومت اور اداروں کی سیاسی غیر پختگی اور نا اہلی کا ادراک کر سکتا ہے۔ 1948 میں ہندوستان صرف اُن تین نہروں پر اپنا حق جتا رہا تھا حالانکہ اِن نہروں کا صرف ٪20 پانی بھارت اور ٪80 پانی پاکستان میں بہتا تھا مگر 1960 کے Indus Water Treaty میں اِن تین نہروں کے ساتھ ساتھ تین دریا ستلج، بیاس اور راوی پر بھی بھارت کا حق تسلیم کر لیا گیا یہ وہ دریا ہیں جن میں سالانہ 33 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ بہتا تھا جس میں سے پاکستان 25 ملین ایکڑ فٹ اور بھارت صرف8 ملین ایکڑ فٹ استعمال کرتا تھا ۔ اِس معاہدے کے بعد پاکستان کا اِن تینوں دریاؤں پر حق مکمل طور پر ختم کر دیا گیا جبکہ پاکستان کوملنے والے تین دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ میں سے دو یعنی جہلم اور چناب کا نقطہ آغاز بھی بھارت کے زیر ِ تسلّط کشمیر میں ہے۔ اِس معاہدے کے تحت پاکستان اِس بات کا بھی پابند تھا کہ وہ اپنے اُن علاقوں کو اب مغربی دریاؤں سے سیراب کرنے کے لیے متبادل نہروں کی کُھدائی اور تعمیر کا کام شروع کرے جو اِس سے پہلے مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے ذریعے سیراب ہوتے تھے۔ اِسکے علاوہ پاکستان کو مغربی دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر اور دریائے سندھ سے بھی نہریں اور پانی کے Channels نکال کر اپنی زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک طویل اور محنت طلب کام کو انجام دینا تھا۔ اِس سارے کام کے لیے کئی سال اور اربوں ڈالرز کی ضرورت تھی۔ ورلڈ بینک نے اپنی سر براہی میں چھ ممالک سے پاکستان کے 1.3 بلین ڈالرزحاصل کیے جسکا کچھ حصّہ امداد اور کچھ قرض کی شکل میں پاکستان کو دیا گیا تاکہ وہ مغربی دریاؤں سے نہروں کی تعمیر کے ذریعے اپنے علاقوں کو سیراب کر سکے۔ اِن چھ ممالک میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل تھے جب کہ بھارت سے محض 620,60000 برطانوی پاؤنڈ حاصل کر کے اِسے ہمیشہ کے لیے تین مشرقی دریاؤں سمیت تینوں نہریں بھی دے دی گئیں اور جیسے پہلے بھی بتایا گیا کہ اِن تین نہروں کا 80% پانی پاکستان میں بہتا تھا۔ اور بھارت کو یہ تین دریا بھی اس حقیقت کے باوجود دیے گئے کہ اِس کے پاس اِن دریاؤں کے علاوہ 9 بڑے دریا اور اِن سے نکلنے والی بے شمار Tributaries یعنی چھوٹے دریا اور پہلے سے تعمیر شدہ ایک نسبتاً بہتر نہری نظام تھا جو بھارت کے تقریباًتمام علاقوں کو سیراب کر تا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان اِس معاہدہ میں کسی اختلاف کے پیش نظر فیصلہ کن کِردار ثالث کے طور پر ورلڈ بینک کو ہی دیا گیا۔ اِس معاہدے میں واضح طور پر یہ دکھائی دیتا ہے کہ بھارت کو ہر طرح سے فائدہ پہنچا اور یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگوں اور بے شمار اختلافات کے با وجود بھارت اِس معاہدے کو توڑ نا نہیں چاہتا کیونکہ یہ معاہدہ ایک طرف تو اِسے فائدہ پہنچاتا ہے جبکہ دوسری طرف اُسے پاکستان پر غلبے کا راستہ دیتا ہے۔اِس معاہدے کے ہو تے ہوئے بھی بھارت پاکستان کے دو دریاؤں جہلم اور چناب پر اپنے علاقے میں نصف درجن سے زائد پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی بنانے کے منصوبے یا تو مکمل کر چکا ہے یا وہ زیرِ تکمیل ہیں جن میں سے زیادہ تر اِس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں کیونکہ یہ منصوبے پاکستان کے اندر جہلم اور چناب میں پانی کے بہاؤ کو کم کر دیتے ہیں اور پاکستانی اعتراضات کے با وجود ورلڈ بینک کبھی بھارت کو اُ ن منصوبوں کو ختم کرنے پر مجبور نہیں کر سکا۔
سندھ طاس معاہدے میں بین الاقوامی طاقتوں کے کردار کو اس پس منظر کی بنیا دپر سمجھا جا سکتا ہے کہ پچاس کی دہائی سےپاکستان کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہونا شروع ہو گیا اور ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان مضبوطی سے امریکی مدار میں گردش کرنے لگا جبکہ دوسری طرف بھارت کانگریس کی حکومت کے تحت برطانیہ کے زیر اثر تھا۔ امریکہ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں مضبوط کرنا چاہتا تھا اور اسے پاکستان کے آبی مسئلے پر تشویش بھی تھی لیکن تاریخی طو رپر ورلڈ بینک پر امریکہ کی بجائے یورپ کا اثر ورسوخ موجود رہا ہے یہی وجہ ہے کہ دریاؤں اور پانی کی تقسیم کے مسئلے پر ورلڈ بینک کی ثالثی نے پاکستان کی بجائے بھارت کو زیادہ فائدہ پہنچایا کیونکہ بھارت امریکہ کی بجائے برطانیہ کے قریب تھا۔ آج جب علاقائی صورتِ حال تبدیل ہو چکی ہے اور بھارت بی جے پی حکومت کے زیر قیادت امریکہ کے دائرہ اثر میں جا چکا ہے ،اور خطے میں امریکہ ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں پس امریکہ پاکستان کو کمزور رکھنا چاہتا ہے اور بھارت کو علاقائی طاقت کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے جوپاکستان پر حاوی ہو، تو آج پاکستان کے پانیوں پر بھارت کا کنٹرول امریکہ کے مفاد میں ہے ۔
آئیے اب اِس حقیقت کو دیکھتے ہیں کہ کیا پاکستان میں پانی کی کمی کا سبب اوپر بیان کیے کر دہ صورتِ حال ہی ہے، یا اِسکے با وجود پاکستان کے پاس ہر سال پانی کی اتنی مقدار موجود ہوتی ہے جو اِسکی زراعت سمیت تمام ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ آبی وسائل سے متعلق دستیاب حقائق اور اعداو شمارسے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ پانی کی قلّت کی وجہ سے نہیں بلکہ پانی کے ضائع ہونے، موجودہ نہری نظام جسے 70-1960 کی دہائی میں بنایا گیا تھا کے Upgrade اور مرمّت نہ ہونے سے بوسیدہ ہو جانے ، پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور ریاستی اداروں کی بے حسّی ، نا اہلی اور لالچ کی وجہ سے ہے۔ اِسکی ایک اور بڑی وجہ صوبوں کے آپس میں اور مرکز کے ساتھ عدم اعتماد بھی ہےجس کی جڑیں فیڈرل طرزِ حکومت میں پیوست ہیں۔ پاکستان انڈس واٹر سسٹم جس میں جہلم اورچناب کے دریا بھی شامل ہوتے ہیں بارشوں اور پہاڑوں پر برف کے پگھلنے سے کم و بیش 144 ملین ایکڑفٹ پانی سالانہ لے کر آتا ہے۔ اِس میں 104 ملین ایکڑفٹ پانی ہماری زرعی ضروریات کے لیے آبپاشی کے نظام کی طرف موڑ دیا جا تا ہے جسے پاکستان میں موجود ڈیموں، بیراجوں، نہروں اور اُنکے کھالوں کے ذریعے استعمال کیا جاتاہے جبکہ باقی 39 ملین ایکڑ فٹ پانی پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا سمند میں جا گرتا ہے ۔ زراعت کے لیے مختص 104 ملین ایکڑ فٹ میں سے بھی زیادہ تر پانی بوسیدہ نہری نظام کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہےایک کے بعد دوسری آنے والی فوجی و جمہوری حکومتوں نے اِس نظام کی بہتری اور اِسے Upgrade کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی۔ نہری راستوں کی Lining یعنی نہروں کے فرش اور اطراف کو پختہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم ہر سال 104 ملین ایکڑ فٹ میں سے تقریباََ 44 ملین ایکڑ فٹ پانی Seepage کی وجہ سے ضائع کر دیتے ہیں یعنی یہ پانی ہمارے کھیتوں اور فصلوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ آبی تحقیق بتاتی ہےکہ غیر پختہ نہریں یا Unlined Canals ٪50-30 پانی منزل تک پہنچا نے سے پہلے ہی کھو دیتی ہیں اور پھر نہروںاور آبی راستوں کے فرش اور اطراف میں یہی جذب شدہ پانی آس پاس کے زرعی اور رہائشی علاقوں کے لیے Water Logging, Salinity یعنی سیم و تھور کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ 3 ملین ایکڑ فٹ پانی Evaporation اور دوسرے مسائل کی وجہ سے ضائع ہو تاہے ۔جبکہ باقی 57 ملین ایکڑ فٹ جب ہمارے کھیتوں اور فصلوں تک پہنچتا ہے وہاں پر بھی حکومتی اداروں کی طرف سے کسانوں کی تربیت نہ ہونے اور فصلوں کو پانی دینے کی جدید ٹیکنا لوجی استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اِس پانی کا ایک بڑا حصّہ بے جا اور غیر ضروری استعمال سے ضائع ہو تا ہے جبکہ وہ علاقے جو نہری راستوں سے زیادہ فاصلے پر ہوتے ہیں یا آبی راستوں کے نچلی جانب ہوتے ہیں پانی کے اِس ضیاع کی وجہ سے وہاں تک پانی کم پہنچ پا تا ہے اور یہاں کے کسان اپنی فصلوں کے لیے قدرتی طور پر اِس بہتے پانی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔اِن متاثرہ کسانوں کو کم پانی ملنے کی ایک اور وجہ نہروں کے قریب یا آبی راستوں کے بالائی جانب اُن زمینوں کا ہونا بھی ہے جو بڑے سرمایہ داروں اور وڈیروں کی ملکیت میں ہوتی ہیں اور وہ حکومتی اہلکاروں کے تعاون یا حکومتی بے حسّی کی وجہ سے پانی کے ایک بڑے حصْے کو اپنی ہی زمینوں پر استعمال اور ضائع کر دیتے ہیں مجبوراً چھوٹے اور غریب کسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اِس مصنوعی کمی کو پورا کرنے کے لیےٹیوب ویلوں کا سہارا لیتی ہے اور اِس طرح زیر ِ زمین پانی کا استعمال اُن کی مجبوری بن جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اِس وقت تقریباََ ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد ٹیوب ویل موجود ہیں جو زیر ِ زمین پانی کو ایک خطر ناک حد تک نکال کر استعمال کر رہے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق تقریباََ 42 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال اِن ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکالا جاتا ہے جسے زرعی ضروریات کے علاوہ پینے کے پانی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس مصنوعی کمی کو پورا کر نے کے ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکالے جا نے والے اِس پانی کی وجہ سے پاکستان میں زیرِزمین پانی کئی علاقوں میں خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے جبکہ اگر حکومت نہری نظام کی Upgradation کرے اور نہروں کی Lining کرے اور آبپاشی کے لیے جدید ٹیکنا لوجی کا استعمال کرے تو زیرِ زمین پانی نکالنے کی ضرورت شاذونادریا صرف چند مخصوص علاقوں میں ہی پیش آئے اور ہم اپنی ساری ضروریات دستیاب 104 ملین ایکڑ فٹ پانی سے پوری کرنے کے قابل ہوں۔
جہاں تک کراچی میں پینے کے پانی کی قلّت کا مسئلہ ہے وہاں اِس مسئلہ کا تعلق پانی کی کمی سے ہر گز نہیں بلکہ ٹینکر مافیا کی حکومتی اداروں اور اہلکاروں سے ملی بھگت ہے۔ اِس ٹینکر مافیا کو کئی لالچی اور مفاد پرست رہنماؤں کی پُشت پناہی حاصل ہے ۔ اِس معاملے میں حکومتی اداروں کی طرف سے پانی کے مسئلہ کو حل کرنے کی طرف اقدامات نہ کرنا باالواسطہ ٹینکر مافیا کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ عوام کو پانی کی مصنوعی قلّت دکھا کر مجبور کیا جا تا ہے کہ وہ ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خرید کر اپنی گھر یلو ضروریات پوری کریں جبکہ پانی کا ایک ٹینکر کراچی میں 3500- 2500 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ کراچی میں پانی عام طورپر حب ڈیم سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ماضی میں جب بھی بارشوں کی کمی کی وجہ سے حب ڈیم میں پانی کی مقدار کم ہوتی تھی تو دریائے سندھ کے پانی کا رخ حب ڈیم کی طرف ایک آبی راستے کے ذریعے موڑ دیا جا تا تھا اور کراچی کو پانی سپلائی کر دیا جا تا تھا مگر پچھلے چند سالوں میں جب بھی ڈیم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو دریائے سندھ سے پانی ڈیم میں پہنچانے کی بجائے خاموشی اختیار کرلی جا تی ہے تاکہ یہ مسئلہ شدّت اختیار کر جائے اور عوام کے پاس ٹینکر مافیا سے پانی خرید کر استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو۔ کراچی کے علاوہ دوسرے کئی شہروں میں بھی پینے اور گھر یلواستعمال کے لیے پانی کی کمی کا تعلق مجموعی طور پر پانی کے نظام کو بہتر بنانے میں حکومتی اداروں کی نا اہلی اور کر پشن سے ہی ہے یہاں تک کہ ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد میں بھی سال کے اکثر اوقات پانی کی کمی کا مسئلہ عوام کو شدید پریشان کر تا ہے۔ اِسی حکومتی نا اہلی اور کرپشن کی وجہ سے ہی کئی بڑے سرمایہ دار صاف پانی عوام کو مہیا کرنے کے نام پر منرل واٹر کی کمپنیاں بنا کر عوام کو وہی پانی جو کہ اُن کا حق تھا کڑوڑ ہا کڑوڑ روپوں میں بیچ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔
پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر بھی صوبوں اور مرکز کے درمیان شدید اختلاف کا باعث بنتی ہے۔ یہ خالصتاً تکنیکی مسئلہ ہے جسے تکنیکی ما ہرین کی آراء کی روشنی میں ہی حل ہونا چاہیے۔مرکز کا موقف یہ رہا ہے کہ اگر بالفرض اضافی پانی موجود نہ بھی ہو جو کہ سمندر میں گر کر ضائع ہو جائے تو وہ پانی جو شدید سیلاب کی صورت میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں زرعی زمین کو نقصان پہنچاتا ہوا سمندر میں جا گر تا ہے،اسے چھوٹے اور بڑے ڈیم بنا کر محفوظ کیاجا سکتا ہے۔ یہ ڈیم ایک طرف تو اِس پانی کے ذریعے سستی بجلی پیدا کر تے ہیں، زراعت کے لیے حسبِ ضرورت پانی مہیّا کر تے ہیں اور دوسری طرف سیلاب کی شدّت کو کم کرکے زرعی زمین اور فصلوں کو ہونے والے نقصان کو بھی کئی گناگھٹا دیتے ہیں۔ پاکستان میں دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا سمیت پانی کے دوسرے چھوٹے ذخیرے مجموعی طور پر صرف 17 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ جبکہ پانی ذخیرہ کرنے کی اِن کی گنجائش بھی Silting کی وجہ سے ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ تربیلااور منگلا ڈیم اِس Silting کی وجہ سے ہی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کا ٪33 کھو چکے ہیں۔ بننے والے نئے ڈیم اِن موجودہ ڈیموں پر شدید دباؤ کو بھی کم کریں گے اور مزید Silt کے آنے کی مقدار کم ہو کر اِن موجودہ ڈیموں کی قابلِ استعمال رہنے کی مدّت بھی بڑھا دیں گے۔ اسی موقف کی بنا پر نئی حکومت نے ڈیم بنانے کی مہم کا آغاز کیا تاہم صورتِ حال یہ ہے اِس کے پاس ڈیم بنانے کے لیے رقم دستیاب نہیں ہے اب یہ رقم یا تو بین الاقوامی اداروں سے اربوں ڈالرز قرض لے کر حاصل کی جائے اور اِس قرض اور اِسکے سود کی ادائیگی کے لیے کئی دہائیوں تک عوام پر مزید مہنگائی اور مزید ٹیکسوں کا نفاذ کر دیا جائے یا پھر یہ حکمران جذبہ حب الوطنی کا سہارا لے کر ایک مرتبہ پھر عوام کو ہی نچوڑیں اور اس خوف میں مبتلا کر کے ان سے پیسے بٹوریں کہ اگر انہوں نے نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے اربوں روپے اکٹھے کرکے حکومت کو نہ دیے تو اُنکی آنے والی نسلیں تباہ ہو جائیں گی ۔ نئے حکمرانوں نے ڈیموں کی تعمیر کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے یہی دوسرا راستہ پنایا ہے مگر صرف دیا میر بھاشاڈیم کے لیے درکار 1400 ارب روپے سے زائد رقم صرف عوام کی جیبوں سے نکلوانے کے لیے نہ جانے کتنے سال یا کتنی دہائیاں لگیں گی – ڈیم بنانے کا عمل اِس وجہ سے بھی ایک بہت مہنگاعمل ہو گیا ہے کہ 70 سالوں میں پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومتوں نے اداروں کی Structuring اور تربیت سازی کبھی اِس انداز سے نہیں کی کہ میگا پراجیکٹس کے لیے ٹیکنالوجی اور ماہرین مقامی سطح پر ہی دستیاب ہوں اور جب ہمیں اِسطرح کا کوئی میگا پرا جیکٹ بنانا ہوتا ہے تو ہمیں ٹیکنا لوجی اور ماہرین کے لیے بین الاقوامی ممالک یا اداروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ جو اِس کام کا بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔اتنی بڑی رقم صر ف عوام سے ہی اکٹھی کرنا جس پر یہ حکومت بضِد نظر آتی ہےایک انتہائی مضحکہ خیز بلکہ ظالمانہ عمل ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں جب بھی مشکل وقت ہویا مشکل فیصلہ کر نا ہو تو عوام نے حکومت کا ساتھ دیا ہے لیکن جب یہی مظلوم مگر مخلص عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اِن نا اہل حکمرانوں کو پُکارتے ہیں تو یہ حکمران بے حِسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ڈیموں کی تعمیر میں دوسرا بڑا مسئلہ صوبوں کے آپسی اور مرکز کے ساتھ اِس معاملے پر اختلافات ہیں۔ اِن اختلافات کی وجوہات ڈیموں کے تکنیکی معاملات سے زیادہ ایک دوسرے پر عدم اعتماد کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور یہی عدم اعتماد جمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے کیونکہ اِس نظام میں حصٌہ لینے والا ہر گروہ اِس نظام کے ساتھ جڑے ہوئے مفادات کا زیادہ سے زیادہ حصّہ وصول کرنا چاہتا ہے اور جب بھی ایسا ہوتا ہے تو کچھ دوسرے گروہوں کے مفادات بالخصوص اور عوام جو پہلے ہی لا تعداد مسائل کا شکار ہوتے ہیں اُن کے حقوق بالعموم شدید متاثر ہو تے ہیں ۔ اِسطرح کسی بھی تعطل کی شکل میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے عوام ہی ہوتے ہیں جیساکہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں ہو رہا ہے۔
پاکستان کے سرمایہ دارانہ حکمرانوں نے پچھلے بیس سالوں میں پانی کی کمی کا جھوٹا شور تو بہت مچایا ہے لیکن کبھی بھی اِس مسئلے کو خصوصاً زراعت کے میدان میں پانی کی کمی کو دور کرنے اور زرعی پیداوار کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے جدید ٹیکنا لوجی کا سہارا نہیں لیا اور نہ ہی جدید ٹیکنا لوجی کسانوں میں عام کرنے کے لیے سنجیدہ کو شش کی۔حالانکہ کئی ترقی یافتہ بلکہ ترقی پذیر ممالک بھی زراعت کے میدان میں متعارف ہونے والی سائنسی ایجادات اور وسائل کے ذریعے اپنی زرعی پیداوار کو کم پانی کے با وجود کئی گُنا بڑھا چکے ہیں۔ اِن ذرائع اور وسائل میں سے ایک Qemisoyl ٹیکنا لوجی ہے۔ Qemisoyl دانے دار Sythetic Polymer ہوتا ہے۔ اِسکی صرف ایک گرام مقدار آدھ لیٹرپانی جذب کرکے اپنا وزن پانچ سو گُناتک بڑھا لیتی ہے اور تقریباََ سارا پانی پودوں کی جڑوں میں جذب کر کے واپس ایک گرام مقدار کے حجم پر آجاتی ہے۔Qemisoyl کے اِن ذرات سے پانی کی پودوں کی جڑوں میں منتقلی کے دوران پانی ہوا میں تحلیل بھی نہیں ہوتا جسے Evaporation کہتے ہیں اور نہ ہی یہ کسی اور طرح ضائع ہوتا ہے ۔ یہ ذرات پانی کو پودوں کی منتقلی کے دوران مٹی کی Density کو کم کر کے اِس میں ہوا اور پانی کی رسائی کو بہت آسان بناتے ہیں جوکہ پیداوار میں اضافے میں بھی مدد گار ہوتاہے۔ Qemisoyl کے یہ ذرات پانی پودوں کو منتقل کرنے اور اپنے ایک گرام کےوزن پر واپس آجانے کے بعد دوبارہ آدھا لیٹر پانی جذب کر کے اِس عمل کو بار بار دہرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ذرات زمین میں Apply کرنےکے 4 سے 5 سال بعد تک قابل استعمال رہتے ہیں اور بلوچستان اور سندھ کے غیر با رانی اور پانی کی کمی سے متاثرہ علاقوں میں کاشت کاری کے لیے Wonder remedyکے طور پر کام کر سکتے ہیں جبکہ اِسکی قیمت بھی ہمارے تمام علاقوں کے کسانوں کی پہنچ میں ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یہ زرعی پیداوار کو فی ہیکڑ ٪27-20 تک بڑھا دیتے ہیں اور پانی کی کمی کا مسئلہ ٪50-40 تک حل کر دیتے ہیں جبکہ Bio degradable ہونے کی وجہ سے اپنی مدّت پوری ہونے پر زمین کو نقصان پہنچائے بغیر مٹی کا حصّہ بن جا تےہیں اور اِن کی جگہ دوسرے دانے دار ذرات استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
زمین کو ایک اور جدید انداز سے پانی دینے کے لیے Drip Irrigation System Trickle/ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے جس میں ایک بڑے رقبے کو بہت زیادہ مقدار میں پانی دینے کی بجائے پودوں یا فصل کو انفرادی طور پر ہی سیراب کر دیا جا تاہے۔ یہ طریقہ خاص طور پر پھلوں کے با غات اور ایسی فصلوں کے لیئے نہایت موزوں ہے جہاں پر فصل کے پودے ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ اِس میں ہر درخت یا پودے کو اُسکی اطراف میں چھوٹے سے Diameter میں کفایت شعارانہ انداز میں پانی پہنچایا جا سکتا ہے اور پودوں کو یہ پانی پہنچانے کے لیے اُن کے اطراف میں چھوٹے والوز، پائپ یا ٹیوبیں زمین کی سطح کے اوپر یا سطح سے چند سینٹی میٹر نیچے دبا دیے جاتے ہیں جوکہ خاص Calculated مقدار میں ہی اِن پودوں کے لیے پانی Release کرتے ہیں اور اسطرح پانی ضائع نہیں ہوتا۔
اِسکے علاوہ ایک اور جدید ذریعئہ آبپاشی Sprinkler Irrigation System ہے۔ یعنی ایک Water/ Raingun کے ذریعے فصلوں اور پودوں کو پانی کا چھڑ کاؤ ۔ یہ طریقہ قدرتی بارش کیطرح ہی کام کرتا ہے یہ واٹر گن زمین میں پائپ یا فوارے کی شکل میں نصب کر دی جاتی ہے جو پانی کو Pump کرکے ہوا میں پودوں کے اوپر چھڑک دیتی ہیں جو کہ زمین میں گرنے کے بعد پودوں کی جڑوں تک پہنچ کر اِسے سیرا ب کر تی ہیں اور اِسطرح بڑے زرعی رقبہ کو بے تحاشا پانی دینے کی بجائے اِس پائپ یا فوارےکے ذریعے مناسب مقدار میں پانی دینے سے بہت سارا پا نی بچالیا جا تا ہے۔
اِن ذرائع کے علاوہ بھی کئی ایسے جدید طریقے موجود ہیں جو پانی کی کمی کے با وجود فصل اور پیداوار کو متاثرنہیں ہونے دیتے بلکہ اِن ذرائع کے استعمال سے پیداوار مزید بڑھ جاتی ہے۔ اِسکے علاوہ استعمال شدہ پانی کو Recycle کرنے کی ٹیکنا لوجی سے بھی استفادہ کر کے استعمال شدہ پانی کی ایک بہت بڑی مقدار کو دوبارہ قابل استعمال بنا یا جا سکتا ہے مگر پاکستان مین اِسکی جانب بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ جب تک ریاست اِن طریقوں اور ذرائع کی حوصلہ افزائی نہ کرے، کسانوں کی تربیت نہ کرے اور کسانوں کو جدید طریقے اپنا نے کے لیے مالی مدد مہیا نہ کرے اُس وقت تک ہمارا کسان کبھی ترقی نہیں کرے گا اور ہماری زراعت جو ابھی بھی GDP کا ٪25 پیدا کرتی ہے اِسی طرح سسکتی رہے گی ۔ ہمارے جمہوری اور سرمایہ دارانہ حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی کا یہ ایک بہت تکلیف دہ اور افسوسناک تضاد ہے کہ وہ نظام ِ حکمرانی اور قوانین تو کفار اور نام نہاد ترقی یافتہ ممالک سے لیتے ہیں کہ جن کو لینا اللہ اور اُسکے رسول نے حرام قرار دیا مگر وہ سائنسی تحقیق،نئی ایجادات اور جدید ذرائع ٹیکنا لوجی کہ جن کو لینا شرع نے جائز قرار دیا ہے اُن سے استفادہ کر کے لوگوں کے بنیادی مسائل حل کر نے میں انتہائی سُست بلکہ نا کام دکھائی دیتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِذن سے انشاء اللہ قائم ہونے والی ریاستِ خلافت اسلامی احکامات کی روشنی میں پانی کے مسئلے کوحل کرے گی ،وہ جدید ٹیکنا لوجی سمیت ایسے تمام وسائل بروئے کار لائے گی جو امت کو اِس مسئلہ سے نجات دلائیں گے۔ آج لوگو ں کا حکمرانوں اور اِس جمہوری و سرمایہ دارانہ نظام پر عدم اعتماد پانی کے مسئلے میں نمایاں رکاوٹ کے طور پر نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہ حکمران مختلف قسم کے ظالمانہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کاشدید استحصال کرتے ہیں مگر بدلے میں عوام کو سہولیات کی بجائے مہنگائی، بجلی پانی گیس کی لوڈشیڈنگ، مہنگی تعلیم اور صحت کی ناکافی سہولیات جیسے عذاب ملتے ہیں جبکہ حکمرانوں کے اپنے اثاثوں اور آسائشوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ ریاستِ خلافت پہلے دن سے ہی وہ تمام ظالمانہ اور غیر شرعی ٹیکسز جو چاہے Direct ہو ں یا Indirect کو کا لعدم قرار دے دے گی جنہوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے جس سے فوری طور پر ہی مہنگائی کا خاتمہ ہوگا۔ جبکہ پٹرول، گیس، کوئلہ اور بجلی بنانے کے ذرائع پرائیوٹ کمپنوں سے لے کر اُنہیں ریاستی تحویل میں دے گی کیونکہ اسلامی احکامات کی روشنی میں یہ امت کے اثاثے ہیں اور اِن پر بھاری ٹیکسوں کا خاتمہ کر دے گی جِس سے عوام کو اپنی زندگیوں میں معاشی طور پر ایک بڑی تبدیلی محسوس ہوگی اور وہ سُکھ کا سانس لیں گے۔ یہ تمام اقدامات ریاستِ خلافت کے ابتدائی دنوں سے ہی عوام کا اِسلامی حکومت پر اعتماد بحال کردیں گےاور جب اِنہیں اِس بات کا یقین ہوگا کہ حکومت کے تمام اقدامات کی بنیاد دینِ اسلام ہے نہ کہ ماضی کی سرمایہ دارانہ حکومتوں کی طرح حکمرانوں کا مفاد تو ڈیم بنانے یا نہ بنانے سمیت تمام ریاستی اقدامات کے پیچھے عوام کی حمایت و تائیدواضح طور پر نظر آئے گی۔ اِنہیں اِس بات کا بھی پوری طرح یقین ہوگا کہ ریاست خلافت کسی بھی طرح اُن کا استحصال یا حقوق پا مال نہیں ہونے دے گی۔ ریاستِ خلافت رسولؐ اللہ کی حدیث مبارکہ المسلمون شرکاء فی ثلاث: فی الماء والکلاء والنار "مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں : پانی، چراگاہیں اور آگ” کی روشنی میں زراعت کے لیے پانی کے وسائل مہیاکرنے کے علاوہ وہ ہر شخص تک پینے کے لیے صاف پانی کی رسائی ممکن بنائے گی کیونکہ یہ ہر شخص کا حق ہے۔ نہری نظام کو Upgrade کرنے کے علاوہ اُسکو جدید بنیادوں پر وسعت دی جائے گی اور سندھ اور بلوچستان کے اُن علاقوں تک پانی مختلف ذرائع سے پہنچایا جائے گا جنہیں اِس نعمت سے اب تک محروم رکھا گیا ہے ،اگر وہاں پانی کی ترسیل مشکل ہو تو انہیں ایسے علاقوں میں بسایا جائے گاجہاں پانی کی قلت نہ ہو،جبکہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے ریاستِ خلافت پاکستان کی تمام زرعی زمین کو کسانوں اور اِن زمینوں کے مالکان کے ذریعے قابل کاشت بنائے گی جبکہ زرعی ٹیکنا لوجی چھوٹے کسانوں میں عام کرنے اور زرعی آلات ، کھادوں اور کیڑے مار ادویات پر تمام غیر شرعی ٹیکسز ختم کرکے زراعت کے میدان میں نئی روح پھونکے گی ۔ اِسلامی اقتصادی نظام کا نفاذ ریاست کو کثیر سرمایہ مہیا کرے گااوراِس کثیر سرمایہ سے ہی پانی کے مختلف پراجیکٹس اورنہری نظام کی بہتری کو یقینی بنایا جائے گا نہ کہ سودی قرضوں کے حصول کے ذریعے ۔ اِس کے علاوہ خلافت اپنے اداروں کی Structuring اور جدید سائنسی تعلیم کی فراہمی اس انداز سے کرے گی کہ ڈیموں کی تعمیر سمیت ہر قسم کے میگا پراجیکٹس کے لیے ماہرین اور جدید ٹیکنا لوجی مقامی سطح پر ہی دستیاب ہوں اور کفار پر انحصار مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔
جہاں تک بھارت کی آبی جارحیت اور پاکستان کے کچھ آبی وسائل پر بھارت کی دسترس اور غلبے کا تعلق ہے تو اُسکی وجہ پاکستان کی سرمایہ دارانہ حکومتوں اور حکمرانوں کی سیاسی غیر پختگی،بزدلی اور خارجہ پالیسی کو استعماری کفار کے تابع کرنا ہے ۔اگر 48-1947 کی جنگ میں کشمیر کے ایک تہائی حصّہ پر اکتفا کرنے کی بجائے پورے کشمیر کو فتح کر لیا جاتا اور اِسکے ساتھ فیروز پور اور زِرا کی تحصیلوں کو بھی مسلم آبادی ہونے کی بنیادپر فوجی طاقت کے ذریعے حاصل کر لیا جاتا ،اور اپنے معاملات میں ورلڈ بینک جیسے اداروں کو مداخلت کی اجازت نہ دی جاتی تو بھارت کو کبھی پاکستان کے آبی وسائل پر دسترس اور غلبہ حاصل نہ ہوتا اور نہ ہی پاکستان کی عوام کے سر پر انڈس واٹر معاہدے جیساکوئی معاہدہ تھو پا جا تا۔ ریاستِ خلافت جو کہ جہاد کو اِسلامی احکامات کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائے گی ،کسی بھی صورت یہ برداشت نہیں کرےگی کہ یہ علاقے بھارتی تسلّط میں رہیں اور اِن کو آزاد کراکے اور اسلامی ریاست کا حصّہ بنا کر اپنے آبی وسائل پر بھارتی دسترس کو ہمیشہ کے لیےختم کردے گی اور اگر پھر بھی اِس مسئلہ پر بھارتی ریاست کے ساتھ پانی کے مسئلے پر کسی عارضی معاہدے کی ضرورت ہوئی تو اِس میں اسلام کے احکامات کی روشنی میں ریاست اور عوام کے مفاد کومدِّ نظر رکھتے ہوئے ہی اِس معاہدے کو ترتیب دیا جائے گا ۔ اور کسی اور غیر مسلم بین الاقوامی ادارے کے ہاتھ میں اِسکی ثالثی کا اختیار نہیں دیا جائے گا کیونکہ اللہ سبحانہ و َتعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَنْ یّجْعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِ یْنَ عَلَی الْمُؤ مِنِیْنَ سَبیْلَا "اللہ نے کفار کو ہر گز مسلمانوں پر کوئی غلبہ / اختیار نہیں دیا”
(سورہ النساء:141 )
ختم شد