افغانستان کے پکی عمارتوں والےاسکول تعلیم کی فراہمی کےبجائےاستعماری جنگ کے ہتھیارہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: آمنہ عابد
امریکہ نے دعوی ٰکیا ہے کہ طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کےبعدافغانستان میں تعلیم کے شعبے میں تیزی سے بہتری آئی ہے۔وہ افغانستان پر اپنے استعماری قبضے کے بعد چند اسکولوں کی عمارتوں کی تعمیر اور ان میں لڑکیوں کی حاضری کے بڑھنے کے امکان کو بڑی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں۔لیکن تھوڑی سی گہرائی سے اگر اس جنگ سے تباہ حال ملک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ یہ نام نہاد ترقی صرف ایک سراب ہے۔افغانستان ابھی بھی ایسے ممالک میں سے ایک ہے کہ جہاں بہت سے چھوٹی عمر کے بچے اسکولوں تک رسائی نہیں رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی بچوں کی ایجنسی (یونیسیف) کے مطابق، افغانستان میں 40 فیصد بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہیں۔ادارہ اشاعت برائے جنگ اور امن(IWPR)کے تحت ایک بحث میں شرکاء نے کہا کہ بہت سے افغان بچے اپنے گھرانوں کی مالی ذمہ داری اُٹھانے کے غرض سے سخت جسمانی محنت پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم ہیں۔ ملک کے 31 فیصد بچے اپنے گھرانوں کی کفالت کرنےکی وجہ سے غیر قانونی طور پر بھاری مزدوری کرنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر، صرف صوبہ ننگرهار میں اسکول جانے کی عمر والے تقریبا ًپندرہ ہزار بچے امریکا کی طرف سے مسلط جنگ کی وجہ سے غربت اور دیگر مسائل کا شکارہیں اور اس وجہ سے وہ تعلیم سے محروم ہیں۔
سلامتی کے خطرات کی وجہ سے سینکڑوں اسکول بند ہیں اور 65 فیصد کی تعلیمی سرگرمیاں کھلے آسمان تلے سرانجام پاتی ہیں۔اس تحقیق کے باوجود کہ 34 صوبوں میں تقریباً 780 بند اسکول ہیں،افغانستان کی وزارت تعلیم (MoE) دعویٰ کرتی ہے کہ اس تعداد کا صرف ایک تہائی بند ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ ہے دیہاتوں کے درمیان فاصلے، جوکہ کافی طویل ہیں، اور ان دیہاتوں سے اسکولوں کے لیے سفر خاص طور پر نوجوان بچوں اور لڑکیوں کے لئے خطرناک ہے ۔ یہ مسئلہ خاص طور پر صوبہ غور میں بہت واضح ہے، جہاں صرف 29 فیصد آبادی کسی بھی پرائمی اسکول سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر رہتی ہے جبکہ باقی لوگ اس سے بھی زیادہ دوری پر رہائش پزیر ہیں ۔ اس صوبے میں 6 سے 13 سال کی عمر کے صرف 28 فیصد بچے اسکول میں داخل ہیں۔ افغانستان کے دیگر دیہاتی علاقوں کی شرح بھی اسی کے لگ بھگ ہے۔صوبہ ہلمند کے تعلیمی شعبہ نے بتایا کہ گذشتہ تین چار سال سے 454 اسکولوں میں سے 104 بند ہیں۔حال ہی میں سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے مزید69 اسکول بند کر دیے گیے ہیں۔صوبے میں داخل طلباء کی تعداد صرف 192500 ہے جن میں 51867 لڑکیاں ہیں۔ صوبہ زابل میں 60 فیصد بچے اسکول جانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔شاہجو، ڈایاچوپان، ارغنداب، شامیلزی اور شنکائی جیسے اضلاع بدترین طور پر متاثرہیں۔ اُروزگان میں 2012 سے 292 رجسٹرڈ اسکولوں میں سے 60 سے زائد بند ہیں۔ صوبہ فراح میں 367 اسکولوں میں سے 54 بند ہیں۔تخار، سرے پُل ،بغلان ، پروان، ننگرہار، قندوز، اور بدخشان جیسے صوبوں میں اسکول جانا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی سیکیورٹی فورسز نے طالبان کے خلاف اپنے فوجی اڈوں کےطور پر اسکولوں کا استعمال بڑھا دیا ہے جو کہ کچھ دیہاتوں میں کنکریٹ کی واحد مضبوط عمارتیں ہیں۔مثال کے طور پر،اپریل 2016 میں ایک مشن کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کے مطابق ،امریکی قابض فوجوں نے شمال مشرقی افغانستان کے صوبہ بغلان میں 12 اسکولوں کو اپنے فوجی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اسکولوں کے اِس استعمال نے ان سکولوں کو حملوں سے دو چار ہونے کے خطرے میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے طالب علموں اور اسا تذہ کی زندگیوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ایک اور حقیقت جو کہ افغانستان میں تعلیمی بحران کی عکاسی کرتی ہے وہ اسکولوں کی عام حالتِ زار ہے۔ وہاں ہزاروں ایسے اسکول ہیں جو خیموں اور کھلی فضاؤں میں واقع ہیں، اس میں افغان دارلحکومت کابل بھی شامل ہے۔ کابل میں 273 اسکولوں میں سے 81 عارضی جگہوں پر ہیں۔
مثال کے طور پر،صوبہ قندوز کے نصف اسکولوں کی عمارتیں ہی نہیں ہیں، اور یہ تناسب صوبہ تخار میں نصف سے بھی زیادہ ہے۔ قندھار کے 458 اسکولوں میں سے 274 کی کوئی عمارت ہی نہیں ہے۔ سر ے پُل کے 388 اسکولوں میں سے صرف 97 اسکولوں میں چھت ہیں۔ امریکی ایجنسی برائے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (USAID) کےخصوصی انسپکٹر جنرل برائے تعمیر و بحالی افغانستان کے ایک خط کے مطابق، صوبہ ہرات میں تعمیر کیے گئےبہت سے اسکول بجلی اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،جبکہ سکول کی عمارتوں گنجائش ضرورت سے کم ہے ، یہ سب تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔
ان اسکولوں کی ٹوٹی ہوئی عمارتوں میں جہاں کلاس رومزمیں ضروریات کی کمی ہے اور طالب علم گنجائش سے زیادہ ہیں،کچھ ہی گھنٹےتعلیم فراہم کی جاتی ہے کہ طالب علموں کی دوسری شفٹ آجاتی ہے۔
کچھ جگہوں میں(یہاں تک کہ دارالحکومت کابل میں بھی ) طالب علم خیموں میں زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔اسا تذہ کم تعلیم یافتہ ہیں، اوربعض نے تو خود بھی ہائی سکول تک پاس نہیں کیا ہوتا ہے۔افغانستان میں اسکول کا دورانیہ محض 3 گھنٹے ہے۔اس کے علاوہ، درسی کتابوں میں مواد کا معیار بہت ہی خراب ہے، جبکہ چند اسکولوں میں بھی جدید سائنس لیب موجود نہیں ہیں۔ اسا تذہ اکثر آلات و ضروریات تعلیم سے محروم ہیں، تعداد میں کم ہیں، ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں اوریہ اپنےنوکریوں سے ناخوش ہیں۔ افغانستان میں ایک استاد کی تنخواہ فی مہینہ 5000 افغانی (یعنی 100 امریکی ڈالر) ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ نے گذشتہ سال جون میں تنخواہوں کے بڑھانے کے لئے مظاہرہ کیے تھے۔
ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے حالات بہت بُرے ہیں ۔ افغانستان میں خواتین کی شرح خواندگی 14 فیصد ہے،جو کہ دنیا میں سب سے کم ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے تعلیم سائنس اور ثقافت (یونیسکو) کی ایک رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں 90 فیصد افغان خواتین غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ رجحان ملک کے بڑے اقتصادی مسائل کی عکاسی کرتا ہے جہاں غریب افغان خاندان اکثر اپنی نوجوان بیٹیوں کی چھوٹی عمر میں شادیاں اس لیے کر دیتے ہیں یا ان کی تعلیم چھوڑوا دیتے ہیں تاکہ انہیں ان کی تعلیم کے اخراجات نہ اُٹھانے پڑیں ، اور بہت سے مواقع پرتو لڑکیوں کی شادیاں اس لیے کردی جاتی ہیں کہ اپنی مالی مشکلات حل کی جاسکیں۔یہ گھرانے اتنے غریب ہوتے ہیں کہ اپنی بچیوں کی تعلیم مکمل کرنے کی ذمہ داریوں کا خرچ اُٹھانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ سیکیورٹی کی کمی، علیحدہ صفائی کی سہولیات کی عد م فراہمی ، لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس روموں کی کمی، اور خواتین اساتذہ کی شدید کمی بھی تعلیم کے لیے لڑکیوں کی داخلوں میں رکاوٹ کی وجہ ہیں۔ وزارت تعلیم کےمطابق تقریبا اًیک تہائی طالبات ادھوری تعلیم کے ساتھ ہی اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔
افغانستان کے تعلیمی نظام کے یہ حالات ، عام سیاسی اور اقتصادی صورتِ حال کے متعلق ناامیدی ، لاقانونیت اور خونریزی کی وجہ سے اس جنگ زدہ ملک سے بہترین دماغوں کا انخلاء کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ایک سفارتکار کے مطابق، 2001 کے بعد، لاکھوں افغان مہاجر ملک سےباہر پاکستان اور ایران میں رہ رہےہیں، انہوں نے بہتر زندگی، سلامتی اور روزگار کی امید پر ہجرت کی۔یونیسکو نے رپورٹ کیا کہ 2013 میں تقریباً 17000 افغان طلباء بیرون ملک تعلیم کے لیے مقیم رہے،جبکہ تقریباً 9033 (53 فیصد) ایران میں ،2330 (14 فیصد) بھارت میں،1310 (8 فیصد) ترکی میں، 1226 (7 فیصد) سعودی عرب میں اور 428 ( تین فیصد) امریکہ میں ہیں۔امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کی 13 اگست 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر افغان حکومت نوجوانوں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کربھی دے تب بھی یہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرے گا کہ افغانستان میں اقتصادی حالات مستقبل قریب میں بہتر ہونے والے نہیں ہیں۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ مجموعی اندرونی پیداوار کی شرح 2016 میں 1.9 فیصد تھی، جو کہ مسلسل تیسرے سال بھی 2 فی صد سے کم رہی۔ ان آفت زده حالات کی وجہ سے افغانستان کے کچھ ذہین ترین نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں۔اسی لیے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ ان ذہین دماغوں کو روکنے کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔
پچھلے سال، افغانستان کی نیشنل یونٹی حکومت نے روزگار کو فروغ دینے اور معیشت میں اعتماد بحال کرنے کے لئے "امن کے لئے ملازمت” کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا۔ تاہم، ملک میں فنڈز اور عدم استحکام کی کمی کی وجہ سےقیاس کیا جارہا ہے کہ ان اقدامات کے اثرات محدودرہیں گے۔ اس طرح پہلے سے ہی پریشان حال نوجوان غیر یقینی مستقبل کا شکارہیں۔
افغانستان میں نسبتاًبہتر تعلیم بہت مہنگی ہے اور کاروبار میں بدل گئی ہے۔ کچھ نجی اسکول اور یونیورسٹیاں ہیں جو تعلیم کے بہتر معیار کا وعدہ کرتیں ہیں۔بہت سے افغانوں کے لئے یہ نجی اسکول اور یونیورسٹیاں اکثر مہنگے ہوتے ہیں جس کا خرچ ان کی پہنچ سے باہر ہے۔ مثال کے طور پر، امریکن یونیورسٹی آف افغانستان اورسوئس یونیورسٹی (UMEF)عام طور پر اپنے ملکوں (امریکہ / سوئٹزرلینڈ) کی شرح سے ہی افغان طالب علموں سے فیس وصول کرتیں ہیں۔ افغانستان کی امریکن یونیورسٹی کی فیس تقریباً 18700افغانی (تقریباً 400 امریکی ڈالر) فی کریڈٹ ہیں۔اس کے علاوہ، بین الاقوامی تنظیموں ، جو بدعنوانی کوختم کرنے کے لیے کا م کررہی ہیں، کے مطابق حالیہ برسوں میں افغانستان تین سب سے زیادہ بدعنوان ترین ملکوں میں سے ایک رہا ہے۔ افغان پولیس فورسز نے وزارت تعلیم کے 7 اہلکاروں کو 26 ملین افغانی غبن کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔
یہ اعداد و شمار افغانستان کے اندر تعلیم کےحقیقی افسوسناک بحران کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہ تباہ کن صورتحال سیکولر مغربی طاقتوں کی وجہ سے ہے جو اپنے آپ کو افغان آبادی کے مددگار کے طور پر پیش کرتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ طاقتیں خطے میں صرف اپنے نو آبادیاتی لوٹ کھسوٹ کے مقاصد کے حصول کے لیے موجود ہیں۔یہ لوگ افغان نوجوانوں کو تعلیم کے بارے میں کنفیوژن کے گرداب میں ڈبو رہے ہیں اور انہیں جھوٹی امیدیں دلا رہے ہیں اور جھوٹے وعدے کر رہے ہیں جو افغانستان کی موجودہ تباہ کن صورتحال میں کبھی کبھی پورے نہیں ہو سکتے۔بدعنوانی حکومتیں عوام سے یہ حقیقت چھپا رہی ہیں، اور دشمنوں کو مقبوضہ مسلم ممالک میں تعلیمی نظام کے معمار کے طور پر پیش کررہی ہیں۔نوجوانوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کا واحد ذریعہ خلافت کا تعلیمی نظام ہے،جس کےتحت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ریاست خلافت تعلیم کے ذریعے مضبوط اسلامی شخصیات پروان چڑھائے گی اور اپنے تعلیمی نظام کی ہر اُس چیز سےحفاظت کرے گی جو ریاست کی اسلامی اساس یا اس کے بچوں اور لوگوں کی اسلامی شناخت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔
لہذا، اسلامی تعلیمی نظام کہ جس کی بحالی صرف خلافت کے تحت ہی ممکن ہے ،تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ افغانستان میں موجودہ تعلیمی نظام کی بدحالی ایک بار پھر یہ واضح کرتی ہے کہ اس امت کا حقیقی عروج نوآبادیاتی طاقتوں کے ذریعہ نہیں بلکہ صرف اسلام کے عظیم دین کے ذریعہ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
﴿أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىَ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
" بھلا وہ شخص، جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے او راس کی رضا و خوشنودی پر رکھی، بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی جو گرنے والا ہے۔سو وہ عمارت اس معمار کے ساتھ ہی آتشِ دوزخ میں گرگئی، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا”(سورة التوبہ: 109)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے آمنہ عابد کی جانب سے لکھا گیا۔
ختم شد