ڈاکٹر رضا باقر اور ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ پاکستان کی معیشت کےقاتل(Economic Hitman)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: : خالد صلاح الدین، پاکستان
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اور پاکستان کے وزیر خزانہ کی تعلیمی کوائف اور تجربے پر مبنی دستاویز( سی وی) ان کے مغرب سے سند یافتہ ہونے کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔ دونوں کے پاس مشہور و معروف اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ڈگریاں ہیں اور انہوں نے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں کام کیا ہے۔ لیکن ان کی تحقیقی تصانیف کے باوجود ایک شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ ان سے پوچھے کہ انہوں نے آج تک کون سے ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ بنایا ہے؟ وہ کون سے ممالک ہیں جنہیں انہوں نے ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے؟ ان کے پاس قابلیت اور آگاہی کا ہونا یا نہ ہونا، ان کی پیش کردہ پالیسیوں اور جس صورتحال میں یہ پالیسیاں نافذ ہوتی ہیں کو پرکھنے سے ہوسکتا ہے جن کی وہ وکالت کرتے ہیں ۔
سادہ الفاظ میں، پاکستان کے پاس جس چیز کی قلّت ہے وہ ہیں ڈالر۔ چاہے ہماری ریاست کی معاشی صورتحال جیسی بھی ہو، ہمیں استعمال کی اشیاء کی درآمد (import) کے لئے ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے، جسے ہم خود چھاپ نہیں سکتے۔ ڈالرز صرف اشیاء کی برآمد (export) کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ بہت آسان سا نکتہ ہے۔ چنانچہ ان دونوں معیشت دانوں کی پالیسیوں کو جانچنا کوئی مشکل کام نہیں۔
پہلی بات، بجٹ بنیادی طور پر مالی خسارے کو متوازن بنانے کے لئے ترتیب دیا جاتا ہے، یعنی ہمارے ملک کی آمدنی بمقابل اخراجات۔ تو سوال یہ ہے کہ عوام کی دولت پر ٹیکسوں کے بوجھ کو بڑھانے سے کس طرح ڈالر پیدا ہوں گے؟ یا دوسری طرح دیکھیں تو حکومت زیادہ روپیہ اکھٹا کرنے سے کس طرح اتنے ڈالر پیدا کرسکتی ہے کہ جس سے درآمدات کی ضروریات پوری ہوسکیں؟
دوسری بات، ٹیکسوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ برآمدی صنعتوں (export industries) کے ذریعے ڈالرز کی فراہمی بڑھانے میں کس طرح مفید ثابت ہوسکتا ہے؟ یہ پالیسیاں تو الٹا بنیادی پیداوار کی لاگت کو بڑھاتی ہیں اور برآمدی اشیاء (export goods) کے لئے بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ سخت کردیتی ہیں۔ تو اس پالیسی سے کس طرح ڈالرز کی مانگ کو پورا کیا جاسکتا ہے؟ اور اس تمام گفتگو میں تو ابھی ان پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افراط زر اور بےروزگاری کے اثرات کو شامل نہیں کیا گیا۔
حاصل کلام یہ کہ صرف برآمدات سے ہی ڈالرحاصل کیے جا سکتے ہیں۔ شائع شدہ معلومات کے مطابق ہماری کم از کم 50 فیصد برآمدات مغربی ممالک کو ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہماری برآمدات میں اضافے کا دارومداران ترقی یافتہ ممالک کی معیشت پر ہے۔
اب ہم ترقی یافتہ ممالک کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں: پچھلے ہفتے کے شروع میں، جرمنی کے حکومتی بانڈ (debt investment) کی شرح منافع کا گراف پہلی بار گر کر منفی ہوگیا، جس کا مطلب ہے کہ اب سرمایہ کار الٹا حکومت کے بانڈ رکھنے کے عوض رقم ادا کرے گا جس سے وہ اپنی سرمائے کی مالیت کھوتا جائے گا۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ، یورپ اور ایشیا میں صنعتی سرگرمیاں گزشتہ مہینے سے کم ہوگئی ہیں جس کی وجہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان ہونے والی تجارتی جنگ ہے اور جس نے عالمی معیشت کے متعلق تشویش پیدا کردی ہے۔ امریکہ-چائنا تجارتی جنگ نے گاڑیوں کی فروخت کم کردی جبکہ برطانیہ کے یورپین یونین سے اخراج نے پچھلے مہینے برطانیہ کی پیداوار کو متاثر کیے رکھا۔ امریکی ترقی کی سست روی کا خطرہ اب اور زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے کیونکہ 2017 کے ٹیکس قانون کے ذریعے معیشت کو متحرک کرنے کا عمل اپنی تاثیر کھو چکا ہے ۔ لارنس سمرز، جس نے 2008 کے معاشی بحران سے نکلنے کی کوششوں میں امریکہ کی قیادت کی تھی ، وہ بحران کہ جس نےعالمی معیشت کو گھٹنوں کے بل گرا دیا تھا ، نے 5 اگست 2019 کو ایک بیان میں کہا، ” امریکہ اور چین کے مابین موجودہ صورتِ حال کے جنم لینے کے نتیجے میں ہم شاید 2009 کے معاشی بحران کے بعد سب سے خطرناک موڑ پر ہوسکتے ہیں”۔
اگرپاکستان کی 50 فیصد برآمدات ترقی یافتہ ممالک پر منحصر ہیں، جن کے متعلق یہ توقع ہے کہ وہ کساد بازاری کا شکار ہونے جا رہے ہیں اور ان کی معیشت سکڑنے کا امکان ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات کی کاروباری لاگت بھی بڑھ گئی ہے تو ہم کس طرح ڈالرز کما سکیں گے جبکہ ہمارے تعلیم یافتہ وزراء، رضا باقر اور حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کو تین سال میں قرضے کی ادائیگی کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے؟ یا پھر کھیل مزید گھناؤنا ہے کہ جان بوجھ کر ملک کی صنعتی بنیادیں کو قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاکہ مہنگی صنعتی اشیا درآمد کی جاتی رہیں اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکے یوں ہم ہمیشہ آئی ایم ایف پر انحصار کرتے رہیں؟ یا تو ہمارے دونوں تعلیم یافتہ معیشت دان بیوقوف ہیں یا یہ پاکستان کی بجائے آئی ایم ایف کے "اکنامک ہِٹ مین” ہیں۔
ختم شد